کوئی ہم سا ہوگا
اگر مجرم اور دہشت گردی کرنے و کروانے والے کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو موجودہ جاری جرائم کی بھرمار رکنے کی بجائے۔۔۔
یہ چار دہائیاں پرانی بات ہے جب شام کے وقت پاکستان کے نامور قانون دان اور چیف جسٹس سپریم کورٹ اے آر کارنیلیس راولپنڈی کے ڈان باسکو ہائی اسکول کے لان میں ڈیڑھ دو سو معروف سامعین کے سامنے تقریر کرتے ہوئے اپنا پیپر پڑھ رہے تھے جس کا عنوان تھا Constitutional Muslim۔ اگرچہ میں کرسیوں کی اگلی قطار میں بیٹھا تھا لیکن ڈیوٹی پر تھا۔
میرے ساتھ والی کرسی پر معروف دانشور اور وائس چانسلر ڈاکٹر کنیز یوسف بیٹھی تھیں۔ جج صاحب اپنا مضمون پڑھ چکے تو پروفیسر صاحبہ نے وقفہ سوالات کے دوران ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر مجھے چٹ پکڑائی اور کہا ''لو جسٹس صاحب سے یہ سوال کرو'' میں نے سوال پڑھا جو یوں تھا کہ ''اگر اسلام سے اتنے ہی متاثر ہو تو خود مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے۔'' میں نے جواب دیا کہ ''ڈاکٹر صاحبہ میں ٹھہرا کم علم اگر انھوں نے مجھے بحث میں الجھا لیا تو میری قابلیت و علمیت کا پردہ چاک ہو جائے گا۔ آپ خود سوال کرو۔'' انھوں نے تو سوال نہ کیا لیکن پھر جو سوال و جواب شروع ہوئے تو چائے کی میز تک چلے۔ میرا حاصل صرف اتنا رہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب سے ملاقات ہو گئی ،کسی غیر متنازعہ چیف جسٹس سے یہ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
کارنیلیس صاحب نے جسٹس دراب پٹیل کی طرح مجرد زندگی گزاری اور اچھی شہرت کے ساتھ اس جہاں سے سدھارے۔ میرے ایک دوست فاروق شاہ فلیٹیز ہوٹل کے منیجر تھے تو ہوٹل ہی کے کمرے میں فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ ایک بار انھوں نے برابر والے کمرے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس میں جسٹس کارنیلیس رہائش رکھتے ہیں۔ جج صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد ایک روز لاہور ہائی کورٹ بار میں دوستوں سے ملنے چلے گئے تو چائے پیتے ہوئے وکلاء سے پوچھا کہ آج کل کون کون ججز ہیں۔ انھوں نے نام بتائے۔ ڈوگر اور تارڑ صاحب کے نام لیے تو کارنیلیس صاحب نے کہا کہ پہلے تو اس طرح کے نام پولیس کی ایف آئی آروں میں پڑھنے کو ملتے تھے۔
ججز کا ذکر ہو تو مقدمات کے فیصلوں کا حوالہ ضروری ہو جاتا ہے۔ عدالتوں میں زیر سماعت و فیصلہ طلب مقدمات کی بھرمار کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ججز کی تعداد کم ہے اور مقدمات کے انبار لگتے چلے جانے کی وجہ سے فیصلے ہونے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ دراصل فریقین مقدمہ میں سے ایک فریق تو جلد از جلد فیصلہ چاہتا ہے جب کہ دوسرے فریق مقدمہ کو تاخیر فائدہ پہنچاتی ہے اس لیے ایک طرف تو اس کا وکیل نئی سے نئی موشگافیاں نکال کر فیصلہ نہیں ہونے دیتا دوسرے کچھ ایسی وجوہات ہیں جن سے عدلیہ کے نیک نا م پر حرف آنے کا امکان ہو سکتا ہے۔ ایک دکھی فریق مقدمہ نے اپنے خیالات و جذبات اپنی ایس ایم ایس سے یوں واضح کیے کہ ''مقدمے کو انجام تک پہنچتا دیکھنے کے لیے انسان کے صبر ایوب، عمر خضر اور قارون کا خزانہ ہونا شرط ہے۔'' البتہ دہشت گرد ملزموں کو سزائیں نہ ہونے بلکہ بلا تاخیر ضمانت بھی ہو جانے کی وجہ بڑی واضح ہے کہ گواہ استغاثہ، پراسیکیوٹر، تفتیشی افسر اور جج صاحبان ہر کوئی خود دہشت گردی کا شکار ہو جانے کے ڈر سے مقدمہ میں ملوث دہشت گرد کو سزا نہیں دلوا پاتے۔
واقعات موجود ہیں کہ حکومت مذکورہ اشخاص کے تحفظ میں بے بس پائی گئی ہے۔ یہاں اگر سزا دینے اور دلوانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی تو لوگوں کے اس مطالبے پر کہ دہشت گردوں کو شہروں کے چوکوں میں پھانسی دی جائے، کچھ کمٹمنٹ کرنا بے فائدہ ہے۔ اگر مجرم اور دہشت گردی کرنے و کروانے والے کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو موجودہ جاری جرائم کی بھرمار رکنے کی بجائے رفتار پکڑ سکتی ہے۔ اگر موجودہ حکومت نے اپنی میعاد پوری کرنی ہے تو مسائل پر قابو پانا ہو گا۔
ابراہیم لنکن کا مقولہ کہ ''ہر شخص قابل خرید ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ شخصیات کی قیمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ کوئی ادا ہی نہیں کر سکتا، اس لیے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں خریدا ہی نہیں جا سکتا۔'' ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ناقابل خرید اشخاص والا مقولے کا حصہ مشکوک ہے۔ دور کیوں جایئے گزشتہ کئی ادوار فوجی ہوں یا سویلین، آنے جانے اور اقتدار کی غلام گردشوں کے اسیروں کے نام اور چہرے پڑھ لیجیے، ہر ایک کے گلے میں برائے فروخت کی تختی لٹکتی ملے گی اور ادھر نظر دوڑایئے جہاں عدالت عظمیٰ نے درجنوں کرپشن کیس بے نقاب کر کے گزشتہ اور موجودہ حکومت کے سامنے رکھے لیکن کسی کو سزا ہوئی نہ قید، سب موجیں مارتے دوڑ بھاگ کرتے آزاد گھوم رہے ہیں۔ بے شمار Suo Moto ایکشن کے کردار مزے اڑا رہے ہیں۔
سرکاری ملازموں کے تبادلے ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے لیکن ہر آنے والا حکمران یہ تماشا لگا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے اور ملازمت سے برطرف کرنے کا اقدام اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ فوجی حکمران اقتدار سنبھالتے ہی اکھاڑ پچھاڑ کر کے سیکڑوں افسروں کو اپنی آمد کی اطلاع دینا اپنا فرض اولیں سمجھتے ہیں۔ خود میری دو ٹرانسفرز بغیر وجہ Tenure پورا ہونے سے بہت پہلے ہوئیں۔ پہلی جنرل یحییٰ خان کی آمد پر راولپنڈی سے گوجرانوالہ اور دوسری جنرل ضیاء الحق کے ٹیک اوور کے فوراً بعد گوجرانوالہ سے لاہور لیکن لاہور میں مجھے چوہدری غلام حسین صاحب جیسا مشفق ڈپٹی کمشنر ملا جن کے پوتے سے دو روز قبل چیف جسٹس افتخار چوہدری کی صاحبزادی کی شادی ہوئی اور آج اتوار کے روز ولیمہ کی تقریب میں جج صاحب سے بھی ملاقات ہو گی۔ دراصل آج کے کالم کی تحریک بھی چالیس سال قبل چیف جسٹس کارنیلیس سے ملاقات یاد آنے پر اور 24 نومبر یعنی تقریب ولیمہ میں ایک تاریخ ساز چیف جسٹس سے امید ملاقات کی وجہ سے ہوئی۔ جج صاحب نے چند روز قبل دسمبر میں اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے اگر میں شعر کی زبان سے کہوں' تو کہا تھا
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
میرے ساتھ والی کرسی پر معروف دانشور اور وائس چانسلر ڈاکٹر کنیز یوسف بیٹھی تھیں۔ جج صاحب اپنا مضمون پڑھ چکے تو پروفیسر صاحبہ نے وقفہ سوالات کے دوران ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر مجھے چٹ پکڑائی اور کہا ''لو جسٹس صاحب سے یہ سوال کرو'' میں نے سوال پڑھا جو یوں تھا کہ ''اگر اسلام سے اتنے ہی متاثر ہو تو خود مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے۔'' میں نے جواب دیا کہ ''ڈاکٹر صاحبہ میں ٹھہرا کم علم اگر انھوں نے مجھے بحث میں الجھا لیا تو میری قابلیت و علمیت کا پردہ چاک ہو جائے گا۔ آپ خود سوال کرو۔'' انھوں نے تو سوال نہ کیا لیکن پھر جو سوال و جواب شروع ہوئے تو چائے کی میز تک چلے۔ میرا حاصل صرف اتنا رہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب سے ملاقات ہو گئی ،کسی غیر متنازعہ چیف جسٹس سے یہ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔
کارنیلیس صاحب نے جسٹس دراب پٹیل کی طرح مجرد زندگی گزاری اور اچھی شہرت کے ساتھ اس جہاں سے سدھارے۔ میرے ایک دوست فاروق شاہ فلیٹیز ہوٹل کے منیجر تھے تو ہوٹل ہی کے کمرے میں فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ ایک بار انھوں نے برابر والے کمرے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس میں جسٹس کارنیلیس رہائش رکھتے ہیں۔ جج صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد ایک روز لاہور ہائی کورٹ بار میں دوستوں سے ملنے چلے گئے تو چائے پیتے ہوئے وکلاء سے پوچھا کہ آج کل کون کون ججز ہیں۔ انھوں نے نام بتائے۔ ڈوگر اور تارڑ صاحب کے نام لیے تو کارنیلیس صاحب نے کہا کہ پہلے تو اس طرح کے نام پولیس کی ایف آئی آروں میں پڑھنے کو ملتے تھے۔
ججز کا ذکر ہو تو مقدمات کے فیصلوں کا حوالہ ضروری ہو جاتا ہے۔ عدالتوں میں زیر سماعت و فیصلہ طلب مقدمات کی بھرمار کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ججز کی تعداد کم ہے اور مقدمات کے انبار لگتے چلے جانے کی وجہ سے فیصلے ہونے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ دراصل فریقین مقدمہ میں سے ایک فریق تو جلد از جلد فیصلہ چاہتا ہے جب کہ دوسرے فریق مقدمہ کو تاخیر فائدہ پہنچاتی ہے اس لیے ایک طرف تو اس کا وکیل نئی سے نئی موشگافیاں نکال کر فیصلہ نہیں ہونے دیتا دوسرے کچھ ایسی وجوہات ہیں جن سے عدلیہ کے نیک نا م پر حرف آنے کا امکان ہو سکتا ہے۔ ایک دکھی فریق مقدمہ نے اپنے خیالات و جذبات اپنی ایس ایم ایس سے یوں واضح کیے کہ ''مقدمے کو انجام تک پہنچتا دیکھنے کے لیے انسان کے صبر ایوب، عمر خضر اور قارون کا خزانہ ہونا شرط ہے۔'' البتہ دہشت گرد ملزموں کو سزائیں نہ ہونے بلکہ بلا تاخیر ضمانت بھی ہو جانے کی وجہ بڑی واضح ہے کہ گواہ استغاثہ، پراسیکیوٹر، تفتیشی افسر اور جج صاحبان ہر کوئی خود دہشت گردی کا شکار ہو جانے کے ڈر سے مقدمہ میں ملوث دہشت گرد کو سزا نہیں دلوا پاتے۔
واقعات موجود ہیں کہ حکومت مذکورہ اشخاص کے تحفظ میں بے بس پائی گئی ہے۔ یہاں اگر سزا دینے اور دلوانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی تو لوگوں کے اس مطالبے پر کہ دہشت گردوں کو شہروں کے چوکوں میں پھانسی دی جائے، کچھ کمٹمنٹ کرنا بے فائدہ ہے۔ اگر مجرم اور دہشت گردی کرنے و کروانے والے کو نشان عبرت نہ بنایا گیا تو موجودہ جاری جرائم کی بھرمار رکنے کی بجائے رفتار پکڑ سکتی ہے۔ اگر موجودہ حکومت نے اپنی میعاد پوری کرنی ہے تو مسائل پر قابو پانا ہو گا۔
ابراہیم لنکن کا مقولہ کہ ''ہر شخص قابل خرید ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ شخصیات کی قیمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ کوئی ادا ہی نہیں کر سکتا، اس لیے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں خریدا ہی نہیں جا سکتا۔'' ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ناقابل خرید اشخاص والا مقولے کا حصہ مشکوک ہے۔ دور کیوں جایئے گزشتہ کئی ادوار فوجی ہوں یا سویلین، آنے جانے اور اقتدار کی غلام گردشوں کے اسیروں کے نام اور چہرے پڑھ لیجیے، ہر ایک کے گلے میں برائے فروخت کی تختی لٹکتی ملے گی اور ادھر نظر دوڑایئے جہاں عدالت عظمیٰ نے درجنوں کرپشن کیس بے نقاب کر کے گزشتہ اور موجودہ حکومت کے سامنے رکھے لیکن کسی کو سزا ہوئی نہ قید، سب موجیں مارتے دوڑ بھاگ کرتے آزاد گھوم رہے ہیں۔ بے شمار Suo Moto ایکشن کے کردار مزے اڑا رہے ہیں۔
سرکاری ملازموں کے تبادلے ایک معمول کی کارروائی ہوتی ہے لیکن ہر آنے والا حکمران یہ تماشا لگا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے اور ملازمت سے برطرف کرنے کا اقدام اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ فوجی حکمران اقتدار سنبھالتے ہی اکھاڑ پچھاڑ کر کے سیکڑوں افسروں کو اپنی آمد کی اطلاع دینا اپنا فرض اولیں سمجھتے ہیں۔ خود میری دو ٹرانسفرز بغیر وجہ Tenure پورا ہونے سے بہت پہلے ہوئیں۔ پہلی جنرل یحییٰ خان کی آمد پر راولپنڈی سے گوجرانوالہ اور دوسری جنرل ضیاء الحق کے ٹیک اوور کے فوراً بعد گوجرانوالہ سے لاہور لیکن لاہور میں مجھے چوہدری غلام حسین صاحب جیسا مشفق ڈپٹی کمشنر ملا جن کے پوتے سے دو روز قبل چیف جسٹس افتخار چوہدری کی صاحبزادی کی شادی ہوئی اور آج اتوار کے روز ولیمہ کی تقریب میں جج صاحب سے بھی ملاقات ہو گی۔ دراصل آج کے کالم کی تحریک بھی چالیس سال قبل چیف جسٹس کارنیلیس سے ملاقات یاد آنے پر اور 24 نومبر یعنی تقریب ولیمہ میں ایک تاریخ ساز چیف جسٹس سے امید ملاقات کی وجہ سے ہوئی۔ جج صاحب نے چند روز قبل دسمبر میں اپنی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے اگر میں شعر کی زبان سے کہوں' تو کہا تھا
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا