ہواچکیاں۔۔۔ چمگادڑوں کی قاتل

حصول توانائی کے لئے دنیا بھر میں توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ دی جارہی ہے۔


Nadeem Subhan November 23, 2013
ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک امریکی توانائی کی ضروریات کا 20 فی صد ہوا چکیاں پورا کررہی ہوں گی۔ فوٹو: فائل

حصول توانائی کے لیے رکازی ایندھن ( فوسل فیول) پر انحصار کم کرنے کی غرض سے دنیا بھر میں توانائی کے متبادل ذرائع پر توجہ دی جارہی ہے۔

اس سلسلے میں سولر پینلز کے علاوہ ہوا چکیاں ( وِنڈ مل) خصوصی اہمیت اختیار کرگئی ہیں۔ ان ممالک میں جہاں وسیع میدانی علاقوں میں تیزرفتار ہوا چلتی ہے، وہاں ہوا چکیوں سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ امریکا کا شمار بھی ان ہی ممالک میں ہوتا ہے۔ امریکا میں، گذشتہ چند برسوں میں ہوا چکیوں سے بجلی کی پیداوار پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں اس ذریعے سے حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار میں 2000ء سے لے کر 2012ء کے درمیانی عرصے میں 2200 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہوا چکیوں سے توانائی کے حصول پر آنے والی لاگت نسبتاًکم ہوتی ہے اور یہ بجلی کی پیدائش کا ماحول دوست ذریعہ بھی ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق 2030ء تک امریکی توانائی کی ضروریات کا 20 فی صد ہوا چکیاں پورا کررہی ہوں گی۔



ہواچکیوں کو توانائی کے حصول کا ماحول دوست ذریعہ کہا جاتا ہے، مگر حال ہی میں ایک سائنسی جریدے میں شایع ہونے والے تحقیقی مطالعے ( اسٹڈی) نے اس ' ماحول دوستی' پر سوالیہ نشان ثبت کردیا ہے۔ یہ اسٹڈی امریکا کی کولوراڈو یونی ورسٹی کے ماہر حیاتیات مارک اے ہیز نے کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس امریکا میں ہواچکیوں کے ونڈ ٹربائنز کی زد میں آکر چھے لاکھ سے زائد چمگادڑیں ہلاک ہوئیں۔ امریکا میں موسمی تبدیلیوں، وہائٹ نوز سنڈروم نامی مرض کی وجہ سے چمگادڑوں کی شرح اموات ویسے ہی بلند ہے۔ اس صورت حال میں ونڈ ٹربائن کی وجہ سے ہونے والی لاکھوں ہلاکتوں نے چمگادڑ کی آبادی کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق مادہ چمگادڑ سال میں صرف ایک بچہ جنتی ہے، اس لیے بھی بڑھتی ہوئی ہلاکتیں چمگادڑوں کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کرسکتی ہیں، اوراس کے نتیجے میں، خطے میں ماحولیاتی توازن بگڑ سکتا ہے۔



امریکا میں مختلف میدانی علاقوں میں نصب دیوقامت ہواچکیوں کے آس پاس ہر صبح مردہ چمگادڑیں پڑی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا جانور جو تاریکی میں ایک مچھر کا پتا لگانے کے لیے بھی راڈار کا استعمال کرتا ہے، وہ ایک دیوقامت ٹربائن کو محسوس کیوں نہیں کرتا۔ اس کا جواب سائنس دانوں نے گذشتہ برس ہی تلاش کیا تھا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ چمگادڑیں ہر طرح کے اسٹرکچر کو محسوس کرسکتی ہیں، اور متحرک اجسام کا احساس تو وہ بہت آسانی سے کرلیتی ہیں، دراصل یہ ونڈ ٹربائن کے گھومتے ہوئے بلیڈز کی وجہ سے ہوا کے دباؤ میں آنے والی تبدیلی ہے جو چمگادڑوں کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے۔ متحرک بلیڈز کے باعث ہوائی دباؤ میں ہونے والی تبدیلی کو چمگادڑ کے پھیپھڑے برداشت نہیں کرپاتے اور پھٹ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

چمگادڑیں حیاتی زنجیر کا اہم حصہ ہیں۔ یہ مچھروں سمیت مختلف کیڑے مکوڑوں کو خوراک بناتی ہیں جو کاشت کاروں اور دیہات کے باسیوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ عمل زیرگی میں بھی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی تعداد میں نمایاں کمی سے حیاتی زنجیر کے متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہورہا ہے۔

ہواچکیوں کی وجہ سے چمگادڑوں کی بڑھتی ہوئی اموات نے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، کیوں کہ ہوا چکیاں سستی بجلی کی پیداوار کا ذریعہ ہیں اور ان کا استعمال روز بہ روز بڑھ رہا ہے، دوسری جانب چمگادڑوں کی تعداد میں کمی سے حیاتی زنجیر کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی جنم لے رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔