کیا سب اچھا ہے

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اتحادیوں کو جس طرح رام کرلیا ہے، وہ واقعی ان کا سیاسی کارنامہ ہے

usmandamohi@yahoo.com

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے اتحادیوں کو جس طرح رام کرلیا ہے، وہ واقعی ان کا سیاسی کارنامہ ہے۔ ابھی تک انھیں سیاسی میدان میں ناتجربہ کار ہی سمجھا جاتا تھا مگر اب شاید ان کے حریف بھی ایسا نہیں کہہ سکیں گے۔ گزشتہ دو ماہ سے وہ اپنے اتحادیوں کے سخت دباؤ میں تھے، اصل پریشانی کی بات یہ تھی کہ سب کے سب اتحادی بیک وقت ان کے پیچھے پڑگئے تھے کہ ان سے کیے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ ان تمام اتحادیوں میں سب سے زیادہ دباؤ مسلم لیگ (قائداعظم) کے چوہدریوں کی جانب سے آرہا تھا وہ کھل کر حکومت کو ان سے کیے گئے وعدے یاد دلا رہے تھے، ساتھ ہی دبے لفظوں میں حکومت سے علیحدگی کی باتیں بھی کر رہے تھے۔

دراصل ان کے حوصلے اس لیے بلند تھے کیونکہ کچھ اس طرح کی بھی خبریں تھیں کہ ان کے مسلم لیگ (ن) سے در پردہ تعلقات استوار ہوچکے تھے۔ نواز شریف کے علاج کے لیے ملک سے باہر جاتے وقت ان کی ہمدردیاں میاں صاحب کے ساتھ تھیں۔ بعض لوگ تو مسلم لیگ (ق) کے پی ٹی آئی پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر یہ بات بھی کہہ رہے تھے کہ کہیں پنجاب کی حکومت عمران خان کے ہاتھ سے نکل کر شہباز شریف کے پاس نہ چلی جائے، یہ حالات عمران خان کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے تھے اس لیے کہ پنجاب کی حکومت کی وجہ سے ہی انھیں ملک میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے اور اگر وہ کسی طرح ان کے ہاتھ سے نکل گئی تو پھر وفاقی حکومت کو بچانا بھی ان کے لیے محال ہو جائے گا۔

مسلم لیگ (ق) کو عمران حکومت میں ایک اہم مقام حاصل ہے کیونکہ چوہدری صاحبان ملک کی سیاست کے کئی ادوار دیکھ چکے ہیں اور ان میں حصے دار بھی رہے ہیں، چنانچہ سیاست میں وہ طاق ہو چکے ہیں۔ وہ مسلم لیگ (نواز) کے بعد پرویز مشرف اور پھر زرداری حکومت میں بھی شامل رہے ہیں، ان کے پاکستان کے تمام ہی سیاسی رہنماؤں سے تعلقات ہیں۔ جب مولانا فضل الرحمن ایک بڑا لشکر لے کر اسلام آباد دھرنا دینے آئے تو یہ عمران حکومت کے لیے موت اور زندگی کا مسئلہ بن گیا تھا۔ عمران خان کو اس مصیبت سے نجات دلانے والے چوہدری برادران ہی تھے۔ وہ مولانا صاحب سے اپنے پرانے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے دھرنے کو ختم کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

مولانا سے مذاکرات کرنے کے لیے چوہدری برادران کو اس لیے بھی آگے لایا گیا تھا کیونکہ پی ٹی آئی کے پاس ان جیسا تجربہ کار اور مذاکرات کا ماہر کوئی اور سیاستدان نہیں ہے۔ اس طرح (ق) لیگ کی تحریک انصاف کی حکومت میں بہت اہمیت ہے اور اسی لیے عمران خان نے فوراً ان کے رکے ہوئے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کے احکامات صادر کر دیے۔ اب لگتا ہے مونس الٰہی کو بھی جلد ہی کوئی وزارت دے دی جائے گی۔ اب چوہدری برادران اتنے خوش ہیں کہ انھوں نے پی ٹی آئی کا نہ صرف اگلے الیکشن تک بلکہ آگے بھی ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستانی سیاست بھی کیا خوب ہے کہ مفادات ہمیشہ سیاست پر غالب رہتے ہیں۔

(ق) لیگ کے بعد عمران خان کو دوسرا بڑا خطرہ ایم کیو ایم سے تھا وہ کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے 162 ارب روپے مانگ رہے ہیں اور عمران خان یہ رقم دینے کا وعدہ بھی کرچکے ہیں مگر یہ وعدہ پورا نہیں ہوا ہے اور شاید آگے بھی پورا نہ ہوسکے اس لیے کہ خزانہ خالی ہے اور معاشی حالات روز بہ روز خراب ہوتے جا رہے ہیں ، مگر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فنڈز نہ ملنے کے باوجود بھی ایم کیو ایم والے کہیں اور نہیں جاسکتے وہ پی ٹی آئی کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں اس لیے کہ ان کے ماضی کے معاملات ایسے رہے ہیں کہ جن کے لیے وہ پی ٹی آئی سے بغاوت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔


مصطفیٰ کمال پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر ایم کیو ایم کے قائدین نے پی ٹی آئی سے رشتہ توڑا تو پھر ان کے لیے ہتھکڑیاں تیار ہیں، حالانکہ اس وقت ایم کیو ایم کے لیے پیپلز پارٹی کی ایک سنہری آفر موجود ہے۔ بلاول بھٹو نے انھیں کھل کر کئی وزارتوں کی پیشکش کی ہے مگر ایم کیو ایم نے اس آفر کو یہ کہہ کر ٹال دیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ماضی میں اسے بہت تلخ تجربات سے گزرنا پڑا تھا لہٰذا اب پھر وہ ماضی کے زخموں کو ہرا کرنا نہیں چاہتی۔ ادھر پی ٹی آئی کے جی ڈی اے والوں سے بھی معاملات طے پا چکے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو اب عمران خان سندھ اور پنجاب کے اتحادیوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ البتہ بلوچستان کے اتحادی اختر مینگل سے ضرور خطرہ لاحق ہے کیونکہ وہ اپنے چھ نکات منوانے کے لیے بہت بے چین ہیں۔

عمران حکومت کے لیے اصل مسئلہ معاشی ابتری کا ہے جس پر قابو پانے میں وہ ابھی تک بالکل ناکام ہیں۔ عمران خان نے خیر سے اب مہنگائی کا اعتراف کرلیا ہے کہ لوگ ان کے دور میں پہلے سے زیادہ پریشان ہیں چنانچہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر کچھ کر نہیں پا رہے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف اس کے آڑے آ رہا ہے۔ قومی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے اگرچہ بھرپورکوششیں ہو رہی ہیں مگر ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنا ایک مشکل عمل بن چکا ہے ۔ حکومت نے تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے درآمدات کو کم سے کم کردیا ہے مگر اس سے کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 280 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے ساتھ ہی اسمگلنگ میں اضافہ ہو گیا ہے۔

روپے کی قدر گرانے سے برآمدات میں اضافہ ہونا چاہیے تھا مگر اس میں چار فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پھر حکومتی ادارے جن میں پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل، ڈاک کا ادارہ اور یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن کا مسلسل خسارہ معیشت کو بدحالی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ بیرونی قرضوں سے معیشت پہلے ہی بے حال تھی اور اب پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے لیے گئے قرضوں کی وجہ سے معیشت پر اتنا بوجھ بڑھ گیا ہے کہ اب کوئی معاشی معجزہ ہی اسے درست کرسکتا ہے۔

اس وقت جب کہ عوام آٹا، چینی اور دیگر اشیا کی مہنگائی کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں عمران خان نے انھیں خوش خبری دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریکوڈک منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے جلد ہی اس منصوبے سے حاصل ہونے والے سونے اور چاندی سے ملک کے دن پھرنے والے ہیں۔ ملک قرضوں کے بوجھ سے آزاد اور عوام معاشی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے والے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چند ماہ قبل بھی عمران خان نے خوش خبری دی تھی کہ چند ہی دنوں میں سمندر سے اتنی بڑی مقدار میں تیل نکلنے والا ہے کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا اور عوام خوشحال ہوجائیں گے۔

انھوں نے سمندر سے تیل نکلنے سے پہلے ہی اس کا اعلان کرکے دشمنوں کے کان کھڑے کردیے تھے اور پھر وہی ہوا جو ہمارے دشمن چاہتے تھے اور اب پھر ریکوڈک کے بارے میں وقت سے پہلے ڈھنڈورا پیٹ کر ہمارے دشمنوں کو ہوشیار کر دیا ہے چنانچہ اس سلسلے میں بھی کہیں ہمیں مایوسی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ملکوں کو کچھ راز دنیا سے چھپانے بھی پڑتے ہیں ان کا افشا کرنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ہماری قیادت کو اس ضمن میں سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

دراصل اس وقت ہماری معیشت کی ابتری کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے جس کی وجہ سے ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے بجٹ کا بڑا حصہ اس شعبے کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے۔ بھارت بہت خوش ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایسے ممالک کو آگے لا رہے ہیں جن سے مغربی ممالک کی مسلسل ان بن چل رہی ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا ساتھ ہی ملکی مسائل کے حل میں میڈیا کو کھل کر کام کرنے کا موقع دینا ضروری ہے تاکہ عوام کو پتا چل سکے کیا واقعی ملک میں سب اچھا ہے؟
Load Next Story