کیا لسانیات کا تعلق بھی قومی سلامتی سے ہے
پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جہاں زبان کے نفاذ یا عدم نفاذ کی بحث بھی نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔
شائد آپ نے گزشتہ ہفتے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وہ ویڈیو دیکھی ہو جس میں اسلام آباد کے ایک پٹرول اسٹیشن پر ایک پولیس والا ایک خاتون ڈرائیور کو ٹریفک کے کسی قانون کے بارے میں پنجابی میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ خاتون چیخ رہی ہیں کہ اس جاہل نے پنجابی میں مجھ سے بات کر کے بدتمیزی کی ہے۔
مجھے اس خاتون پر قطعاً غصہ نہیں آیا کیونکہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں اردو کو مہذب اور ماں بولی کو سرکاری و سماجی سطح پر بولنا ان پڑھی کی نشانی سمجھا جاتاہے۔یہ خاتون اسی ماحول کی پیداوار ہیں۔ اگر پنجاب اپنی ماں بولی کے بارے میں اتنا ہی حساس ہوتا جتنا کہ باقی صوبے ہیں تو شائد بنگالیوں کی تکلیف بھی سمجھ سکتا اور باقی تین صوبوں کی بھی۔(بھارتی پنجاب میں پنجابی سرکاری و تعلیمی زبان ہے اور وہاں پنجابی کی ایک الگ سے یونیورسٹی ہے )۔
اکیس فروری انیس سو باون کو ڈھاکا یونیورسٹی کے علاقے میں بنگلہ زبان کو اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دینے کے مطالبے کے حق میں ایک طلبا مظاہرے پر گولی چلنے سے سرکاری طور پر چار اور غیر سرکاری طور پر آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ سرکاری میڈیا نے اس گڑبڑ کا ذمے دار ہندو شرپسندوں اور کیمونسٹوں کو قرار دیا۔ تاہم چار برس بعد انیس سو چھپن کے آئین میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ یونیسکو نے اکیس فروری انیس سو ننانوے کو مادری زبانوں کا سالانہ عالمی دن قرار دیا جو اب پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔
جس تجربے سے بنگالیوں کو اپنی زبان کو قومی درجہ دلوانے کے لیے گذرنا پڑا۔لگ بھگ اسی تجربے سے سندھ کو بھی گذرنا پڑا جب سندھی کو صوبائی درجہ دینے کے خلاف مزاحمت کے نتیجے میں انیس سو بہتر میں متعدد لوگ مارے گئے۔ سندھی کو صوبائی درجہ ملنے کے باوجود سندھ ویسے ہی وفاقِ پاکستان کا حصہ ہے جیسے انیس سو بہتر سے پہلے تھا۔ پھر بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات پوری طرح پلے نہ پڑ سکی کہ مادری زبانوں کو قومی درجہ دینے سے نہ تو وفاق کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی نظریہِ پاکستان کو زک پہنچتی ہے۔بلکہ وفاق کو اس کے برعکس اقدامات کمزور کرتے ہیں۔
لسانی شناخت کی دنیا کتنی بدل چکی۔اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ ترکی جہاں چند برس پہلے تک کرد زبان میں اشتہار لکھنا بھی جرم تھا۔آج وہاں کردی کو ترک زبان کے ساتھ ساتھ قومی درجہ حاصل ہے اور کردی میں بنیادی تعلیم اور نشریات کا بھی اہتمام ہے۔
بھارت پاکستان کے مقابلے میں ایک بڑا کثیر نسلی و لسانی ملک ہے۔مگر آئین نے نہ صرف ہندی اور انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا بلکہ صوبوں کو بھی اختیار دیا کہ وہ تعلیمی و سرکاری مقاصد کے لیے علاقائی زبانوں کو سرکاری طور پے اپنا سکتے ہیں۔ چنانچہ آج بھارت میں بیس سے زائد علاقائی زبانوں میں تعلیم و تدریس اور سرکاری بابو گیری ہورہی ہے۔جب کہ کرنسی نوٹ پر اس کی قیمت پندرہ زبانوں میں درج ہے۔ بھارت آزادی کے وقت ملنے والے نو صوبوں کو انتیس اور قومی زبانوں کو دو سے بڑھا کر بیس سے زائد کرنے کے باوجود ویسے کا ویسا ہی قائم ہے اپنی ہندوستانیت سمیت۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے نہ تو بنگلہ زبان کے محاذ آرا تجربے سے کچھ سیکھا نہ ہی ہمسایہ ملک بھارت کے لسانی تجربے سے۔ترکی سے بھی جنگلہ بس اور ٹی وی ڈرامے تو درآمد کر لیے مگر لسانی ترقی کا ماڈل وہیں چھوڑ دیا۔کوئی ایک بوالعجبی ہو تو بات ہو۔یہاں تو پوری داستان ہے۔سرکاری تشریح والے نظریہ پاکستان کے دلدار خواجہ غلام فرید کی سرائیکی کافیوں پر تو مست ہو جاتے ہیں لیکن سرائیکی کو جنوبی پنجاب میں پرائمری سطح پر لاگو کرنے کی بات آئے تو فوراً نفاق نفاق کا غل مچ جاتا ہے۔
بلوچی افسانوں اور نظموں کے اردو اور انگریزی ترجمے پر ہر پالیسی ساز واہ واہ کرتا ہے۔ لیکن تربت ، گوادر ، پسنی جیسے علاقوں کے کتب فروش احتیاطاً اردو ادب و رسائل و اخبارات ہی سامنے اور بلوچی لٹریچر پھٹے کے نیچے رکھتے ہیں۔ مبادا ملک دشمنی کا الزام لگ جائے۔
رحمان بابا عظیم شاعر ہیں اورخوشحال خان خٹک کی کیا بات ہے اور غنی خان کی نثر سبحان اللہ مگر پشتو میں بچوں کو بنیادی تعلیم ملے ، یہ اچھی بات نہیں۔ سن بہتر سے آج تک جو لوگ صوبائی زبان کا درجہ ملنے سے پہلے سندھی بول رہے تھے وہی آج بھی بول رہے ہیں۔حالانکہ سندھی کو سرکاری و تعلیمی زبان بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سندھ میں رہنے والے تمام بچے بھلے روانی سے نہ بول پائیں مگر انھیں زبان کی شد بد ضرور ہو۔لیکن کراچی اور حیدرآباد کی نئی نسل ٹھیک سے اردو نہیں بول پارہی تو سندھی کیا سمجھے گی۔
پنجاب کا معاملہ بہت دلچسپ ہے۔اسلام آباد کی راہداریوںسے سول سیکریٹریٹ لاہور اور تمام چھاؤنیوں تک روزمرہ کی افسرانہ زبان پنجابی اور اردو اور دفتری اوقات کے بعد پنجابی اور انگریزی ہے۔پاکستان کی پینتالیس فیصد آبادی کی مادری زبان بھی پنجابی ہے۔ شاہ حسین کیا ، تو بلھے شاہ کیا ، تو وارث شاہ کیا ، تو سلطان باہو کیا۔سر تا پا پنجابی میں بھیگی ان ہستیوں کے عرس پر گورنر یا وزیرِ اعلیٰ چادر تو چڑھاتا ہے مگر اردو میں۔اور یہی اولیائی زبان پہلی جماعت میں متعارف کرانے کی بات آتی ہے تو ہر طرف لسانی آدم بو آدم بو ہوجاتا ہے۔ حتی کہ کچھ عرصے پہلے تک پنجاب اسمبلی میں بھی اگر کوئی من چلا ایسی حرکت کرتا تو اسی کے ساتھی اس گستاخ کو گھور گھور کے مار ڈالتے۔
ہاں اجازت ہے سرائیکی،پنجابی، پشتو، بلوچی، سندھی کی ایم اے کلاسوں میں بولنے ، لکھنے اور پڑھنے کی اور ان زبانوں کی ترویج و فروغ کے نام پر قائم لسانی اداروں اور اکیڈمیوں میں یا پھر سول سروس کے امتحانات میں بطور اختیاری مضمون لینے کی۔کیا مذاق ہے کہ ایم اے اس زبان میں کرایا جا رہا ہے جو زبان طالبِ علم کو بی اے تک میسر نہیں ہو پاتی۔گویا کرتہ حاضر پاجامہ غائب۔
ایک ایسی دنیا جہاں عبرانی کو قبر سے نکال کر تمام اسرائیلیوں کی جیتی جاگتی زبان بنا دیا گیا۔ ایک ایسی دنیا جہاں نیوزی لینڈ کی انگریزی آشنا اکثریت نے مقامی ماوری زبان کو پچیس برس میں ایک پسماندہ قبائلی بولی کے درجے سے اٹھا کر اتنی ترقی دی کہ آج وہ نیوزی لینڈ کی دوسری قومی زبان ہے اور اسکولی بچے چاہیں تو ماوری زبان میں تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔
اسی دنیا میں پاکستان جیسی کثیر نسلی و لسانی ریاست بھی موجود ہے۔جہاں مسلم لیگ نواز نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے اپنے منشور میں نیشنل لنگیویج کمیشن بنانے کا وعدہ کیامگربقول آصف زرداری وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے۔خود پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران دو ہزار گیارہ میں ماروی میمن کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ نیشنل لینگویج بل میں علاقائی زبانوں کو قومی درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔مگر اسے یہی زبانیں بولنے والے ارکانِ اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ہی دفن کردیا۔
پھر اس مردے کو دو ہزار چودہ میں دوبارہ آئینی مسودے کی شکل میں لانے کی کوشش کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ بلتی ، بلوچی ، براہوی ، پنجابی ، پشتو ، شنا ، سندھی ، سرائیکی ، ہندکو اور تمام ایسی زبانوں کو قومی درجہ دیا جائے جن کو مجوزہ نیشنل لینگویج کمیشن مادری زبان تسلیم کرے۔ لیکن جس اسٹینڈنگ کمیٹی کو یہ مسودہ قومی اسمبلی میں بل کی شکل میں پیش کرنا تھا اسی اسٹینڈنگ کمیٹی میں سوائے ایک کے سب ہی معزز ارکان نے اسے مسترد کردیا۔
مسترد کرنے والوں کا تعلق مسلم لیگ ن ، تحریکِ انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور پیپلز پارٹی سے تھا۔جب کہ ایم کیو ایم کے رکن نے ووٹ ہی نہیں دیا۔حتی کہ سیکریٹری وزارتِ قانون نے بھی فرما دیا کہ پاکستان کی ایک ہی قومی زبان ہونی چاہیے اردو۔کیونکہ مشرقی پاکستان کا المیہ دو قومی زبانیں اختیار کرنے کا نتیجہ ہے۔میں شکر گذار ہوں سیکریٹری صاحب کا جنھوں نے تاریخی تصیح کردی۔
اب تک میں یہی سمجھ رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کے المیے کی ایک وجہ صرف اردو کو سرکاری زبان بنانے کی ابتدائی ضد تھی جس نے وفاق کے شیشے میں بال ڈال دیا۔شائد پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جہاں زبان کے نفاذ یا عدم نفاذ کی بحث بھی نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
مجھے اس خاتون پر قطعاً غصہ نہیں آیا کیونکہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں اردو کو مہذب اور ماں بولی کو سرکاری و سماجی سطح پر بولنا ان پڑھی کی نشانی سمجھا جاتاہے۔یہ خاتون اسی ماحول کی پیداوار ہیں۔ اگر پنجاب اپنی ماں بولی کے بارے میں اتنا ہی حساس ہوتا جتنا کہ باقی صوبے ہیں تو شائد بنگالیوں کی تکلیف بھی سمجھ سکتا اور باقی تین صوبوں کی بھی۔(بھارتی پنجاب میں پنجابی سرکاری و تعلیمی زبان ہے اور وہاں پنجابی کی ایک الگ سے یونیورسٹی ہے )۔
اکیس فروری انیس سو باون کو ڈھاکا یونیورسٹی کے علاقے میں بنگلہ زبان کو اردو کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان کا درجہ دینے کے مطالبے کے حق میں ایک طلبا مظاہرے پر گولی چلنے سے سرکاری طور پر چار اور غیر سرکاری طور پر آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ سرکاری میڈیا نے اس گڑبڑ کا ذمے دار ہندو شرپسندوں اور کیمونسٹوں کو قرار دیا۔ تاہم چار برس بعد انیس سو چھپن کے آئین میں اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ یونیسکو نے اکیس فروری انیس سو ننانوے کو مادری زبانوں کا سالانہ عالمی دن قرار دیا جو اب پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔
جس تجربے سے بنگالیوں کو اپنی زبان کو قومی درجہ دلوانے کے لیے گذرنا پڑا۔لگ بھگ اسی تجربے سے سندھ کو بھی گذرنا پڑا جب سندھی کو صوبائی درجہ دینے کے خلاف مزاحمت کے نتیجے میں انیس سو بہتر میں متعدد لوگ مارے گئے۔ سندھی کو صوبائی درجہ ملنے کے باوجود سندھ ویسے ہی وفاقِ پاکستان کا حصہ ہے جیسے انیس سو بہتر سے پہلے تھا۔ پھر بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات پوری طرح پلے نہ پڑ سکی کہ مادری زبانوں کو قومی درجہ دینے سے نہ تو وفاق کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی نظریہِ پاکستان کو زک پہنچتی ہے۔بلکہ وفاق کو اس کے برعکس اقدامات کمزور کرتے ہیں۔
لسانی شناخت کی دنیا کتنی بدل چکی۔اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ ترکی جہاں چند برس پہلے تک کرد زبان میں اشتہار لکھنا بھی جرم تھا۔آج وہاں کردی کو ترک زبان کے ساتھ ساتھ قومی درجہ حاصل ہے اور کردی میں بنیادی تعلیم اور نشریات کا بھی اہتمام ہے۔
بھارت پاکستان کے مقابلے میں ایک بڑا کثیر نسلی و لسانی ملک ہے۔مگر آئین نے نہ صرف ہندی اور انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا بلکہ صوبوں کو بھی اختیار دیا کہ وہ تعلیمی و سرکاری مقاصد کے لیے علاقائی زبانوں کو سرکاری طور پے اپنا سکتے ہیں۔ چنانچہ آج بھارت میں بیس سے زائد علاقائی زبانوں میں تعلیم و تدریس اور سرکاری بابو گیری ہورہی ہے۔جب کہ کرنسی نوٹ پر اس کی قیمت پندرہ زبانوں میں درج ہے۔ بھارت آزادی کے وقت ملنے والے نو صوبوں کو انتیس اور قومی زبانوں کو دو سے بڑھا کر بیس سے زائد کرنے کے باوجود ویسے کا ویسا ہی قائم ہے اپنی ہندوستانیت سمیت۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے نہ تو بنگلہ زبان کے محاذ آرا تجربے سے کچھ سیکھا نہ ہی ہمسایہ ملک بھارت کے لسانی تجربے سے۔ترکی سے بھی جنگلہ بس اور ٹی وی ڈرامے تو درآمد کر لیے مگر لسانی ترقی کا ماڈل وہیں چھوڑ دیا۔کوئی ایک بوالعجبی ہو تو بات ہو۔یہاں تو پوری داستان ہے۔سرکاری تشریح والے نظریہ پاکستان کے دلدار خواجہ غلام فرید کی سرائیکی کافیوں پر تو مست ہو جاتے ہیں لیکن سرائیکی کو جنوبی پنجاب میں پرائمری سطح پر لاگو کرنے کی بات آئے تو فوراً نفاق نفاق کا غل مچ جاتا ہے۔
بلوچی افسانوں اور نظموں کے اردو اور انگریزی ترجمے پر ہر پالیسی ساز واہ واہ کرتا ہے۔ لیکن تربت ، گوادر ، پسنی جیسے علاقوں کے کتب فروش احتیاطاً اردو ادب و رسائل و اخبارات ہی سامنے اور بلوچی لٹریچر پھٹے کے نیچے رکھتے ہیں۔ مبادا ملک دشمنی کا الزام لگ جائے۔
رحمان بابا عظیم شاعر ہیں اورخوشحال خان خٹک کی کیا بات ہے اور غنی خان کی نثر سبحان اللہ مگر پشتو میں بچوں کو بنیادی تعلیم ملے ، یہ اچھی بات نہیں۔ سن بہتر سے آج تک جو لوگ صوبائی زبان کا درجہ ملنے سے پہلے سندھی بول رہے تھے وہی آج بھی بول رہے ہیں۔حالانکہ سندھی کو سرکاری و تعلیمی زبان بنانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سندھ میں رہنے والے تمام بچے بھلے روانی سے نہ بول پائیں مگر انھیں زبان کی شد بد ضرور ہو۔لیکن کراچی اور حیدرآباد کی نئی نسل ٹھیک سے اردو نہیں بول پارہی تو سندھی کیا سمجھے گی۔
پنجاب کا معاملہ بہت دلچسپ ہے۔اسلام آباد کی راہداریوںسے سول سیکریٹریٹ لاہور اور تمام چھاؤنیوں تک روزمرہ کی افسرانہ زبان پنجابی اور اردو اور دفتری اوقات کے بعد پنجابی اور انگریزی ہے۔پاکستان کی پینتالیس فیصد آبادی کی مادری زبان بھی پنجابی ہے۔ شاہ حسین کیا ، تو بلھے شاہ کیا ، تو وارث شاہ کیا ، تو سلطان باہو کیا۔سر تا پا پنجابی میں بھیگی ان ہستیوں کے عرس پر گورنر یا وزیرِ اعلیٰ چادر تو چڑھاتا ہے مگر اردو میں۔اور یہی اولیائی زبان پہلی جماعت میں متعارف کرانے کی بات آتی ہے تو ہر طرف لسانی آدم بو آدم بو ہوجاتا ہے۔ حتی کہ کچھ عرصے پہلے تک پنجاب اسمبلی میں بھی اگر کوئی من چلا ایسی حرکت کرتا تو اسی کے ساتھی اس گستاخ کو گھور گھور کے مار ڈالتے۔
ہاں اجازت ہے سرائیکی،پنجابی، پشتو، بلوچی، سندھی کی ایم اے کلاسوں میں بولنے ، لکھنے اور پڑھنے کی اور ان زبانوں کی ترویج و فروغ کے نام پر قائم لسانی اداروں اور اکیڈمیوں میں یا پھر سول سروس کے امتحانات میں بطور اختیاری مضمون لینے کی۔کیا مذاق ہے کہ ایم اے اس زبان میں کرایا جا رہا ہے جو زبان طالبِ علم کو بی اے تک میسر نہیں ہو پاتی۔گویا کرتہ حاضر پاجامہ غائب۔
ایک ایسی دنیا جہاں عبرانی کو قبر سے نکال کر تمام اسرائیلیوں کی جیتی جاگتی زبان بنا دیا گیا۔ ایک ایسی دنیا جہاں نیوزی لینڈ کی انگریزی آشنا اکثریت نے مقامی ماوری زبان کو پچیس برس میں ایک پسماندہ قبائلی بولی کے درجے سے اٹھا کر اتنی ترقی دی کہ آج وہ نیوزی لینڈ کی دوسری قومی زبان ہے اور اسکولی بچے چاہیں تو ماوری زبان میں تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔
اسی دنیا میں پاکستان جیسی کثیر نسلی و لسانی ریاست بھی موجود ہے۔جہاں مسلم لیگ نواز نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے اپنے منشور میں نیشنل لنگیویج کمیشن بنانے کا وعدہ کیامگربقول آصف زرداری وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے۔خود پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران دو ہزار گیارہ میں ماروی میمن کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ نیشنل لینگویج بل میں علاقائی زبانوں کو قومی درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔مگر اسے یہی زبانیں بولنے والے ارکانِ اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ہی دفن کردیا۔
پھر اس مردے کو دو ہزار چودہ میں دوبارہ آئینی مسودے کی شکل میں لانے کی کوشش کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ بلتی ، بلوچی ، براہوی ، پنجابی ، پشتو ، شنا ، سندھی ، سرائیکی ، ہندکو اور تمام ایسی زبانوں کو قومی درجہ دیا جائے جن کو مجوزہ نیشنل لینگویج کمیشن مادری زبان تسلیم کرے۔ لیکن جس اسٹینڈنگ کمیٹی کو یہ مسودہ قومی اسمبلی میں بل کی شکل میں پیش کرنا تھا اسی اسٹینڈنگ کمیٹی میں سوائے ایک کے سب ہی معزز ارکان نے اسے مسترد کردیا۔
مسترد کرنے والوں کا تعلق مسلم لیگ ن ، تحریکِ انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور پیپلز پارٹی سے تھا۔جب کہ ایم کیو ایم کے رکن نے ووٹ ہی نہیں دیا۔حتی کہ سیکریٹری وزارتِ قانون نے بھی فرما دیا کہ پاکستان کی ایک ہی قومی زبان ہونی چاہیے اردو۔کیونکہ مشرقی پاکستان کا المیہ دو قومی زبانیں اختیار کرنے کا نتیجہ ہے۔میں شکر گذار ہوں سیکریٹری صاحب کا جنھوں نے تاریخی تصیح کردی۔
اب تک میں یہی سمجھ رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کے المیے کی ایک وجہ صرف اردو کو سرکاری زبان بنانے کی ابتدائی ضد تھی جس نے وفاق کے شیشے میں بال ڈال دیا۔شائد پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جہاں زبان کے نفاذ یا عدم نفاذ کی بحث بھی نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)