کالا باغ ڈیم سے قومی پیداوار میں سالانہ 16 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا ماہرین
کالا باغ ڈیم سے 5 سال تک 3 سے 5 روپے فی کلو واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
کالاباغ ڈیم نہ صرف لوڈشیڈنگ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے بلکہ اس کی تعمیر کے بعد صنعتی پیداوار میں 5 سے 6 ارب ڈالر اور زرعی پیداوار میں 10ارب ڈالرسالانہ اضافہ ہوجائیگا۔
غربت کے خاتمے اور ملکی ترقی و خوشحالی کیلیے کالاباغ ڈیم ناگزیر ہے لہذا اس کی فوری تعمیر کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ ان خیالات کا اظہار ماہرین نے لاہور چیمبر میں کالاباغ ڈیم کے ذریعے امن کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس کا اہتمام لاہور چیمبر اور سندھ طاس واٹر کونسل نے کیا تھا، سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک، سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ، لاہور چیمبر کے صدر سہیل لاشاری، سندھ طاس واٹر کونسل کے محمد سلمان خان اورانجینئر سعید اقبال بھٹی، ابراہیم مغل، ایڈووکیٹ اے کے ڈوگر، کرنل عبدالرزاق بگٹی، میجر (ر) صدیق ریحان، صدر پاکستان انجینئرنگ کانگریس انجینئر ریاض احمد خان، انجینئر محمد ایوب کاکڑ، نذر حسین دریشک، فقیر محمد امین خان، پروفیسر نثار صفدر، پروفیسر زاہد احمد صدیقی ودیگرنے بھی خطاب کیا۔
مقررین نے کہا کالاباغ ڈیم سالانہ 15ارب یونٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے جس کی آئندہ 5 سال تک اوسط لاگت 3 سے 5 روپے فی کلو واٹ ہوگی جس سے سالانہ 300ارب روپے کی بچت ہوگی جو کرنٹ اکائونٹ خسارے کے خاتمے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور روپے کی قدر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کریگی۔ اپنے ٹیلی فونک خطاب میں انجینئر شمس الملک نے کہا کہ وہ عرصہ دراز سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر زور دے رہے ہیں لیکن نہ تو سیاستدانوں نے اورنہ ہی حکومتوں نے اس پر کوئی توجہ دی جس کی وجہ سے ملک کی بقا دائو پرلگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کی مدد سے صوبہ سرحد کی 8لاکھ ایکڑ زمین کو زیرِکاشت لایا جاسکے گا جو دریائے سندھ کی سطح سے سو ڈیڑھ سو فٹ بلند ہے، یہ زمین صرف اسی صورت میں زیر کاشت لائی جاسکتی ہے جب دریا کی سطح بلند ہو اور یہ کالاباغ ڈیم کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کامتبادل ذریعہ دریا کے پانی کو پمپ کرکے اوپر پہنچانا ہے جس پر 5ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ لاگت آئے گی جبکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد نہر کے ذریعے پانی ملنے سے یہ لاگت صرف 400روپے فی ایکڑ سالانہ رہ جائیگی۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ کالاباغ ڈیم وہ واحد پراجیکٹ ہے جس سے نہ صرف 5 سال کے قلیل عرصے میں انتہائی سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے بلکہ وسیع تر معاشی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ سندھ میں آبپاشی کا نظام سکڑ رہا ہے، سندھ کے آبی قلت کے شکار علاقوں کو صرف کالاباغ ڈیم کے ذریعے ہی پانی کی فراہمی ممکن ہے، یہ اہم منصوبہ سندھ کی معیشت کو مستحکم کرنے، بڑے پیمانے پر روزگار کی فراہمی، زرعی پیداوار میں نمایاں اضافے اور دیہی علاقوں سے غربت کے خاتمے میں بہت اہم کردار ادا کریگا۔
لاہور چیمبر کے صدر انجینئر سہیل لاشاری نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ملک میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کیلیے فوری اقدامات اٹھائے، بجلی اور گیس کی قلت کی وجہ سے ملک کو بھاری نقصان کا سامنا ہے لیکن بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم کو سیاسی ایشو بنا دیا گیا ہے حالانکہ یہ سیاسی ایشو نہیں بلکہ معاشی بقا کا معاملہ ہے، کالاباغ ڈیم قومی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جسے جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ ڈاکٹر ابراہیم مغل نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد بدین، ٹھٹہ اور سندھ کے دیگر ضلعوں میں 2 ملین ایکڑ، خیبرپختونخوا کے علاقوں ڈیرہ اسمعیل خان اور بنوں میں 8لاکھ ایکڑ جبکہ بلوچستان میں 7 لاکھ ایکڑ زمین زیر کاشت لائی جاسکتی ہے، اس ڈیم سے 3600میگاواٹ سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس سے بجلی کے بلوں میں سالانہ 133ارب روپے کا ریلیف ملے گا۔
غربت کے خاتمے اور ملکی ترقی و خوشحالی کیلیے کالاباغ ڈیم ناگزیر ہے لہذا اس کی فوری تعمیر کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔ ان خیالات کا اظہار ماہرین نے لاہور چیمبر میں کالاباغ ڈیم کے ذریعے امن کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، اس کا اہتمام لاہور چیمبر اور سندھ طاس واٹر کونسل نے کیا تھا، سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک، سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ، لاہور چیمبر کے صدر سہیل لاشاری، سندھ طاس واٹر کونسل کے محمد سلمان خان اورانجینئر سعید اقبال بھٹی، ابراہیم مغل، ایڈووکیٹ اے کے ڈوگر، کرنل عبدالرزاق بگٹی، میجر (ر) صدیق ریحان، صدر پاکستان انجینئرنگ کانگریس انجینئر ریاض احمد خان، انجینئر محمد ایوب کاکڑ، نذر حسین دریشک، فقیر محمد امین خان، پروفیسر نثار صفدر، پروفیسر زاہد احمد صدیقی ودیگرنے بھی خطاب کیا۔
مقررین نے کہا کالاباغ ڈیم سالانہ 15ارب یونٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے جس کی آئندہ 5 سال تک اوسط لاگت 3 سے 5 روپے فی کلو واٹ ہوگی جس سے سالانہ 300ارب روپے کی بچت ہوگی جو کرنٹ اکائونٹ خسارے کے خاتمے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور روپے کی قدر مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کریگی۔ اپنے ٹیلی فونک خطاب میں انجینئر شمس الملک نے کہا کہ وہ عرصہ دراز سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر زور دے رہے ہیں لیکن نہ تو سیاستدانوں نے اورنہ ہی حکومتوں نے اس پر کوئی توجہ دی جس کی وجہ سے ملک کی بقا دائو پرلگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کی مدد سے صوبہ سرحد کی 8لاکھ ایکڑ زمین کو زیرِکاشت لایا جاسکے گا جو دریائے سندھ کی سطح سے سو ڈیڑھ سو فٹ بلند ہے، یہ زمین صرف اسی صورت میں زیر کاشت لائی جاسکتی ہے جب دریا کی سطح بلند ہو اور یہ کالاباغ ڈیم کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کامتبادل ذریعہ دریا کے پانی کو پمپ کرکے اوپر پہنچانا ہے جس پر 5ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ لاگت آئے گی جبکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد نہر کے ذریعے پانی ملنے سے یہ لاگت صرف 400روپے فی ایکڑ سالانہ رہ جائیگی۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ کالاباغ ڈیم وہ واحد پراجیکٹ ہے جس سے نہ صرف 5 سال کے قلیل عرصے میں انتہائی سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے بلکہ وسیع تر معاشی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ سندھ میں آبپاشی کا نظام سکڑ رہا ہے، سندھ کے آبی قلت کے شکار علاقوں کو صرف کالاباغ ڈیم کے ذریعے ہی پانی کی فراہمی ممکن ہے، یہ اہم منصوبہ سندھ کی معیشت کو مستحکم کرنے، بڑے پیمانے پر روزگار کی فراہمی، زرعی پیداوار میں نمایاں اضافے اور دیہی علاقوں سے غربت کے خاتمے میں بہت اہم کردار ادا کریگا۔
لاہور چیمبر کے صدر انجینئر سہیل لاشاری نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ملک میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کیلیے فوری اقدامات اٹھائے، بجلی اور گیس کی قلت کی وجہ سے ملک کو بھاری نقصان کا سامنا ہے لیکن بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم کو سیاسی ایشو بنا دیا گیا ہے حالانکہ یہ سیاسی ایشو نہیں بلکہ معاشی بقا کا معاملہ ہے، کالاباغ ڈیم قومی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے جسے جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ ڈاکٹر ابراہیم مغل نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد بدین، ٹھٹہ اور سندھ کے دیگر ضلعوں میں 2 ملین ایکڑ، خیبرپختونخوا کے علاقوں ڈیرہ اسمعیل خان اور بنوں میں 8لاکھ ایکڑ جبکہ بلوچستان میں 7 لاکھ ایکڑ زمین زیر کاشت لائی جاسکتی ہے، اس ڈیم سے 3600میگاواٹ سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس سے بجلی کے بلوں میں سالانہ 133ارب روپے کا ریلیف ملے گا۔