تنویمی ترغیبات اور مزاحمت

تنویمی ترغیبات قبول کرنے کی صلاحیت ہر آدمی میں پائی جاتی ہے، البتہ شدت احساس کے لحاظ سے ان کی تین قسمیں ہیں۔


Shayan Tamseel November 23, 2013
[email protected]

LONDON: موضوع تو ہمارا ہپناٹزم اور ترغیب پذیری پر ہی چل رہا تھا لیکن گزشتہ ہفتے جعلی عاملوں کا تذکرہ اس لیے کرنا پڑ گیا کہ یہ ''مافیا'' بہت تیزی سے سرگرم ہو چلی ہے اور اب کیبل پر متواتر درجنوں ''عاملوں کاملوں'' کے اشتہارات اوپر تلے چلتے نظر آرہے ہیں۔ چونکہ ہم گزشتہ ہفتے بھی اس موضوع پر لکھ چکے ہیں اس لیے محض اس بات پر گفتگو ختم کرتے ہیں کہ اﷲ ہمارے معصوم عوام کو عقل سلیم عطا کرے اور ان شیطانی ہرکاروں کے شر سے بچائے۔ اب آتے ہیں اپنے مستقل موضوع کی طرف۔

تنویمی ترغیبات قبول کرنے کی صلاحیت ہر آدمی میں پائی جاتی ہے، البتہ شدت احساس کے لحاظ سے ان کی تین قسمیں ہیں۔ بہت زیادہ شدید الاحساس (ان کی تعداد کل آبادی میں بیس فیصد ہوتی ہے)۔ دوسرے درجے پر وہ لوگ ہوتے ہیں جن میں ذکاوت حس محدود پیمانے پر ہوتی ہے اور تیسرا درجہ باغیوں کا ہے جو شعوری و غیر شعوری طور پر تنویمی ترغیبات کی شدید مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ ان کی انانیت اور انا پر دوسروں کی ترغیب موثر ثابت ہو۔ اگر تنویم کار (ہپنا ٹسٹ) کو خود پر اعتماد اور مقصد میں خلوص ہو اور وہ سرگرمی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے تو باغی معمولوں کی سرکش انا کو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ رام کیا جاسکتا ہے۔

آپ تنویمی عمل کے دوران معمول کی آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈالیں بلکہ اس کی ناک کی جڑ کو (ابروؤں کے درمیان) تکیں اور متواتر ترغیبی فقروں کے ذریعے مثلاً تمھیں نیند آرہی ہے، تمھارا جسم بھاری ہورہا ہے، تم سونے والے ہو، اس پر غنودگی طاری کرنے کی کوشش کریں۔ ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ عامل تنویم نے معمول کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور خود اس کی آنکھوں کے اثر سے تنویم زدہ ہوگیا۔ یاد رکھیے کہ تنویمی نیند عام معنی میں نیند نہیں ہے۔ معمول پر جب تنویمی نیند طاری ہوتی ہے تو وہ بے خبر اور انٹاغفیل نہیں ہوجاتا، اس کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں، وہ چل پھر سکتا ہے، سوالات کے جواب دے سکتا ہے، تاہم وہ تنویمی نیند میں ہوتا ہے۔ معمول اس کیفیت سے صرف اس وقت آزاد ہوسکتا ہے جب عامل اس سے کہے کہ ''جاگ جاؤ''!

تنویم کاری کا ایک طریقہ یہ ہے کہ معمول کو اپنے سامنے کھڑا کردیں۔ اسے کہیں کہ آنکھیں بند کرلے۔ اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں اس کی پیشانی پر رکھ دیں اور اسے حکم دیں کہ وہ آنکھوں کی پتلیاں، ابروؤں کے درمیان پیشانی کے وسط میں جما دے اور یہ تصور کرے کہ اپنے سر کی چوٹی کو دیکھ رہا ہے۔ اب آپ اسے تنویمی ترغیبات دینا شروع کیجیے۔ ایک ایک لفظ (بطور مثال) نیند گہری نیند، خوشگوار نیند کو بار بار اکتا دینے والی آواز میں دہرائیں۔ اکتا دینے والی آواز سننے والے کے دماغ کو تھکا دیتی ہے۔ بس تنویمی نیند کی ابتدا ہوگئی۔ جگانے کی ترغیب اس کی دی جاتی ہے کہ آپ معمول سے کہیں کہ میں ایک دو تین چار پانچ کہتا ہوں، تم ان ہندسوں کو سن کر رفتہ رفتہ جاگنے لگو گے اور جب پانچ کہوں گا تو پوری طرح ہوش میں آجاؤ گے اور اپنے آپ کو کافی تروتازہ، ہشاش بشاش اور ہلکا محسوس کرو گے۔ اگر ترغیبات میں یہ الفاظ شامل نہ ہوں تو عین ممکن ہے کہ معمول جس وقت جاگے تو وہ تھکا ہوا ہو اور درد سر میں مبتلا ہو۔

یہ تذکرہ تو پہلے ہوچکا ہے کہ تنویمی ترغیبات معمول کے لاشعور کا جبری تقاضا بن جاتی ہیں اور وہ ان پر عمل کرکے رہتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ترغیب پذیری کی شدید کیفیت میں آپ نے معمول کو یہ ترغیب دی کہ تم آج سے ایک ہفتے بعد دن کے ٹھیک ایک بج کر دس منٹ پر میرے دفتر میں آؤ گے اور سب کے سامنے کتھک ناچ کا تماشا کرو گے اور جاگنے کے بعد بھول جاؤ گے کہ تمھیں بحالت تنویم کیا ترغیب دی گئی ہے۔ معمول حسب معمول خواب سے جاگتا ہے اور خواب کی ترغیبات کو قطعاً فراموش کردیتا ہے۔ البتہ ایک ہفتے کے بعد جوں جوں وقت مقررہ (دن کے ایک بج کر دس منٹ) قریب آتا جاتا ہے، اس کی بے چینی بڑھتی جاتی ہے، وہ ٹہلتا ہے، ضبط کرتا ہے، حیران ہوتا ہے، خود پر خفا ہوتا ہے مگر سب بے سود۔ اندر کا ایک پرزور تقاضا اسے مجبور کررہا ہے کہ وہ عامل کے دفتر جائے۔

چنانچہ ایک نادیدہ قوت کشاں کشاں ٹھیک دن کے ایک بج کر دس منٹ پر اسے عامل کے دفتر میں لے جاتی ہے اور وہ رقص کرنے لگتا ہے۔ اسے ترغیب بعد از تنویم کہتے ہیں۔ نفسیاتی امراض اور عادت بد کا علاج اسی تکنیک سے کیا جاتا ہے۔ بہرصورت یہ یاد رکھیے کہ لاشعوری تقاضے خود جبلت کا حصہ بن جاتے ہیں اور کوئی طاقت معمول کو اس کی تعمیل سے باز نہیں رکھ سکتی، خواہ تنویمی حالت میں وہ عمل کیا جائے خواہ تنویم کے بعد۔ ذہن نشین کرلیجیے کہ انسان جبلت میں بنیادی طور پر دو قسم کے خوف بیٹھے ہوئے ہیں (1) گرنے کا خوف (2) شور و غل سے ڈرنا۔ نوع انسانی کے آباؤ اجداد کی زندگی خوف کی ان ہی دو صورتوں کی چھاؤں میں بسر ہوتی رہی ہے۔ طرح طرح کے خوف اسی بنیادی جبلت سے پیدا ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ عالم جذبات میں کس طرح انسان کا جسمانی نظام ذہن کا تاثر قبول کرتا ہے، مثلاً خوف میں لرزنے لگنا، چہرہ زرد پڑ جانا، شرم سے منہ لال اور غصے میں آگ بھبھوکا ہوجانا۔ اس قسم کے بے قابو جذبات کو تنویمی عمل کے ذریعے فرمانبردار بنایا جاسکتا ہے۔

مختصراً یہ کہ تنویم کاری کے چند اصول خصوصیت کے ساتھ قابل لحاظ اور قابل عمل ہیں۔ معمول پر تنویمی کیفیت پیدا کرنے کے لیے ترغیبی فقروں کو پے حد در پے دہرایا جائے۔ ترغیبات حسب ضرورت اور موقع کی مناسبت کے پیش نظر اکتا دینے والی اور تھکادینے والی آواز میں دہرائی جائیں لیکن بعض معمول تکان پیدا کردینے والے لہجے سے بے زار ہوجاتے ہیں انھیں نرم و شیریں اور دل نشین لہجے میں سوجانے کی ترغیب دی جائے۔ بعض معمول ہلکے سروں والی موسیقی سے غنودگی کے عالم میں آجاتے ہیں انھیں ترغیبات دینے کے ساتھ اس قسم کی موسیقی سنوائی جائے۔ تنویمی عمل کے لیے عامل و معمول کے لیے کامل ذہنی اور جسمانی سکون ضروری ہے۔ تنویمی حالت میں معمول کا بے خبر اور غافل ہوجانا مفید نہیں اسے دماغی طور پر فعال اور بیدار ہونا چاہیے تاکہ ترغیبی فقروں کو قبول کرسکے۔ بیداری کی ترغیب میں یہ ہدایت بھی شامل ہو کہ تم بیدار ہونے کے بعد خود کو شگفتہ اور بشاش محسوس کرو گے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ آپ تنویمی نیند کے عالم میں معمول کو اس امر کا پابند کردیں کہ وہ فلاں لفظ مثلاً سورج یا فلاں اشارے مثلا کھانسنے کی آواز پر تنویمی حالت میں آجائے گا تو یقین کیجیے کہ جب بھی آپ اس کے سامنے سورج لفظ ادا کریں گے یا سورج کی تصویر دکھائیں گے یا کھانسیں گے تو اس پر تنویمی کیفیت طاری ہوجائے گی۔ انھیں ''پوسٹ ہپناٹک سجیشنز'' کہتے ہیں یعنی وہ ہدایات و ترغیبات جن پر معمول کو مستقبل میں عارضی طور پر یا مستقل عمل کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں