وزیر اعظم کا ویژن 2025 کانفرنس سے خطاب
ویژن 2025ء کے تحت جن شعبوں پر توجہ دی جائے گی، ان میں توانائی کا ایک ہمہ جہت اور مربوط ماڈل تشکیل دینا پہلا ستون ہے۔
ویژن 2025ء پاکستان کی ترقی کا چارٹر ثابت ہوگا۔ فوٹو؛فائل
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعہ کو وزارت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے زیراہتمام ویژن 2025 اور 11 سالہ منصوبے کے حوالے سے اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں قومی مشاورتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف ہمارے احتجاج کو رسمی کہنا درست نہیں ہے، امریکی صدر کے سامنے بیٹھ کر ڈرون حملوں کے خلاف بات کی۔ انھوں نے دہشت گردی اور دیگر جرائم میں ملوث مجرموں کے بارے میں واضح کیا کہ اس وقت ملک کو تیزرفتار انصاف کی فراہمی کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے دہشت گردوں اور دیگر جرائم میں ملوث مجرموں کو 14 روز کے اندر سزا دلوانے کے قانون کو اپوزیشن کی مشاورت سے منظور کرائیں گے۔ نئے آرڈیننس کے بعد ایک صوبے سے پکڑے جانے والے مجرموں کا دوسرے شہر یا صوبے میں ویڈیو لنک کے ذریعے بھی ٹرائل ہو سکے گا اور جج حضرات خود حفاظتی کی خاطر ماسک پہن کر بھی سماعت کر سکتے ہیں۔
دہشت گردی کے مقدمات سننے والے ججز کو ہر قسم کی سیکیورٹی فراہم کی جائے گی اور وہ چودہ روز کے اندر اندر مقدمے کا فیصلہ کریں گے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے ملک کو درپیش انتہائی اہم اور نازک معاملات پر کھل کر اور بڑے مدلل انداز میں باتیں کیں۔ ڈرون حملوں اور دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کے حوالے سے انھوں نے جو کچھ کہا، وہ سوفیصد درست ہے۔ انھوں نے صدر اوباما کے سامنے ڈرون حملے بند کرنے کی بات کی۔ ان سے پہلے شاید کسی سربراہ حکومت نے ایسا نہیں کیا۔ ڈرون حملے اور نیٹو سپلائی ایسے ایشوز ہیں جن پر کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر حکومت جس طریقے سے کام کر رہی ہے، اسے درست ہی کہا جائے گا کیونکہ کوئی جذباتی فیصلہ ملک کو تباہی کی طرف لے جاسکتا ہے۔
اس وقت ملک کو بدترین دہشت گردی اور جرائم پیشہ مافیاز کی سرگرمیوں کا سامنا ہے۔ ہزاروں بے گناہ شہری اور سیکیورٹی فورسز کے افسر و جوان شہید ہو چکے ہیں۔ ان سنگین اور ناقابل معافی جرائم کے مرتکب مجرموں کو سزائیں دینا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس مقصد کے لیے آرڈیننس جاری کر دیا ہے جو پارلیمنٹ سے منظور ہو کر قانون بن جائے گا۔ اس سے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کے مقدمات کے جلد فیصلے ممکن ہو جائیں گے۔ اگر ججوں کی حفاظت کا پورا بندوبست ہو اور مجرموں کو بروقت سزائیں مل جائیں تو ملک میں دہشت گردی اور جرائم کی وارداتیں بہت حد تک کم ہو جائیں گی۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب میں ایک اور اہم مسئلے کو بھی اٹھایا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ سانحہ راولپنڈی کے وقت وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو حکم دیا ہے کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بند ہونا چاہیے۔
ایسے لاؤڈ اسپیکروں پر مکمل پابندی عائد کی جائے جن سے شرپسندی پھیلتی ہے جب کہ دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پورے ملک میں لاؤڈ اسپیکر کا بڑی دیدہ دلیری سے غلط استعمال ہو رہا ہے۔ یہ آلہ بھی ملک میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ چاروں صوبائی حکومتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔ اس سے ایک جانب شور کی آلودگی میں کمی آئے گی تو دوسری جانب نفرت پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ بند ہو جائے گا۔ وزیراعظم نے ملک میں سیاسی مفاہمت کے حوالے سے کہا کہ آج صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہیں مگر میں تمام وزرائے اعلیٰ کو شہباز شریف کی طرح دیکھتا ہوں۔ تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعاون کر رہا ہوں۔ کراچی میں قیام امن کے لیے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی کافی مدد کر رہے ہیں۔ ہم سے ان کی حکومت کو ہرگز کوئی خطرہ نہیں۔ مجھ سے کوئی توقع نہ کرے کہ ملک کے مفادات پر پارٹی مفاد کو ترجیح دوں گا۔
تمام وزیراعلیٰ میرے وزیراعلیٰ ہیں اور میرے لیے سب برابر ہیں۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جب کہ سندھ میں پیپلزپارٹی حکمران ہے۔ بلوچستان میں قوم پرست برسراقتدار ہیں اور مسلم لیگ (ن) ان کی اتحادی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) مرکز اور پنجاب میں برسراقتدار ہے حالانکہ عام انتخابات کے بعد جو نتائج سامنے آئے تھے، ان کو مدنظر رکھا جائے تو مسلم لیگ (ن) پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنے وزیراعلیٰ لا سکتی تھی لیکن وزیراعظم میاں نواز شریف نے جوڑ توڑ کی سیاست سے لاتعلقی اختیار کی اور جمہوری رویہ اختیار کیا۔ گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا میں ایسی صورت حال پیدا ہوئی تھی کہ وہاں صوبائی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کیا جائے لیکن وزیراعظم میاں نواز شریف نے اس سیاسی جوڑ توڑ میں مسلم لیگ (ن) کو فریق بننے سے روک دیا۔ یوں دیکھا جائے تو ان کا کہنا درست ہے کہ وہ تمام وزرائے اعلیٰ کو یکساں اہمیت دیتے ہیں۔ یہی صحیح جمہوری جذبہ ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میں صرف اپنی مدتِ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ 2025ء تک میں پاکستان کے مستقبل کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہماری ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں ہر صورت میں اپنے مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ ہمارے ویژن کا مقصد خوشحال، مضبوط، روشن خیال اور پرامن پاکستان ہے جو ملک کے تمام شہریوں کے معیار زندگی میں دیرپا اور پائیدار تبدیلی لائے۔انھوں نے کہا کہ 1990ء کی دہائی میں پاکستان کی کرنسی مضبوط ترین تھی جب کہ اب وہ کمزور ترین سطح پر ہے۔ لوڈ شیڈنگ سے نجات کے بار ے میں انھوں نے بتایا کہ500 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے 1700 میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہوا ہے، توانائی بحران مستقل طور پر ختم کرنے میں 4 سال لگ سکتے ہیں۔ سول نیوکلیئر پلانٹ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ 26 نومبر کو کراچی میں اس کا افتتاح کیا جائے گا جس سے2117 میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکے گی اور اسی روز کراچی میں کاروباری طبقے کے لیے ترغیبات کا بھی اعلان کیا جائے گا۔ ہم بھارت افغانستان، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ 2025ء تک یہ خطہ بہترین خطہ بن سکتا ہے۔
ویژن 2025ء پاکستان کی ترقی کا چارٹر ثابت ہوگا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملکی معیشت کی ترقی کو بھی اپنی ترجیحات کی اولین فہرست میں رکھا ہے۔ انھوں نے قومی مشاورتی کانفرنس سے خطاب میں اعلان کیا کہ ہم چند روز میں نوجوانوں کے لیے قرضہ اسکیم شروع کر رہے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت پچاس فیصد خواتین اور پچاس فیصد مردوں کو قرضہ دیا جائے گا۔ یہ بہت اچھی اسکیم ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے ملک کا نوجوان طبقہ ملک کی تعمیر و ترقی میں شامل ہو جائے گا۔ یہ ایسا طبقہ ہے جس کے پاس کام کرنے کی قوت اور جذبہ بھی موجود ہے۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں جس کا نوجوان طبقہ معاشی دوڑ میں پوری قوت سے شامل ہے۔ ویژن 2025ء کا تصور اور مقصد ملک کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر کے ترقی کی منزل حاصل کرنا ہے۔ ویژن 2025ء کے تحت جن شعبوں پر توجہ دی جائے گی، ان میں توانائی کا ایک ہمہ جہت اور مربوط ماڈل تشکیل دینا پہلا ستون ہے۔ دوسرا اہم ستون معیشت کو پائیدار اور قابل بھروسہ بنیادوں پر استحکام کی منزل تک لے جانا ہے۔ اس کے علاوہ نجی شعبے کو ترقی کے عمل میں شریک کیا جائے گا کیونکہ حکومت تنہا میگا پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کی متحمل نہیں ہے۔ حکومت زرعی اور صنعتی سیکٹرز کی ترقی کے لیے الگ الگ پالیسی بنائے گی۔
اگر موجودہ حکومت ویژن 2025ء کو عملی شکل دینے کے لیے بنیادیں فراہم کر دیتی ہے تو پھر ملک تعمیر و ترقی کے نئے دور میں داخل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا محل وقوع انتہائی اہم ہے۔ پاکستان وسط ایشیا، افغانستان اور ہندوستان و برما تک کے لیے تجارتی راہداری بن سکتا ہے۔ اگر پاکستان میں اعلیٰ پائے کے موٹرویز اور برق رفتار ٹرین سروس ہو تو اس راہداری سے اربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ان کے سابق دور میں لاہور سے پشاور تک موٹروے تعمیر ہوئی لیکن گزشتہ چودہ برسوں میں ایک کلو میٹر کا بھی اضافہ نہیں ہو سکا۔ انھوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد لاہور سے کراچی تک موٹروے بنانے کا اعلان کر رکھا ہے اس کے ساتھ ساتھ ریلوے لائن بچھانے کے انقلابی اعلانات بھی شامل ہیں۔ اگر ان پر عملدرامد ہو جاتا ہے تو پاکستان کی معیشت برق رفتاری سے ترقی کرنے کے قابل ہو سکتی ہے لیکن ان تمام منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ملک میں امن و امان کا قیام اور دہشت گردی کا خاتمہ لازم و ملزوم ہے۔ اگر دہشت گردی پر قابو نہ پایا گیا تو پھر کوئی ویژن یا ترقی کا تصور عملی صورت حال اختیار نہیں کر سکتا۔