حکمرانی کی عوامی جہتیں…
ہمارے یہاں حکمت عملی ہے کہ لوگوں کو بے روزگار کیا جائے انکے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کیےجائیں تاکہ لوگ احتجاج پرنکل پڑیں۔
دنیا بھر کی جمہوری حکومتیں اپنے عوام کو ضروریات زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے اور زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقعے مہیا کرنے کے لیے جدید طرز پر منصوبہ بندی کے ساتھ سرکاری، نیم سرکاری اور نجی شعبوں میں انقلاب برپا کرتے ہوئے معاشی، اقتصادی، سماجی اور فلاحی و انتظامی ادارے قائم کرتی ہیں تاکہ ان قومی اداروں کے ذریعے عوام کی خوشحالی کے لیے کام کیا جاسکے۔ لیکن شاید ہمارے یہاں اس وقت حکمت عملی یہ ہے کہ لوگوں کو بے روزگار کیا جائے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کیے جائیں تاکہ لوگ احتجاج پر نکل پڑیں اور ملک بدامنی اور بے چینی کا شکار ہوجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے حکمراں اقتدار سنبھالنے کے بعد ناکام دکھائی دے رہے ہیں ۔ ہمارے بھولے بھالے حکمرانوں نے ازخود عوام کے سامنے عوامکی مخالفت مول لینے کے لیےPrivatization Commission کے ذریعے 31 سرکاری، نیم سرکاری ادارے فروخت کرنے کے لیے فہرست بھی جاری کردی ہے کہ جس میں منافع بخش ادارے بھی شامل ہیں۔
یہ فہرست جاری کرنے سے قبل نہ تو ان کی وزارتوں اور نہ ہی ان کی انتظامیہ سے پرائیویٹائزیشن کے حوالے سے رائے طلب کی ہے شاید اب اس اقدام سے ان اداروں میں کام تو بالکل ٹھپ ہوگیا ہوگا۔ مزید یہ کہ ان اداروں کے ملازمین میں خوفناک سراسیمگی پھیل گئی ہے ان اداروں کے لاکھوں ملازمین اب کام نہیں بلکہ حکمرانوں کے خلاف سراپا احتجاج کرنے کے لیے صف بندی میں مصروف ہیں کیونکہ ماضی میں بھی انھیں گولڈن شیک ہینڈ دی تھی اور ملازمتوں سے فارغ کیا تھا۔ وہ جو پیسہ ملا تھا ملازمین کھا گئے یا پھر انوسٹمنٹ کمپنیاں لوٹ کر لے گئیں، لہٰذا بڑی تعداد میں لوگ معاشی بدحالی کا شکار ہوئے تھے ان حکمرانوں کی ماضی کی تاریخ اس حوالے سے اچھی نہیں ہے۔
حکمراں سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدے بھی تاحال خالی رکھے ہوئے ہیں ان کو ان کے اعتماد کے اعلیٰ افسران نہیں مل رہے ہیں۔ سرکاری کالی اسامیوں کو پر کرنے میں کیوں دیر لگ رہی ہے؟ شاید حسن انتخاب مشکل ہورہا ہے۔ ہمارے یہاں سیاست برائے تعمیر نہیں ہے برائے مخالفت ہے۔ انتخابات کے ہوجاتے اور حکومتوں کی تقسیم کے باوجود بھی نمبر اسکورنگ کا عمل جاری ہے۔ عوام نے موجودہ حکمرانوں کے پاس ایک بڑی ٹیم ہونے کی وجہ سے اور ان کے سخت ترین امتحانات سے گزرنے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ شاید اب یہ لوگ قوم کا مستقبل بنانے میں کچھ کریں گے لیکن تیسری مرتبہ پھر عوام کا اعتماد حاصل کرنے والی قیادت کے وہی مشیر وہی سفیر اور وہی وزیر اور وہی سب کچھ ٹھیک ہے کی پالیسی پر گامزن ہیں جب کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔
مہنگائی کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ شاید مہنگائی بڑھاؤ اور غریبوں کو بھگاؤ پر کام ہورہا ہے۔ حکمرانوں نے متعدد مرتبہ پٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں بھرپور اضافہ کیا اور بجلی کے نرخوں میں اندوہناک اضافہ کرکے غریبوں کو بھی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم سے کم 300 یونٹ بجلی جلانے والوں کو بجلی کی اضافی قیمتوں سے دور رکھا جاتا لیکن ہمارے حکمران عوامی احتجاج کو مانتے ہی نہیں ہیں ۔جیسے جیسے بجلی کے بل غریب عوام کے ہاتھ آئیں گے پھر دیکھیے کیا ہوگا کیونکہ لوگوں پر جب بجلی گرے گی تو اس کا رخ بجلی گرانے والوں کی طرف خود بخود مڑ جائے گا۔ حکمراں قوم کو کس راستے پر لے جارہے ہیں ان کو اس کا اندازہ نہیں۔ خدارا! مہنگائی کو کنٹرول کریں، پیاز، ٹماٹر، گھی، تیل، ادرک، لہسن، آٹا، گوشت، چینی، دالیں، سبزیاں اور ضروریات زندگی کے استعمال میں آنے والی اشیاء روز بروز کی بنیاد پر مہنگی ہورہی ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
احتجاجی تحریکوں سے بچاؤ کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حکومت مہنگائی کنٹرول کرے، سرکاری نیم سرکاری اداروں کو بیچنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے، عوامی رابطہ مہم برقرار رکھے، قائدین انتخابی منشور اور انتخابی جلسوں میں کی جانے والی تقاریر میں عوام سے کیے گئے وعدوں پر کام کی رفتار کو تیز کرنے، عوام کو ساتھ لے کر چلنے اور ہیوی مینڈیٹ کے راگ کو بھول جانے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ عوام کے لیے کیے جانے والے تاریخ ساز کام ہی عوام کے دلوں میں حکمرانوں کے لیے جگہ بناتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی نہیں ہے تو کچھ نہیں، ہر طرف اسلحے کے انبار ہیں یہ محاورا عام ہے کہ ''پاکستان میں سب کچھ ہوتا ہے'' اقتدار سیاسی پارٹیوں میں تقسیم کرنے سے لوگوں میں اعلیٰ اقتدار کے حصول کی ہوس کم نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا ہے لہٰذا موجودہ حکمرانوں کو سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ ہم کب تک مصلحت، مصالحت، مفادات اور مفاہمت کا شکار ہوتے رہیں گے موجودہ حکمرانوں کے لیے کچھ تجاویز ہیں اگر اچھی لگیں تو عملدرآمد کرلیں۔
(1)۔31 نشان دہ سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی فروخت جس میں منافع بخش ادارے بھی شامل ہیں کے پروگرام کو منسوخ کیا جائے۔ پی آئی اے، پاکستان اسٹیل کو حکومت فعال انتظامیہ فراہم کرے جو ان اداروں کو ایک سال کی مدت میں منافع بخش ادارہ بناسکے۔ اس میں CBA اور آفیسرز ایسوسی ایشن کو بھی شامل انتظام کیا جائے نئے بورڈز تشکیل دیے جائیں۔
(2)۔ بجلی کے 300 یونٹ استعمال کرنے والوں کو سابقہ قیمتوں پر بجلی فراہم کی جائے اور ان پر کیا جانے والا اضافہ واپس لیا جائے تاکہ یہ لوگ احتجاج کا حصہ نہ بن سکیں۔
(3)۔ پٹرول اور اس کی مصنوعات کی قیمتوں میں چھ ماہ میں ایک مرتبہ اضافہ کیا جائے اور یہ اضافہ 2 فیصد سے زائد نہ ہو۔ اگر عالمی منڈی میں ان کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہو تو لوگوں کو اس کا فائدہ دیا جائے۔
(4)۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے کردار کا تعین کیا جائے ہر کونسلرز کے حلقے میں اسٹور بنایا جائے اور متعلقہ علاقے کے مکینوں کو اس اسٹور سے کارڈ جاری کیے جائیں۔ ایک ماہ میں دو مرتبہ سے زائد خریداری پر پابندی لگائی جائے اور اسٹورز میں ضروریات زندگی میں استعمال میں آنے والی تمام اشیا فراہم کی جائیں جو مارکیٹ ریٹ سے 15 فیصد رعایت پر صارفین کو فراہم کی جائیں۔
(5)۔ وزارت تجارت کی تمام منافع بخش کارپوریشن اور کمپنیاں حکومت کے لیے Exchequer کا درجہ رکھتی ہیں لہٰذا ان میں انتظامی چیئرمین کا تقرر فی الفور کیا جائے تاکہ یہ ادارے ملک اور قوم کے لیے مزید خدمات پیش کرتے ہوئے منافع کما کر قومی خزانے کو استحکام دے سکیں۔
(6)۔ تمام سرکاری نیم سرکاری اداروں میں انتظامی اہل کار تعینات کرکے ان کے نئے بورڈز بھی تشکیل دیے جائیں۔
(7)۔ بڑے بڑے سیاسی عہدوں کی چاروں صوبوں میں مساوی تقسیم کرکے ملک میں صوبائی حق تلفی کے راگ کا خاتمہ کریں اور عوامی حلقوں میں اپنی مثالی خدمات کے ذریعے اپنا وقار بلند کریں۔
(8)۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا بند کریں اور عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش میں مدد دیں۔
(9)۔ صورت حال پر قابو پانے میں حکمراں ہر ممکن اقدامات کریں، کراچی میں میٹرو سروس اور کراچی سے لاہور موٹر وے سڑک پر کام شروع کیا جائے اور لیاری ایکسپریس وے فی الفور مکمل کیا جائے۔