جو ڈر گیا وہ گھر گیا
قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اہل کار بڑے تجربہ کار ہوتے ہیں وہ کسی ’’عام آدمی‘‘کو سو پردوں میں بھی ڈھونڈ لیتے ہیں
جھوٹ کہا تھا گبر سنگھ نے کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا، بلکہ سچ یہ ہے کہ جو ڈر گیا وہ بچ گیا اور صحیح سلامت اپنے گھر گیا، ورنہ آج کے دور میں گھر سے نکلنے والا اگر نہیں ڈرتا تو زندگی کی راہوں میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی کے ہاتھ سے خرچ ہو جاتا ہے، کسی نہ کسی گلی میں اس کی زندگی کی شام ہو جاتی ہے اور گھر والے راہ دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ شہر گیا ہوا ہمارے لیے یہ یہ اور وہ وہ لے کر آئے گا لیکن وہ سفید کفن اوڑھے ہوئے خالی ہاتھ آ جاتا ہے،
تم شہر سمجھتے ہو جس کو، پوچھو نہ وہاں کیا حالت ہے
ہم بھی تو وہاں سے لوٹے ہیں بس شکر کرو لوٹ آئے ہیں
لیکن گھر واپس لوٹ آنے والے صرف وہی ہوتے ہیں جو ڈرتے ہیں یعنی جو ڈر گیا وہ گھر گیا ۔۔۔ اور جو نہ ڈرا وہ مر گیا کیوں؟ کیسے؟ کہاں؟ یہ پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ مرنے کے لیے ہزار وجوہات ہر جگہ موجود ہوتی ہیں لیکن جینے کے لیے راستہ بہت کم ملتا ہے وہ بھی کم کم لوگوں کو، ورنہ مرنے کی راہیں بے شمار، کسی نہ کسی پر تو چل پڑتا ہے یا دھکیل دیا جاتا ہے
عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مر گئے پر دیکھئے دکھلائیں کیا
بات یوں آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی بلکہ ''ڈر'' کی افادیت پوری طرح واضح نہیں ہو سکے گی جب تک ہم آپ کو باقاعدہ ''ڈیمو'' کر کے نہ دکھائیں، آیئے شہر چلتے ہیں اور گھر کی کچھ ضروری اشیائے صرف خرید لاتے ہیں، صبح سویرے آپ جیب میں اپنی حیثیت کے مطابق پیسے ڈال کر نکلیں گے تو پہلا ٹاکرا آپ کا ان لوگوں سے ہو گا جو اپنے گھروں کا سارا گند اور گندا پانی راستے میں چھوڑ رہے ہیں، آپ ایک ایسے گڑھے کے پاس سے گزرتے ہیں جو ایک نئے نئے مالدار ہونے والے کے گھر سے بیچ راستے میں بہتا ہے، اس نے پچیس تیس لاکھ لگا کر عظیم ا لشان گھر بنوایا ہے، خوب صورت رنگوں سے سجایا ہے، ایک بڑا سا لوہے کا گیٹ بھی لگایا ہے جس پر طرح طرح کے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں دونوں اطراف میں قیمتی لیمپ اور عقاب وغیرہ بھی بنائے ہیں ۔۔۔ لیکن دو سو روپے کے پائپ سے چونکہ اس کی ماں اور دادی نانی مر سکتی تھی اس لیے گھر کا سارا پانی گھر سے نکل کر پورے راستے میں پھیلا ہوا ہے، آپ کے قریب پہنچتے ہیں ایک تیز رفتار گاڑی بھی آتی ہے اور گڑھے کا پانی اچھل کر آپ کو شرابور کرتا ہے، اب اگر آپ ڈرتے نہیں ہیں تو پہلے تو گاڑی والے سے الجھیں گے اس کے بعد گھر والے کو برا بھلا کہیں گے، نتیجے میں یا تو اسپتال پہنچیں گے یا تھانے۔۔۔ لیکن ان دونوں مقامات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ڈر جائیں اور اپنے ''گھر'' جائیں ۔۔۔ کپڑے بدلنے کے لیے ورنہ ''مر'' جائیں یا ''ڈھر'' جائیں
ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
کپڑے بدل کر آپ نہایت احتیاط سے اپنا دامن اور دین و دل بچا کر بس اسٹاپ پہنچتے ہیں، بس میں بیٹھتے ہیں لیکن کرائے کا مرحلہ آتا ہے تو کرائے کا پیڑ صرف ایک رات میں دو چار پتے اور نکال چکا ہوتا ہے، آپ کلینر سے یہ پوچھ تو سکتے ہیں کہ میاں کل تو اتنا کرایہ تھا اور آج اتنا تو جواب میں آپ کو ڈیزل کی مہنگائی کا مژدہ ملے گا، آپ یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ ڈیزل تین روپے مہنگا ہوا ہے لیکن تم نے فی کس تین روپے بڑھا لیے ، کیا یہ بس مجھ اکیلے کو لے کر جا رہی ہے، لیکن اس کے جواب میں بہت کچھ مل سکتا ہے، اس کا انحصار کلینر کی ''شرافت'' پر ہے اگر وہ ذرا کم شریف ہوا تو آپ کو عام الفاظ میں کہے گا کہ یہی کرایہ ہے جانا ہو تو دے دو ورنہ اتر جاؤ ۔۔۔ اور اگر کچھ زیادہ شریف ہوا تو باقاعدہ بازو سے پکڑ کر سیٹ سے اٹھا دے گا اور دروازے کی طرف دھکیل کر کہے گا اتر ورنہ۔۔۔ اس کے بعد کے الفاظ لکھنے کے نہیں ہیں، یہی وہ مقام ہے جہاں آپ یا تو نہیں ڈریں گے اور یا ڈریں گے اگر نہیں ڈریں گے تو کلینر کو ترکی بہ ترکی جواب دے کر اس کے ساتھ مشت و گریباں ہو جائیں اور پیچھے سے ڈرائیور آ کر آپ کے سر پر کوئی راڈ پانا وغیرہ مار دے گا، ظاہر ہے کہ آپ کی اگلی منزل اسپتال ہو گی اور یا کلینر اور ڈرائیور آپ کو قریبی تھانے پہنچا دیں جو بس والوں سے ماہانہ ہدیہ وصول کرتا ہے البتہ اگر آپ نے دوسرے آپشن پر غور کیا تو خاموشی سے مطلوبہ کرایہ نکال کر کلینر کے ہاتھ پر رکھ دیں گے اور شام کو صحیح سلامت گھر لوٹ آئیں گے گویا جو ڈر گیا وہ گھر گیا، اور جو ڈٹ گیا وہ پھٹ گیا
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
شہر میں پہنچتے ہی دو باتیں ہوں گی، آپ یا تو رکشے میں جائیں گے یا پیدل جائیں گے، رکشے میں گئے تو آخر میں آپ کے اترتے ہی رکشے والا آپ کی چمڑی ادھیڑنے کا کام کرے گا اور یا نہیں کرے گا، نہیں کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ حکومت نے کھال اتارنے کے لائسنس بالکل سستے بلکہ مفت کر دیے ہیں، اب کوئی بہت بڑے دل والا ہی ہو گا جو کھلا لائسنس ہونے کے باوجود کھال نہ اتارے، چاہے وہ رکشے والا ہی کیوں نہ ہو، یہ کھال اتارنے کے لائسنس تین کیٹگری کے ہوتے ہیں، ایک ہائی فائی قسم کا لائسنس ہے جو صرف سرکاری محکموں اور خاص خاص قسم کے تاجروں کو ایشو ہوتے ہیں، اس میں کھال اتارنے کے تین تین ریزن دیے ہوئے ہوتے ہیں، نمبر 1 بجلی، نمبر 2 پٹرولیم اور نمبر 3 مہنگائی، اس آخری کیٹگری کے لائسنس کو آپ ملٹی پرپز یا کثیر المقاصد یا جنرل لائسنس بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ نائی سے لے کر موچی تک، مستری سے لے کر سپئیر پارٹس کی دکانوں تک اور ہول سیلر دکاندار سے چھابڑی فروش تک سب کے پاس ہوتے ہیں، آپ لاکھ کہیں کہ کیا ''استرا'' بجلی سے چلتا ہے، ہتھوڑا پٹرول یا ڈیزل سے کام کرتا ہے اور پلاس گیس کھاتا ہے لیکن:
واں ایک خامشی ترے سب کے جواب میں۔۔۔ یا مشہور و معروف فقرہ ۔۔۔ کہ مہنگائی کو تو دیکھو
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
اب رکشے والے کے ساتھ آپ دو کام کر سکتے ہیں کہ ایک تو یہ کہ اس سے بحث مباحثہ اور تو تو میں میں کے مراحل سے گزر کر مشت و گریبانی تک پہنچ جائیں لیکن گریبان یقیناً آپ کا ہو گا اور ''مشت'' اس کی ہو گی کیوں کہ راہ چلتے ہر رکشہ والا بریک لگا کر اپنے ہم پیشہ کی مدد کرے گا، آخری نتیجے کے طور پر وہی دو مقامات آہ و فغاں یعنی تھانہ اور اسپتال، اگر آپ بے ''بہادر'' ہیں تو ان میں سے کسی نہ کسی مقام پر پہنچ جائیں گے اور اگر آپ ہشیار ہیں تو چپ چاپ رکشے والے کا منہ مانگا کرایہ اس کے ہاتھ پر رکھ دیں گے ۔۔۔ یعنی اور اپنی جان سلامت لے جائیں گے گویا جو ڈر گیا وہ گھر گیا ۔۔۔ اور صرف وہی اپنے گھر گیا جو ڈر گیا ۔۔۔ اور جو لڑ گیا وہ پڑ گیا
اس گزرگاہ سے پہنچیں گے تو کہیں منزل تک
جو بھی گزرے گی گزاریں گے گزرنے والے
رکشے والے سے ڈرنے اور جان سلامت رکھنے کے بعد آپ کسی نہ کسی دکان دار کے پاس تو جائیں گے کیوں کہ پانی کو بہرحال ''پن چکی'' سے ہو کر گزرنا ہوتا ہے یا دانے کا راستے دو پتھروں کے بیچ میں سے گزر کر جاتا ہے، لیکن یہ ہم نے صرف ان خوش قسمتوں کا ذکر کیا ہے جو اپنی کسی نیکی یا ماں کی دعا اور جنت کی ہوا کی وجہ سے کسی قانون نافذ کرنے والے کے ہاتھ نہیں چڑھتے، ویسے ایسا ممکن تو نہیں ہے کیوں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہل کاروں کی نظروں سے بچ کر نکلنا ایسا ہے جیسے کوئی دریا میں سے ہو کر بھی اپنا لباس سوکھے کا سوکھا لے جائیں ۔۔۔ ورنہ
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باس
دریا کے بیچوں بیچ مگر مچھوں سے بچ کر نکلنا صرف مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے کیوں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اہل کار بڑے تجربہ کار ہوتے ہیں وہ کسی ''عام آدمی'' کو سو پردوں میں بھی ڈھونڈ لیتے ہیں اور پھر اسے سکھاتے ہیں کہ عام آدمی کو اس ملک میں کتنے بے پناہ بے عزتی کے ''مواقع'' حاصل ہیں اور ان مواقع کو کس فرض شناسی سے اس کی جھولی میں ڈالا جاتا، یہاں بھی وہی سلسلہ ہو گا اگر آپ ڈر گئے تو سمجھو کہ صحیح سلامت گھر گئے اور اگر کچھ آنی کانی کر کے بہادری کا مظاہرہ کیا تو شاید لواحقین آپ کو عمر بھر ڈھونڈتے ہی رہ جائیں اور آپ کسی دریا کی تہہ میں مچھلیوں کا ''خوان لغما'' بنے ہوئے ہوں گے، حقیقت تو یہ ہے کہ ''عام آدمی'' بہت جلدی پہچان لیا جاتا ہے کیونکہ پہچاننے والے قیامت کے نظر باز ہوتے ہیں،
وہ سر بام چڑھے زلف کا پردہ لے کر
ہم قیامت کے نظر باز تھے پہچان گئے
چلیے مان لیتے ہیں کہ آپ بچ بچار ''ماں کی دعا جنت کی ہوا'' کے سہارے دکاندار تک پہنچ گئے پھر آگے کیا ہو گا یہ کون نہیں جانتا، وہی تین لائسنس، تین چھریاں اور تین پتھر اس کے پاس بھی ہوتے ہیں بجلی پٹرولیم اور مہنگائی ۔۔۔ اور یہی آپ کا اصل امتحان گاہ ہے ڈر گئے تو گھر چلے جائیں گے اور نہ ڈرے تو سمجھو کہ ماں کی دعا بھی جنت کی ہوا کے ساتھ اڑ کر کہیں چلی گئی ہے اس لیے دور جدید کے داناؤں کا قول زرین ہے کہ جو ڈر گیا ۔۔۔ وہ گھر گیا ۔۔۔ اور جو کر گیا وہ مر گیا۔