معیشت مستحکم چیلنجز بے شمار

اقتصادی اور سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ اپوزیشن حکومت پرمعاشی دباؤڈالنے اوراپنی حکومت مخالف اسٹرٹیجی میں کامیاب رہی ہے۔


Editorial February 22, 2020
اقتصادی اور سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ اپوزیشن حکومت پرمعاشی دباؤڈالنے اوراپنی حکومت مخالف اسٹرٹیجی میں کامیاب رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر نے دو باتیں کی ہیں، دونوں کا تعلق ملکی معیشت واقتصادیات کے بدلتے منظر نامہ اور نتائج وعواقب سے ہے۔

ایک طرف ان کا کہنا ہے کہ معاشی پالیسیوں کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں، افراط زرکم ہونے کی امید ہے، آج ایسے حالات نہیں رہے، جن کا ایک سال قبل سامنا تھا، شرح مبادلہ مستحکم ہے، زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہو رہے ہیں، ایکسپورٹ میں اضافہ ہورہا ہے، بڑی صنعتوں کی پیداوار بڑھنا شروع ہوگئی ہے اور اب مقامی صنعتیں مشینری امپورٹ کررہی ہیں۔

دوسری طرف مقامی ہوٹل میں منعقدہ سی ای او سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے دھیمے انداز میں انتباہ کیا کہ کوئی ملک برآمدات بڑھائے بغیر ترقی نہیں کرسکتا ، پاکستان کی جی ڈی پی میں ایکسپورٹ کا تناسب 10 فیصد ہے،اس تناسب کے ساتھ پاکستان ، افغانستان، یمن سوڈان اور ایتھوپیا کے ساتھ کھڑا ہے۔

یوں انھوں نے زمینی اقتصادی حقائق کا جو چشم کشا تقابل پیش کیا وہ گنجینہ معنی کا گویا طلسم تھا جو ہر حوالہ سے حکمرانوں اور معاشی مسیحاؤں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، مرکزی بینک کے گورنر نے درحقیقت ملکی اقتصادیات اور مالیاتی صورتحال کے خوش آیند امکانات کی پیش رفتوں سے آگاہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک برآمدات کو آسان بنانے کے لیے سہولتیں فراہم کر رہا ہے، برآمدی صنعتیں 3 سے 6 فیصد شرح سود پر قرضے لے سکتی ہیں ، اسی طرح ایس ایم ایز کے لیے بھی 500 ارب روپے کے قرضے مخصوص ہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے معیشت کے بحران اور دیوالیہ ہونے کی افواہوں ، اور قیاس آرائیوں پر طنزاً اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک سال پہلے لوگ پاکستان کی معیشت کے بارے میں فکر مند تھے اب کوئی پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی بات نہیں کرتا۔ آج پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ ترقی کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان معاشی نموکے لیے اپنا کردار بخوبی انجام دے رہا ہے۔گورنر نے کہا کہ برآمدات میں پائیدار اضافہ کے لیے اسٹیٹ بینک سہولتیں فراہم کررہا ہے۔

ادھر میڈیا کے مطابق وزارت خزانہ نے وفاق کو آگاہ کیا ہے کہ موجودہ سال کے پہلے نصف حصے میں ملکی معیشت مستحکم ہوئی تو ہے تاہم بقیہ نصف میںسخت ناموافق حالات کا سامنا رہے گا، چیلنجز پیش آسکتے ہیں جس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے فوائد ضایع ہوسکتے ہیں، سیکریٹری خزانہ کامران بلوچ نے گزشتہ روز اپنی پریزنٹیشن میں وفاقی کابینہ کو جولائی تا دسمبر میں ملنے والی کامیابیوں اور آیندہ 6 ماہ کے دوران پیش آنے والے چیلنجز سے آگاہ کیا۔

کابینہ کو بتایا گیا کہ ایف بی آرکا ٹیکس ریونیو کے دوبارہ نظرثانی شدہ ہدف کے ساتھ ساتھ رواں مالی سال کیلیے مقررکردہ کردہ بجٹ خسارے کا ہدف بھی حاصل نہیں کر سکے گا، سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ ٹیکس وصولیوں میں نمایاں کمی، شرح مبادلہ میں تغیر پذیری اور صوبائی کیش سر پلس کے محدود ہونے کی وجہ سے میکروانڈیکیٹرز متاثر ہوسکتے ہیں ،یہ بات قابل غور ہے کہ وزارت خزانہ نے پہلی بار پبلک فنانس مینیجمنٹ ایکٹ2019 کے تحت وسط مدتی رپورٹ کابینہ کو پیش کی ہے۔

تاہم پیداشدہ معاشی صورتحال ایک مربوط معاشی نظام کی طرف سفرکرنے کا عندیہ نہیں دے سکی ہے۔ معاشی مبصرین کاکہنا کہ ایسا لگتا ہے حکومت کے اقتصادی ٹروبل شوٹرزکسی انجانی '' گولی سے بچنے'' کی مسلسل کوشش میں مصروف ہیں، کوئی منظم اقتصادی سمت سازی کا فقدان ہے ، حکومت کی کوشش تو عوام کو ریلیف مہیا کرنے کی ہے لیکن اس کے لیے جس اشتراک عمل، فکری ہم آہنگی، اقتصادی طور پر ایک پیج پر ہونے کی ادارہ جاتی میکنزم کی ضرورت ہے اس کا خلاء ابھی تک محسوس ہوتا ہے،چنانچہ مختلف فیصلے ایک دوسرے کی تردید، ابہام اور تکرار کا باعث بن رہے ہیں، ایک بے ترتیبی، افراتفری اور ایڈہاک ازم کا تاثر ابھرتا ہے، جس پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔

اطلاع یہ ہے کہ افغانستان سے تجارت کیلیے طورخم میں جدید انٹیگریٹڈ سسٹم پر کام شروع کیا جارہا ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون اور 18ارب کی لاگت سے منصوبہ2020 میں مکمل ہوگا،کارگو کلیئرنس کا جدید نظام وآلات نصب، میٹرویز تعمیر کرکے سی پیک سے منسلک کی جائیں گی اورلوگوں کو روزگار ملے گا، مگر ساتھ ہی یہ اطلاع بھی ذرایع سے آئی ہے کہ افغانستان جانے والے چینی سے لدے ٹرالر طورخم بارڈر سے واپس بجھوائے جارہے ہیں، اطلاع کتنی درست ہے اس کی شفاف تحقیقات ضروری ہے۔

دریں اثنا بیوروکریسی کی طرف سے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور مختلف حلقے معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں حکومت کے قوت فیصلہ پر دلچسپ بیانیہ کا سہارا لے رہے ہیں، ادھر آلو ، پیازاور ٹماٹر کی برآمد پرپابندی کا امکان ہے۔ آکسفورڈ اکنامکس کے ایک اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال میں پاکستان کی شرح نمو گھٹا کر 2.4فیصد کردی گئی ہے جب کہ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ 2020-22 اضافے کا سال ہوگا جب کہ شرح نمو3.6 فی صد ہوگی۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ مارکیٹ پر مبنی ایکس چینج ریٹ سے ایکسپورٹ کو فائدہ ہوا۔ پہلی ششماہی میں برآمدات کی مالیت میں 4.5 فیصد اضافی ہوا۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک برآمدات کو ورکنگ کیپیٹل 3 فیصد ہر فراہم کررہا ہے۔ برآمد کنندگان کو3 فیصد کی شرح پر ری فنانسنگ کی سہولت دی جارہی ہے۔ برآمد کنندگان کو طویل مدت کے لیے 5 سے 6 فیصد کی شرح پر ری فنانسنگ کی سہولت دی جارہی ہے۔

برآمدی قرضوں کی اسکیموں کے لیے 100/100 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا۔ایک برآمدی یونٹ کے لیے قرضے کی حد بھی دگنی کردی گئی۔اب کوئی بھی شعبہ برآمدات کے لیے قرضہ لے سکتا ہے۔ ایس ایم ایزکو سستے قرضے فراہم کیے جارہے ہیں۔500 ارب روپے کے قرضہ ایس ایم ایز کو جاری کیے جائیں گے۔ ایس ایم ایز دستاویزی شکل اختیار کرکے قرضوں کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔

اقتصادی اور سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ اپوزیشن حکومت پر معاشی دباؤڈالنے اور اپنی حکومت مخالف اسٹرٹیجی میں کامیاب رہی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی پیش قدمی میں بڑا فیکٹر عمران خان کا طرز حکمرانی ہے۔ ادھر دیکھا جائے تو حکومت معیشت ، سیاست، سفارت اور عالمی فورمز میں کامیابیاں سمیٹنے کا دعویٰ کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی ، اس کی ایک مثال فیٹفFATFکے پیرس اجلا س کی ہے جس میں پاکستانی وفد کی جانب سے ٹیرر فنانسنگ، منی لانڈرنگ اور دیگر 27 نکاتی ایکشن پلان پر عملدرآمد رپورٹ پر غور ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان بدستور گرے لسٹ میں رہے گا، اسے کارکردگی بہتر کرنے کی جون تک کی مہلت دی گئی ہے، کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں