سیاسی دوستیاں ودشمنیاں اور نظریات
پاکستان کے سیاسی چمن میں طرح طرح کے پھول کھلے ہیں، پھول عموماً موسموں کے لحاظ سے کھلا کرتے ہیں لیکن کچھ پھول...
کہا جاتا ہے کہ ''محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے''۔ یہی نظریہ ہماری سیاست کی اساس نظر آتا ہے، سیاست میں نظریہ، اصول و ضمیر نام کی کوئی شے عام طور پر دیکھنے میں نہیں آتی ہے۔ سیاسی جماعتیں، شخصیات اپنے عہدیداروں، حمایتیوں اور اتحادیوں کی کرپشن، لوٹ کھسوٹ، ہر جائز و ناجائز اور ظلم و زیادتی کو جائز سمجھ کر ان کی پشت پناہی کرتی ہیں، دوسروں کو لاجواب کرنے، ان کی کردار کشی کرنے، مبالغہ آرائی اور زمین آسمان کے قلابے ملا دینے والوں کی حوصلہ افزائی اور پذیرائی کرتی ہیں۔ اس قسم کے کردار کے حامل اوسط درجے کے عہدیدار پارٹی میں خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور پارٹی کے اعلیٰ سے ادنیٰ عہدیدار تک ایسے افراد کی خوشنودی حاصل کرنا ضروری سمجھتا ہے، ایسے افراد کے لیے سیاسی جماعتیں شنجین کنٹری اور سیاسی جماعتوں کے لیے ایسے افراد چوزوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے لیے سیاسی جماعتیں اور نظریات بدلنا اور کسی بھی پارٹی میں عہدے حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا ہے۔
چوراہے پر گندے کپڑے دھونا ہماری سیاسی شخصیات کا وطیرہ بن چکا ہے، پہلے ساتھ ہوتے ہیں پھر ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھول کر اپنی پاک دامنی ظاہر کرنے میں خود بھی رسوا و عریاں ہوجاتے ہیں۔ دشمن ممالک کے درمیان جنگوں کے بھی کچھ بین الاقوامی اصول ہوتے ہیں، اس سلسلے میں عالمی ادارے فوجی و معاشی قسم کے اتحاد وجود میں آچکے ہیں۔ بین الاقوامی جنگوں اور تنازعات میں یہ ادارے اور ممالک ثالث اور ضمانتی کا کردار ادا کرتے ہیں اور خلاف ورزی کی صورت میں اس کے مرتکب ملک کا ناطقہ بند کردیا جاتا ہے، گو کہ اب اس میں بھی بڑے طاقتور ممالک کے مفادات اور ترجیحات بلکہ عزائم کلیدی اہمیت کے حامل ہوچکے ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں بے اصولی کی جنگ لڑی جاتی ہے۔
جس طرح ریسلنگ مقابلوں کے دوران متحارب پہلوان، ان کے ساتھی اور آفیشلز مخالف پہلوان پر بے خبری میں پیچھے سے وار کردیتے ہیں، کوئی کرسی لاکر سر پر دے مارتا ہے، کوئی انجکشن لاکر مخالف پہلوان کے جسم میں پیوست کردیتا ہے اور یہ کشتی رنگ سے نکل کر پورے پنڈال میں شروع ہوجاتی ہے، بعض اوقات بے چارے ریفری، منیجر اور کمنٹیٹر تک ان کے زور، طاقت اور انتقام کا نشانہ بن جاتے ہیں، کچھ یہی حال ہمارے سیاستدانوں کی لڑائیوں کا ہے، جن کی لڑائی کا کوئی اصول وضع نہیں ہے، ان کی وفا وبے وفائی کا کوئی وقت ہے نہ اصول و پیمانہ مقرر ہے۔ جب چاہیں جس کی بیت کرلیں، اس کی اہلیت، اہمیت، حب الوطنی اور ناگزیریت میں زمین آسمان کے قلابے ملادیں، اس کی شخصیت اور نظریے کو ملک و عوام کے لیے واحد نسخہ کیمیا بنا ڈالیں اور جب چاہیں اس کا کفن میلا ہونے کا انتظار کیے بغیر اس کے برعکس نظریہ اور کردار کے حامل سیاستدان یا آمر کی گود میں بیٹھ کر اس کی ذات کو ہر درد کا درماں، ناگزیر اور مسیحا قرار دے دیں۔
پاکستان کے سیاسی چمن میں طرح طرح کے پھول کھلے ہیں، پھول عموماً موسموں کے لحاظ سے کھلا کرتے ہیں لیکن کچھ پھول سدا بہار ہوتے ہیں، جن پر موسم کی سختی بہت کم اثر انداز ہوتی ہے۔ ہماری سیاسی کیاریوں اور اقتدار کی راہداریوں میں بھی کچھ اس قسم کے سدا بہار پھول پائے جاتے ہیں۔ سیاسی چمن کی یہ سدا بہار شخصیات ہر دور میں ترو تازہ و توانا اور ہشاش بشاش نظر آتی ہیں۔ اقتدار ہر ترتیب اور تقریب میں ان کی اہمیت مسلمہ نظر آتی ہے، کوئی سا سیاسی موسم ہو، کوئی سی حکومت ہو، آمر ہو یا سیاسی جمہورے، لبرل و روشن خیال ہو یا مذہب پسندوں کا اقتدار یہ شخصیات ہر نوزائیدہ حکومت کے پالنے میں جھولا جھول رہی ہوتی ہیں۔ سیاسی حلقے ان کی آؤ بھگت کرتے ہیں تو بیورو کریسی بھی انھیں اپنا دوست تصور کرتی ہے۔ فوجی حکمران ان کے ساتھ بڑی تن آسانی محسوس کرتے ہیں۔ لبرل، سیکولر، روشن خیال اور جمہوریت پسند انھیں اپنا دست و بازو سمجھتے ہیں۔
ایک مولانا جن کی جماعت، اسلامی سوچ و نظریے کی دعویدار ہے انھوں نے اپنے سیاسی سفر کا بڑا حصہ اقتدار کی بدلتی کشتیوں میں طے کیا ہے، انھیں عہدہ چاہیے۔ بے نظیر و نوازشریف دور میں ان کے سیر سپاٹے اور مشرف دور میں ان کی شہرت کو چار چاند لگے۔ مولانا کی شخصیت کا خاصہ یا گر یہ ہے کہ ان کا دشمن کوئی نہیں دوست تمام ہیں۔ وہ مذہبی حلقوں اور مدارس سے بھی اچھے تعلقات رکھتے ہیں، ان کے روابط اور تعلقات طالبان کے ساتھ بھی ہیں بلکہ وہ طالبان کے ساتھ ثالثی کرانے کی رضاکارانہ پیشکش بھی کرتے رہے ہیں۔ انھیں بیوروکریسی، فوج، سیاسی و مذہبی حلقوں، جمہوریت پسندوں، لبرل، روشن خیال طبقے کا اعتماد بھی حاصل ہے۔ الفاظ کے چناؤ اور موقع شناسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، جذبات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت کے بھی حامل ہیں۔ حکیم اﷲ محسود کو شہید قرار دینے پر جماعت اسلامی اور اس کے امیر کے خلاف فتوے بھی آگئے، تیز و تند بیانات اور ٹاک شوز بھی شروع ہوگئے اور کئی دن سارا پاکستان اور میڈیا اسی بحث میں جٹا رہا۔
لیکن ایک اورصاحب جن کی نہ کوئی سیاسی جماعت تھی نہ نظریہ، وہ اپنی متحرک اور فعال شخصیت کی وجہ سے آدھا درجن کے قریب وزارتوں سے لطف اندوز ہوئے اور بااختیار و مضبوط وزیر رہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے وزیر تھے تو ان کی کنوارگی اور شادی کے تذکرے بھی ہوئے۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی اور کچھ ہی دنوں بعد لیڈر آف دی اپوزیشن بننے کی خواہش کا اظہار کردیا، اس سلسلے میں پی پی پی، متحدہ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کیے اور اس سلسلے میں حوصلہ افزا خبریں بھی آنے لگی تھیں کہ ان کی جماعت کے صوبائی صدر نے ان پر الزامات لگاتے ہوئے ان سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہہ ڈالا کہ صاحب مجھے خلع نہیں بلکہ میں انھیں طلاق دوں گا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ان کی جماعت کو امریکا، برطانیہ و دیگر ممالک سے کروڑوں کی امداد مل رہی ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے، صاحب پارٹی کے عہدیداروں کے دکھ درد میں کبھی شریک نہیں ہوئے۔
مفتی محمود اور ولی خان کے ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی کی حد تک بڑھے ہوئے سیاسی و نظریاتی اختلافات، پھر ان کی اولاد اور جان نشینوں کا اقتدار کے حصول کے لیے یکجا ہوجانا اور سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ٹوٹتے بنتے اتحاد، مفاہمتیں، مخالفتیں، دشمنیاں اور دوستیاں، الزامات، مدارات اور نوازشات ظاہر کرتی ہیں کہ سیاست میں اصول و نظریات، دشمنیاں اور دوستیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں، اصل اہداف مفادات کا حصول ہے۔ محبت اور جنگ کی طرح اس میں بھی سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے اور کسی قسم کے ثواب و عذاب اور احتساب و جوابدہی کا تصور نہیں پایا جاتا ہے۔
چوراہے پر گندے کپڑے دھونا ہماری سیاسی شخصیات کا وطیرہ بن چکا ہے، پہلے ساتھ ہوتے ہیں پھر ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھول کر اپنی پاک دامنی ظاہر کرنے میں خود بھی رسوا و عریاں ہوجاتے ہیں۔ دشمن ممالک کے درمیان جنگوں کے بھی کچھ بین الاقوامی اصول ہوتے ہیں، اس سلسلے میں عالمی ادارے فوجی و معاشی قسم کے اتحاد وجود میں آچکے ہیں۔ بین الاقوامی جنگوں اور تنازعات میں یہ ادارے اور ممالک ثالث اور ضمانتی کا کردار ادا کرتے ہیں اور خلاف ورزی کی صورت میں اس کے مرتکب ملک کا ناطقہ بند کردیا جاتا ہے، گو کہ اب اس میں بھی بڑے طاقتور ممالک کے مفادات اور ترجیحات بلکہ عزائم کلیدی اہمیت کے حامل ہوچکے ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں بے اصولی کی جنگ لڑی جاتی ہے۔
جس طرح ریسلنگ مقابلوں کے دوران متحارب پہلوان، ان کے ساتھی اور آفیشلز مخالف پہلوان پر بے خبری میں پیچھے سے وار کردیتے ہیں، کوئی کرسی لاکر سر پر دے مارتا ہے، کوئی انجکشن لاکر مخالف پہلوان کے جسم میں پیوست کردیتا ہے اور یہ کشتی رنگ سے نکل کر پورے پنڈال میں شروع ہوجاتی ہے، بعض اوقات بے چارے ریفری، منیجر اور کمنٹیٹر تک ان کے زور، طاقت اور انتقام کا نشانہ بن جاتے ہیں، کچھ یہی حال ہمارے سیاستدانوں کی لڑائیوں کا ہے، جن کی لڑائی کا کوئی اصول وضع نہیں ہے، ان کی وفا وبے وفائی کا کوئی وقت ہے نہ اصول و پیمانہ مقرر ہے۔ جب چاہیں جس کی بیت کرلیں، اس کی اہلیت، اہمیت، حب الوطنی اور ناگزیریت میں زمین آسمان کے قلابے ملادیں، اس کی شخصیت اور نظریے کو ملک و عوام کے لیے واحد نسخہ کیمیا بنا ڈالیں اور جب چاہیں اس کا کفن میلا ہونے کا انتظار کیے بغیر اس کے برعکس نظریہ اور کردار کے حامل سیاستدان یا آمر کی گود میں بیٹھ کر اس کی ذات کو ہر درد کا درماں، ناگزیر اور مسیحا قرار دے دیں۔
پاکستان کے سیاسی چمن میں طرح طرح کے پھول کھلے ہیں، پھول عموماً موسموں کے لحاظ سے کھلا کرتے ہیں لیکن کچھ پھول سدا بہار ہوتے ہیں، جن پر موسم کی سختی بہت کم اثر انداز ہوتی ہے۔ ہماری سیاسی کیاریوں اور اقتدار کی راہداریوں میں بھی کچھ اس قسم کے سدا بہار پھول پائے جاتے ہیں۔ سیاسی چمن کی یہ سدا بہار شخصیات ہر دور میں ترو تازہ و توانا اور ہشاش بشاش نظر آتی ہیں۔ اقتدار ہر ترتیب اور تقریب میں ان کی اہمیت مسلمہ نظر آتی ہے، کوئی سا سیاسی موسم ہو، کوئی سی حکومت ہو، آمر ہو یا سیاسی جمہورے، لبرل و روشن خیال ہو یا مذہب پسندوں کا اقتدار یہ شخصیات ہر نوزائیدہ حکومت کے پالنے میں جھولا جھول رہی ہوتی ہیں۔ سیاسی حلقے ان کی آؤ بھگت کرتے ہیں تو بیورو کریسی بھی انھیں اپنا دوست تصور کرتی ہے۔ فوجی حکمران ان کے ساتھ بڑی تن آسانی محسوس کرتے ہیں۔ لبرل، سیکولر، روشن خیال اور جمہوریت پسند انھیں اپنا دست و بازو سمجھتے ہیں۔
ایک مولانا جن کی جماعت، اسلامی سوچ و نظریے کی دعویدار ہے انھوں نے اپنے سیاسی سفر کا بڑا حصہ اقتدار کی بدلتی کشتیوں میں طے کیا ہے، انھیں عہدہ چاہیے۔ بے نظیر و نوازشریف دور میں ان کے سیر سپاٹے اور مشرف دور میں ان کی شہرت کو چار چاند لگے۔ مولانا کی شخصیت کا خاصہ یا گر یہ ہے کہ ان کا دشمن کوئی نہیں دوست تمام ہیں۔ وہ مذہبی حلقوں اور مدارس سے بھی اچھے تعلقات رکھتے ہیں، ان کے روابط اور تعلقات طالبان کے ساتھ بھی ہیں بلکہ وہ طالبان کے ساتھ ثالثی کرانے کی رضاکارانہ پیشکش بھی کرتے رہے ہیں۔ انھیں بیوروکریسی، فوج، سیاسی و مذہبی حلقوں، جمہوریت پسندوں، لبرل، روشن خیال طبقے کا اعتماد بھی حاصل ہے۔ الفاظ کے چناؤ اور موقع شناسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، جذبات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت کے بھی حامل ہیں۔ حکیم اﷲ محسود کو شہید قرار دینے پر جماعت اسلامی اور اس کے امیر کے خلاف فتوے بھی آگئے، تیز و تند بیانات اور ٹاک شوز بھی شروع ہوگئے اور کئی دن سارا پاکستان اور میڈیا اسی بحث میں جٹا رہا۔
لیکن ایک اورصاحب جن کی نہ کوئی سیاسی جماعت تھی نہ نظریہ، وہ اپنی متحرک اور فعال شخصیت کی وجہ سے آدھا درجن کے قریب وزارتوں سے لطف اندوز ہوئے اور بااختیار و مضبوط وزیر رہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے وزیر تھے تو ان کی کنوارگی اور شادی کے تذکرے بھی ہوئے۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی اور کچھ ہی دنوں بعد لیڈر آف دی اپوزیشن بننے کی خواہش کا اظہار کردیا، اس سلسلے میں پی پی پی، متحدہ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کیے اور اس سلسلے میں حوصلہ افزا خبریں بھی آنے لگی تھیں کہ ان کی جماعت کے صوبائی صدر نے ان پر الزامات لگاتے ہوئے ان سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہہ ڈالا کہ صاحب مجھے خلع نہیں بلکہ میں انھیں طلاق دوں گا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ان کی جماعت کو امریکا، برطانیہ و دیگر ممالک سے کروڑوں کی امداد مل رہی ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے، صاحب پارٹی کے عہدیداروں کے دکھ درد میں کبھی شریک نہیں ہوئے۔
مفتی محمود اور ولی خان کے ذوالفقار علی بھٹو سے دشمنی کی حد تک بڑھے ہوئے سیاسی و نظریاتی اختلافات، پھر ان کی اولاد اور جان نشینوں کا اقتدار کے حصول کے لیے یکجا ہوجانا اور سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ٹوٹتے بنتے اتحاد، مفاہمتیں، مخالفتیں، دشمنیاں اور دوستیاں، الزامات، مدارات اور نوازشات ظاہر کرتی ہیں کہ سیاست میں اصول و نظریات، دشمنیاں اور دوستیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں، اصل اہداف مفادات کا حصول ہے۔ محبت اور جنگ کی طرح اس میں بھی سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے اور کسی قسم کے ثواب و عذاب اور احتساب و جوابدہی کا تصور نہیں پایا جاتا ہے۔