کامیابی کی کنجی

ماضی کی شاندار اور پرشکوہ تہذیب کا عیب آج کا ہنر سمجھا جاتا ہے۔

شرفا اور اعلیٰ نسب لوگوں کے نزدیک خود اپنے منہ سے اپنی تعریف کرنا نہایت معیوب بات سمجھی جاتی تھی اور اسے اپنے منہ میاں مٹھو بننا کہتے تھے۔ خاکساری اور انکسار اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہوتی تھی۔ اگر کوئی ضرورت سے زیادہ اپنے بارے میں بات کرتا تو کہا جاتا تھا کہ ۔۔۔ خالی برتن بجتا بہت ہے، جب کہ دودھ سے بھری پتیلی میں سے آواز نہیں آتی۔ اسی طرح دولت مند اور سخی انسان کی مثال برگد کے درخت سے دی جاتی کہ جو جتنا زیادہ پھیلتا ہے اتنا ہی زمین سے لگتا جاتا ہے۔ ناطق لکھنوی نے اسی بات کو یوں کہا ہے:

کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت

جس کا جتنا ظرف ہے، اتنا ہی وہ خاموش ہے

گویا خودستائی کو کبھی اچھا نہیں سمجھا گیا، مولانا رومی نے بھی اپنی مثنوی میں اس کی مذمت کی ہے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدل گیا ہے۔ اب خودستائی عیب نہیں بلکہ ہنر سمجھی جاتی ہے۔ اپنی ذات کے قصیدے جگہ جگہ پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کوئی خود کو اتنا بڑا قلمکار بتا رہا ہے کہ کالم چھپتے ہی فون کی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔ خطوط، ای میل اور فیس بک کا عذاب الگ ہے۔ ہر ایک کی یہی فرمائش اور ستائش کہ وہ صرف ان ہی کی تحریر پڑھتے ہیں۔ وہی سب سے مقبول کالم نگار اور مصنف ہیں۔ فیس بک پر ان کے چاہنے والوں کی تعداد تمام اخبارات میں کالم نویسوں کے چاہنے والوں سے سب سے زیادہ ہے۔ گویا جو بات کبھی عیب تھی آج وہی باعث افتخار ہے۔

اب تو لوگ اپنا قصیدہ بھی خود لکھتے اور خود پڑھتے ہیں۔ پہلے کبھی کوئی شخص کسی کی تعریف کرتا تھا تو مخاطب جھینپ جایا کرتا تھا اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکل جاتا تھا کہ۔۔۔ آپ کی ذرہ نوازی ہے، ورنہ بندہ کس قابل۔۔۔۔ لیکن آج ہر طرف سے، میں، میں اور صرف میں، کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ میں سب سے بڑا لیڈر ہوں، باقی سب گھاس کاٹتے ہیں، میں سب سے بڑا اور مقبول شاعر ہوں، میں سب سے بڑا گوّیا ہوں، میں موسیقار ہوں، میرا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں، میں سب سے بڑا اداکار ہوں، میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا کالم نگار ہوں، میں سب سے مشہور کھلاڑی ہوں، میں دنیا کا نمبر ون باورچی ہوں، (باورچی کو اب شیف کہا جاتا ہے) بالکل ایسے ہی جیسے نائی اور حجام کو ہیئر ڈریسر کہا جانے لگا ہے۔ اس طرح شاید ان کی جنس اور اوقات دونوں بدل جاتی ہیں۔

ماضی کی شاندار اور پرشکوہ تہذیب کا عیب آج کا ہنر سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے آس پاس بھی یقیناً ایسے ''مرزا ظاہر دار بیگ'' پائے جاتے ہوں گے۔ یا کبھی نہ کبھی آپ کا ان سے واسطہ ضرور پڑتا ہو گا، جن کی نوک زباں پر ہمہ وقت ''پدرم سلطان بود'' رہتا۔ اگر ان پدرم سلطان بودوں کے مقابل پڑھے لکھے اور عالم، ادیب اور سچ مچ کے دانشور اور فلسفی بیٹھ گئے تو یہ بغلیں جھانکنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود تو خود ان کے بڑوں کو بھی معلوم نہیں کہ ادب، تہذیب اور آگہی سے وابستہ یہ کون لوگ ہیں، ان کے لیے یہ زیادہ فائدہ مند ہے کہ ایک فون پر یہ اپنی ذات میں نمایاں قصیدہ گو بھاگتے چلے آتے ہیں۔ کسی شاعر نے شاید ان ہی کے لیے یہ شعر کہا تھا:


جذبہ شوق سلامت رہے انشاء اﷲ

کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے

چلیے! ایسی چند شخصیات سے میں بھی آپ کو ملوا دیتی ہوں۔ ویسے تو سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے ۔۔۔۔ لیکن کالم کی تنگ دامانی اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایک خاتون ہیں خاصی بھاری بھرکم سی۔ ان کی وجہ شہرت بھی یہی ہے کہ فنون لطیفہ کی کوئی بھی شاخ ہو، یہ اس میں ماہر، یہ ہر نجی محفل اور تقریبات میں ایسے لوگوں کو تلاش کرتی ہیں جو بیرون ملک مقیم ہوں۔ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ان کی قریبی نشست حاصل کر لیتی ہیں۔ پھر اپنی قابلیت کا قصیدہ خود ہی اپنی زبانی سناتی ہیں۔ اگر وہ شخص کسی غیر ملکی NGO یا ادبی فورم سے وابستہ ہے تو فوراً اسے اپنے گھر دعوت پر بلاتی ہیں اور جواب میں اس ملک میں مشاعرہ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں۔ باتوں باتوں میں یہ بھی جتلا دیتی ہیں کہ صرف انھیں دعوت نامہ چاہیے۔ سفری اخراجات وہ خود برداشت کر لیں گی۔ ایک خوبی ان میں یہ بھی ہے کہ کسی سے بھی پہلی ملاقات میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہیں کہ دنیائے ادب کا تمام تر کاروبار ان ہی کے دم قدم سے چل رہا ہے۔ چند دن پہلے ہی ایک دعوت میں انھیں ایک صاحب سے امریکا بلانے کی ضد کرتے دیکھا۔ لیکن موصوف شاید وجہ شہرت سے واقف تھے۔ اس لیے فوراً ہی وہاں سے کھسک گئے۔

ایک اور کرم فرما ہیں، اپنے آگے کسی کو بولنے نہیں دیتے۔ زمانے بھر کا علم انھیں ازبر ہے۔ کسی دوسرے کی کیا مجال جو ان کی کسی بات کی تردید کر سکے۔ خود کو پندرہ زبانوں کا ماہر کہتے ہیں۔ کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ ان سے پوچھے کہ اردو، انگریزی اور پنجابی کے علاوہ اور کون کون سی زبانیں جانتے ہیں۔ ایک خاتون گاہے گاہے اپنی امارت کے قصے ہم لوگوں کو سنایا کرتی تھیں۔ چونکہ اندرون سندھ سے ٹرانسفر ہو کر آئی تھیں۔ اس لیے تصدیق تو ممکن نہ تھی۔ لیکن ہم سب ان کی احمقانہ سطحی باتوں سے بور بہت ہوتے تھے۔ مثلاً انھوں نے کل ایک نیا سونے کا سیٹ خریدا۔ پانچ ہزار کی لپ اسٹک خریدی، ان کا بھائی اور بھابی سال میں دو مرتبہ سوئٹزر لینڈ جاتے ہیں۔ ان کا گھر بہت بڑا ہے۔ ایک دن ان کی ان ہی باتوں کو سن کر مجھ سے چپ نہ رہا گیا اور بے اختیار کہہ اٹھی کہ خاندانی امیر کبھی بڑبولا نہیں ہوتا۔ دوسری پروفیسر نے گرہ لگائی کہ خاندان تو شکلوں سے ظاہر ہوتے ہیں، جنھیں اچانک کہیں سے دولت مل جائے وہ اکثر و بیشتر اس کا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے۔

اس وقت تو وہ چپ ہو گئیں لیکن اگلے دن کالج سے واپسی کو ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہ ہوا تھا کہ چوکیدار نے بتایا کہ کوئی مجھ سے ملنے آیا ہے۔ نیچے کی منزل میں بھائی رہتے تھے۔ بھابی نے ان صاحبہ اور چوکیدار کے ساتھ اپنی بیٹی کو بھی اوپر بھیج دیا۔ دیکھا تو وہی خاتون کھڑی ہیں۔ حیران ہو کر اپنے کمرے میں لے گئی اور آمد کی وجہ پوچھی تو بولیں ''طارق روڈ سے کچھ شاپنگ کرنی تھی، سوچا تمہارا گھر بھی دیکھ لوں''۔ پھر چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر انھوں نے پورا گھر دیکھنے کی فرمائش کی۔ لہٰذا اوپر اور نیچے سب جگہ لے گئی۔ البتہ جو کرائے داروں والا حصہ دکھانے سے معذرت کی تو کہنے لگیں۔۔۔۔ ''اچھا یہ بتاؤ پورا بنگلہ کتنے گز پر ہے؟ اور یہ لان کے لیے اتنی جگہ کیوں بے کار میں چھوڑ دی؟ یہاں بھی تو ایک خاصا بڑا پورشن بن سکتا تھا''۔ مجھے اس وقت ان پر شدید غصہ آیا، لیکن صرف اتنا کہہ سکی۔ کیا خریدنے کا ارادہ ہے جو یوں پیچھے پیچھے چلی آئیں۔ وہ بھی بغیر بتائے۔۔۔۔ آخر کیا دیکھنا چاہتی تھیں؟

چند ہفتے بعد اے جی سندھ میں ان کی ایک پرانی اسکول کی ساتھی اور پڑوسن مل گئیں جنھوں نے انکشاف کیا کہ اندرون سندھ ان کے والد کی ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان تھی۔ یہ اپنے خاندان میں واحد ہیں جنھوں نے ماسٹرز کیا، پھر ایک پولیس والے سے شادی ہو گئی جس کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا، جس کی بدولت ان کا تقرر کالج میں ہو گیا۔ بعد میں کراچی آ کر کئی برس یہ ایک پسماندہ بستی میں رہتی رہیں لیکن ان کے شوہر کو پولیس کی ملازمت کا مطلب پتہ تھا۔ لہٰذا بہت جلد ایک بڑا مکان بنا لیا اور شیخی بگھارنا فن بنا لیا۔ لیکن جلد ہی بے نقاب بھی ہو گئیں۔ اب ان کی پہچان ان کی یہی ڈینگیں مارنے والی عادت ہے۔
Load Next Story