اتحاد ویکجہتی وقت کی ضرورت…
پاکستان بننے کے بعد سے آج تک کٹر سازشی عناصر موجود رہے ہیں۔
پاکستان بننے کے بعد سے آج تک کٹر سازشی عناصر موجود رہے ہیں ماضی میںاُن کی سازشیں کامیاب ہوئیں اور کچھ فرقہ وارانہ فسادات کے افسوس ناک واقعات رونما ہوئے لیکن اللہ تعالی کا شکر ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ان واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے اوریہ نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ شیعہ سنی بھائی بھائی دونوں فرقوں کے عوام باطل عناصر کی سازشوں سے آگاہ ہوچکے ہیں۔ بدی کی قوتوں کی جانب سے15 ، نومبر ، 2013 ء ، 10 محرم الحرام کے روز راولپنڈی میں بہت ہولناک فرقہ وارانہ فساد ات کرانے کی کوشش کی گئی جس میں بدی کی قوتیں ابتدائی طور پر کامیاب رہیں لیکن اُن کا ناپاک ارادہ جوکہ دراصل پورے ملک میںفرقہ وارانہ فسادات کی آگ کو بیک وقت پھیلا دینے کا تھا اللہ کا شکر ہے ناکام ہوا جس کا سہرا انتظامیہ ، پاک فوج، خصوصاً الیکٹرونک میڈیا ،تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام ، مشائخ عظام اور عوام کے سرجاتا ہے کیونکہ ان سب کے وقت پر متحد ہونے اور سمجھ داری سے بدی کی قوتوں کو کھل کھیلنے اور اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کا موقع نہ مل سکا اور انھیں پسپا ہونا پڑا ۔
اگر فرقہ وارانہ فسادات کی یہ آگ وقت پر پھیلنے سے نہ روکی جاتی تو یہ آناً فاناً پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی جس پر قابو پانا نہایت مشکل ہو جاتا۔ معاملہ انتظامیہ کے ہاتھ سے نکل جاتا ہزاروں افراد مارے جاتے اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو جاتی جس میں سیاسی مذہبی جماعتوں کا زور بڑھ جاتا لامحالہ اُن کو بھی میدان میں کودنا پڑتا اور طالبان کوبھی ایک سنہراموقع مل جاتا ایسی صورتحال میں ممکن تھا کہ فوج کو جمہوری حکومت ہٹا کر مارشل لاء لگانا پڑ جاتا کئی دنوں تک کرفیو لگا رہتا جس سے عوام مزید اذیت کا شکار ہوتے اور آگے ملکی معاملات نہ جانے کس ڈگر پر جا کر ٹہرتے ۔ماضی میںپاکستان بننے سے قبل انگریز کے دور میں فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوتے تھے۔ کیونکہ فسادیوں پر ایک خوف سوار تھا کہ وہ قانون کی سخت گرفت میں فوراً آجائیں گے اور انھیں کسی قسم کی رعایت نہیں ملے گی۔ پاکستان بننے کے چند سالوں بعد حیدرآباد میں ٹاور مارکیٹ کے مقام پر زبردست فرقہ وارانہ فساد ات ہوئے تھے جن میںبڑے پیمانے پر لو گ جاں بحق ہوئے یہ فسادات مزید پھیلتے لیکن انتظامیہ نے ان فسادات کو فائرنگ کے ذریعے سختی سے کچل دیا تھا اس فائرنگ سے بھی بڑے پیمانے پر ہلاکتیںہوئیں تھیں۔
1960 ء کی دہائی کے آخر میں یا 1970 ء کی دہائی کے اوائل میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں خوفناک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں روڈکے دونوں اطراف کے گھروں کو آگ لگا دی گئی تھی ۔فسادات میں جاں بحق ہونے والوں کے گھر والوں پر کیا گزرتی ہے یہ وہ ہی بہتر جانتے ہیں جن پر گزرتی ہے مختصر یہ کہ اس نسفا نفسی اور لاقانونیت کے دور میں ان کا پُرسانِ حال کوئی نہیں ہوتا اور ان کے گھرتک تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ۔ فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں پنجاب کا شہر جھنگ ہمیشہ سے آگ کے دہانے پر ہوتا ہے۔ خاص طور پر سندھ اور پنجاب میںفرقہ وارانہ فسادات ہونے کا بہت خطرہ رہتا ہے لیکن شکر ہے کہ مختلف مکاتبِ فکر کے علمائے کرام اور لوگوں سمیت انتظامیہ نے اس کے خاتمے میں متحد ہو کر بہت مثبت کردارادا کیا ہے اس سلسلے میںبہت سے لوگ ملک و قوم کی خاطر تعصب کی عینک اُتار کر دیکھیں تو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اس سلسلے میں بھی گزشتہ 35 سالوں سے انتہائی مثبت اور اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
سیکڑوں دفعہ راقم کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ جونہی ملک و قوم کے مفاد کے خلاف کو ئی واقعہ رونما ہوا اُس کی سب سے پہلے مذمت الطاف حسین کی جانب سے آتی ہے اور اگر بات فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، مذہبی رواداری، اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین المذاہب کی ہو تو الطاف حسین اور ان کی جماعت ایم کیو ایم کا مثبت کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔راولپنڈی کے فرقہ وارانہ فسادات پر بھی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے نہ صرف سب سے پہلے مذمت کی بلکہ اپنے کارکنان اور منتخب نمایندوں کو خصوصی ہدایات دیں کہ وہ فوراً ہر مکاتبِ فکر کے علمائے کرام سے ملاقات کر کے اُنہیں پیغامِ امن پہنچائیں اور ایم کیو ایم کے کارکنان نے فوری اس پر عمل کرتے ہوئے جس طرح اس عظیم کام کو انتہائی قلیل وقت میں بخوبی سرانجام دیا۔ اُس سے جہاں جہاں بھی ایم کیوا یم کے کارکنان ہیں اُس سے علاقے کے عوام بخوبی واقف ہے اور یہ خصوصاً دیگر سیاسی و مذہبی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بہترین سبق ہے ۔
بہرحال راولپنڈی میں کرائے جانے والے فرقہ وارانہ فسادات کی آگ کی چنگاریاں اب بھی اس کی راکھ کے ڈھیر تلے جل رہی ہیں جو کوہاٹ ، ہنگو میں ہونے والے واقعات اور راولپنڈی کی موجودہ صورتحال سے آشکار ہو رہی ہے جسے بجھانے کے لیے پوری قوم کی بھرپور توجہ کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔اسلام اور انسانیت کے ناتے ہر فرقے کو اور ہر مذہبی اور غیر مذہبی ہم وطنوں کو اپنے اپنے عقائد پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے ( لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہے ) کون صحیح ہے کون غلط یہ اللہ تعالی کو معلوم ہے سب کے اچھے اور بُرے اعمال اُن کے اپنے ساتھ ہیں۔ پاکستان اس وقت بہت نازک دور سے گزر رہا ہے اسے بچانے کے لیے خاص طور پر الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا ، صحافیوں، دانشوروں ، قلم کاروں ، شاعروں ، ادیبوں ، پروفیسرز ، افواجِ پاکستان و دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ، عدلیہ اور طلبہ وطالبات کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا ان کے علاوہ بھی میں عوام سے دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ وہ کسی کے بہکاوے میں نہ آئیں خود کو اور ملک کو بچائیں اس وقت پاکستان طرح طرح کی خطرناک سازشوں کا شکار ہے فرقہ وارانہ فسادات کے علاوہ عوام لوڈ شیڈنگ ، بے روزگاری ، خود کش بم دھماکے ، ریموٹ کنٹرول دھماکے اور کرپشن وغیرہ کے عذاب جھیل رہے ہیں اور اس پر متضاد لسانی فسادات ہیں ان سب کی وجہ سے پاکستان کا امن و امان کرچی کرچی ہے لہذا ہم سب پر اسلام اور انسانیت کے ناتے فرض ہے جس طرح نماز میں فرض رکعتوں کی اہمیت مسلمہ اور لازمی ہے کے تحت آئو ہم سب مل کر قرآن کے مطابق اللہ تعالی کی رسی کو تھام کر مضبوط اور ایک ہوجائیں ۔