شرم ہم کو مگر نہیں آتی

سوئٹزر لینڈ یا کسی دوسرے ملک میں جمع کسی پاکستانی کی رقم کو واپس لایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے کسی ایسی ہمت کی۔۔۔


Abdul Qadir Hassan November 23, 2013
[email protected]

یا تو وہ وقت تھا جب کالم کے لیے کوئی موزوں خبر نہیں ملتی تھی یا اب وہ وقت آیا ہے کہ خبروں کے ہجوم میں کس خبر کو کالم کا موضوع بنایا جائے اور کس میں چُھپی باریکیوں کو عوام کے مفاد میں ان سے چُھپایا جائے تا کہ وہ مزید پریشان نہ ہوں۔ یا پھر ظاہر کیا جائے کہ وہ خوش ہوں لیکن بعض خبریں خوش کن نہ ہونے کے باوجود عوام کی آگاہی کے لیے ان کی تفصیلات کا بیان ضروری ہوتا ہے۔ ہم میں سے کس کو معلوم نہیں کہ ہمارے کئی غداروں نے سوئٹزر لینڈ جیسے ملک میں پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت جمع کر رکھی ہے جو اب ہمیں تو کیا ملے گی اس کو لوٹنے والے بھی شاید کسی وجہ سے اس سے محروم رہیں۔

تازہ خبر یہ موصول ہوئی ہے کہ سوئٹزر لینڈ کی حکومت پاکستان سمیت آمروں کی لوٹی ہوئی دولت کو جو سوئس بینکوں میں جمع کرائی گئی ہے اور جو اربوں کھربوں ڈالروں میں ہے اسے وہ اپنے شہریوں میں تقسیم کر د ے گی۔ اس ضمن میں سوئس حکومت کے منظور کیے گئے قانون کے مطابق یہ حکومت اپنے 45 لاکھ بالغ شہریوں کو ماہانہ دو ہزار آٹھ سو ڈالر اور 18 سال سے کم عمر کے شہریوں کو بھی یہ وظیفہ دیا جائے گا۔ قطع نظر اس کے کہ وہ امیر ہیں یا غریب ہیں۔ قانون کے تحت حکومت ہر ماہ اپنے شہریوں کو چودہ ارب ڈالر وظیفے کے طور پر تقسیم کرے گی۔ بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے سیاسی آمروں نے اپنے ملکوں سے پاکستان سمیت یہ دولت لوٹ کر یہاں جمع کرائی تھی جو کھربوں میں ہے۔ ان میں سے بیشتر تو اس دنیا سے رخصت بھی ہو چکے ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ حال ہی میں ایک برسراقتدار آمر کے سوئس بینکوں میں جمع سرمائے کا ذکر ہوتا رہا اور برطانیہ میں ہمارا ہائی کمشنر بھی اس رقم کی حفاظت اور اسے منتقل کرنے کی کوششوں میں مصروف دیکھا گیا۔ میرے پاس مصدقہ لیکن سنی سنائی باتوں کا ایک ذخیرہ ہے جس میں ہمارے لیڈروں کی لوٹ مار کا ذکر ہے لیکن میرے پاس ان کا عدالتی ثبوت نہیں ہے اس لیے میں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے ذاتی طور پر بہت کچھ معلوم ہے، اس میں ہماری صحافت کے شعبے کے بڑے بھی شامل ہیں اور سیاستدان تو ہیں ہی۔ ہر بڑا صنعت کار سوئس اکاؤنٹ رکھتا ہے۔ مجھے ایک بار اچانک باہر جانا پڑا تو میرے ایک دوست صنعتکار نے یہ معلوم ہونے پر مجھ سے کہا کہ فلاں آدمی کو میرا نام لے کر جتنی رقم کی ضرورت پڑے لے لینا۔

ایسے ہی کسی وقت کے لیے میں نے کچھ رقم باہر رکھ دی ہے۔ مجھے ضرورت تو نہیں پڑی لیکن میری ان صاحب سے ملاقات ہوئی جو میرے منتظر تھے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے شہریوں کو جو وظیفہ ملے گا اس میں شاید کسی مرحوم پاکستانی کی جمع پونجی بھی شامل ہو جو درحقیقت اس کی نہیں آپ کی یا میری ہو یعنی آپ کے یا میرے حق کو مار کر یہ رقم جمع کی گئی ہو اور اب ان کی وفات کے بعد یہ یورپ کے ایک دولت مند ملک کے شہریوں میں بانٹی جا رہی ہو۔ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ سب ممکن ہے جب کہ کسی پاکستانی کی رقم کو پاکستان کے عوام کو بھی لوٹایا جا سکتا تھا لیکن جن لوگوں کو اپنے ملک اور قوم پر اعتماد نہ ہو یا ان کی پروا نہ ہو کوئی دوسرا ایسا کیوں کرے گا۔

سوئٹزر لینڈ یا کسی دوسرے ملک میں جمع کسی پاکستانی کی رقم کو واپس لایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے کسی ایسی ہمت کی ضرورت ہے جو دولت واپس لانے والوں میں موجود ہو۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب الجزائر میں انقلابی کامیاب ہو گئے اور فرانس سے آزادی مل گئی تو نئی انقلابی حکومت نے سوئٹزر لینڈ کی حکومت سے باقاعدہ مطالبہ کیا، ضروری کارروائی کے بعد الجزائر کی انقلابی حکومت کو یہ رقم مل گئی۔ پاکستانی حکمران بھی ایسا مطالبہ کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ خود اس جرم میں ملوث نہ ہوں۔ ان دنوں امریکی ڈالروں کے خلاف ہمارے لیڈر بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ میں جب ان کے نام دیکھتا ہوں تو ان کی جرأت پر حیرت زدہ رہ جاتا ہوں کہ کیا یہ سب کچھ کہتے ہوئے انھیں اپنے ان اہل و عیال کا خیال نہیں آتا جو امریکا میں مقیم ہی نہیں اس کے شہری ہیں۔

میرے خیال میں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسی اسلامی نظریاتی ریاست کے کسی شہری کی دہری شہریت ایک شرعی جرم ہے خصوصاً کسی غیر مسلم ملک کی شہریت لیکن ہمارے کئی علماء کرام بھی اس دہری شہریت کے اعزاز کے حامل ہیں مگر اس کے باوجود پاکستان جیسے نظریاتی ملک کی حکمرانی کے خواب دیکھتے ہیں۔ یوں تو اس ملک کے اکثر حکمران خود کو سیکولر کہتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حکمران تو کل کی بات ہیں اور ان سے پہلے کتوں کا شوقین پرویز مشرف بھی جو سیکولرازم کا دم بھرتے تھے اور کس کس کا ذکر کریں۔ ایوب خان بھی سیکولرازم کے دعوے دار تھے اور ان دنوں تو سیکولرازم ایک فیشن بن گیا ہے جیسے کبھی ترقی پسندی اور کمیونزم فیشن تھے۔

بات ہو رہی تھی سوئٹزر لینڈ کی حکومت کی جو ہمارے جیسوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اپنے عوام کی خدمت کر رہی ہے عین ممکن ہے ہمارے ہاں اگر کبھی کوئی پاکستانی حکومت آ گئی یعنی ایسی حکومت جو پاکستان کو کوئی مقبوضہ ریاست نہیں بلکہ اپنا ملک سمجھے تو وہ اگر اپنا مال وصول نہیں کرے گی تو پھر بھی اس کی لوٹ مار بند کر سکے گی۔ ہمارے ایک مشہور افسر تھے جو کئی ترقیاتی منصوبوں کے سربراہ رہے وہ ہمارے ہاں جب تھل کے ریگستان کو گل و گلزار بنانے کے منصوبے کے نگران بنے تو انھوں نے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا کہ رشوت لو لیکن کام سو فیصد کرو اور رشوت کی رقم یہیں اپنے عوام پر لگاؤ یعنی ملک کے اندر کوئی کام کرو۔

ان دنوں ابھی سوئٹزر لینڈ وغیرہ نہیں تھے۔ لاہور کی پرانی نئی آبادیاں مثلاً سمن آباد، شاہ عالمی بازار وغیرہ اسی افسر کی یادگار ہیں۔ ان دنوں کاروباری لوگوں کی حکومت ہے۔ ان کی خدمت میں کچھ عرض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ ہم آپ سے زیادہ جانتے ہیں اور کئی سوئٹزر لینڈی سرمایہ دار ان کے ہاتھ سے نکلے ہیں۔ بہر کیف پاکستانی عوام ایک یورپی ملک سوئٹزر لینڈ کو یاد رکھیں اور اس کے اس قانون کو جس کے تحت وہ ہمیں شرمسار اور اپنے عوام کو خوش کر رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں