پارلیمانی جمہوریت اور سیاست کا مستقبل

بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست ، جمہوریت اور بالخصوص پارلیمانی سیاست کا مقدمہ ہمیشہ سے کمزور رہا ہے


سلمان عابد February 23, 2020
[email protected]

بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست ، جمہوریت اور بالخصوص پارلیمانی سیاست کا مقدمہ ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہاں جمہوری نظام کے عدم تسلسل سے جڑا ہوا ہے یا غیر سیاسی قوتوں کی مداخلتوں کی وجہ سے جمہوری نظام جڑ نہیں پکڑسکا۔ لیکن یہ آدھا سچ ہے، اوراس پہلو کا دوسرا سچ ہماری سیاسی جماعتیں ، قیادتیں اور پارلیمانی سیاست سے جڑے طرز عمل کا بھی ہے جو خود کو نہ تو جمہوری سیاست سے جوڑ سکے اورنہ ہی پارلیمانی سیاست کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکا۔ البتہ اس ناکامی پر فریقین اپنی غلطی کو قبول کرنے کے بجائے معاملات بوجھ مخالف فریق پر ڈال کر خود کو بری الزمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔

اصولی طور پر جب تک فریقین میں یہ ادراک یا فہم موجود نہ ہو کہ ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اورجو پارلیمانی سیاست سے جڑے مسائل ہیں اس میں وہ خود بھی ذمے دار ہیں ، مسائل نہ تو حل ہونگے اورنہ ہی اس سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی سامنے آسکے گی۔

پروفیسرڈاکٹر محبوب حسین بنیادی طور پر تاریخ اور سیاست کے طالبعلم ہیں۔ ان دنوں وہ پنجاب یونیورسٹی شعبہ تاریخ کے سربراہ ہیں۔وہ ایک فکری دانشور ہیں اورمعاملات کو جذباتی انداز سے نمٹنے کے بجائے دلائل ، حقایق اور شواہد کی بنیاد پر اپنا سیاسی مقدمہ پیش کرتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ ماضی میں رہنے کے بجائے ماضی کا تجزیہ کرکے معاملات کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اور اسی بنیاد پر وہ اپنی سوچ اورفکر کی بنیاد پر مستقبل کی طرف پیش قدمی بھی کرتے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی لندن سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اور تاریخ کے ساتھ سماجی علوم پر بھی ان کی دسترس کمال کی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے جنوبی ایشیا میں بالخصوص آئین اور سیاسی ادارہ جاتی عمل کا تفصیل سے مطالعہ کیا ہے۔اسی طرح ان کے تحقیقی مضامین ملکی اوربین الاقوامی ریسرچ جنرل اور قومی اخبارات میں تواتر سے شایع ہوتے ہیں اورپی ٹی وی پر ایک پروگرام کی میزبانی بھی کرتے ہیں ۔

پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین نے حال ہی میں ایک کتاب '' دی پارلیمنٹ آف پاکستان '' لکھی ہے جو اکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شایع کی ہے اوراس کتاب میں مصنف نے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ اور بالخصوص پارلیمانی عمل کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ چھ ابواب پر مشتمل یہ کتاب پاکستان کی پارلیمانی سیاست سے جڑے تمام مسائل کا بخوبی احاطہ کرتی ہے اورمصنف نے اپنی فکر اور سوچ سے جہاں ایک پس منظر پیش کیا ہے وہیں پیش منظر بھی نظر آتا ہے ۔

وہ کئی اہم سوالات اٹھاتے ہیں جو ہماری پارلیمانی سیاست کو مضبوط کرنے کے بجائے اسے کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔اس کتاب میں خاص طو رپر پاکستان کی جو پہلی منتخب پارلیمنٹ تھی جو ون پرسن ون ووٹ کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی یعنی کہ بھٹو دور کی پارلیمنٹ جو کہ 1970کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اوراس کتاب میں دونوں ایوانوں کو زیر بحث لایا گیا ہے اور پہلی دفعہ پاکستان کی تاریخ میں یک ایوانی سے دو ایوانی مقننہ بنی تھی ۔اس کتاب میں اس دور کے جو بڑے چیلنجز تھے مثال کے طور پربنگلہ دیش کا علیحدہ ہونا ، ایمرجنسی کا نفاذ اورجو اہم مذہبی معاملات تھے جس میں اہم مذہبی معاملات سمیت سات اہم ترامیم ہوئیں اور پارلیمنٹ کے دوسرے اداروں کے ساتھ تعلقات جن میں فوج اور عدلیہ ، حکومت اورحزب اختلاف کے معاملات کو تفصیل کے ساتھ زیر بحث لایا گیا ہے ۔

پاکستان میں عمومی طور پر سیاست پر بہت کچھ لکھا اوربولا جاتا ہے ۔لیکن پروفیسرڈاکٹر محبوب حسین کا کمال یہ ہے کہ ان کی یہ حالیہ تصنیف عملی طور پر یہاں پہلی یا چند کتابوں میں سے ایک ہے جو بالخصوص پارلیمانی سیاست کا احاطہ کرتی ہے ۔کیونکہ عمومی طور پر یہاں تاریخی تناظر میں پارلیمانی سیاست سے جڑی تاریخ کو اس تفصیلی انداز سے نہیں دیکھا گیا اوریہ ہی اس کتاب کی اہمیت کو بڑھاتی بھی ہے اورجو لوگ بھی عملی طور پر پارلیمانی تاریخ کو سمجھنا یا پرکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ کتاب خاصے کی ہوگی ۔اسی طرح اس کتاب میں 1973کے دستور کو جسے ایک متفقہ اورسب سے اہم آئین سمجھا جاتا ہے اس کی تشکیل کے مراحل، سیاسی جماعتوں کا کردار، آئین کی تشکیل نو، پارلیمانی جماعتوں کے موقف کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے ۔ کتاب میں کافی تحقیقی عمل نظر آتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ مصنف نے اپنی بات کو پیش کرنے کے لیے مختلف ادوار کے مراحل کو شواہد کی بنیاد پر پیش کرنے یا سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔

مصنف نے دوسرے باب میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے انتہائی متنازعہ سمجھنے والے'' نظریہ ضرورت'' پر بھی بحث کی ہے کہ اس ابتدائی اسمبلی کو جب گورنر جنرل نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے گھر رخصت کیا تو یہ لڑائی کس طرح دوسرے اداروں سے جڑی اورکس طرح ایک ادارہ دوسرے ادارے کے خلاف استعمال ہوا اور اس کا عملی نتیجہ پارلیمنٹ کی کمزوری کی صورت میں سامنے آیااورنوزائیدہ اسمبلی جمہوریت کی ہچکولے کھاتی گاڑی پٹری سے اتری اوروہ اب تک ٹریک پر واپس نہیں آسکی ۔اسی باب میں دوسری آئین ساز اسمبلی اورپھر مارشل لا کی کہانی اور اس کے بعد صدارتی نظام کی چھتری تلے '' کنٹرولڈ ڈیموکریسی '' کے ذریعے قائم ہونے والی اسمبلیوں میں نت نئے تجربوں پر بھی قلم اٹھایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر تیسری اور چوتھی پارلیمنٹ جس آئین کے تحت وجود میں آئی تھی وہ کسی پارلیمنٹ نے نہیں بنایا تھا بلکہ ایک فرد واحد کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں