کتاب اور استاد کی جیت

حذیفہ کو کتاب سے عشق موروثی طور پر ملا ہے۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ اس کا عشق تو جنون بن چکا ہے۔


Tariq Mahmood Mian November 23, 2013
[email protected]

جس عمر میں کتاب نے اپنے سحر میں جکڑا ہمیں اس وقت کیا پتا تھا کہ یہ تو کسی اور ہی دنیا کا راستہ ہے۔ ایک انوکھی دنیا، ہاتھ پکڑ کے پل صراط سے گزارنے اور جنت تک لے جانے والا۔ ایک بڑے آدمی نے کہا تھا کہ میں جب بھی جنت کا تصور کرتا ہوں تو مجھے یہی لگتا ہے کہ وہ یقینا لائبریری جیسی ہی کوئی جگہ ہوتی ہوگی۔ پھر کسی اور نے کہا جو کتاب نہیں پڑھتا وہ صرف ایک زندگی جیتا ہے اور پڑھنے والا ایک ہزار زندگیاں۔

ہم کالج میں پہنچے تو لاہور کی سب سے بڑی خوبی یہ دکھائی دی کہ یہاں لائبریریاں ہیں اور پورے بازار جتنی بڑی کتابوں کی دکانیں۔۔۔۔ اتنی بڑی کہ سارا دن وہاں گزار دو۔ جن لوگوں کو پڑھا تھا انھیں ملنے اور دیکھنے کا شوق تھا۔ آئیے! آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم سب سے پہلے کس سے ملے۔ ایک دوست نے ایک روز ذکر کیا کہ یار! لارنس روڈ چلنا ہے۔ وہاں گرلز کالج کی ایک ٹیچر رہتی ہیں ان سے ملنا ہے۔ اس کی بہن کے کسی سرٹیفکیٹ کا معاملہ تھا۔ میں نے ٹیچر کا نام پوچھا تو بولا ''الطاف فاطمہ''۔ اب یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ میں نہ جاتا۔ یہ وہی دن تھے جب ان کے ناول ''دستک نہ دو'' نے اپنا دیوانہ بنایا تھا اور گیتی آراء کے چلبلے کردار نے مسحور کر رکھا تھا۔ لارنس گارڈن کے نواح میں ان کا گھر تھا۔ گھر کی فضا پکار پکار کے کہہ رہی تھی کہ آؤ، دیکھو یہ لاہور میں پیوستہ لکھنو کا ایک قطعہ ہے۔ وہ ایک قدیم پاندان کھولے بیٹھی تھیں اور چھالیہ کاٹ رہی تھیں۔ ہم کوئی نصف گھنٹہ ان کے پاس بیٹھے اور ان کی شفقت سے فیض اٹھایا۔ استاد کے احترام سے تو میں آشنا تھا ہی لیکن اس روز جانا کہ مندر میں ایک دیوی، ایک تخلیق کار کے سامنے حاضری کا سلیقہ کیا ہے۔

بعد کی زندگی میں بھی ارنسٹ ہیمنگوے کی طرح یہی دیکھا کہ کتاب سے زیادہ وفادار دوست کوئی نہیں۔ یہ دوستی ہم آج تک نبھا رہے ہیں۔ میں بھی اور میری کتابیں بھی۔ میں نے چاہا کہ یہ روایت اگلی نسل میں بھی جارہی ہے۔ کچھ کامیابی ہوئی اور کچھ نہیں۔۔۔۔ اور پھر ایک حیران کر دینے والا واقعہ ہوا۔ آئیے! اس کی تفصیل بھی بتاتا ہوں۔ یہ حذیفہ ظفر کا قصہ ہے۔ وہ میری بھتیجی سارہ کا بیٹا ہے۔ بڑے بھائی صاحب جناب طاہر میاں کی بڑی بیٹی۔ ہم جنم جنم سے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ سارہ جامعہ کراچی میں ماس کمیونیکیشن کی طالبہ رہی، پھر شادی ہوئی تو ہمارے آبائی شہر صادق آباد چلی گئی۔ وہ آج بھی کتاب اور چاکلیٹ کو ایک ہی رفتار سے چاٹتی ہے بلکہ اپنے بچوں کا بھی لحاظ نہیں کرتی۔ ان کی یہ دونوں چیزیں چوری کرلیتی ہے۔

حذیفہ کو کتاب سے عشق موروثی طور پر ملا ہے۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ اس کا عشق تو جنون بن چکا ہے۔ ہر سال چھٹیوں کے چند ماہ وہ کراچی میں گزارتا ہے۔ پانچ چھ برس کا تھا کہ اس نے کتابوں کی شاپنگ شروع کردی۔ طارق روڈ، صدر اور کلفٹن کے بڑے بڑے بک اسٹورز پر جاتا تو گھنٹوں وہاں صرف کرتا اور تھیلے بھر کے کتابیں لے آتا۔ یہ سب انگلش میں ہوتیں۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے چکر کتابوں کے اتوار بازار، کتاب میلوں، ٹھیلوں اور فٹ پاتھوں پر بھی لگنے لگے۔ چند برس گزرے تو وہ ان کا اتنا بڑا گاہک بن گیا کہ جوں ہی وہ کسی دکان میں داخل ہوتا وہاں ہلچل مچ جاتی اور سیلز مین دوڑے آتے۔ مسکراہٹوں اور نعروں سے اس کا استقبال ہوتا۔ اس کے پڑھنے کی رفتار بھی جناتی تھی۔ کئی آنیوالی کتابوں کی وہ ایڈوانس بکنگ کروائے رکھتا اور پہلی کاپی حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ جو دستیاب نہیں تھیں انھیں وہ انٹرنیٹ پر خرید لیتا۔ وہ ''ای بکس'' کا بھی اچھا خاصا ذخیرہ جمع کر چکا ہے۔

اسی دوران میں نے اس میں حاضر دماغی، حاضر جوابی اور بذلہ سنجی بھی دھیرے دھیرے پروان چڑھتے دیکھی ہے۔ یوں جیسے کتاب بینی ہولے ہولے سبق پڑھا رہی ہو۔ دیکھنے میں وہ ایک ممی ڈیڈی اور برگر لڑکا دکھائی دیتا ہے، ہر طرف سے انگلش میڈیم لیکن اس کی اردو بھی ٹھیک ہے۔ اتوار کی صبح سب لوگ دیر سے اٹھتے ہیں۔ ایک روز میں باہر لاؤنج میں آیا تو حذیفہ کارن فلیکس کا ناشتہ کر رہا تھا اور اخبار دیکھ رہا تھا۔ میں نے پوچھا ''اچھا تو تم جاگ گئے اور نیچے بھی اتر آئے ہو؟'' سارہ کی طرح وہ بھی مجھے چچا ہی کہتا ہے۔ بولا ''ہاں چچا! میں تو نمودار ہوگیا ہوں، اب باقی بھی رفتہ رفتہ ٹپکنا شروع ہوجائیں گے''۔ اسی وقت دیکھا کہ اس کی 5 سالہ بہن سیڑھیاں اتر رہی ہے۔ دیکھتے ہی بولا ''لیجیے! بوندا باندی شروع بھی ہوگئی''۔

جہاں تک پڑھائی کا تعلق ہے تو ماں باپ نے اسے پڑھنے کے لیے کہیں باہر نہیں بھیجا۔ کراچی اور لاہور بھی نہیں۔ وہ وہیں صادق آباد میں ایف ایف سی گرامر اسکول کا اسٹوڈنٹ ہے۔ ہر سال نمایاں طور پر کامیاب ہوتا ہے، پر یہ تو کوئی بڑی بات نہیں۔ خاندان میں اللہ کے فضل سے یہ روایت چلی آرہی ہے۔۔۔۔ اور پھر وقت کو پر لگے تو معلوم ہوا کہ حذیفہ تو ''او لیول'' میں پہنچ گیا ہے۔

اب کی بار چھٹیوں میں آیا تو میں نے پوچھا ''تمہارے سبجیکٹس کیا ہیں اور سلیبس کیا ہے؟ کچھ پاکستان کے بارے میں بھی پڑھتے ہو یا بس سنگاپور کا جغرافیہ یاد کر رہے ہو؟'' جواب میں جو کچھ اس نے بتایا وہ میرے لیے حیرت کا باعث بھی تھا اور خوشی کا بھی۔ اردو ادب اس کا اختیاری مضمون تھا۔ اس نے اردو کی بہت سی اچھی کتابیں پڑھ رکھی تھیں اور چند ہی دن پہلے ''دستک نہ دو'' ختم کیا تھا۔ اس ناول کے بارے میں اس کی کلاس میں اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث ہوئی تھی اور ایک سوال یہ اٹھا تھا کہ الطاف فاطمہ کے اس ناول کا مرکزی کردار تو گیتی آراء ہے لیکن کیا اس انتہائی مضبوط کردار کے سامنے چینی نقوش والے صفدر یاسین کو اس ناول کا ہیرو قرار دیا جاسکتا ہے؟ میں نے پوچھا ''تمہارا کیا خیال ہے؟'' بولا ''ہاں وہ ہے، کیونکہ تین اہم موڑ ایسے ہیں جہاں صفدر یاسین نے گیتی آراء کی مدد کی یا اس کا سہارا بنا۔

ایک وہ دور جب اس کا لڑکپن تھا اور پھر۔۔۔۔۔'' اس نے اتنے دلکش پیرائے میں تجزیہ بیان کیا کہ مجھ پر سحر طاری ہوگیا۔ میں بھی تب شاید اسی عمر کا تھا جب میں نے یہ ناول پڑھا تھا لیکن اس طرح کے کتابی تجزیے تو نہیں کیے تھے جیسے یہ خالص انگلش میڈیم، او لیول کا اسٹوڈنٹ کر رہا تھا۔پھر اس نے او لیول کا امتحان دے دیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس چھوٹے سے شہر صادق آباد کے ایف ایف گرامر اسکول کی فیکلٹی اتنی مضبوط ہے کہ وہاں کے اساتذہ یوں کام کرتے ہیں جیسے محاذ جنگ پر ہوں۔ ایک طرف تو حذیفہ کے سامنے ہر کتاب ایک کھڑکی کھولتی گئی۔۔۔۔۔ اور پھر کھڑکی در کھڑکی، جانے علم و آگہی کے کیسے کیسے در وا ہوتے گئے۔۔۔۔ اور دوسری طرف اس کے اساتذہ تھے۔ وہ اساتذہ جنھیں اسکول والوں نے ملک کے بڑے بڑے اور معروف اسکولوں اور کالجوں سے جمع کیا ہے۔ انھیں مراعات دی ہیں، رہائش دی ہے اور وہ سب مطمئن ہیں۔

سارہ نے انٹرنیٹ پر رزلٹ چیک کیا تو حیرت زدہ رہ گئی۔ حذیفہ نے گیارہ مضامین کا امتحان دیا تھا اور اس نے دس میں ''اے اسٹار'' اور ایک میں ''اے'' گریڈ حاصل کیا تھا۔ حذیفہ کو بتایا تو وہ رونے لگا۔ بولا یہ غلط ہے، کسی کو مت بتائیے گا۔ میں نے تو عام سے پرچے حل کیے تھے۔۔۔۔۔ لیکن یہ تو حقیقت تھی اور یہ ایک ریکارڈ بھی تھا۔ ایک ملک گیر ریکارڈ۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے۔ اسی اسکول کے اور بچوں نے بھی نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہاں تک کہ نو عدد ''اے اسٹار'' حاصل کرنے والا بچہ بھی حذیفہ کا ایک ساتھی ہے۔

آپ نے دیکھا، کامیابی کو نہ بڑا نام چاہیے، نہ بڑا شہر، نہ بڑے اسکول اور نہ بڑوں کی سنگت۔ بس استاد، کتاب اور مستفید ہونے والا ایک زرخیز ذہن اور پھر اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ کتابیں اور ان میں درج پریوں کی کہانیاں سچی ہوتی ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ دیو زادوں کے بارے میں بتاتی ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ بتاتی ہیں کہ دیوزاد کو شکست دی جاسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں