آپ بندہ نواز کیا جانیں

لیڈر تو اپنی لیڈری چمکا کر چلے جاتے ہیں بھگتنا عوام کو پڑتا ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

زندگی کے کسی بھی شعبے میں مسائل کی تو ماشاء اللہ کوئی کمی نہیں ہے لیکن بعض مسئلے ایسے ہیں جن سے عوام کو ہر وقت واسطہ رہتا ہے اور یوں وہ شدت میں سب سے آگے ہیں ان میں ایک مسئلہ شہروں میں ٹرانسپورٹ کا ہے ۔

ویسے تو شہروں کے درمیان چلنے والی ٹرانسپورٹ میں نجی شعبے نے انقلاب برپا کر دیا ہے اور دنیا بھر سے جدید ترین بسیں لا کر ملک بھر میں چلا دی ہیں پہلے ہم جب کہیں ملک سے باہر جاتے تھے تو ایسی بسیں دیکھتے تھے اور ان کے مسافروں پر رشک کرتے تھے کیونکہ اس وقت ہمارے ہاں روایتی قسم کی پرانی بسیں ہی عوام کو شہروں کے درمیان سفر کی سہولت فراہم کر رہی تھیں لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ہمارے ٹرانسپورٹرز نے بھی اپنے شہریوں کو جدید سواریاں فراہم کر دیں اور یوں اب ہم پاکستان میں ایسی بسوں میں بھی سواری کرتے ہیں جو فضاء میں اڑ تو نہیں سکتیں لیکن ان میں دستیاب سہولیات کسی مسافر ایئر لائن کے طیاروں سے کم نہیں ہیں بلکہ اگر اپنی پی آئی اے کی بات کریں تو اس کے طیاروں کی نسبت پاکستان میں نجی کمپنیوں کی جانب سے چلائی جانے والی بسوں میں زیادہ سہولتیں ہیں ۔

شہروں کے اندر دستیاب ٹرانسپورٹ سے خلق خدا بہت پریشان ہے اگر کسی باہر کے ملک کا کوئی باشندہ لاہور آئے اور اسے پبلک ٹرانسپورٹ سے واسطہ پڑے تو اسے یقین نہیں آئے گا کیونکہ دنیا کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں جہاں عوام کے لیے بس جیسی سستی اور رواں دواں ٹرانسپورٹ موجود نہ ہو۔ لاہور میں بھی کبھی بس سروس ہوا کرتی تھی لیکن اربوں روپے کی اس سروس کو ٹریڈ یونین کھا گئی اور افسروں نے بھی ٹریڈ یونین کی سر پرستی کی اور مال بنایا۔

لاہور کے کسی بس اسٹاپ پر جب بس کھڑی ہوتی تھی تو وہاں منتظر مسافروں کو اپنے اندر سمو لیتی تھی اور یہ جو محاورہ ہے کہ بس اور لڑکی کا انتظار نہ کرو ایک گئی تو دوسری آتی ہو گی تو یہ لاہور کی بسوں پر صادق آتا تھا ۔کوئی بابو جوتوں پر پالش کرا کے اور صاف ستھرے استری شدہ کپڑے پہن کر بس میں سوار ہوتا تھا تو صحیح سلامت اس سے برآمد بھی ہوتا تھا ۔ کرایہ قابل برداشت تھا اور بسیں رواں دواں ۔

پنجاب کے ایک سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف جو اپنی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے پنجاب کے عوام میں مقبول ہیں انھوں نے پہلے تو لاہور میں دھڑا دھڑ سڑکیں بنوائیں بلکہ بعض سٹرکیں بنانے کے بعد ان کو یا تو پسند نہ آئیں یا پھر ان کے ذہن میں کوئی اور منصوبہ بن گیا اور اربوں کی لاگت سے بنائی گئی سڑکیں ادھیڑ کر ان کی جگہ دوبارہ سے میڑو بس کا ٹریک بنایا گیا یا پھر ملتان روڈ سے پل گزار کر اس پر اورنج ٹرین کی داغ بیل ڈالی گئی ۔

لاہور میں دوبارہ عوامی ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کا کریڈٹ شہباز شریف کو دیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے پہلے تو میٹرو بس کا آغاز کیا اور بعد میں لاہور میں لال رنگ کی بسیں چلائیں جو ابھی تک چل رہی ہیں اور غالباًکسی یونین کی دستبرد سے محفوظ ہیں کیونکہ ان کو سڑکوں پر چلتا ہوا دیکھ رہے ہیں گو کہ ان کی تعداد خاصی کم ہے اور ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر کی ضروریات پوری نہیں کر پا رہیں لیکن پھر بھی ان کی موجودگی غنیمت ہے ۔


لاہور میں ٹرانسپورٹ کی یاد مجھے اس خبر کو پڑھ کر آئی کہ شہباز شریف کی حکومت میں شروع کی جانے والی اورنج ٹرین لاہور میں اپنے سفر کا آغاز کرنے والی ہے اور لاہور دنیا کے ان جدید شہروں میں شامل ہونے جا رہا ہے جہاں پر عوام کوشہر میں ٹرین سروس دستیاب ہو گی ۔لاہور کے ایک داخلی روٹ سے اس ٹرین کا سفر شروع گا اور شہر کے بیچوں بیچ سے گزر کر شہر کے دوسرے سرے پر جا کر یہ ٹرین رکے گی۔

لیکن تشویشناک خبر یہ ہے کہ اس ٹرین کا آزمائشی سفر جو کچھ گھنٹوں پر محیط تھا اس پر کروڑوں روپے کی بجلی خرچ ہو گئی ہے ایک اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر دوکروڑ سے زائد کی بجلی استعمال ہو گی جب کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی صدارت میں پنجاب کابینہ کے اجلاس میں اورنج ٹرین کے کرایوں کا تعین نہیں ہو سکا اور معاملہ پنجاب اسمبلی پہنچ گیا ہے جہاں پر ارکان مل کر اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ اورنج ٹرین کا کرایہ کتنا مقرر کیا جا ئے ۔

وزیر اعلیٰ عثمان بزدار یہ کہتے ہیں کہ اگر رعایتی کرایہ دیا جائے تو سالانہ دس ارب سے زیادہ کا بوجھ پنجاب کے خزانے کو برداشت کرنا پڑے گا پہلے ہی میڑو بس میں سالانہ اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کی جارہی ہے۔ مجھے حکمرانوں کی اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیونکر ایسے منصوبے بناتے ہیں جو مالی لحاظ سے ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتے۔ یہ بات بجا طور پر درست ہے کہ ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے ہمیں ایسے منصوبوں کی ضرورت ہے لیکن اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں نا کہ دوسرے کا منہ لال دیکھ کر تھپڑوں سے اپنا ہی منہ لال کر دیں ۔

دنیا بھر کے بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کی بہترین سہو لیات دستیاب ہیں لیکن اس کے لیے ان کی حکومتیں کوئی رعایتی کرایہ متعارف نہیں کراتیں بلکہ عوام کو سفر کی سہولت فراہم کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ اس قدر وافر فراہم کی جاتی ہے کہ لوگ اپنی ذاتی گاڑیوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک ہم اپنے آپ کو معاشی طور پر اس قابل نہیں کر سکے کہ ایک بس یا ٹرین کا کرایہ ہی اس پر آنے والی اصل لاگت کے مطابق مقرر کر سکیں ۔

ایک طرف اگر حکومت رعایتی کرائے مقرر کر رہی ہے تو دوسری طرف اس رعایت کا بوجھ بھی عوام ہی اٹھا رہے ہیں کسی اور مد میں عوام سے ان رعایتوں کی وصولی جاری ہے عوام کو حکومت کے ایسے منصوبوں سے کوئی سروکار نہیں جس میں ان کو بے وقوف بنا کر حکمران اپنا الو سیدھا کریں۔ایسے بھاری بھرکم منصوبوںکابوجھ اٹھانے کے لیے عوام تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی ایسے منصوبوں کے بوجھ تلے پس رہے ہیں۔ لیڈر تو اپنی لیڈری چمکا کر چلے جاتے ہیں بھگتنا عوام کو پڑتا ہے۔ لیڈروں کے مسئلے اور ہیں جن کا عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی بے شمار مسائل میں سے ایک ہے جو بڑے اور اونچے لوگوں پر نہیں گزرتے۔

جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے

آپ بندہ نواز کیا جانیں
Load Next Story