شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
سعودی عرب میں نوّے لاکھ غیرملکی محنت کش مقیم ہیں جب کہ سعودی عرب کی کل آبادی دو کروڑ ستر لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
یکم اپریل 2013 کو سعودی عرب نے غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے لئے عام معافی کا اعلان کیا تھا جِس کے تحت پاکستانی شہریوں سمیت لاکھوں غیر ملکیوں کو 3جولائی تک ملک چھوڑ دینے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں، بہ صورت دیگر ایک لاکھ روپے جرمانہ اور دو سال تک قید بامشقت کی دھمکی دی گئی تھی۔
سعودی روزنامے عکاظ میں شائع ہوئی ایک رپورٹ میں سعودی پاسپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان بدر مالک نے کہا تھا کہ اپریل کے بعد ایک لاکھ 80 ہزار سے زیادہ غیر ملکی سعودی عرب سے چلے گئے تاہم اب بھی ملک میں 20 لاکھ مزدور غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں 80 لاکھ غیر ملکی تارکین کام کرتے ہیں جب کہ 20 لاکھ غیرقانونی کارکن اس کے علاوہ ہیں۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے غیرملکی کارکنوں کی تعداد میں کمی کا یہ قدم اپنے بے روزگار شہریوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے اٹھایا تھا کیوں کہ سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق 4 نومبر کو شروع ہونے والے کریک ڈاؤن میں اب تک سعودی عرب کی شاہی سیکیورٹی فورسز ہزاروں غیرقانونی کارکنوں کو ملک بھر سے گرفتار کرچکی ہیں، صرف مکہ کے صوبے سے پانچ ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اس بات کا اعلان سعودی وزیر محنت کی طرف سے کیا گیا تھا کہ سعودی عرب سے غیر قانونی تارکین وطن کے لیے رضاکارانہ اپنے ملکوں کو واپسی کی دستاویزات کو قانونی شکل دینے کے لیے تین ماہ کی مہلت 4 نومبر 2013 کو ہو گئی ہے۔ اس مہلت کے حوالے سے جنگ زدہ ملک شام کے شہریوں کو استثنیٰ حاصل تھا لیکن بعد میں سعودی حکومت نے متعلقہ ملکوں کی درخواست اور انسانی بنیادوں پر اس مہلت میں چار ماہ کی توسیع کر دی تھی۔ اس مہلت کے خاتمے کے بعد سعودی وزارت محنت کے ترجمان خطاب العنزی نے یہ واضح کردیا کہ حکومت کا اس مہلت میں مزید اضافے کا کوئی ارادہ نہیں۔
اس سے قبل وزارت محنت نے اعلان کیا تھا کہ جو سعودی یا غیر سعودی شہری کسی غیر قانونی تارک وطن کو پناہ دے گا، اس کو دوسال قید یا ایک لاکھ سعودی ریال کا جرمانہ کیا جاسکتا ہے، یہ دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جاسکتی ہیں۔ اس کے بعد ترجمان نے کہا کہ ہم گھروں کے اندر گھس کر ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وزارت محنت نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جو غیر ملکی سعودی عرب میں اپنے کام اور قیام کو قانونی شکل دینے کی کوشش کررہے ہیں، انہیں بھی گرفتار نہیں کیا جائے گا۔اس طرح سات مہینوں کی مہلت کے دوران چوبیس لاکھ تارک وطن محنت کشوں نے جرمانوں سے بچنے کے لیے اپنے ویزوں کی نوعیت تبدیل کرائی جب کہ نو لاکھ نے اپنے ختم ہوجانے والے ویزوں کی مدت میں توسیع کرائی تھی۔
مہلت ختم ہوتے ہی سعودی عرب کے شہری اور رہائشی جب 5 نومبر کی صبح کو بیدار ہوئے تو انہیں زندگی مفلوج محسوس ہونے لگی، اس لیے کہ غیرقانونی تارکینِ وطن گرفتاریوں کے خوف سے اپنے گھروں سے باہر ہی نہ نکلے اور سعودیوں کے لیے ناشتہ تک بنانے والا کوئی خدمت گار موجود نہیں تھا۔ اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں، جہاں ہر طرف ہر وقت چہل پہل اور بھاگ دوڑ سی محسوس ہوتی ہے، وہ مہلت ختم ہو نے کے بعد ماند پڑ چکی تھی۔ اسی طرح تعمیراتی کام کی رفتار بھی دھیمی پڑ گئی جب کہ تقریباً پورے ملک میں بیکریاں بند رہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ لکھتا ہے کہ سڑکوں پر لوگوں کی بہت ہی کم تعداد نظر آئی، ٹیکسیاں خاصی کم تھیں، ٹیکسی ڈرائیور منہ مانگے دام وصول کر رہے تھے، مارکیٹیں ویران پڑی تھیں اور بہت سے تجارتی اداروں اور اسپتالوں میں لوگ کام پر ہی نہیں آئے۔
ایک سعودی شہری نے صورت حال کاخلاصہ یوں بیان کیا ''ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک غیرقانونی تارکین وطن سے بھرا ہوا تھا، دکانیں بند ہیں، سڑکیں اور ریسٹوران خالی پڑے ہیں، میں نے خودگنتی کی تو سڑک پرموبائل فون کی تیس دکانیں بند تھیں، خدا ہماری مدد کرے اس شہر کے لوگ کہاں چلے گئے ہیں''؟ سعودی عرب کے جنوب مغرب میں یمن کی سرحد کے ساتھ واقع جیزان صوبے کا دارالحکومت جازان اقتصادی لحاظ سے سعودی عرب کا اہم ترین شہر مانا جاتا ہے، یہاں لوگوں کی ایک بڑی تعدادکا کہنا تھا کہ وہ صبح اپنے کام پر بغیر استری کیے ہوئے کپڑے پہن کر نکلے، اس لیے کہ زیادہ تر لانڈریاں بند تھیں۔ جازان کے محمد قسیم نے عرب نیوز کو بتایا ''جب میں نے دیکھا کہ لانڈری کے دروازے بند ہیں اور میرے کپڑے بھی لانڈری والوں کے پاس ہیں، تو میرے لیے کوئی چارہ نہ تھا کہ میں خود ہی اپنے کپڑے دھوکر استری کرکے پہنوں۔''
سعودی زندگی میں غیرملکی کارکنوں کی اس قدر بڑی تعداد کام کرتی ہے، اس کا اندازہ سعودی شہریوں کو ہوچکا تھا، ان کے لیے گویا زندگی ٹھہر سی گئی تھی، یہاں تک کہ مردے بھی اس کریک ڈاؤن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جدہ میں مردوں کو نہلانے والے اداروں میں سے 13 کے قریب بند تھے، اس لیے کہ ان میں کام کرنے والے کارکن نہیں پہنچ سکے تھے۔ غسلِ میت کے ایک فلاحی ادارے کے ڈائریکٹر محمد فوزے مولاوی نے بتایا کہ وہ لوگ، جو مردوں کو نہلاتے تھے یا ڈرائیور تھے یا پھر کچھ انتظامی امور سے متعلق کام کرتے تھے، ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا ہے، نتیجتاً کام بالکل بند رہا۔ بہت سے لوگ اپنے عزیزوں کی میتوں کو انہیں غسل دینے کے لیے جدہ سے مکہ لے کر جا رہے تھے۔
داخلہ و محنت کی وزارتوں کے حکام کا کہنا تھا کہ اب تک مکہ، مدینہ، ریاض، طائف، حیل، جازان، قاسم، نجران اور آصر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ عرب نیوز فرنٹیئر گارڈ کے ذرائع کا حوالہ دے کر لکھتا ہے کہ صرف جازان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آٹھ ہزار سے زیادہ غیرقانونی تارکین وطن کو گرفتار کیا اور سعودی عرب میں غیرقانونی طور پر قیام کرنے والے تین ہزار افراد کو یمن سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ مدینہ پولیس کے سربراہ میجر جنرل سعود بن عود الاحمدی کے مطابق مدینہ میں روڈ سیفٹی اور کریمینل انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی خصوصی فورسز نے تقریباً سات سو بیس غیرقانونی تارکین وطن کو اپنی حراست میں لیا۔ دارالحکومت ریاض میں عینی شاہدین کے بیان کے مطابق اقتصادی طور پر ابھرتے ہوئے شہر اولایا کے تجارتی علاقوں میں کارکنوں سے حکام نے ان کے ویزوں اور اقاموں کے بارے میں سوالات کیے اور البطحا شہر میں بھی بہت سی دکانیں بند رہیں۔ اس امر سے تعمیراتی صنعت بہت زیادہ متاثر ہوئی، اس لیے کہ گرفتاری کے ڈر سے فیلڈ انجنیئر اپنی جاب سائیٹ پر واپس ہی نہیں آئے تھے۔
کئی شہروں کی گلیاں مکمل خاموش نظر آئیں جب کہ دارالحکومت ریاض میں ٹریفک کے غیر معمولی رش کے اوقات میں بھی ٹریفک میں کمی کا تاثر رہا۔ اس موقع پر مارکیٹیں اور دکانیں بھی متعدد مقامات پر بند رہیں۔ ریاض میں یہ مناظر بھی دیکھنے میں آئے کہ جیسے ہی پولیس کی گاڑیوں نے ہوٹر بجائے بھگ دڑ مچ گئی۔ ایک شامی باشندے ابو صفوات نے، جس کی سپئیر پارٹس کی دکان ہے، اس صورت حال کو گھٹیا قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج اس کی دکان پر کوئی گاہک نہیں آیا۔ ایک ویزا آفس کے باہر لمبی قطار لگی ہوئی تھی، جس کا یہ مطلب ہے کہ لوگ اضافی فیس اور کسی مشکل سے پیشگی بچنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔
4 نومبر کے بعد سعودی عرب سے تارکین وطن کی مسلسل واپسی کا عمل جاری وساری ہے اور سعودی باشندے اپنے خدمت گاروں کو واپس جاتے ہوئے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سعودی عرب کے متعدد شہروں میں تارکین وطن کی وجہ سے قائم رہنے والی چہل پہل بہ تدریج ختم ہو رہی ہے۔ اکثر شہروں کی حالت کچھ یوں ہو گئی ہے جیسے ان پر سے کوئی آسیب گذر گیا ہو اور اب سب کچھ پتھرایا ہوا ہے۔ وہاں سے وطن واپس آئے افراد کا کہنا ہے کہ ایک نہ ایک دن سعودیوں کو اپنے خدمت گار واپس بلانا ہی پڑیں گے، یہ نئی صورت حال تارکین وطن کے لیے تو چیلنج ہے ہی، دیکھنا یہ ہے کہ خدمت گاروں کی عادی سعودی قوم اس نئی صورت حال سے کس طرح نبردآزما ہوگی۔
آٹھ لاکھ پاکستانیوں کو قانونی قرار دلوایا گیا، پاکستانی سفیر
سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے تقریباً 8 لاکھ پاکستانیوں کو 4 نومبر 2013 کو حکومت پاکستان کی جانب سے سہولت فراہم کی گئی۔ ملک بدری کی ڈیڈلائن ختم ہونے سے قبل ویزوں کی تجدید کرانے کے بعد وہاں کام کرنے والوں کو قانونی حیثیت دی گئی۔ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر محمد نعیم خان نے عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب تک کل 7 لاکھ 29ہزار 932 پاکستانی ہنرمند اس اسکیم سے فائدہ حاصل کرچکے ہیں۔ 3 لاکھ 96 ہزار 152 افراد اپنی اسپانسر شپ اور 3 لاکھ 33 ہزار 780 افراد سعودی عرب میں اپنے پیشے کو قانونی حیثیت دے چکے ہیں۔ ہمارا تجزیہ بتاتا ہے کہ اگر ہم سعودی عرب آنے والے حج اور عمرے کے خواہش مند افراد اور ذاتی گھریلو ملازمین کو بھی شامل کرلیں تو تقریباً 800,000 افراد نے اپنا اسٹیٹس درست کر لیا ہے۔ نعیم خان نے ان اقدامات پر سعودی عرب کی حکومت ، وزارتِ داخلہ اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ''یہ ہمارے اہداف حاصل کرنے اور اپنے باشندوں کو قانونی حیثیت دلانے کے ضمن میں اہم کام یابی تھی''۔ انہوں نے کہا کہ جن افراد نے اپنا اسٹیٹس درست نہیں کرایا، ان کے لیے ہم ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد ایک نئی رجسٹریشن مہم شروع کریں گے، جس میں ہم ان لوگوں کو سہولیات اور مدد فراہم کریں گے جو حالیہ مدت سے فائدہ نہیں اْٹھا پائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سفارت خانے نے پوری ریاست میں 80 کے قریب فوکل پوائنٹس قائم کیے ہیں، جہاں غیر قانونی طور پر کام کرنے والے مزدور سفارت خانے سے رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ ملازمت تلاش کرنے کے لیے جدہ میں قونصل خانۂ عمومی اور سفارت خانے سے ضرور رابطہ کریں۔ سعودی قوانین میں دی جانے والی نئی چھوٹ کے مطابق جو افراد 6 اپریل کے بعد ریاست میں فری لانسر کے طور پر آئے ہیں یا وہ، جنہیں، مفرور ملازم کہا جاتا ہے، وہ اس چھوٹ ( ایمنیسٹی) میں نہیں آئے تھے لیکن ان کو بھی سفارت خانے سے رجسٹر ہونا ضروری ہے اور وہ اس میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کریں اور فوری طور پر فوکل پوائنٹ سینٹرز سے رابطہ کریں۔ عمرہ اور حج کے بعد زیادہ مدت تک رک جانے والے ایسے پاکستانی، جن کے پاس کاغذات نہیں اور یہاں تک کہ ان کے فنگر پرنٹس بھی نہیں لیے گئے، وہ بھی فوری طور پر پاکستانی سفارت خانے سے رجوع کریں! ان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا بہ صورت دیگر ان افراد کو قید اور جرمانوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر کارکنوں کو بھرتی کرنے والے افراد کو ایک لاکھ ریال یا دو سال قید یا دونوں سزائوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب میں متعین پاکستان کے سفیر محمد نعیم خان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن جنہیں کفیل کی تلاش ہے، ان کی بھی بھرپور معاونت کی جائے گی۔
کریک ڈاؤن
سعودی وزارت داخلہ اور وزارت محنت نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن کے دوران ملک بھر سے ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا ہے، اب تک صرف جدہ شہر سے 1899 کو گرفتارکیا گیا ہے، جن میںخواتین کی بھی بڑی تعداد ہے، دوسرا شہر سامتا ہے، جہاں سے 2200 غیر ملکیوں کو دو دنوں میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔ جدہ پولیس کے سربراہ میجر جنرل عبداللہ القحطانی، جو اس آپریشن کی جدہ میں نگرانی کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں دکانوں، کمپنیوں اور فیکٹریوں کا بھی معائنہ کیا جا سکتا ہے تاہم یہ شعبہ وزارتِ محنت کے تحت آتا ہے۔ العربیہ کے ذرائع کے مطابق حکومت نے غیر قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن کے خلاف یہ آپریشن بغیر کسی تخصیص کے پورے سعودی عرب میں شروع کر رکھا ہے، اس لیے اس کی زد میں تمام صنعتی و غیر صنعتی مراکز آ رہے ہیں۔ اس آپریشن میں تمام متعلقہ سرکاری ایجنسیاں اور ادارے باہم رابطے میں ہیں۔
غیر قانونی تارکین وطن کو ویزے میں دی گئی چھوٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد پولیس کا آپریشن جاری ہے۔ کریک ڈاون کے دوران پولیس اورغیر قانونی تارکین وطن میں تصادم کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ریاض کے قریب ضلع منفوحہ میں غیر قانونی تارکین وطن اور پولیس کے درمیان تصادم ہواہے۔ اقامہ کی مدت پوری ہونے کے باوجودارالحکومت میں مقیم افرادنے پولیس پر پتھراؤ کیا جب کہ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔ ہنگامہ آرائی میں زیادہ تر افریقی باشندے ملوث تھے۔ سعودی عرب میں حکام کا کہنا ہے کہ غیر ملکی ملازمین اور پولیس کے درمیان تصادم میں دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں جب کہ متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ ہلاک ہونے والے دو افراد میں سے ایک شخص کا تعلق سعودی عرب سے ہے جب کہ دوسرے کی شناخت نہیں ہو سکی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں 70 افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ 560 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ سعودی سیکیورٹی فورسز حفاظتی لباس میں ہیں اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ڈنڈوں کا استعمال کر رہی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جب غیر ملکی مظاہرین نے فسادات برپا کرنے کی کوشش کی، سعودی باشندوں پر حملے کیے اورغیر ملکی باشندوں کو پتھروں اور چاقوؤں کے واروں سے جب زخمی کیا تو انھوں نے انھیں روکنے کی کوشش کی۔ عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا کہ سینکڑوں بچے، خواتین اور مردوں کو پولیس حراست میں لے کر انھیں ان کے ممالک بھیج رہی ہے۔ سعودی عرب میں کام کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ کسی سعودی باشندے یا ادارے سے کفالت حاصل کی جائے۔ بہت سے لوگ عمرہ اور حج کے ویزوں پر یہاں آ کر روپوش ہوجاتے ہیں، دوسرے ایسے لوگ جو ایک کفیل کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے پاس ملازمت کرلیتے ہیں، ان کو بھی غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں نوّے لاکھ غیرملکی محنت کش مقیم ہیں جب کہ سعودی عرب کی کل آبادی دو کروڑ ستر لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
سعودی روزنامے عکاظ میں شائع ہوئی ایک رپورٹ میں سعودی پاسپورٹس ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان بدر مالک نے کہا تھا کہ اپریل کے بعد ایک لاکھ 80 ہزار سے زیادہ غیر ملکی سعودی عرب سے چلے گئے تاہم اب بھی ملک میں 20 لاکھ مزدور غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب میں 80 لاکھ غیر ملکی تارکین کام کرتے ہیں جب کہ 20 لاکھ غیرقانونی کارکن اس کے علاوہ ہیں۔ یاد رہے کہ سعودی عرب نے غیرملکی کارکنوں کی تعداد میں کمی کا یہ قدم اپنے بے روزگار شہریوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے اٹھایا تھا کیوں کہ سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق 4 نومبر کو شروع ہونے والے کریک ڈاؤن میں اب تک سعودی عرب کی شاہی سیکیورٹی فورسز ہزاروں غیرقانونی کارکنوں کو ملک بھر سے گرفتار کرچکی ہیں، صرف مکہ کے صوبے سے پانچ ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق اس بات کا اعلان سعودی وزیر محنت کی طرف سے کیا گیا تھا کہ سعودی عرب سے غیر قانونی تارکین وطن کے لیے رضاکارانہ اپنے ملکوں کو واپسی کی دستاویزات کو قانونی شکل دینے کے لیے تین ماہ کی مہلت 4 نومبر 2013 کو ہو گئی ہے۔ اس مہلت کے حوالے سے جنگ زدہ ملک شام کے شہریوں کو استثنیٰ حاصل تھا لیکن بعد میں سعودی حکومت نے متعلقہ ملکوں کی درخواست اور انسانی بنیادوں پر اس مہلت میں چار ماہ کی توسیع کر دی تھی۔ اس مہلت کے خاتمے کے بعد سعودی وزارت محنت کے ترجمان خطاب العنزی نے یہ واضح کردیا کہ حکومت کا اس مہلت میں مزید اضافے کا کوئی ارادہ نہیں۔
اس سے قبل وزارت محنت نے اعلان کیا تھا کہ جو سعودی یا غیر سعودی شہری کسی غیر قانونی تارک وطن کو پناہ دے گا، اس کو دوسال قید یا ایک لاکھ سعودی ریال کا جرمانہ کیا جاسکتا ہے، یہ دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جاسکتی ہیں۔ اس کے بعد ترجمان نے کہا کہ ہم گھروں کے اندر گھس کر ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وزارت محنت نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ جو غیر ملکی سعودی عرب میں اپنے کام اور قیام کو قانونی شکل دینے کی کوشش کررہے ہیں، انہیں بھی گرفتار نہیں کیا جائے گا۔اس طرح سات مہینوں کی مہلت کے دوران چوبیس لاکھ تارک وطن محنت کشوں نے جرمانوں سے بچنے کے لیے اپنے ویزوں کی نوعیت تبدیل کرائی جب کہ نو لاکھ نے اپنے ختم ہوجانے والے ویزوں کی مدت میں توسیع کرائی تھی۔
مہلت ختم ہوتے ہی سعودی عرب کے شہری اور رہائشی جب 5 نومبر کی صبح کو بیدار ہوئے تو انہیں زندگی مفلوج محسوس ہونے لگی، اس لیے کہ غیرقانونی تارکینِ وطن گرفتاریوں کے خوف سے اپنے گھروں سے باہر ہی نہ نکلے اور سعودیوں کے لیے ناشتہ تک بنانے والا کوئی خدمت گار موجود نہیں تھا۔ اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں، جہاں ہر طرف ہر وقت چہل پہل اور بھاگ دوڑ سی محسوس ہوتی ہے، وہ مہلت ختم ہو نے کے بعد ماند پڑ چکی تھی۔ اسی طرح تعمیراتی کام کی رفتار بھی دھیمی پڑ گئی جب کہ تقریباً پورے ملک میں بیکریاں بند رہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ لکھتا ہے کہ سڑکوں پر لوگوں کی بہت ہی کم تعداد نظر آئی، ٹیکسیاں خاصی کم تھیں، ٹیکسی ڈرائیور منہ مانگے دام وصول کر رہے تھے، مارکیٹیں ویران پڑی تھیں اور بہت سے تجارتی اداروں اور اسپتالوں میں لوگ کام پر ہی نہیں آئے۔
ایک سعودی شہری نے صورت حال کاخلاصہ یوں بیان کیا ''ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک غیرقانونی تارکین وطن سے بھرا ہوا تھا، دکانیں بند ہیں، سڑکیں اور ریسٹوران خالی پڑے ہیں، میں نے خودگنتی کی تو سڑک پرموبائل فون کی تیس دکانیں بند تھیں، خدا ہماری مدد کرے اس شہر کے لوگ کہاں چلے گئے ہیں''؟ سعودی عرب کے جنوب مغرب میں یمن کی سرحد کے ساتھ واقع جیزان صوبے کا دارالحکومت جازان اقتصادی لحاظ سے سعودی عرب کا اہم ترین شہر مانا جاتا ہے، یہاں لوگوں کی ایک بڑی تعدادکا کہنا تھا کہ وہ صبح اپنے کام پر بغیر استری کیے ہوئے کپڑے پہن کر نکلے، اس لیے کہ زیادہ تر لانڈریاں بند تھیں۔ جازان کے محمد قسیم نے عرب نیوز کو بتایا ''جب میں نے دیکھا کہ لانڈری کے دروازے بند ہیں اور میرے کپڑے بھی لانڈری والوں کے پاس ہیں، تو میرے لیے کوئی چارہ نہ تھا کہ میں خود ہی اپنے کپڑے دھوکر استری کرکے پہنوں۔''
سعودی زندگی میں غیرملکی کارکنوں کی اس قدر بڑی تعداد کام کرتی ہے، اس کا اندازہ سعودی شہریوں کو ہوچکا تھا، ان کے لیے گویا زندگی ٹھہر سی گئی تھی، یہاں تک کہ مردے بھی اس کریک ڈاؤن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ جدہ میں مردوں کو نہلانے والے اداروں میں سے 13 کے قریب بند تھے، اس لیے کہ ان میں کام کرنے والے کارکن نہیں پہنچ سکے تھے۔ غسلِ میت کے ایک فلاحی ادارے کے ڈائریکٹر محمد فوزے مولاوی نے بتایا کہ وہ لوگ، جو مردوں کو نہلاتے تھے یا ڈرائیور تھے یا پھر کچھ انتظامی امور سے متعلق کام کرتے تھے، ان میں سے کوئی بھی نہیں آیا ہے، نتیجتاً کام بالکل بند رہا۔ بہت سے لوگ اپنے عزیزوں کی میتوں کو انہیں غسل دینے کے لیے جدہ سے مکہ لے کر جا رہے تھے۔
داخلہ و محنت کی وزارتوں کے حکام کا کہنا تھا کہ اب تک مکہ، مدینہ، ریاض، طائف، حیل، جازان، قاسم، نجران اور آصر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ عرب نیوز فرنٹیئر گارڈ کے ذرائع کا حوالہ دے کر لکھتا ہے کہ صرف جازان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آٹھ ہزار سے زیادہ غیرقانونی تارکین وطن کو گرفتار کیا اور سعودی عرب میں غیرقانونی طور پر قیام کرنے والے تین ہزار افراد کو یمن سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ مدینہ پولیس کے سربراہ میجر جنرل سعود بن عود الاحمدی کے مطابق مدینہ میں روڈ سیفٹی اور کریمینل انوسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ کی خصوصی فورسز نے تقریباً سات سو بیس غیرقانونی تارکین وطن کو اپنی حراست میں لیا۔ دارالحکومت ریاض میں عینی شاہدین کے بیان کے مطابق اقتصادی طور پر ابھرتے ہوئے شہر اولایا کے تجارتی علاقوں میں کارکنوں سے حکام نے ان کے ویزوں اور اقاموں کے بارے میں سوالات کیے اور البطحا شہر میں بھی بہت سی دکانیں بند رہیں۔ اس امر سے تعمیراتی صنعت بہت زیادہ متاثر ہوئی، اس لیے کہ گرفتاری کے ڈر سے فیلڈ انجنیئر اپنی جاب سائیٹ پر واپس ہی نہیں آئے تھے۔
کئی شہروں کی گلیاں مکمل خاموش نظر آئیں جب کہ دارالحکومت ریاض میں ٹریفک کے غیر معمولی رش کے اوقات میں بھی ٹریفک میں کمی کا تاثر رہا۔ اس موقع پر مارکیٹیں اور دکانیں بھی متعدد مقامات پر بند رہیں۔ ریاض میں یہ مناظر بھی دیکھنے میں آئے کہ جیسے ہی پولیس کی گاڑیوں نے ہوٹر بجائے بھگ دڑ مچ گئی۔ ایک شامی باشندے ابو صفوات نے، جس کی سپئیر پارٹس کی دکان ہے، اس صورت حال کو گھٹیا قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج اس کی دکان پر کوئی گاہک نہیں آیا۔ ایک ویزا آفس کے باہر لمبی قطار لگی ہوئی تھی، جس کا یہ مطلب ہے کہ لوگ اضافی فیس اور کسی مشکل سے پیشگی بچنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔
4 نومبر کے بعد سعودی عرب سے تارکین وطن کی مسلسل واپسی کا عمل جاری وساری ہے اور سعودی باشندے اپنے خدمت گاروں کو واپس جاتے ہوئے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سعودی عرب کے متعدد شہروں میں تارکین وطن کی وجہ سے قائم رہنے والی چہل پہل بہ تدریج ختم ہو رہی ہے۔ اکثر شہروں کی حالت کچھ یوں ہو گئی ہے جیسے ان پر سے کوئی آسیب گذر گیا ہو اور اب سب کچھ پتھرایا ہوا ہے۔ وہاں سے وطن واپس آئے افراد کا کہنا ہے کہ ایک نہ ایک دن سعودیوں کو اپنے خدمت گار واپس بلانا ہی پڑیں گے، یہ نئی صورت حال تارکین وطن کے لیے تو چیلنج ہے ہی، دیکھنا یہ ہے کہ خدمت گاروں کی عادی سعودی قوم اس نئی صورت حال سے کس طرح نبردآزما ہوگی۔
آٹھ لاکھ پاکستانیوں کو قانونی قرار دلوایا گیا، پاکستانی سفیر
سعودی عرب میں ملازمت کرنے والے تقریباً 8 لاکھ پاکستانیوں کو 4 نومبر 2013 کو حکومت پاکستان کی جانب سے سہولت فراہم کی گئی۔ ملک بدری کی ڈیڈلائن ختم ہونے سے قبل ویزوں کی تجدید کرانے کے بعد وہاں کام کرنے والوں کو قانونی حیثیت دی گئی۔ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر محمد نعیم خان نے عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب تک کل 7 لاکھ 29ہزار 932 پاکستانی ہنرمند اس اسکیم سے فائدہ حاصل کرچکے ہیں۔ 3 لاکھ 96 ہزار 152 افراد اپنی اسپانسر شپ اور 3 لاکھ 33 ہزار 780 افراد سعودی عرب میں اپنے پیشے کو قانونی حیثیت دے چکے ہیں۔ ہمارا تجزیہ بتاتا ہے کہ اگر ہم سعودی عرب آنے والے حج اور عمرے کے خواہش مند افراد اور ذاتی گھریلو ملازمین کو بھی شامل کرلیں تو تقریباً 800,000 افراد نے اپنا اسٹیٹس درست کر لیا ہے۔ نعیم خان نے ان اقدامات پر سعودی عرب کی حکومت ، وزارتِ داخلہ اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ''یہ ہمارے اہداف حاصل کرنے اور اپنے باشندوں کو قانونی حیثیت دلانے کے ضمن میں اہم کام یابی تھی''۔ انہوں نے کہا کہ جن افراد نے اپنا اسٹیٹس درست نہیں کرایا، ان کے لیے ہم ڈیڈلائن ختم ہونے کے بعد ایک نئی رجسٹریشن مہم شروع کریں گے، جس میں ہم ان لوگوں کو سہولیات اور مدد فراہم کریں گے جو حالیہ مدت سے فائدہ نہیں اْٹھا پائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سفارت خانے نے پوری ریاست میں 80 کے قریب فوکل پوائنٹس قائم کیے ہیں، جہاں غیر قانونی طور پر کام کرنے والے مزدور سفارت خانے سے رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانیوں پر زور دیا کہ وہ ملازمت تلاش کرنے کے لیے جدہ میں قونصل خانۂ عمومی اور سفارت خانے سے ضرور رابطہ کریں۔ سعودی قوانین میں دی جانے والی نئی چھوٹ کے مطابق جو افراد 6 اپریل کے بعد ریاست میں فری لانسر کے طور پر آئے ہیں یا وہ، جنہیں، مفرور ملازم کہا جاتا ہے، وہ اس چھوٹ ( ایمنیسٹی) میں نہیں آئے تھے لیکن ان کو بھی سفارت خانے سے رجسٹر ہونا ضروری ہے اور وہ اس میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کریں اور فوری طور پر فوکل پوائنٹ سینٹرز سے رابطہ کریں۔ عمرہ اور حج کے بعد زیادہ مدت تک رک جانے والے ایسے پاکستانی، جن کے پاس کاغذات نہیں اور یہاں تک کہ ان کے فنگر پرنٹس بھی نہیں لیے گئے، وہ بھی فوری طور پر پاکستانی سفارت خانے سے رجوع کریں! ان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا بہ صورت دیگر ان افراد کو قید اور جرمانوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر کارکنوں کو بھرتی کرنے والے افراد کو ایک لاکھ ریال یا دو سال قید یا دونوں سزائوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ سعودی عرب میں متعین پاکستان کے سفیر محمد نعیم خان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن جنہیں کفیل کی تلاش ہے، ان کی بھی بھرپور معاونت کی جائے گی۔
کریک ڈاؤن
سعودی وزارت داخلہ اور وزارت محنت نے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن کے دوران ملک بھر سے ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا ہے، اب تک صرف جدہ شہر سے 1899 کو گرفتارکیا گیا ہے، جن میںخواتین کی بھی بڑی تعداد ہے، دوسرا شہر سامتا ہے، جہاں سے 2200 غیر ملکیوں کو دو دنوں میں حراست میں لیا جا چکا ہے۔ جدہ پولیس کے سربراہ میجر جنرل عبداللہ القحطانی، جو اس آپریشن کی جدہ میں نگرانی کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں دکانوں، کمپنیوں اور فیکٹریوں کا بھی معائنہ کیا جا سکتا ہے تاہم یہ شعبہ وزارتِ محنت کے تحت آتا ہے۔ العربیہ کے ذرائع کے مطابق حکومت نے غیر قانونی طور پر رہنے والے تارکین وطن کے خلاف یہ آپریشن بغیر کسی تخصیص کے پورے سعودی عرب میں شروع کر رکھا ہے، اس لیے اس کی زد میں تمام صنعتی و غیر صنعتی مراکز آ رہے ہیں۔ اس آپریشن میں تمام متعلقہ سرکاری ایجنسیاں اور ادارے باہم رابطے میں ہیں۔
غیر قانونی تارکین وطن کو ویزے میں دی گئی چھوٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد پولیس کا آپریشن جاری ہے۔ کریک ڈاون کے دوران پولیس اورغیر قانونی تارکین وطن میں تصادم کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ریاض کے قریب ضلع منفوحہ میں غیر قانونی تارکین وطن اور پولیس کے درمیان تصادم ہواہے۔ اقامہ کی مدت پوری ہونے کے باوجودارالحکومت میں مقیم افرادنے پولیس پر پتھراؤ کیا جب کہ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔ ہنگامہ آرائی میں زیادہ تر افریقی باشندے ملوث تھے۔ سعودی عرب میں حکام کا کہنا ہے کہ غیر ملکی ملازمین اور پولیس کے درمیان تصادم میں دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں جب کہ متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ ہلاک ہونے والے دو افراد میں سے ایک شخص کا تعلق سعودی عرب سے ہے جب کہ دوسرے کی شناخت نہیں ہو سکی۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں 70 افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ 560 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ سعودی سیکیورٹی فورسز حفاظتی لباس میں ہیں اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ڈنڈوں کا استعمال کر رہی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جب غیر ملکی مظاہرین نے فسادات برپا کرنے کی کوشش کی، سعودی باشندوں پر حملے کیے اورغیر ملکی باشندوں کو پتھروں اور چاقوؤں کے واروں سے جب زخمی کیا تو انھوں نے انھیں روکنے کی کوشش کی۔ عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا کہ سینکڑوں بچے، خواتین اور مردوں کو پولیس حراست میں لے کر انھیں ان کے ممالک بھیج رہی ہے۔ سعودی عرب میں کام کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ کسی سعودی باشندے یا ادارے سے کفالت حاصل کی جائے۔ بہت سے لوگ عمرہ اور حج کے ویزوں پر یہاں آ کر روپوش ہوجاتے ہیں، دوسرے ایسے لوگ جو ایک کفیل کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے پاس ملازمت کرلیتے ہیں، ان کو بھی غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں نوّے لاکھ غیرملکی محنت کش مقیم ہیں جب کہ سعودی عرب کی کل آبادی دو کروڑ ستر لاکھ کے لگ بھگ ہے۔