جونیئر ورلڈ کپ

ہاکی کا سنہری دور واپس لانے کے لیے مسلسل کامیابیوں کی ضرورت ہے.


Mian Asghar Saleemi November 23, 2013
پکا مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ مایوسی گناہ ہے۔ فوٹو: فائل

یہ یکم ستمبر1979ء کی سرد رات ہے، فیڈریشن عہدیدار، ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑی فرانس کے شہر ورسیلز میں پہلے جونیئر ورلڈ کپ کے فائنل میچ کی حکمت عملی ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔

میگا ایونٹ کے ابتدائی میچ سے لے کر فیصلہ کن مقابلے تک رسائی میں کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی فائنل میںپاکستانی ٹیم کی کامیابی کے لئے پر امید ہے، اس اثناء میں اطلاع ملتی ہے کہ محکمہ موسمیات نے اگلے روز موسلادھار بارش کی پیش گوئی کی ہے۔ یہ خبر شرکاء میٹنگ پر برق بن کرگرتی ہے اور اکثریت دل ہی دل میں یہ فیصلہ کربیٹھتی ہے کہ بلوشر، شمٹ اور فشر جیسے کھلاڑیوں کی موجودگی میں مغربی جرمنی جیسے مضبوط حریف کوفائنل مقابلے میں ہرانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستانی ٹیم کو بارش میں کھیلنے کاکوئی تجربہ ہی نہیں تھا جبکہ جرمن ٹیم کے لئے یہ معمول کی بات تھی کیونکہ یورپی ٹیمیں بارش کے ماحول اور گرائونڈ میں کھیلنے کی عادی ہوتی ہیں۔

اس سے پہلے کہ پاکستانی ٹیم مینجمنٹ اورکھلاڑی فیصلہ کن مقابلے سے پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتے، میٹنگ میں موجود 6 فٹ 2انچ قد کی حامل ایک بارعب شخصیت کی پر اعتماد اور گرجدار آواز گونجتی ہے، ''جنٹلمین، میں نے آپ کے چہروں کے تاثرات سے بخوبی اندازہ لگا لیا ہے کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں، یاد رکھیے، سچا اور پکا مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ مایوسی گناہ ہے۔ میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ 2ستمبر کو ہم نہ صرف مغربی جرمنی کو شکست دیں گے بلکہ عبرتناک شکست دیں گے۔'' یہ کہہ کر اس شخصیت نے منجھے ہوئے سپہ سالار کی طرح فائنل مقابلے کے پلان کے بارے میں بتانا شروع کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑی میچ کے شروع میں کھیل کو قدرے سست رکھتے ہوئے گیند کو زیادہ سے زیادہ اپنے پاس رکھنے کی حکمت عملی اپنائیں گے، اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ چند منٹ بعد پلیئرز خود کو اس ماحول میں ایڈجسٹ کر لیں گے اور انہیں جہاں بال پرکنٹرول کرنے اور پاس دینے کی اچھی پریکٹس مل جائے گی وہاں جرمن ٹیم کا ٹیمپو سست پڑ جائے گا اور وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔

آخر میں انہوں نے پلیئرز سے بڑے جذباتی لہجے میں کہا کہ ''اگر پاکستانی ٹیم جونیئر ورلڈکپ جیت گئی تو مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ آئندہ10 برس تک پاکستان سینئر ٹیم کے ممبر رہ سکتے ہو۔ اس شخصیت کے یہ الفاظ نہیں ایک جذبہ اور ایک چیلنج تھا جس نے پلیئرز کے اندر ایک جوش اور ولولہ پیدا کر دیا۔ اگلے روزبارش اور سخت سردی میں پاکستانی ٹیم نے یہی حکمت عملی اپنائی، دفاعی اور فارورڈ لائن سے چھوٹے چھوٹے پاسز کے ذریعے زیادہ وقت گیند کو اپنے پاس رکھا جس سے کھیل کا ٹیمپو سست ہوگیا اور کھلاڑیوں کا اعتماد بحال ہو گیا۔ پہلے ہاف تک پاکستان کو جرمنی کے خلاف 1-0 کی برتری حاصل تھی۔ دوسرے ہاف میں پاکستان نے مزید ایک گول کر کے سکور 2-0کر دیا۔2گول کی واضح برتری حاصل کرنے کے بعد پاکستانی ٹیم نے کھیل کے آخری10 منٹ میںپھر آغاز والی پالیسی پر عمل شروع کر دیا۔ جرمن ٹیم کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں، یہ سلسلہ کھیل کے اختتام تک جاری رہا اور یوں پاکستانی ٹیم نے جرمنی کو صفر کے مقابلے میں2 گول سے ہرا کر جونیئر ورلڈکپ کا ابتدائی ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔

پاکستان ہاکی ٹیم کو جونیئر عالمی کپ جتوانے میں اہم کردار ادا کرنے والی یہ شخصیت پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان، کوچ، منیجر اور سیکرٹری پی ایچ ایف بریگیڈیئر(ر) منظور علی عاطف مرحوم تھے جن کی قومی ٹیم کے ساتھ کسی نہ کسی طرح 40سالہ وابستگی کی وجہ سے پاکستان نے عالمی افق پر فتح وکامرانی کی ایسی تاریخ رقم کی جس کی مثالیں آج بھی دنیا میں دی جاتی ہیں۔ جونیئر ورلڈ کپ کے فائنل سے ایک رات قبل بریگیڈیئر عاطف کی حکمت عملی ناصرف کامیاب ثابت ہوئی بلکہ اس جیت نے کھلاڑیوں کو خاصا پر اعتماد بنا دیا، بعد ازان اس جونیئر ٹیم کے چھ، سات کھلاڑی نہ صرف سینئر ٹیم کا مستقل بنیادوں پر حصہ بنے، منظور الحسن جونیئر، رشید الحسن اور کلیم اللہ پاکستانی ٹیم نہ صرف کپتان بھی رہے بلکہ منظور الحسن جونیئر کی قیادت میں تو پاکستانی ٹیم نے آخری بار لاس اینجلس 1984ء اولمپکس میں سونے کا تمغہ بھی جیتا۔

جونیئر ورلڈ کپ کا افتتاحی ایڈیشن تو پاکستانی ٹیم اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن گزشتہ34 برس سے قومی ٹیم میگا ایونٹ کے ٹائٹل پر دوبارہ قبضہ جمانے میں ناکام رہی ہے جبکہ اس دوران جرمن ٹیم نے نہ صرف 5 بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا بلکہ اس نے 1993ء کے سپین کے شہر ٹریسا میں ہونے والے عالمی کپ میں پاکستان کو فائنل میں زیر کر کے 1979ء کی شکست کا بدلہ بھی لیا۔پاکستان ہاکی ٹیم ایک بار پھر 6دسمبر سے بھارت میں شیڈول میگا ایونٹ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اسلام آباد کے بعد کیمپ کا فائنل مرحلہ لاہور میں جاری ہے۔ ورلڈ کپ میں شریک 16ٹیموں میں پاکستان کو جس گروپ میں رکھا گیا ہے اس میں دفاعی چیمپئن مغربی جرمنی سمیت بلیجیئم اور مصر کی ٹیمیں شامل ہیں جنہیں ہرانا گرین شرٹس کے لئے کسی طور پر بھی آسان نہیں ہوگا بلکہ اگریہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ1979ء کے ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں قومی ٹیم کو اگر طوفانی بارش، شدید سردی میں مضبوط ترین حریف جرمنی کا سامنا کرنا پڑا تو اب ہمسایہ ملک بھارت میں شیڈول عالمی کپ میں پاکستانی گروپ میں جرمنی اور بیلجیئم کی موجودگی میں پریشانیاں اور مصیبتیں خوفناک اژدھے کی طرح پاکستانی ٹیم کا استقبال کریں گی۔

گو کھلاڑیوں کو راہنمائی فراہم کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو جِلا بخشنے کے لئے بریگیڈیئر عاطف تو اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کے تربیت یافتہ شاگرد منظور الحسن سینئر اور طاہر زمان تو اب بھی جونیئر ٹیم کے ساتھ ہیں، ان سابق اولیمپئنز نے بھارت جانے سے قبل قومی سینئر ٹیم کے ساتھ پریکٹس میچز کروانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ درست ہی نہیں بلکہ دور اندیش بھی ہے کیونکہ ایشینز گیمز کے فاتح سکواڈ کے ساتھ کھیلنے سے جونیئر کھلاڑیوں کو ناصرف سیکھنے کا موقع ملے گا بلکہ ٹیم مینجمنٹ کو بھی ورلڈکپ کے میچز کے دوران بہترین حکمت عملی اپنانے میں مدد ملے گی۔ گو پاکستانی ٹیم نے حال ہی میں جاپان میں ہونے والی ایشین چیمپئنز ٹرافی میں مسلسل دوسری بار ایونٹ جیتنے میں کامیاب رہی ہے لیکن قومی کھیل کے سنہری مستقبل کی ضمانت کے لئے یہ فتح ہی کافی نہیں بلکہ ہاکی کا کھویا ہوا سنہری دور واپس لانے کے لئے پاکستانی ٹیم کو مستقل بنیادوں پر کامیابیوں کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے کہ قومی ٹیم میں نیا خون لائے بغیر ان کامیابیوں کا حصول ممکن نہیں۔کہتے ہیں کہ نوجوان آنے والے کل کا روشن مستقبل ہوتے ہیں۔اگر پاکستانی ٹیم جونیئر ورلڈکپ جیتنے میںکامیاب رہتی ہے تو اس سے کھلاڑیوں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا اور وہ سینئر ٹیم کا مستقل بنیادوں پر حصہ بن کر اپنے کھیل سے لمبے عرصے تک ملک وقوم کا نام روشن کر سکیں گے۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔