کھیل پر نظریں جمائے رکھیے
کھیل پر نظریں جمائے رکھیے کہ کرتب دکھانے والا ان ہی روزمرہ کی خبروں میں کرتب دکھانے کو ہے
واقفان حال کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں واقع طاقت کے اہم ترین مرکز میں عجب تناؤ کی فضا ہے۔ تناؤ کی وجہ، طاقت کی وجہ پر حد سے زیادہ اعتبار اور اب اس طاقت کی وجہ کے چھن جانے کا خوف بتایا جارہا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ گزشتہ دنوں ملک کی ایک اہم ترین شخصیت سے دوسری اہم ترین شخصیت کی ملاقات ہوئی، جس کی نہ تصویر جاری ہوئی نہ ہی کوئی سرکاری اعلامیہ جاری ہوا۔ خبر کی تلاش میں رہنے والے مگر اس ملاقات کا احوال بھی سامنے لے آئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس ملاقات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سیاسی انتشار کے خاتمے کی کوشش کی جائے اور نفرتوں کو بالائے طاق رکھ کر گورننس اور ڈیلیوری پر توجہ مرکوز کی جائے۔
یہ پیغام مگر عادت سے مجبور دوسری شخصیت کی جانب سے یہ کہہ کر نظر انداز کردیا گیا کہ اسے جبر ناروا سے مفاہمت کا نہ کہا جائے۔ سنا ہے کہ پیغام کے دوسرے حصے پر، جس میں کارکردگی پر توجہ دینے کا کہا گیا تھا، اس کو سنجیدگی سے لیا گیا۔ جواب میں چند ایک ٹویٹس داغی گئیں اور کہا گیا کہ ہمیں غریب آدمی کے مسائل کا مکمل ادراک ہے اور جلد سے جلد ان کے حل کی کوشش کریں گے۔ پھر جلدی جلدی میں 51 ارب کا ریلیف پیکیج تیار کیا گیا۔ مگر سنا ہے کہ وہاں بھی بابو چونا لگا گئے اور بائیس کروڑ لوگوں کے ہاتھ اس 51 ارب کے ریلیف پیکیج کے بعد فی کس صرف 68 روپے کی بچت آئی اور وہ بھی اوگرا کی تازہ ترین سمری میں لینے کے دینے پڑتے دکھائی دیے۔
کہا جارہا ہے کہ اگر کپتان سیاسی انتشار کی فضا کو کم کرنے اور کارکردگی پر توجہ مرکوز رکھنے کےلیے راضی ہوتے تو ان کی مدد کا سامان کیا جاچکا تھا۔ ایک جانب ق لیگ نے بیان دے دیا کہ ان کی طرف سے فی الحال حکومت کو کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔ دوسری جانب خالد مقبول صدیقی نے بھی کابینہ میں واپسی کےلیے نیم رضامندی ظاہر کی تھی۔ کپتان بہرحال بات نہ سن سکے اور یہ دونوں معاملات آنے والے دنوں تک موخر کردیے گئے۔
اب ایک جمود کی فضا ہے اور یہی جمود اپنے اندر طوفان کا سامان لیے بیٹھا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تین اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے مارچ ہی میں حکومت مخالف تحریک چلانے کا عندیہ محض اتفاقیہ ہے یا کہیں کیلنڈر پر جی کا جانا لکھا جاچکا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مارچ ہی وہ مہینہ ہوگا جس میں حکومتی اتحادی بھی یہ کہہ دیں گے کہ اب اپنے مطالبات پر وہ حکومت کو مزید وقت نہیں دے سکتے اور اب ووٹرز کے دباؤ کے تحت حکومت سے علیحدگی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ جواب یقیناً انے والا وقت ہی دے گا۔
کپتان جس کشتی میں سوار ہیں اس میں بیڈ گورننس، نالائق ٹیم، کٹھن معاشی صورتِ حال سے ایک نہیں کئی سوراخ ہوچکے ہیں اور ڈوبنا اب اس کا عین مقدر دکھائی دے رہا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کپتان کا بھلا نہ چاہنے والے سمجھتے ہیں سیاسی تناؤ کو بڑھانے سے کپتان کے اقتدار کی ڈولتی کشتی پر آخری وار کرکے اسے جلد سے جلد غرقِ دریا کیا جاسکتا ہے۔ کپتان کے دوست نما دشمن جان چکے ہیں کہ وہ مخالفین کو چت کردینے والی باتوں اور تراکیب سے بہت خوش ہوتا ہے اور یہی بات پس پردہ معاملات کو سنجیدگی سے دیکھنے والوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ یوں ایک جانب بلاول بھٹو کو گرفتار کرنے کےلیے نیب پر دباؤ ڈالا جارہا ہے تو دوسری طرف مولانا پر آرٹیکل چھ کی کارروائی شروع کرنے کےلیے کپتان کے کان بھرے جارہے ہیں۔ کہیں سے کپتان کو یہ مشورے دیے جارہے ہیں کہ اگر لاہور ہائی کورٹ مریم نواز کو جانے کی اجازت دیتی ہے تو ہماری اگلی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟ کہیں سے اسحاق ڈار کے گھر پر پناہ گاہ کے قیام جیسے مزید احمقانہ اقدامات لینے کےلیے کپتان کی خوشنودی حاصل کی جارہی ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر قدغنیں لگانے والے غیر مقبول قدم کے ذریعے پوری کی جائے گی، جس کے ذریعے کپتان کے حامی، جس میں صحافی اور عوام دونوں شامل ہیں، اس کے خلاف ہوجائیں گے۔
واقفان حال مزید کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم ہاؤس میں اعظم خان گروپ معاملات کو اپنے مکمل کنٹرول میں لے چکا ہے اور ترین گروپ کا سامان باہر پھینکا جاچکا ہے۔ یہ سب کپتان کی نظروں کے سامنے ہوا ہے۔ اسی لیے اگر اب کی بار اتحادیوں کو معاملات بگاڑنے کا اشارہ ملتا ہے تو ترین صاحب مدد کو نہیں آئیں گے۔ وہ جان بوجھ کر جہاز کا انجن ٹھنڈا رکھیں گے اور ان کی ساری توجہ گنے کے کھیتوں پر ہوگی۔
بتایا جارہا ہے کہ ادھر لندن میں شہباز شریف کے قیام میں توسیع بھی بغیر کسی وجہ کے نہیں ہوئی۔ وہ بہرحال سرگرم ہیں اور انہوں نے چوہدری نثار کو بھی لندن طلب کرلیا ہے۔ چوہدری نثار بظاہر تو علاج معالجے کی غرض سے وہاں گئے ہیں مگر اندر ہی اندر اپنی سیٹنگ کا مکمل پلان بناچکے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ انہوں نے شہباز شریف سے کہا ہے کہ اگر آپ مرکز سنبھالتے ہیں تو پنجاب مجھے سنبھالنے دیجئے کہ آخر کب تک میں پنجاب اسمبلی میں اپنی اکلوتی سیٹ کا حلف نہیں اٹھاؤں گا۔
واقفان حال مزید بتاتے ہیں کہ لندن پہنچ کر انہوں نے اپنے قریبی دوست کو اسحاق ڈار سے بھی رابطہ کرنے کا کہا اور کہا کہ اسحاق ڈار کسی صورت ان کی، یعنی چوہدری نثار کی نواز شریف سے ملاقات کروائیں، تاکہ معاملات کو حتمی شکل دینے میں بڑے میاں صاحب کی آشیرباد بھی حاصل ہوسکے۔ آخر کو شروع ہی سے شہباز شریف اور چوہدری نثار دونوں کے نظریات کافی ملتے جلتے ہیں اور جب سے بڑے میاں صاحب نے ایک ترمیم کے حق میں سرِ تسلیم خم کیا ہے تب سے اس حمام میں تینوں کے نظریات مل چکے ہیں۔ اب بس دیر ہے تو ظاہری رنجشیں مٹانے کی اور کپتان کی کرسی پر آخری ضرب لگانے کےلیے مولانا سے ہاتھ ملانے کی، جو کہ مارچ میں مارچ کرنے کی تاریخ دے چکے ہیں۔
کھیل پر نظریں جمائے رکھیے کہ کرتب دکھانے والا ان ہی روزمرہ کی خبروں میں کرتب دکھانے کو ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ پیغام مگر عادت سے مجبور دوسری شخصیت کی جانب سے یہ کہہ کر نظر انداز کردیا گیا کہ اسے جبر ناروا سے مفاہمت کا نہ کہا جائے۔ سنا ہے کہ پیغام کے دوسرے حصے پر، جس میں کارکردگی پر توجہ دینے کا کہا گیا تھا، اس کو سنجیدگی سے لیا گیا۔ جواب میں چند ایک ٹویٹس داغی گئیں اور کہا گیا کہ ہمیں غریب آدمی کے مسائل کا مکمل ادراک ہے اور جلد سے جلد ان کے حل کی کوشش کریں گے۔ پھر جلدی جلدی میں 51 ارب کا ریلیف پیکیج تیار کیا گیا۔ مگر سنا ہے کہ وہاں بھی بابو چونا لگا گئے اور بائیس کروڑ لوگوں کے ہاتھ اس 51 ارب کے ریلیف پیکیج کے بعد فی کس صرف 68 روپے کی بچت آئی اور وہ بھی اوگرا کی تازہ ترین سمری میں لینے کے دینے پڑتے دکھائی دیے۔
کہا جارہا ہے کہ اگر کپتان سیاسی انتشار کی فضا کو کم کرنے اور کارکردگی پر توجہ مرکوز رکھنے کےلیے راضی ہوتے تو ان کی مدد کا سامان کیا جاچکا تھا۔ ایک جانب ق لیگ نے بیان دے دیا کہ ان کی طرف سے فی الحال حکومت کو کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔ دوسری جانب خالد مقبول صدیقی نے بھی کابینہ میں واپسی کےلیے نیم رضامندی ظاہر کی تھی۔ کپتان بہرحال بات نہ سن سکے اور یہ دونوں معاملات آنے والے دنوں تک موخر کردیے گئے۔
اب ایک جمود کی فضا ہے اور یہی جمود اپنے اندر طوفان کا سامان لیے بیٹھا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تین اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے مارچ ہی میں حکومت مخالف تحریک چلانے کا عندیہ محض اتفاقیہ ہے یا کہیں کیلنڈر پر جی کا جانا لکھا جاچکا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مارچ ہی وہ مہینہ ہوگا جس میں حکومتی اتحادی بھی یہ کہہ دیں گے کہ اب اپنے مطالبات پر وہ حکومت کو مزید وقت نہیں دے سکتے اور اب ووٹرز کے دباؤ کے تحت حکومت سے علیحدگی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ جواب یقیناً انے والا وقت ہی دے گا۔
کپتان جس کشتی میں سوار ہیں اس میں بیڈ گورننس، نالائق ٹیم، کٹھن معاشی صورتِ حال سے ایک نہیں کئی سوراخ ہوچکے ہیں اور ڈوبنا اب اس کا عین مقدر دکھائی دے رہا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کپتان کا بھلا نہ چاہنے والے سمجھتے ہیں سیاسی تناؤ کو بڑھانے سے کپتان کے اقتدار کی ڈولتی کشتی پر آخری وار کرکے اسے جلد سے جلد غرقِ دریا کیا جاسکتا ہے۔ کپتان کے دوست نما دشمن جان چکے ہیں کہ وہ مخالفین کو چت کردینے والی باتوں اور تراکیب سے بہت خوش ہوتا ہے اور یہی بات پس پردہ معاملات کو سنجیدگی سے دیکھنے والوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ یوں ایک جانب بلاول بھٹو کو گرفتار کرنے کےلیے نیب پر دباؤ ڈالا جارہا ہے تو دوسری طرف مولانا پر آرٹیکل چھ کی کارروائی شروع کرنے کےلیے کپتان کے کان بھرے جارہے ہیں۔ کہیں سے کپتان کو یہ مشورے دیے جارہے ہیں کہ اگر لاہور ہائی کورٹ مریم نواز کو جانے کی اجازت دیتی ہے تو ہماری اگلی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟ کہیں سے اسحاق ڈار کے گھر پر پناہ گاہ کے قیام جیسے مزید احمقانہ اقدامات لینے کےلیے کپتان کی خوشنودی حاصل کی جارہی ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر قدغنیں لگانے والے غیر مقبول قدم کے ذریعے پوری کی جائے گی، جس کے ذریعے کپتان کے حامی، جس میں صحافی اور عوام دونوں شامل ہیں، اس کے خلاف ہوجائیں گے۔
واقفان حال مزید کہتے ہیں کہ وزیرِاعظم ہاؤس میں اعظم خان گروپ معاملات کو اپنے مکمل کنٹرول میں لے چکا ہے اور ترین گروپ کا سامان باہر پھینکا جاچکا ہے۔ یہ سب کپتان کی نظروں کے سامنے ہوا ہے۔ اسی لیے اگر اب کی بار اتحادیوں کو معاملات بگاڑنے کا اشارہ ملتا ہے تو ترین صاحب مدد کو نہیں آئیں گے۔ وہ جان بوجھ کر جہاز کا انجن ٹھنڈا رکھیں گے اور ان کی ساری توجہ گنے کے کھیتوں پر ہوگی۔
بتایا جارہا ہے کہ ادھر لندن میں شہباز شریف کے قیام میں توسیع بھی بغیر کسی وجہ کے نہیں ہوئی۔ وہ بہرحال سرگرم ہیں اور انہوں نے چوہدری نثار کو بھی لندن طلب کرلیا ہے۔ چوہدری نثار بظاہر تو علاج معالجے کی غرض سے وہاں گئے ہیں مگر اندر ہی اندر اپنی سیٹنگ کا مکمل پلان بناچکے ہیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ انہوں نے شہباز شریف سے کہا ہے کہ اگر آپ مرکز سنبھالتے ہیں تو پنجاب مجھے سنبھالنے دیجئے کہ آخر کب تک میں پنجاب اسمبلی میں اپنی اکلوتی سیٹ کا حلف نہیں اٹھاؤں گا۔
واقفان حال مزید بتاتے ہیں کہ لندن پہنچ کر انہوں نے اپنے قریبی دوست کو اسحاق ڈار سے بھی رابطہ کرنے کا کہا اور کہا کہ اسحاق ڈار کسی صورت ان کی، یعنی چوہدری نثار کی نواز شریف سے ملاقات کروائیں، تاکہ معاملات کو حتمی شکل دینے میں بڑے میاں صاحب کی آشیرباد بھی حاصل ہوسکے۔ آخر کو شروع ہی سے شہباز شریف اور چوہدری نثار دونوں کے نظریات کافی ملتے جلتے ہیں اور جب سے بڑے میاں صاحب نے ایک ترمیم کے حق میں سرِ تسلیم خم کیا ہے تب سے اس حمام میں تینوں کے نظریات مل چکے ہیں۔ اب بس دیر ہے تو ظاہری رنجشیں مٹانے کی اور کپتان کی کرسی پر آخری ضرب لگانے کےلیے مولانا سے ہاتھ ملانے کی، جو کہ مارچ میں مارچ کرنے کی تاریخ دے چکے ہیں۔
کھیل پر نظریں جمائے رکھیے کہ کرتب دکھانے والا ان ہی روزمرہ کی خبروں میں کرتب دکھانے کو ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔