وہ محاذ جنگ پر شہید ہونا چاہتا تھا سینیٹ کے غریب ملازم نے ہیرے کا بُندہ واپس کردیا
بُندہ واپس کرکے میں نے کوئی بہادری نہیں کی ، یہ آپ کی امانت تھی وہ میں نے واپس کردی۔ سابق سینیٹر رزینہ عالم کی یادیں
رزینہ عالم معروف ماہرتعلیم ہیں، خاص طور پر خواتین کی تعلیم و تربیت پر ان کا خاصا کام ریکارڈ پر ہے۔
آج کل ان کی کتاب ''سنو پیاری بیٹی!'' خواتین کے حلقوں میں بہت مقبول ہے۔ لگ بھگ دو درجن اداروں، جن میں سینیٹ کی مجالسِ قائمہ بھی شامل ہیں، کی رکن اور متعدد کی چیئرپرسن رہیں، متعدد یونی ورسٹیوں کے بورڈ آف گورنرز کی رکن ہیں۔ مسلم لیگ نون کی لٹریسی کمیٹی کی کنوینر اور پارٹی کی مینی فیسٹو کمیٹی کی رکن ہیں۔ 1966میں جامعۂ کراچی سے اقتصادیات میں ایم اے کیا۔ اپنی زندگی کا ایک یادگار واقعہ شیئر کرتی ہیں:
ایسے بہت سے واقعات ہیں جو میرے دل ودماغ سے چمٹے ہوئے ہیں۔ طویل مدت گزرنے پر بھی کل کی بات محسوس ہوتی ہے۔ میری شادی کو تقریباً دو سال گزرے تھے، میں اپنے میاں کے ساتھ کھاریاں میں مقیم تھی۔ یہ 1971 کی جنگ کا زمانہ تھا۔ محاذ سے زخمی فوجی گاڑیوں کے ذریعے کھاریاں سی ایم ایچ لائے جاتے تھے۔ میں اپنے ایک سال کے بیٹے کو گھر چھوڑ کر سی ایم ایچ اسپتال میں نرسوں کی مدد کے لیے چلی جاتی تھی۔ ایک دن حسب روایت اسپتال گئی، ایک نرس ایک زخمی فوجی کی مرہم پٹی میں مصروف تھی، مجھے دیکھا تو بلا لیا۔ میں زخمی سپاہی کے زخم روئی سے صاف کرنے میں مصروف ہو گئی۔ میں کام میں منہمک تھی کہ ناگاہ اس جوان کے چہرے پر میری نظر پڑی، میں نے محسوس کیا کہ وہ رو رہا ہے، مجھے خیال آیا کہ درد کی شدت سے رو رہا ہوگا، تاہم رہا نہ گیا میں نے پوچھا کہ کیا ایسا ہی ہے؟ تو اس کڑیل جوان نے جواب دے کر حیرت زدہ کردیا۔ اس نے کہا،''میں زخموں کی تکلیف سے نہیں بل کہ زخمی ہونے پر رو رہا ہوں، میری شدید خواہش تھی کہ میں قوم و ملک کے لیے شہید ہوجائوں مگر میں زخمی ہو گیا، افسوس اب تن درست ہونے پر بھی موقع شاید ہی ملے، میرے شہید ہونے کا موقع جاتا رہا۔''
ہوا یوں کہ محاذ پر دشمن کی توپ کا گولہ اس کے بالکل قریب ہی پھٹا، جس سے اس کے جسم کا 80 فی صد حصہ جھلس گیا تھا۔ میں اس کا جذبۂ شہادت دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ میں نے اپنی باتوں سے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی مگر وہ مسلسل روتا رہا حتیٰ کہ ہچکیاں لینے لگا۔ میری حیرت میں اضافہ بھی ہو رہا تھا اور دل میں ایک ان جانی خوشی بھی اُبل رہی تھی کہ ہماری مائیں کیسے کیسے سپوت جنم دے رہی ہیں جو ملک و قوم پر نثار ہونے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ یہ سب مائوں کی تربیت کا اثر ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو ایسے اعلیٰ و ارفع جذبے سے سرشار کرکے میدان جنگ میں بھیجتی ہیں، وہ ان کے دل میں یہ بات راسخ کردیتی ہیں کہ ملک و قوم کے لیے قربان ہونا اعلیٰ درجے پر فائز ہونا ہے۔ میں کچھ دیگر مصروفیات کی وجہ سے اسپتال نہ جا سکی لیکن جب گئی اور اس کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جوان خالق حقیقی سے جا ملا ہے، بہت صدمہ ہوا۔ میں اس کے گھر کا پتا لے کر اس کے گائوں پہنچ گئی۔ وہاں اور بہت سی حیرتوں سے دوچار ہوئی۔ اس کی بیوی حقیقت میں مجسمۂ صبر و رضا تھی، میرے اظہارافسوس پر گویا ہوئی، ''مجھے فخر ہے کہ میں شہید کی بیوہ ہوں۔''
میں نے دیکھا ایک آنسو بھی اس کی آنکھ سے نہیں ٹپکا، اس کے بچے بھی قابل فخر ضبط کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس نے اپنے بچے کو اشارہ کیا کہ وہ مرغی ذبح کروا لائے۔ یہ مرغی ان کا کل اثاثہ دکھائی دے رہی تھی، جس کے انڈے وہ بیوہ فروخت کرتی تھی۔ وہ خاتون پہلے ہی ہماری بہت خدمت کر چکی تھی، میرے روکنے کے باوجود بچہ مرغی ذبح کروانے چلا گیا۔ اس لمحے میرے دل میں آیا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ان غریبوں کو کتنا بڑا دل دیا ہے۔ وہ اپنا واحد اثاثہ بھی مہمان نوازی کی نذر کر رہی تھی۔اس جنگ میں میرے دیور بھی شہید ہوئے تھے۔ ان کی میت میرے گھر آئی تھی۔ میت آنے پر صبرو تحمل کا جو مظاہرہ میں نے اپنے گھر میں دیکھا وہ بھی یادگار ہے۔ میری ساس نے بھی بڑے مثالی صبر کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ دو ایسے واقعات ہیں جو چار دہائیاں گزرنے پر بھی میرے دل و دماغ میں تر و تازہ ہیں، مجھے آج بھی وہ جوان شہادت کی خواہش میں بلک بلک کر روتا دکھائی د یتا ہے، اس کی مجسمۂ صبر و رضا بیوہ کا تفاخر سے دمکتا چہرہ مجھے آج بھی یاد ہے۔
زمانۂ طالب علمی کا ایک چھوٹا سا واقعہ بھی میرے دماغ میں تازہ ہے۔ میں لاہور کالج میں زیرتعلیم تھی۔ وہاں میری ایک بہت گہری دوست تھی، جو اپنے رویے سے ظاہر کرتی تھی، کہ وہ میری بہت مخلص دوست ہے۔ اکٹھے وقت گزرتا، خوب گپ شپ ہوتی۔ وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزرتا رہا۔ بی اے فائنل کا امتحان آ گیا، ہم دونوں دوست امتحان دینے کالج پہنچیں، ہال کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں واش روم آیا، تو میں نے جیومیٹری باکس جس میں میرے دو پین تھے۔ اپنی دوست کو پکڑا دیا، واپس آ کر وہ جیومیٹری باکس اسی طرح اس نے میرے حوالے کردیا، جب پرچہ شروع ہوا تو میں نے پین نکال کر لکھنا چاہا، مگر میں حیران رہ گئی کہ پین کی نب ٹوٹی ہوئی ہے۔ میں نے دوسرا پین نکالا، وہ ویسا ہی تھا، یعنی اس کی نب بھی ٹوٹی ہوئی تھی، مجھے بے حد حیرت ہوئی کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ بہ ہرحال ایک نگران نے مجھے پین دیا کہ میں پرچہ حل کروں۔ پرچہ ختم ہونے کے بعد میں اسی واش روم میں گئی تو مجھے سیاہی کے نشانات ملے۔ یہاں میری دوست نے میرے پین کی نب توڑی تھی، مجھے اب بھی حیرت ہے کہ اتنی محبت کرنے والی دوست نے یہ میرے ساتھ کیا کیا۔ یہ کام اس نے کس جذبے کے زیرِاثر کیا یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا، کیوں کہ اِس واقعے کے بعد کبھی اُس سے ملاقات نہ ہوسکی۔
میں سینیٹر تھی، سینٹ کا اجلاس جاری تھا۔ میں نے کانوں میں جو بُندے پہنے ہوئے تھے، ان میں ہیرے جڑے ہوئے تھے، جس سے وہ بہت قیمتی ہو گئے تھے۔ دوران اجلاس مجھے احساس ہوا، میرے ایک کان سے بُندہ غائب ہے، اِدھر اُدھر دیکھا کہیں نہ ملا۔ مجھے بہت تشویش ہوئی کہ اتنا بڑا نقصان ہو گیا۔ مجھ پر مایوسی چھانے لگی، کہ اب وہ نہیں ملے گا۔ اگلے دن میں اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی کہ سینیٹ کا ایک کلاس فور کا ملازم آیا اور اس نے ٹشو پیپر میں لپٹا بندہ میرے حوالے کیا۔ مجھے بے حد حیرانگی ہوئی کہ یہ غریب ملازم کس قدر ایمان کی دولت سے مالا مال ہے۔ میں نے اسے انعام دینے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا، کہ میں نے کون سی بہادری کی ہے، یہ آپ کی امانت تھی وہ میں نے واپس کردی۔
ان واقعات سے میں سوچتی ہوں کہ اﷲ پاک جن لوگوں کو دنیا کی دولت سے کم نوازتا ہے۔ ان کو ایمان کی دولت سے خوب نوازتا ہے۔ اصل متاع تو ایمان کی دولت ہے۔ اس دنیا میں ہم لوگ بہت تھوڑے وقت کے لیے ہیں۔ ہمیں رب کائنات کے حضور پیش ہونا ہے۔ جب ہم اﷲ تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو یہ لوگ کس طرح سرخ روہوں گے۔
آج کل ان کی کتاب ''سنو پیاری بیٹی!'' خواتین کے حلقوں میں بہت مقبول ہے۔ لگ بھگ دو درجن اداروں، جن میں سینیٹ کی مجالسِ قائمہ بھی شامل ہیں، کی رکن اور متعدد کی چیئرپرسن رہیں، متعدد یونی ورسٹیوں کے بورڈ آف گورنرز کی رکن ہیں۔ مسلم لیگ نون کی لٹریسی کمیٹی کی کنوینر اور پارٹی کی مینی فیسٹو کمیٹی کی رکن ہیں۔ 1966میں جامعۂ کراچی سے اقتصادیات میں ایم اے کیا۔ اپنی زندگی کا ایک یادگار واقعہ شیئر کرتی ہیں:
ایسے بہت سے واقعات ہیں جو میرے دل ودماغ سے چمٹے ہوئے ہیں۔ طویل مدت گزرنے پر بھی کل کی بات محسوس ہوتی ہے۔ میری شادی کو تقریباً دو سال گزرے تھے، میں اپنے میاں کے ساتھ کھاریاں میں مقیم تھی۔ یہ 1971 کی جنگ کا زمانہ تھا۔ محاذ سے زخمی فوجی گاڑیوں کے ذریعے کھاریاں سی ایم ایچ لائے جاتے تھے۔ میں اپنے ایک سال کے بیٹے کو گھر چھوڑ کر سی ایم ایچ اسپتال میں نرسوں کی مدد کے لیے چلی جاتی تھی۔ ایک دن حسب روایت اسپتال گئی، ایک نرس ایک زخمی فوجی کی مرہم پٹی میں مصروف تھی، مجھے دیکھا تو بلا لیا۔ میں زخمی سپاہی کے زخم روئی سے صاف کرنے میں مصروف ہو گئی۔ میں کام میں منہمک تھی کہ ناگاہ اس جوان کے چہرے پر میری نظر پڑی، میں نے محسوس کیا کہ وہ رو رہا ہے، مجھے خیال آیا کہ درد کی شدت سے رو رہا ہوگا، تاہم رہا نہ گیا میں نے پوچھا کہ کیا ایسا ہی ہے؟ تو اس کڑیل جوان نے جواب دے کر حیرت زدہ کردیا۔ اس نے کہا،''میں زخموں کی تکلیف سے نہیں بل کہ زخمی ہونے پر رو رہا ہوں، میری شدید خواہش تھی کہ میں قوم و ملک کے لیے شہید ہوجائوں مگر میں زخمی ہو گیا، افسوس اب تن درست ہونے پر بھی موقع شاید ہی ملے، میرے شہید ہونے کا موقع جاتا رہا۔''
ہوا یوں کہ محاذ پر دشمن کی توپ کا گولہ اس کے بالکل قریب ہی پھٹا، جس سے اس کے جسم کا 80 فی صد حصہ جھلس گیا تھا۔ میں اس کا جذبۂ شہادت دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ میں نے اپنی باتوں سے اسے حوصلہ دینے کی کوشش کی مگر وہ مسلسل روتا رہا حتیٰ کہ ہچکیاں لینے لگا۔ میری حیرت میں اضافہ بھی ہو رہا تھا اور دل میں ایک ان جانی خوشی بھی اُبل رہی تھی کہ ہماری مائیں کیسے کیسے سپوت جنم دے رہی ہیں جو ملک و قوم پر نثار ہونے کے جذبے سے سرشار ہیں۔ یہ سب مائوں کی تربیت کا اثر ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو ایسے اعلیٰ و ارفع جذبے سے سرشار کرکے میدان جنگ میں بھیجتی ہیں، وہ ان کے دل میں یہ بات راسخ کردیتی ہیں کہ ملک و قوم کے لیے قربان ہونا اعلیٰ درجے پر فائز ہونا ہے۔ میں کچھ دیگر مصروفیات کی وجہ سے اسپتال نہ جا سکی لیکن جب گئی اور اس کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جوان خالق حقیقی سے جا ملا ہے، بہت صدمہ ہوا۔ میں اس کے گھر کا پتا لے کر اس کے گائوں پہنچ گئی۔ وہاں اور بہت سی حیرتوں سے دوچار ہوئی۔ اس کی بیوی حقیقت میں مجسمۂ صبر و رضا تھی، میرے اظہارافسوس پر گویا ہوئی، ''مجھے فخر ہے کہ میں شہید کی بیوہ ہوں۔''
میں نے دیکھا ایک آنسو بھی اس کی آنکھ سے نہیں ٹپکا، اس کے بچے بھی قابل فخر ضبط کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس نے اپنے بچے کو اشارہ کیا کہ وہ مرغی ذبح کروا لائے۔ یہ مرغی ان کا کل اثاثہ دکھائی دے رہی تھی، جس کے انڈے وہ بیوہ فروخت کرتی تھی۔ وہ خاتون پہلے ہی ہماری بہت خدمت کر چکی تھی، میرے روکنے کے باوجود بچہ مرغی ذبح کروانے چلا گیا۔ اس لمحے میرے دل میں آیا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ان غریبوں کو کتنا بڑا دل دیا ہے۔ وہ اپنا واحد اثاثہ بھی مہمان نوازی کی نذر کر رہی تھی۔اس جنگ میں میرے دیور بھی شہید ہوئے تھے۔ ان کی میت میرے گھر آئی تھی۔ میت آنے پر صبرو تحمل کا جو مظاہرہ میں نے اپنے گھر میں دیکھا وہ بھی یادگار ہے۔ میری ساس نے بھی بڑے مثالی صبر کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ دو ایسے واقعات ہیں جو چار دہائیاں گزرنے پر بھی میرے دل و دماغ میں تر و تازہ ہیں، مجھے آج بھی وہ جوان شہادت کی خواہش میں بلک بلک کر روتا دکھائی د یتا ہے، اس کی مجسمۂ صبر و رضا بیوہ کا تفاخر سے دمکتا چہرہ مجھے آج بھی یاد ہے۔
زمانۂ طالب علمی کا ایک چھوٹا سا واقعہ بھی میرے دماغ میں تازہ ہے۔ میں لاہور کالج میں زیرتعلیم تھی۔ وہاں میری ایک بہت گہری دوست تھی، جو اپنے رویے سے ظاہر کرتی تھی، کہ وہ میری بہت مخلص دوست ہے۔ اکٹھے وقت گزرتا، خوب گپ شپ ہوتی۔ وقت اپنی مخصوص رفتار سے گزرتا رہا۔ بی اے فائنل کا امتحان آ گیا، ہم دونوں دوست امتحان دینے کالج پہنچیں، ہال کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں واش روم آیا، تو میں نے جیومیٹری باکس جس میں میرے دو پین تھے۔ اپنی دوست کو پکڑا دیا، واپس آ کر وہ جیومیٹری باکس اسی طرح اس نے میرے حوالے کردیا، جب پرچہ شروع ہوا تو میں نے پین نکال کر لکھنا چاہا، مگر میں حیران رہ گئی کہ پین کی نب ٹوٹی ہوئی ہے۔ میں نے دوسرا پین نکالا، وہ ویسا ہی تھا، یعنی اس کی نب بھی ٹوٹی ہوئی تھی، مجھے بے حد حیرت ہوئی کہ یہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ بہ ہرحال ایک نگران نے مجھے پین دیا کہ میں پرچہ حل کروں۔ پرچہ ختم ہونے کے بعد میں اسی واش روم میں گئی تو مجھے سیاہی کے نشانات ملے۔ یہاں میری دوست نے میرے پین کی نب توڑی تھی، مجھے اب بھی حیرت ہے کہ اتنی محبت کرنے والی دوست نے یہ میرے ساتھ کیا کیا۔ یہ کام اس نے کس جذبے کے زیرِاثر کیا یہ آج تک معلوم نہیں ہو سکا، کیوں کہ اِس واقعے کے بعد کبھی اُس سے ملاقات نہ ہوسکی۔
میں سینیٹر تھی، سینٹ کا اجلاس جاری تھا۔ میں نے کانوں میں جو بُندے پہنے ہوئے تھے، ان میں ہیرے جڑے ہوئے تھے، جس سے وہ بہت قیمتی ہو گئے تھے۔ دوران اجلاس مجھے احساس ہوا، میرے ایک کان سے بُندہ غائب ہے، اِدھر اُدھر دیکھا کہیں نہ ملا۔ مجھے بہت تشویش ہوئی کہ اتنا بڑا نقصان ہو گیا۔ مجھ پر مایوسی چھانے لگی، کہ اب وہ نہیں ملے گا۔ اگلے دن میں اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی کہ سینیٹ کا ایک کلاس فور کا ملازم آیا اور اس نے ٹشو پیپر میں لپٹا بندہ میرے حوالے کیا۔ مجھے بے حد حیرانگی ہوئی کہ یہ غریب ملازم کس قدر ایمان کی دولت سے مالا مال ہے۔ میں نے اسے انعام دینے کی بہت کوشش کی لیکن اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا، کہ میں نے کون سی بہادری کی ہے، یہ آپ کی امانت تھی وہ میں نے واپس کردی۔
ان واقعات سے میں سوچتی ہوں کہ اﷲ پاک جن لوگوں کو دنیا کی دولت سے کم نوازتا ہے۔ ان کو ایمان کی دولت سے خوب نوازتا ہے۔ اصل متاع تو ایمان کی دولت ہے۔ اس دنیا میں ہم لوگ بہت تھوڑے وقت کے لیے ہیں۔ ہمیں رب کائنات کے حضور پیش ہونا ہے۔ جب ہم اﷲ تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو یہ لوگ کس طرح سرخ روہوں گے۔