تربیت کے بغیر ڈگری
ہمارے ملک میں عدلیہ اور بار سے تعلق رکھنے والی متعدد قابل اور نامور شخصیات ہو گزری ہیں
کُچھ روز قبل ایوانِ عدل کے ایک اعلیٰ ایوان سے باہر نکل رہا تھا تو ایک شخص نے برآمدے میں تعظیم دیتے ہوئے سلام کیا۔ میں نے سر سری وعلیکم السلام کیا تو پوچھا ''سر کیا آپ نے مجھے پہچانا''۔ میرے انکار پر اس نے کہا ''کئی سال قبل میرے برابر والی زمین پر میرے سالے نے میری تین مرلہ اراضی پر بدمعاشی دکھاتے ہوئے قبضہ کر لیا تھا اور میرے مقدمے کے جواب میں اس نے دو قتل کر دیے تھے اور پھر مزید دو قتل اس کی پارٹی کے بھی ہوئے تھے۔
زمین کے تنازعے والے کیس کا ریکارڈ دیکھ کر تو آپ نے میرے حق میں فیصلہ کر دیا تھا لیکن وہ تین مرلہ اراضی والا کیس قتلوں کے مقدمات سمیت نیچے سے اوپر والی عدالتوں میں جاتاRemand ہو کر اترتا اور پھر اوپر جاتا رہا۔ اس دوران خاندانوں میں پیدا ہونے والی دشمنیاں شدت اختیار کرتی رہیں ''۔ میں خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا کیونکہ مجھے بہت سے مقدمات جنھوں نے بہت سے گھرانے برباد کیے یاد آ رہے تھے اور یہ شخص جو مجھے تین مرلہ زمین کے تنازعے کی کہانی سنا کر شاید اپنے دل میں جمع ہوئے درد کا بوجھ ہلکا کر رہا تھا نہ میرے پاس الفاظ تھے نہ اختیارات کہ اس کی تسلی یا مدد کر سکوں۔
اس شخص کی خواری کا احوال سن کر مجھے ایک دوست کی یاد آئی جس نے ماتحت عدلیہ میں ملازمت کرتے ہوئے پچیس سال تک فوجداری اور ریونیو مقدمات کے فیصلے کیے تھے، اس نے بتایا کہ اس کے ذمے ایک ماہ میں ایک مخصوص اور مقررہ تعداد میں مقدمات کے فیصلے کرنے ہوتے تھے اور تعداد کے تعین کے لیے یونٹس کے ذریعے Disposal کی پیمائش یعنی گنتی ہوتی تھی۔ کم تعداد میں مقدمات کا فیصلہ ہونے پر تحریری سرزنش ہو تی تھی۔
چند ہفتے قبل ہفتہ کو ایوان ِ عدل جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں موٹر گاڑیوں نے سڑک پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ لہٰذا کافی فاصلے پر بمشکل پارکنگ کی جگہ ملی۔ اندر داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے بہت مصروف منڈی میں داخل ہونا ہوا ہے، پیدل چلنے کا اندر راستہ ہی نہیں تھا۔ لوگ ہاتھو ںکہنیوں سے بمشکل راستہ بنا کر چل رہے تھے۔ سیاہ کوٹ نیکٹائی والے نوجوانوں کی اکثریت تھی جو اندازاً نوّے فیصد ہو گی۔ اکثر نوجوان وکلاء پاس سے گزرتے ہوئے غیر وکلا ء کو اپنے Visiting Cards تقسیم کر رہے تھے۔ گمان ہوا کہ شاید کوئی تقریب ہے یا الیکشن کا دن قریب ہے۔ لیکن دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ سب نئے نئے لا گریجویٹ ہیں اور سب Breafless وکلاء ہیں جو عدالت ِ عالیہ میں Saturday کی چھٹی کی وجہ سے یہاں جمع ہیں اور ہر ہفتہ کو یہاں ایسا ہی پر ہجوم منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔
جمخانہ کلب میں نئی کمیٹی آف مینجمنٹ (COM) کے چیئرمین ڈاکٹر جواد ساجد سے ملاقات ہو گئی ۔ موصوف معروف کارڈیالوجسٹ ہیں۔ ان کو دیکھ کر کارڈیالوجی کے میڈیکل آفیسرز کے مابین ٹکراؤ کی افسوسناک Footages نظروں میں گھوم گئیں۔ خیال آتا ہے کہ مہذب تعلیم یافتہ لوگوں، انسانی جانوں کے نگہبانوں اور انصاف کے رکھوالوں کا کیا امیج دنیا بھر میں پہنچا ہو گا۔ گزشتہ دس سال کا Data اکٹھا کیا جائے تو کالم میں جگہ کم پڑ جائے گی اور بیشتر واقعات ایسے ہوں گے کہ ''سنتا جا شرماتا جا ''۔ قریباً آٹھ نو سال قبل صبح آٹھ بجے اتوار کو ٹیلیفون آیا کہ ''میں چیف جسٹس بول رہا ہوں۔ میں نے آپ کا لاہور کے واقعے پر ابھی ابھی کالم پڑھا ہے، اس میں آپ نے حقیقت بیان کی ہے۔
آپ کی جرآت کو سلام۔ فرصت ہو تو بیگم کے ہمراہ شام کو میرے ہاں چائے پیجئے''۔ میں نے شکریہ ادا کیا، ایک بار اپنا کالم ایکسپریس کے ایڈیٹوریل صفحے پر شایع ہوا پھر پڑھا جس میں شیشن کورٹ میں وکیل گردی کی تفصیل تھی، اس میں ASJ مضروب ہوئے تھے۔ شام کو میں بیگم کے ہمراہ روانہ ہوا۔ CJ صاحب کے گھر چائے پی۔ عزت افزائی کے لیے شکریہ ادا کیا۔ یہ اس نوعیت کی اکلوتی چائے کی دعوت تھی۔ میں نے ایک سینئر بار ممبر سے بات کی تو اس نے کہا کاغذ قلم لو میں تمہیں گزشتہ دس سال کا DATA دیتا ہوں۔ میرا اس تکلیف دہ موضوع پر لکھ کر خود اپنے منہ پر سیاہی ملنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اس لیے شکریہ ادا کر کے معذرت کر لی۔
ہمارے ملک میں عدلیہ اور بار سے تعلق رکھنے والی متعدد قابل اور نامور شخصیات ہو گزری ہیں اور اب بھی موجود ہیں جنھوں نے یونیورسٹی لاء کالج لاہور اور برطانیہ میں تعلیم پائی اور لوگ ان کے نام مقام ہی نہیں کام سے بخوبی واقف ہونے کے علاوہ ان کے قدردان اور معترف بھی ہیں لیکن جب سے بیشمار پرائیویٹ لاء کالجز کی بھرمار ہوئی ہے شاید ان کے پروفیسر اپنے طلباء کو صرف ڈگری دیتے ہیں ان کی تربیت پر توجہ نہیں دیتے۔
زمین کے تنازعے والے کیس کا ریکارڈ دیکھ کر تو آپ نے میرے حق میں فیصلہ کر دیا تھا لیکن وہ تین مرلہ اراضی والا کیس قتلوں کے مقدمات سمیت نیچے سے اوپر والی عدالتوں میں جاتاRemand ہو کر اترتا اور پھر اوپر جاتا رہا۔ اس دوران خاندانوں میں پیدا ہونے والی دشمنیاں شدت اختیار کرتی رہیں ''۔ میں خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا کیونکہ مجھے بہت سے مقدمات جنھوں نے بہت سے گھرانے برباد کیے یاد آ رہے تھے اور یہ شخص جو مجھے تین مرلہ زمین کے تنازعے کی کہانی سنا کر شاید اپنے دل میں جمع ہوئے درد کا بوجھ ہلکا کر رہا تھا نہ میرے پاس الفاظ تھے نہ اختیارات کہ اس کی تسلی یا مدد کر سکوں۔
اس شخص کی خواری کا احوال سن کر مجھے ایک دوست کی یاد آئی جس نے ماتحت عدلیہ میں ملازمت کرتے ہوئے پچیس سال تک فوجداری اور ریونیو مقدمات کے فیصلے کیے تھے، اس نے بتایا کہ اس کے ذمے ایک ماہ میں ایک مخصوص اور مقررہ تعداد میں مقدمات کے فیصلے کرنے ہوتے تھے اور تعداد کے تعین کے لیے یونٹس کے ذریعے Disposal کی پیمائش یعنی گنتی ہوتی تھی۔ کم تعداد میں مقدمات کا فیصلہ ہونے پر تحریری سرزنش ہو تی تھی۔
چند ہفتے قبل ہفتہ کو ایوان ِ عدل جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں موٹر گاڑیوں نے سڑک پر قبضہ کر رکھا تھا ۔ لہٰذا کافی فاصلے پر بمشکل پارکنگ کی جگہ ملی۔ اندر داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے بہت مصروف منڈی میں داخل ہونا ہوا ہے، پیدل چلنے کا اندر راستہ ہی نہیں تھا۔ لوگ ہاتھو ںکہنیوں سے بمشکل راستہ بنا کر چل رہے تھے۔ سیاہ کوٹ نیکٹائی والے نوجوانوں کی اکثریت تھی جو اندازاً نوّے فیصد ہو گی۔ اکثر نوجوان وکلاء پاس سے گزرتے ہوئے غیر وکلا ء کو اپنے Visiting Cards تقسیم کر رہے تھے۔ گمان ہوا کہ شاید کوئی تقریب ہے یا الیکشن کا دن قریب ہے۔ لیکن دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ سب نئے نئے لا گریجویٹ ہیں اور سب Breafless وکلاء ہیں جو عدالت ِ عالیہ میں Saturday کی چھٹی کی وجہ سے یہاں جمع ہیں اور ہر ہفتہ کو یہاں ایسا ہی پر ہجوم منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔
جمخانہ کلب میں نئی کمیٹی آف مینجمنٹ (COM) کے چیئرمین ڈاکٹر جواد ساجد سے ملاقات ہو گئی ۔ موصوف معروف کارڈیالوجسٹ ہیں۔ ان کو دیکھ کر کارڈیالوجی کے میڈیکل آفیسرز کے مابین ٹکراؤ کی افسوسناک Footages نظروں میں گھوم گئیں۔ خیال آتا ہے کہ مہذب تعلیم یافتہ لوگوں، انسانی جانوں کے نگہبانوں اور انصاف کے رکھوالوں کا کیا امیج دنیا بھر میں پہنچا ہو گا۔ گزشتہ دس سال کا Data اکٹھا کیا جائے تو کالم میں جگہ کم پڑ جائے گی اور بیشتر واقعات ایسے ہوں گے کہ ''سنتا جا شرماتا جا ''۔ قریباً آٹھ نو سال قبل صبح آٹھ بجے اتوار کو ٹیلیفون آیا کہ ''میں چیف جسٹس بول رہا ہوں۔ میں نے آپ کا لاہور کے واقعے پر ابھی ابھی کالم پڑھا ہے، اس میں آپ نے حقیقت بیان کی ہے۔
آپ کی جرآت کو سلام۔ فرصت ہو تو بیگم کے ہمراہ شام کو میرے ہاں چائے پیجئے''۔ میں نے شکریہ ادا کیا، ایک بار اپنا کالم ایکسپریس کے ایڈیٹوریل صفحے پر شایع ہوا پھر پڑھا جس میں شیشن کورٹ میں وکیل گردی کی تفصیل تھی، اس میں ASJ مضروب ہوئے تھے۔ شام کو میں بیگم کے ہمراہ روانہ ہوا۔ CJ صاحب کے گھر چائے پی۔ عزت افزائی کے لیے شکریہ ادا کیا۔ یہ اس نوعیت کی اکلوتی چائے کی دعوت تھی۔ میں نے ایک سینئر بار ممبر سے بات کی تو اس نے کہا کاغذ قلم لو میں تمہیں گزشتہ دس سال کا DATA دیتا ہوں۔ میرا اس تکلیف دہ موضوع پر لکھ کر خود اپنے منہ پر سیاہی ملنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اس لیے شکریہ ادا کر کے معذرت کر لی۔
ہمارے ملک میں عدلیہ اور بار سے تعلق رکھنے والی متعدد قابل اور نامور شخصیات ہو گزری ہیں اور اب بھی موجود ہیں جنھوں نے یونیورسٹی لاء کالج لاہور اور برطانیہ میں تعلیم پائی اور لوگ ان کے نام مقام ہی نہیں کام سے بخوبی واقف ہونے کے علاوہ ان کے قدردان اور معترف بھی ہیں لیکن جب سے بیشمار پرائیویٹ لاء کالجز کی بھرمار ہوئی ہے شاید ان کے پروفیسر اپنے طلباء کو صرف ڈگری دیتے ہیں ان کی تربیت پر توجہ نہیں دیتے۔