زیادہ مہلک … سیاست یا ڈنگی

ڈنگی ایک بیماری سے زیادہ سماجی مسئلہ ہے


Abdul Qadir Hassan September 04, 2012
[email protected]

سیاست عروج کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن ڈنگی سیاست سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ بھی سیاست کی طر ح جان لیوا ہے مگر سیاست سے زیادہ تکلیف دہ ہے بلکہ اس کی باپ ہے۔ میں نے کوئی بڑے سے بڑا رستم ایسا نہیں دیکھا جو مچھر جیسی چھوٹی سی مکھی سے خوفزدہ نہ ہو بلکہ تاریخ تو ایک بادشاہ نمرود کا بتاتی ہے کہ ایک مچھر کسی طرح اس کے سر میں گھس گیا اور اس کی زندگی حرام کر دی۔ وہ روز کئی بار اپنے سر پر جوتے مرواتا تاکہ مچھر کی خارش میں کمی آسکے۔

میں تو بچپن سے ہی مچھر سے ہراساں رہا ہوں۔ گرمیوں کے موسم میں گائوں میں کسی کھلے صحن یا چھت پر سویا کرتے تھے اور صبح جب آنکھ کھلتی تو کسی چھت پر فوجی رنگ کی مچھر دانی دکھائی دیتی جس کا مطلب یہ ہوتا کہ اس گھر کا فوجی رات کو چھٹی پر گھر آیا ہے۔ فوجیوں کو حکم تھا کہ وہ مچھر سے بچیں اگر ملیریا بخار ہو جائے تو اس کی سزا ملتی تھی چنانچہ بچپن ہی سے یہ خوف دل میں بیٹھ گیا کہ مچھر گو بہت ضعیف سی شے ہے مگر انتہائی خطرناک ہے، اس سے بچ کر رہنا چاہیے لیکن تب مچھر کی وجہ سے ملیریا بخار ہوتا تھا جس کی ایک انتہائی کڑوی دوائی کونین ہوا کرتی تھی۔

ہم بچے مچھر سے زیادہ کونین سے ڈرتے تھے لیکن ملیریا کوئی بڑی خوفناک بیماری نہیں تھی لیکن اِن دنوں مچھر کی ایک خونخوار قسم ڈنگی متعارف ہوئی ہے جس سے عوام اور عوام سے زیادہ حکمران خوفزدہ ہیں، وزیر اعلیٰ شہباز شریف دیوانہ وار اس مچھر کے تعاقب میں ہیں اپنی کمزور انتظامیہ کے ساتھ۔ ان کی جگہ اگر میں ہوتا تو ایک بوتل میں ڈنگی مچھر ساتھ رکھتا اور کسی سرکاری اہلکار کو اس کی سُستی پر اس ڈنگی سے کٹوانے کی دھمکی دیتا۔ سب درست ہو جاتے۔

کوئی دو برس پہلے کی بات ہے کہ ایک ٹی وی پروگرام میں ہم نے ڈاکٹر جاوید اکرم کو بلایا تھا جنہوں نے ڈنگی کے خطرے سے متعارف کرایا اور بتایا کہ اگر اس کا انسداد نہ کیا گیا تو آیندہ برس یہ بڑی تباہی ہو گی چنانچہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اپنے سیاسی حریفوں کو بھول کر اس مچھر کے پیچھے پڑ گئے اور ایسے پڑے کہ اس سال بہت زیادہ بچت ہو گئی ہے۔

گزشتہ سال ان دنوں ایک ہزار سے زائد ڈنگی کے مصدقہ مریض اسپتال لائے گئے' ہزاروں مریض کسی بخار کی وجہ سے اسپتالوں میں آ رہے تھے۔ ایک ایسا خوف چھایا ہوا تھا کہ جیسے قیامت برپا ہے، پنجاب خصوصاً لاہور کے شہری بے حد پریشان تھے، خود میرے گھر میں ڈاکٹر صاحب اس کے مریض تھے اور اسپتال میں داخل لیکن اس سال ایسے مریضوں کی تعداد بیس پچیس سے زیادہ نہیں۔ گزشتہ سال کو عالمی اداروں کا اندازہ تھا کہ اگر حکومت سرگرم نہ ہو جاتی تو ایسے مریضوں کی اموات 25 ہزار تک ہو سکتی تھی۔

گزشتہ برس کے اقدامات اور وزیر اعلیٰ کی مسلسل کوششوں سے آج صورتحال بہت مختلف ہے جو اسپتال گزشتہ سال مریضوں سے بھرے پڑے تھے الحمدﷲ وہ خالی ہیں۔ گزشتہ اتوار کو ہفتہ وار چھٹی منسوخ کر دی گئی اس سے عوام کو اندازہ ہوا کہ وہ کس خطرے سے دوچار ہیں اور سُستی کی ہرگز گنجائش نہیں۔

دو برسوں کی کوششوں سے عوام بھی باخبر ہو گئے ہیں کہ اس مچھر سے بچنے کے طریقے کیا ہیں اور اس کے خاتمے کے حربے کیا ہیں۔ حکومت نے جو کوششیں کی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں خوف کی جگہ امید پیدا ہوئی ہے اور انھوں نے اس مچھر کا مقابلہ شروع کر دیا ہے۔ اللہ کی مرضی مچھر جیسی حقیر شے نے اس کے مقابلے میں لمبے تڑنگے انسان کو بے بس کر دیا ہے۔ حکومت کی کوششوں کا ذکر ضروری ہے تا کہ عوام یہ نہ سمجھیں کہ وہ تنہا ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں صوبائی وزراء، اراکین پنجاب اسمبلی اور متعلقہ محکموں کے اعلیٰ سرکاری افسران شامل ہیں۔ اس کمیٹی کا ہفتہ وار اجلاس منعقد ہوتا ہے جس کی صدارت وزیر اعلیٰ پنجاب خود کرتے ہیں یا ان کی غیرموجودگی میں معاون خصوصی وزیر اعلیٰ برائے صحت خواجہ سلمان رفیق کی سربراہی میں اجلاس منعقد ہوتا ہے۔

کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں ڈنگی کی روک تھام کے سلسلے میں مختلف محکموں کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اجلاس میں سینئر افسران اپنے محکموں کی کارکردگی کے بارے میں بریفنگ دیتے ہیں۔

محکمہ صحت پنجاب نے ڈنگی کنٹرول کے لیے علیحدہ شعبہ قائم کر دیا ہے۔ قبل ازیں اس سلسلے میں الگ شعبہ موجود نہیں تھا۔

محکمہ صحت کا قائم کیا گیا ڈنگی کنٹرول ونگ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ویکٹر بارن ڈیزیز کی سربراہی میں کام کر رہا ہے۔ اس شعبہ کے لیے علیحدہ اسٹاف بھرتی کیا گیا ہے جس میں ماہرین حشرات، سینٹری پٹرول اور دیگر ٹیکنیکل اسٹاف شامل ہے۔

ہر ٹائون میں ایک اینٹا مولوجسٹ (ماہر حشرات) تعینات کیا گیا ہے جس کی سرکردگی میں ڈنگی لاروے کی تلاش اور اسے تلف کرنے کے لیے ٹیمیں کام کر رہی ہیں اور ویکٹر سرویلنس اور لاروی سائیڈنگ کی سرگرمیاں مسلسل جاری ہیں۔

ان ٹیموں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ ڈنگی مچھر کے لاروے کی افزائش ابھی تک بہت محدود ہے اور ڈنگی کا مرض نہیں پھیلا۔

اسپتالوں میں ڈنگی مریضوں کے علاج معالجے کے لیے تمام انتظامات مکمل ہیں۔ ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس تمام اسپتالوں میں قائم کر دیے گئے ہیں۔

مرض کی تشخیص اور اس کے علاج کے لیے وزیر اعلیٰ نے پروفیسر فیصل مسعود کی سربراہی میں ڈنگی ایکسپرٹ اینڈ ایڈوائزری گروپ گزشتہ سال کے وباء کے موقعے پر تشکیل دیا تھا جو پوری طرح فنکشنل ہے۔

گزشتہ سال ڈنگی کی وباء کے موقعے پر مریضوں کے علاج کے لیے سرکاری اسپتالوں میں جو ضابطہ کار اور معیار (SOP) مقرر کیا گیا تھا اسے دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے۔

سری لنکا اور تھائی لینڈ کے ماہرین سے ڈنگی کے بارے میں بطور ماسٹر ٹرینر تربیت حاصل کرنے والے ڈاکٹرز، نرسز، ماہرین حشرات اور دیگر اسٹاف نے مقامی، سرکاری و نجی اسپتالوں کے ڈاکٹر و دیگر عملے کو تربیت فراہم کر دی ہے جس سے ڈنگی کے بارے میں ان کا علم اور ماہرانہ مہارت پہلے سے کہیں بہتر ہو گئی ہے۔

طبی ماہرین کی تربیت میں انسٹیٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ اور میڈیکل کالجوں و ٹیچنگ اسپتالوں کے پرنسپلز اور سینئر ڈاکٹرز نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔

ڈنگی ایک بیماری سے زیادہ سماجی مسئلہ ہے اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے بھرپور تشہری و آگاہی مہم پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے شروع کر رکھی ہے۔ علاوہ ازیں اس سلسلے میں آگاہی سیمینارز کا مسلسل انعقاد کیا جا رہا ہے۔ طلباء و طالبات کے ذریعے ڈنگی کی روک تھام کے بارے میں احتیاطی تدابیر پر مشتمل پیغام گھر گھر پہنچانے کے لیے مذکورہ سیمینارز تعلیمی اداروں میں بھی باقاعدگی سے منعقد کیے جا رہے ہیں۔

ڈنگی کے بارے میں اسکول کی سطح پر باقاعدہ ایک مضمون نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور تعلیمی اداروں میں زیرو پیریڈ منعقد کیا جاتا ہے اس خصوصی پیریڈ میں ڈنگی کے بارے میں طلباء کو آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔

ڈنگی کی روک تھام کے لیے ڈسٹرکٹ گورنمنٹ بھی بہت فعال کردار ادا کر رہی ہے کمشنر اور ڈی سی او ضلع کی سطح پر سرگرمیوں کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ پورے شہر کی اہم شاہراہوں پر عوام کو شعور اور آگاہی فراہم کرنے کے لیے بینرز اور فلیکس بورڈ آویزاں کیے گئے ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کی دن رات کی انتھک محنت، ذاتی نگرانی اور حکومت کے بھرپور اقدامات کی وجہ سے 2011ء کے مقابلے میں ڈنگی کا مرض انتہائی محدود ہے اور اب تک آٹھ ماہ کے دوران ڈنگی کے صرف 12 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ گزشتہ سال ان دنوں میں ان مریضوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں