بلوچستان کے بگڑتے ہوئے حالات

بلوچستان کا اہم مسئلہ بلوچ سیاسی کارکنوں پر ریاستی تشدد کا ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan September 04, 2012
[email protected]

لاہور: ذوالفقار نقوی کی عمر40 کے قریب تھی اور آج کل کوئٹہ میں ایڈیشنل سیشن جج کے فرائض انجام دے رہے تھے کہ کوئٹہ کی ایک معروف شاہراہ پر موٹر سائیکل سواروں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ مرحوم کے بوڑھے باپ نے کہا کہ قاتل گھنٹوں نقوی کے قتل کے مقام پر رہے اور پھر اطمینان سے اپنی کمین گاہ میں چلے گئے، ذوالفقار نقوی کے قتل کے بعد 10 لوگوں کو زندگی سے محروم کردیا گیا۔

بلوچستان میں 8 ماہ کے دوران 450 مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن میں سے بیشتر سیاسی کارکنوں اور ان کے رشتے داروں کی ہیں، بلوچستان میں 1300 افراد لاپتہ ہوئے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے رہنما حاصل بزنجو نے ایک ایف ایم ریڈیو کو انٹرویو میں بتایا کہ بلوچستان میں کالی گاڑیاں خوف اور موت کی علامت بن گئی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم HRCP نے لاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقعے پر بلوچستان کے بارے میں حقائق پر مبنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کوئٹہ انتہا پسندوں کی جنت بن گیا ہے، مذہبی انتہا پسند ہزارہ برادری اور شیعہ مسلک کے افراد کو قتل کرتے ہیں اور ریاستی احتساب سے محفوظ رہتے ہیں۔ ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ریاست موجود نہیں ہے۔

بلوچستان سے یوں تو روزانہ ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کی خبریں آتی ہیں مگر وہاں کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کئی قسم کی لاقانونیت کی بدنما صورتحال نظر آتی ہے۔ بلوچستان کے شہروں خاص طور پر کوئٹہ اور اطراف کے علاقوں میں ہزارہ برادری صدیوں سے آباد ہیں، غیر مقامی افراد بھی آباد ہیں، یہ ہزارہ برادریاں زیادہ تر متوسط طبقے پر مشتمل ہیں۔

ان برادریوں کی خواتین میں تعلیم حاصل کرنے کی شرح اطمینان بخش ہے۔ ہزارہ برادری کے بہت سے افراد خلیجی ممالک کے علاوہ یورپ اور امریکا میں آباد ہیں، یہ لوگ سرکاری ملازمتوں اور کاروبار میں بھی نمایاں ہیں۔ القاعدہ اور طالبان سے منسلک قوتیں ان لوگوں کی ترقی کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتی ہیں اور بعض بلوچ گروپ بھی اس بارے میں طالبان کے ہم خیال ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بعض وزرا ٹارگٹ کلنگ کی سرپرستی کررہے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے کوئٹہ شہر میں حکومتی اعلانات کے باوجود فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں کسی صورت کمی نہیں ہوتی۔ بلوچستان کا اہم مسئلہ بلوچ سیاسی کارکنوں پر ریاستی تشدد کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جسٹس مری کے قتل کے بعد بلوچ کارکنوں کے اغوا کا مسئلہ شروع ہوا۔ پہلے مری قبیلے کے سردار نواب خیر بخش مری کے حامیوں کو اغوا کیا، جن میں سے کچھ اب تک لاپتہ ہیں پھر سابق وزیر بلوچستان نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات میں تیزی آگئی۔

نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگانے والے بعض گروہوں نے دوسرے صوبوں سے آکر آباد ہونے والے افراد کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اس لہر میں سرکاری افسر، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، اساتذہ، دکاندار نائی تک قتل ہوئے۔

کوئٹہ میں فرائض انجام دینے والے صحافیوں اور سیاسی کارکن الزام عائد کرتے ہیں کہ خفیہ ایجنسیوں اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکاروں نے سیاسی کارکنوں کا اغوا اور انھیں قتل کرنے کی حکمت عملی تیار کی اور ان پرعملدرآمد کیا۔ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کے مقدمے کی سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عزت مآب افتخار چوہدری نے کی تو عدالت کے سامنے اس بارے میں کچھ ثبوت بھی پیش کیے گئے۔

ججوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قتل کی وارداتوں میں خفیہ ایجنسیوں اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکاروں کا نام بار بار آتا ہے۔ سیاسی کارکنوں کے اغوا، ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کے ساتھ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ جاری رہا۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کے بگڑتے ہی اغوا برائے تاوان کی وارداتیں شروع ہوئیں۔ ہندو اور پارسی کمیونٹی کے افراد اغوا ہوئے، ان میں سے کچھ تاوان دے کر رہا ہوئے کچھ تاوان دینے کے باوجود قتل کردیے گئے۔ ڈاکٹر، افسروں کے اغوا اور تاوان طلب کرنے کے واقعات بڑھ گئے۔

بعد ازاں آغاز حقوق بلوچستان کے پیکیج کا اعلان کیا گیا جس کے نتیجے میں خاصے نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں مگر صدر زرداری آپریشن کو رکوا نہیں سکے۔ وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے بلوچستان کی صورتحال میں بھارت، افغانستان اور دوسرے ممالک کو ملوث قرار دینا شروع کیا۔ اس دوران نواب اکبر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی نے افغانستان چھوڑ کر سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ حکومت پاکستان نے برطانیہ میں نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے کی سیاسی پناہ کی درخواست پر اعتراض واپس لے لیا اور انھیں لندن میں قیام کی اجازت مل گئی مگر یہ سب کوششیں حالات میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں لاسکیں۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے بار بار کہا کہ ان کی حکومت کی عملداری صرف کوئٹہ تک ہے باقی صوبے پر فرنٹیئر کانسٹیبلری کی حکومت ہے مگر صدر زرداری اپنے وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر توجہ نہیں دے سکے۔ بلوچستان میں اب کچھ تبدیلیاں رونما ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قوم پرست رہنما سرداراختر مینگل، حاصل بزنجو، ڈاکٹر مالک اور ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ وغیر ہ ایک مشترکہ جماعت میں متحد ہورہے ہیں۔ پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے رہنمائوں کا متحد ہونا ایک اچھی خبر ہے۔

ان رہنمائوں کے علاوہ دوسری سیاسی قوتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مطالبہ کررہی ہیں کہ بلوچستان سے عسکری بالادستی کو ختم کیا جائے، خفیہ ایجنسیوں کو صوبائی حکومت کے ماتحت اور فرنٹیئر کانسٹبلری کو صوبے سے نکالا جائے ، صوبے میں عام معافی کا اعلان کیا جائے اور سیاسی کارکنوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں مگر المیہ یہ ہے کہ ایک دفعہ پھر پولیس کے اختیارات فرنٹیئر کانسٹبلری کو سونپ دیے گئے ہیں، یوں پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھنے والی جماعتوں کے مطالبات کو نظر اندازکرنے کی اہمیت کو ختم کیا جارہا ہے۔

اب ہزارہ برادری کے لوگ اقوام متحدہ کے پناہ گزیروں کے افسروں سے مدد مانگ رہے ہیں، اب بھی بلوچستان میں ہزارہ برادری اور بلوچوں کی نسل کشی ختم نہیں ہوئی تو پھر بہت سی عالمی طاقتیں ان کی مدد کے لیے منظر عام پر آجائیں گی پھر مستقبل کیا ہوگا یہ پردہ سیمیں پر نظر آرہا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں