مہدی حسن نے ساتھ گانے کی فرمائش کی تو گویا کائنات مٹھی میں آگئی
ایک مرتبہ انڈیا پرفارم کرنے گیا تو وہاں سیٹ پر کسی نے آکر بتایا کہ مادھوری ڈکشٹ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں،حسن جہانگیر
''ہوا'' سے ''خوش بُو لٹانے'' کا تقاضا اور پھر ''اُس'' کا پتا جاننے پر اصرار کرنے والے حسن جہانگیر سے کون واقف نہیں۔
قارئین! اس سطر میں جس گیت کا اشارہ ہے، وہ یقیناً اس وقت آپ کے لبوں پر ہو گا۔
ہوا ہوا! اے ہوا، خوش بُو لٹا دے
میں اس سے ملوں گا، اک بار ملا دے
یار ملا دے، دل دار ملا دے۔۔۔
80 کی دہائی میں اپنی خوب صورت آواز اور منفرد انداز کی بدولت حسن جہانگیر نے سبھی کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔ ان کی شہرت راتوں رات سات سمندر پار پہنچ گئی۔ جب اپنے ایک گیت میں انہوں نے ''یاروں'' کو ''شادی نہ کرنے'' کا مشورہ دیا اور سُر، ساز کے ساتھ اپنی خوب صورت آواز میں اس کی وجہ بتائی تو پرستاروں کو جیسے یقین ہو گیا کہ وہی ان کے سچّے اور مخلص دوست ہیں۔ اس گانے کے بول آپ کے ذہن میں بھی تازہ ہو گئے ہوں گے۔
شادی نہ کرنا یارو، پچھتاؤ گے ساری لائف۔۔۔
جی ہاں! یہ اپنے وقت کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔
حسن جہانگیر کے البم ریکارڈ تعداد میں خریدے گئے۔ عوام میں بے پناہ مقبول حسن جہانگیر مہاراجہ آف گوالیار، مدر آف سندیا کے مہمانِ خصوصی بننے کے ساتھ چین، بنگلا دیش، موزمبیق کے سربراہوں کی دعوت پر ان کے ہاں اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت سے قیام کرچکے ہیں۔
''بھلا نہ سکے'' کے ذیل میں حسن جہانگیر کی باتیں قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔
غزل گائیکی کے بے تاج بادشاہ مہدی حسن سے جڑی اپنی ایک یاد انہوں نے کچھ اس طرح بیان کی:
یہ ڈھائی برس پرانی بات ہے۔ خان صاحب کو اپنے ایک ہاتھ میں تکلیف محسوس ہوئی تو ہم نے معروف آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر محمد علی شاہ سے ان کے معائنے کا وقت لیا۔ انہیں ناظم آباد لے جانا تھا اور یہ ذمے داری میں نے نبھائی۔ وہ میری کار میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے جب کہ پچھلی نشست پر ان کے شاگرد فیصل ندیم موجود تھے۔ ہم اسپتال پہنچے، وہاں سے واپسی پر ہمارے درمیان موسیقی، آواز اور انداز پر گفت گو ہونے لگی اور میں نے ایک گانے کا ذکر کردیا، جس کا اثر ایسا تھا کہ خان صاحب آب دیدہ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر میں نے باتوں کا رخ بدل دیا۔ فیصل ندیم نے بھی ماحول تبدیل کرنے کی غرض سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں اور اسی دوران خان صاحب سے پوچھاکہ ہندوستان میں لوگ حسن جہانگیر کے بارے میں آپ سے کیا کہتے ہیں؟ اس پر وہ مسکرائے اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے:
''ہندوستانی تمہاری آواز، گانوں اور انداز کے دیوانے ہیں۔ وہاں میرے ملاقاتی پوچھتے ہیں، کیا حسن جہانگیر آپ کا بیٹا ہے؟ تمہارا گانا ''ہوا ہوا'' تو سبھی کو یاد ہے، وہ اسے گاتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔'' یہ بات ہر فن کار کی طرح حسن جہانگیر کے لیے بھی خوشی کا باعث تھی، لیکن دوسرے ہی لمحے یہ خوشی معمولی اور شاید غیر اہم بھی ہو گئی۔ وہ لمحہ ہی ایسا تھا۔ اس کے آگے سب کچھ بے معنی لگ رہا تھا۔ شہنشاہِ غزل نے ان سے کہا۔
''تم 'ہوا ہوا' کا ری مکس بناؤ، کچھ اس طرح کہ میں بھی اس میں اپنی آواز ملا سکوں۔''
حسن جہانگیر کے لیے اُن کا یہ کہنا دنیا کے ہر اعزاز سے بڑھ کر تھا۔ آج بھی وہ اسی مسرت اور خوشی کے احساس سے سرشار ہیں، جو پہلی مرتبہ انہیں محسوس ہوئی تھی۔
اس بابت حسن جہانگیر نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
''اس وقت یوں لگا جیسے کائنات میری مٹھی میں ہے۔ مجھے سب کچھ مل گیا ہے۔
اپنی یاد پٹاری سے ایک اور خوش گوار واقعہ انہوں نے کچھ اس طرح بیان کیا:
یہ کم و بیش تیس برس پرانی بات ہے۔ اُن دنوں میں خود کو منوانے کے لیے تگ و دو کر رہا تھا اور گائیکی کی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کا خواہش مند تھا۔ اُس زمانے میں ریڈیو کی بہت زیادہ اہمیت تھی اور اسے ایک بڑی درس گاہ تصور کیا جاتا تھا۔ میں اسٹیج کے ذریعے ابتدائی دنوں میں ہی سب کو اپنی جانب متوجہ کر چکا تھا اور ریڈیو پاکستان پر پروگرام 'بزمِ طلباء' میں پرفارم کر کے اپنی جگہ بنالی تھی۔ ایک دن ریڈیو پر احمد رشدی صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ اُن جیسا بڑا گائیک مجھے پہچاننے لگا تھا۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو رک گئے اور کہا کہ آج رات کو یہاں ایک تقریب ہے، تم ضرور آنا اور پرفارم بھی کرنا۔ اُن کی بات میں کیسے ٹال سکتا تھا، فوراً ہامی بھر لی۔ ان کا مجھ سے مخاطب ہونا اور پروگرام میں گانے کی دعوت دینا میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔ خیر، یہ کہہ کر وہ اپنی بائیک کی طرف بڑھے، لیکن چند قدم چلنے کے بعد اچانک پلٹے اور کہا:
'اب تم کہاں جاؤ گے؟ میں گلبرگ جارہا ہوں، میرے ساتھ چلو۔' ان دنوں میں میری رہائش بھی گلبرگ میں تھی۔ میری خوشی کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ فوراً ان کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔ شاید یہ کسی کے لیے اتنی اہم اور قابلِ ذکر بات نہ ہو، لیکن وہ میری زندگی کا بیش قیمت اور یادگار دن تھا، جب نے میں رشدی صاحب کے ساتھ ان کی موٹر سائیکل پر سفر کیا۔
حسن جہانگیر نے معروف اداکار معین اختر سے جڑی ایک یاد ہم سے یوں بیان کی:
مجھے معین بھائی کا ساتھ بھی نصیب ہوا۔ ان کے ساتھ کئی پروگرام کرنے کا موقع ملا اور اس دوران میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ہم کئی مرتبہ انٹرنیشنل ٹور پر ایک ساتھ گئے۔ ایک مرتبہ معین بھائی کو جاپان جانا تھا۔ میں متعدد مرتبہ وہاں جا چکا تھا اور سفارت خانے کو مطلوب دستاویزات، وہاں کے مختلف معاملات اور مسائل سے خوب واقف تھا۔ میں نے نہ صرف معین بھائی کے تمام سفری معاملات نمٹائے بلکہ سفارت خانے میں ان کا ضامن بھی بنا۔ میں نے اُن کے ضامن کی حیثیت سے اپنا کریڈٹ کارڈ نمبر اور دوسری معلومات سفارت خانے کو فراہم کیں۔ یہ سب میری زندگی کی خوش گوار یادیں ہیں۔ سب مجھے جادوگر کہتے تھے۔ اس کی وجہ میرا ہر قسم کے معاملات نمٹانے میں آگے آگے رہنا ہے۔ معین بھائی بھی مجھے جادوگر کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
بولی وڈ کی مقبول ترین اداکارہ مادھوری ڈکشٹ سے حسن جہانگیر کی پہلی ملاقات بھی خوب رہی۔ وہ بتاتے ہیں:
ایک مرتبہ انڈیا میں پرفارم کرنے گیا۔ وہاں سیٹ پر کسی نے آکر بتایا کہ مادھوری ڈکشٹ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ اسے محض اتفاق کہہ لیں کہ میں ان سے واقف نہ تھا۔ مجھے تو بعد میں یہ معلوم ہوا کہ مادھوری ہندوستانی فلموں کی مقبول ترین اداکارہ ہیں ۔ وہ بہت محبت سے ملیں اور مجھ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے، میری آواز اور اندازِ گائیکی کی تعریف کی۔ انہوں نے بتایاکہ وہ میرے گانے بہت شوق سے سنتی ہیں اور میری گائیکی کے البمز ہر وقت اپنی کار میں رکھتی ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اپنے وقت کی مقبول ترین فلمی ہیروئن یوں مجھ سے ملنے آئیں اور مجھے سراہا۔
قارئین! اس سطر میں جس گیت کا اشارہ ہے، وہ یقیناً اس وقت آپ کے لبوں پر ہو گا۔
ہوا ہوا! اے ہوا، خوش بُو لٹا دے
میں اس سے ملوں گا، اک بار ملا دے
یار ملا دے، دل دار ملا دے۔۔۔
80 کی دہائی میں اپنی خوب صورت آواز اور منفرد انداز کی بدولت حسن جہانگیر نے سبھی کو اپنا دیوانہ بنا لیا۔ ان کی شہرت راتوں رات سات سمندر پار پہنچ گئی۔ جب اپنے ایک گیت میں انہوں نے ''یاروں'' کو ''شادی نہ کرنے'' کا مشورہ دیا اور سُر، ساز کے ساتھ اپنی خوب صورت آواز میں اس کی وجہ بتائی تو پرستاروں کو جیسے یقین ہو گیا کہ وہی ان کے سچّے اور مخلص دوست ہیں۔ اس گانے کے بول آپ کے ذہن میں بھی تازہ ہو گئے ہوں گے۔
شادی نہ کرنا یارو، پچھتاؤ گے ساری لائف۔۔۔
جی ہاں! یہ اپنے وقت کے مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔
حسن جہانگیر کے البم ریکارڈ تعداد میں خریدے گئے۔ عوام میں بے پناہ مقبول حسن جہانگیر مہاراجہ آف گوالیار، مدر آف سندیا کے مہمانِ خصوصی بننے کے ساتھ چین، بنگلا دیش، موزمبیق کے سربراہوں کی دعوت پر ان کے ہاں اسٹیٹ گیسٹ کی حیثیت سے قیام کرچکے ہیں۔
''بھلا نہ سکے'' کے ذیل میں حسن جہانگیر کی باتیں قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔
غزل گائیکی کے بے تاج بادشاہ مہدی حسن سے جڑی اپنی ایک یاد انہوں نے کچھ اس طرح بیان کی:
یہ ڈھائی برس پرانی بات ہے۔ خان صاحب کو اپنے ایک ہاتھ میں تکلیف محسوس ہوئی تو ہم نے معروف آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر محمد علی شاہ سے ان کے معائنے کا وقت لیا۔ انہیں ناظم آباد لے جانا تھا اور یہ ذمے داری میں نے نبھائی۔ وہ میری کار میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے جب کہ پچھلی نشست پر ان کے شاگرد فیصل ندیم موجود تھے۔ ہم اسپتال پہنچے، وہاں سے واپسی پر ہمارے درمیان موسیقی، آواز اور انداز پر گفت گو ہونے لگی اور میں نے ایک گانے کا ذکر کردیا، جس کا اثر ایسا تھا کہ خان صاحب آب دیدہ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر میں نے باتوں کا رخ بدل دیا۔ فیصل ندیم نے بھی ماحول تبدیل کرنے کی غرض سے ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں اور اسی دوران خان صاحب سے پوچھاکہ ہندوستان میں لوگ حسن جہانگیر کے بارے میں آپ سے کیا کہتے ہیں؟ اس پر وہ مسکرائے اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے:
''ہندوستانی تمہاری آواز، گانوں اور انداز کے دیوانے ہیں۔ وہاں میرے ملاقاتی پوچھتے ہیں، کیا حسن جہانگیر آپ کا بیٹا ہے؟ تمہارا گانا ''ہوا ہوا'' تو سبھی کو یاد ہے، وہ اسے گاتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔'' یہ بات ہر فن کار کی طرح حسن جہانگیر کے لیے بھی خوشی کا باعث تھی، لیکن دوسرے ہی لمحے یہ خوشی معمولی اور شاید غیر اہم بھی ہو گئی۔ وہ لمحہ ہی ایسا تھا۔ اس کے آگے سب کچھ بے معنی لگ رہا تھا۔ شہنشاہِ غزل نے ان سے کہا۔
''تم 'ہوا ہوا' کا ری مکس بناؤ، کچھ اس طرح کہ میں بھی اس میں اپنی آواز ملا سکوں۔''
حسن جہانگیر کے لیے اُن کا یہ کہنا دنیا کے ہر اعزاز سے بڑھ کر تھا۔ آج بھی وہ اسی مسرت اور خوشی کے احساس سے سرشار ہیں، جو پہلی مرتبہ انہیں محسوس ہوئی تھی۔
اس بابت حسن جہانگیر نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
''اس وقت یوں لگا جیسے کائنات میری مٹھی میں ہے۔ مجھے سب کچھ مل گیا ہے۔
اپنی یاد پٹاری سے ایک اور خوش گوار واقعہ انہوں نے کچھ اس طرح بیان کیا:
یہ کم و بیش تیس برس پرانی بات ہے۔ اُن دنوں میں خود کو منوانے کے لیے تگ و دو کر رہا تھا اور گائیکی کی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کا خواہش مند تھا۔ اُس زمانے میں ریڈیو کی بہت زیادہ اہمیت تھی اور اسے ایک بڑی درس گاہ تصور کیا جاتا تھا۔ میں اسٹیج کے ذریعے ابتدائی دنوں میں ہی سب کو اپنی جانب متوجہ کر چکا تھا اور ریڈیو پاکستان پر پروگرام 'بزمِ طلباء' میں پرفارم کر کے اپنی جگہ بنالی تھی۔ ایک دن ریڈیو پر احمد رشدی صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ اُن جیسا بڑا گائیک مجھے پہچاننے لگا تھا۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو رک گئے اور کہا کہ آج رات کو یہاں ایک تقریب ہے، تم ضرور آنا اور پرفارم بھی کرنا۔ اُن کی بات میں کیسے ٹال سکتا تھا، فوراً ہامی بھر لی۔ ان کا مجھ سے مخاطب ہونا اور پروگرام میں گانے کی دعوت دینا میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔ خیر، یہ کہہ کر وہ اپنی بائیک کی طرف بڑھے، لیکن چند قدم چلنے کے بعد اچانک پلٹے اور کہا:
'اب تم کہاں جاؤ گے؟ میں گلبرگ جارہا ہوں، میرے ساتھ چلو۔' ان دنوں میں میری رہائش بھی گلبرگ میں تھی۔ میری خوشی کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ فوراً ان کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔ شاید یہ کسی کے لیے اتنی اہم اور قابلِ ذکر بات نہ ہو، لیکن وہ میری زندگی کا بیش قیمت اور یادگار دن تھا، جب نے میں رشدی صاحب کے ساتھ ان کی موٹر سائیکل پر سفر کیا۔
حسن جہانگیر نے معروف اداکار معین اختر سے جڑی ایک یاد ہم سے یوں بیان کی:
مجھے معین بھائی کا ساتھ بھی نصیب ہوا۔ ان کے ساتھ کئی پروگرام کرنے کا موقع ملا اور اس دوران میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ہم کئی مرتبہ انٹرنیشنل ٹور پر ایک ساتھ گئے۔ ایک مرتبہ معین بھائی کو جاپان جانا تھا۔ میں متعدد مرتبہ وہاں جا چکا تھا اور سفارت خانے کو مطلوب دستاویزات، وہاں کے مختلف معاملات اور مسائل سے خوب واقف تھا۔ میں نے نہ صرف معین بھائی کے تمام سفری معاملات نمٹائے بلکہ سفارت خانے میں ان کا ضامن بھی بنا۔ میں نے اُن کے ضامن کی حیثیت سے اپنا کریڈٹ کارڈ نمبر اور دوسری معلومات سفارت خانے کو فراہم کیں۔ یہ سب میری زندگی کی خوش گوار یادیں ہیں۔ سب مجھے جادوگر کہتے تھے۔ اس کی وجہ میرا ہر قسم کے معاملات نمٹانے میں آگے آگے رہنا ہے۔ معین بھائی بھی مجھے جادوگر کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
بولی وڈ کی مقبول ترین اداکارہ مادھوری ڈکشٹ سے حسن جہانگیر کی پہلی ملاقات بھی خوب رہی۔ وہ بتاتے ہیں:
ایک مرتبہ انڈیا میں پرفارم کرنے گیا۔ وہاں سیٹ پر کسی نے آکر بتایا کہ مادھوری ڈکشٹ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔ اسے محض اتفاق کہہ لیں کہ میں ان سے واقف نہ تھا۔ مجھے تو بعد میں یہ معلوم ہوا کہ مادھوری ہندوستانی فلموں کی مقبول ترین اداکارہ ہیں ۔ وہ بہت محبت سے ملیں اور مجھ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے، میری آواز اور اندازِ گائیکی کی تعریف کی۔ انہوں نے بتایاکہ وہ میرے گانے بہت شوق سے سنتی ہیں اور میری گائیکی کے البمز ہر وقت اپنی کار میں رکھتی ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اپنے وقت کی مقبول ترین فلمی ہیروئن یوں مجھ سے ملنے آئیں اور مجھے سراہا۔