کراچی میں بدامنی کے باعث ڈبو اور اسنوکر کلب ویران نوجوان سستی تفریح سے محروم
امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث نوجوان اور بچے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
کراچی میں بدامنی کے سائے نوجوانوں اور بچوں کی تفریح کے ذرائع پر بھی مسلط ہو گئے ہیں، روشنیوں کے شہر میں شہریوں کو سستی تفریحی فراہم کرنے والے ڈبو کلب اندھیرے میں ڈوب گئے ہیں۔
ڈبو کلب کے مالکان اب رات کے اوقات میں گاہکوں کے منتظر ہوتے ہیں تاہم امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث نوجوان اور بچے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ڈبو کلب کے مالکان کا کاروبار خسارے دوچار ہوگیا ہے، نمائندہ ایکسپریس نے کراچی کے مختلف علاقوں میں قائم ڈبو کلبوں کا دورہ کیا اور وہاں حالات کا مشاہدہ کیا، لیاقت آباد میں واقع ہوگن ڈبو کلب کے مالک محمد سلیم نے ایکسپریس کو بتایا کہ کراچی کے تمام علاقوں میں2007 سے قبل ڈبو کلب کی5500 سے زائد دکانیں واقع تھیں، نہ جانے کراچی کو کس کی نظر لگ گئی، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر واقعات کے سبب ڈبو کلب کے مالکان کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے، منافع میں کمی کی شرح ، مہنگائی اور گاہکوں کی کم تعداد کے سبب کراچی میں ڈبو کلبوں کی تعداد 60 فیصد کم ہو گئی ہے، اب کراچی میں صرف2200 ڈبو کلب قائم ہیں، انھوں نے کہا کہ کراچی میں اس وقت جو ڈبو کلب ہیں، ان پر ڈبو بورڈ، اسنوکر ٹیبل اور فٹبال گیم موجود ہوتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ڈبو کے3 قسم کے سائز ہوتے ہیں، سب سے بڑا ڈبو7X7 کا ہوتا ہے جس کی قیمت 22000 سے 25000 کے درمیان ہے جبکہ5 برس قبل اس کی قیمت 12000 روپے ہوتی تھی، دوسرے قسم کے ڈبو کا سائز 6X6 ہے جس کی قیمت 10000سے بڑھ کر 15000 روپے ہو گئی ہے جبکہ آخری اور چھوٹے قسم کے ڈبو کا سائز 5X5 ہوتا ہے جس کی قیمت6000 سے بڑھ کر 10000 روپے ہوگئی ہے، ڈبو میں 24 قسم کی گوٹیں ہوتی ہیں جو 300 روپے سے1200 روپے تک کے درمیان ملتی ہیں، یہ گوٹیں لکڑی سے تیار ہوتی ہیں اور ڈبو کی اوپری سطح پر خصوصی پالش کی جاتی ہے، انھوں نے بتایا کہ ڈبو کلب پر اب اسنوکر ٹیبل رکھنے کے رجحان میں اب اضافہ ہوگیا ہے، اسنوکر ٹیبل بھی3 قسم کی ہوتی ہیں، سب سے بڑی اسنوکر ٹیبل6X12 سائز کی ہوتی ہے جس کی قیمت 35 ہزار سے بڑھ کر60 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری قسم کی ٹیبل 5X10 سائز کی ہوتی ہے جس کی قیمت 22 ہزار سے بڑھ کر 30 ہزار تک پہنچ گئی ہے جبکہ آخری قسم کی اسنوکر ٹیبل 3X6 کے سائز کی ہوتی ہے جس کی قیمت10 ہزار سے بڑھ کر 15ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے، اسنوکر ٹیبل پر22 گیندیں استعمال ہوتی ہیں، یہ پلاسٹک کے خصوصی میٹریل سے تیار کی جاتی ہیں، ان کی قیمت بھی 1500سے بڑھ کر 2000 روپے تک پہنچ چکی ہے، انھوں نے کہا کہ اسنوکر کھیلنے کے لیے اسٹک کے تین مختلف سائز ہوتے ہیں ۔ یہ اسٹک 800 روپے سے لے کر 3000 ہزار روپے تک ملتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ڈبو کلب پر فٹبال گیم ٹیبل بھی موجود ہوتا ہے ۔ اس فٹبال ٹیبل گیم کی قیمت 8 ہزار سے بڑھ کر 15ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے، انھوں نے بتایا کہ6 برس قبل ڈبو کلبوں پر بہت رش رہتا تھا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد رات گئے تک ان کلبوں پر ڈبو، اسنوکر اور فٹبال گیم کھیلتی تھی تاہم اب امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے بیشتر ڈبو کلب11 بجے بند ہو جاتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ڈبو کلبوں پر رش شام7 بجے کے بعد ہی شروع ہوتا تھا کیونکہ نوجوان اور بچے اپنی تعلیمی اور دیگر مصروفیات سے فارغ ہو کر یہاں کا رخ کرتے تھے، بچے رات ساڑھے10 بجے تک جبکہ نوجوان رات ایک بجے تک یہاں گیم کھیلتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافے اور دیگر وجوہات کی بنا پر نوجوان اور بچے رات کے اوقات میں ڈبو کلبوں کا رخ نہیں کرتے ہیں، جب گاہک ہی نہیں ہوں گے تو پھر مالکان کاروبار کیسے کریں گے اور آخر میں مجبوری کے تحت وہ اپنا کاروبار بند کردیں گے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں زیادہ تر ڈبو کلب کھارادر، رنچھوڑ لائن، نیو کراچی، اورنگی ٹاؤن، لیاقت آباد، حسین آباد فیڈرل بی ایریا، نیلم کالونی، شیریں جناح کالونی، کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی اور دیگر علاقوں میں واقع ہیں، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں سب سے پہلا ڈبو کلب لیاقت آباد نمبر2 میں رئیس نامی شخص نے 1983 میں قائم کیا جو کیرم بورڈ یا ڈبو کلب قائم کیا گیا تھا وہاں رات گئے تک نوجوان اور مرد کیرم بورڈ کھیلا کرتے تھے، بعد ازاں1987 میں کیرم بورڈ کلب ڈبو کلب میں تبدیل ہوگئے، 1990 میں بڑی تعداد میں شہر میں ڈبو کلب قائم ہوگئے تھے، کراچی میں اس کاروبار سے وابستہ زیادہ تر افراد کی تعداد اردو بولنے والوں کی ہے تاہم دیگر قومیتوں کے لوگ بھی اس کاروبار سے وابستہ ہیں، انھوں نے بتایا کہ فٹبال گیموں کی بڑی تعداد لیاری میں واقع ہے کیونکہ لیاری فٹبال کا مرکز ہے جہاں نوجوان اور بچے فٹبال کھیلنے کے ساتھ ساتھ فٹبال گیم بھی بہت شوق سے کھیلتے ہیں۔
ڈبو کلب کے مالکان اب رات کے اوقات میں گاہکوں کے منتظر ہوتے ہیں تاہم امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث نوجوان اور بچے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ڈبو کلب کے مالکان کا کاروبار خسارے دوچار ہوگیا ہے، نمائندہ ایکسپریس نے کراچی کے مختلف علاقوں میں قائم ڈبو کلبوں کا دورہ کیا اور وہاں حالات کا مشاہدہ کیا، لیاقت آباد میں واقع ہوگن ڈبو کلب کے مالک محمد سلیم نے ایکسپریس کو بتایا کہ کراچی کے تمام علاقوں میں2007 سے قبل ڈبو کلب کی5500 سے زائد دکانیں واقع تھیں، نہ جانے کراچی کو کس کی نظر لگ گئی، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر واقعات کے سبب ڈبو کلب کے مالکان کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے، منافع میں کمی کی شرح ، مہنگائی اور گاہکوں کی کم تعداد کے سبب کراچی میں ڈبو کلبوں کی تعداد 60 فیصد کم ہو گئی ہے، اب کراچی میں صرف2200 ڈبو کلب قائم ہیں، انھوں نے کہا کہ کراچی میں اس وقت جو ڈبو کلب ہیں، ان پر ڈبو بورڈ، اسنوکر ٹیبل اور فٹبال گیم موجود ہوتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ڈبو کے3 قسم کے سائز ہوتے ہیں، سب سے بڑا ڈبو7X7 کا ہوتا ہے جس کی قیمت 22000 سے 25000 کے درمیان ہے جبکہ5 برس قبل اس کی قیمت 12000 روپے ہوتی تھی، دوسرے قسم کے ڈبو کا سائز 6X6 ہے جس کی قیمت 10000سے بڑھ کر 15000 روپے ہو گئی ہے جبکہ آخری اور چھوٹے قسم کے ڈبو کا سائز 5X5 ہوتا ہے جس کی قیمت6000 سے بڑھ کر 10000 روپے ہوگئی ہے، ڈبو میں 24 قسم کی گوٹیں ہوتی ہیں جو 300 روپے سے1200 روپے تک کے درمیان ملتی ہیں، یہ گوٹیں لکڑی سے تیار ہوتی ہیں اور ڈبو کی اوپری سطح پر خصوصی پالش کی جاتی ہے، انھوں نے بتایا کہ ڈبو کلب پر اب اسنوکر ٹیبل رکھنے کے رجحان میں اب اضافہ ہوگیا ہے، اسنوکر ٹیبل بھی3 قسم کی ہوتی ہیں، سب سے بڑی اسنوکر ٹیبل6X12 سائز کی ہوتی ہے جس کی قیمت 35 ہزار سے بڑھ کر60 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری قسم کی ٹیبل 5X10 سائز کی ہوتی ہے جس کی قیمت 22 ہزار سے بڑھ کر 30 ہزار تک پہنچ گئی ہے جبکہ آخری قسم کی اسنوکر ٹیبل 3X6 کے سائز کی ہوتی ہے جس کی قیمت10 ہزار سے بڑھ کر 15ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے، اسنوکر ٹیبل پر22 گیندیں استعمال ہوتی ہیں، یہ پلاسٹک کے خصوصی میٹریل سے تیار کی جاتی ہیں، ان کی قیمت بھی 1500سے بڑھ کر 2000 روپے تک پہنچ چکی ہے، انھوں نے کہا کہ اسنوکر کھیلنے کے لیے اسٹک کے تین مختلف سائز ہوتے ہیں ۔ یہ اسٹک 800 روپے سے لے کر 3000 ہزار روپے تک ملتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ڈبو کلب پر فٹبال گیم ٹیبل بھی موجود ہوتا ہے ۔ اس فٹبال ٹیبل گیم کی قیمت 8 ہزار سے بڑھ کر 15ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے، انھوں نے بتایا کہ6 برس قبل ڈبو کلبوں پر بہت رش رہتا تھا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد رات گئے تک ان کلبوں پر ڈبو، اسنوکر اور فٹبال گیم کھیلتی تھی تاہم اب امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے بیشتر ڈبو کلب11 بجے بند ہو جاتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ڈبو کلبوں پر رش شام7 بجے کے بعد ہی شروع ہوتا تھا کیونکہ نوجوان اور بچے اپنی تعلیمی اور دیگر مصروفیات سے فارغ ہو کر یہاں کا رخ کرتے تھے، بچے رات ساڑھے10 بجے تک جبکہ نوجوان رات ایک بجے تک یہاں گیم کھیلتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافے اور دیگر وجوہات کی بنا پر نوجوان اور بچے رات کے اوقات میں ڈبو کلبوں کا رخ نہیں کرتے ہیں، جب گاہک ہی نہیں ہوں گے تو پھر مالکان کاروبار کیسے کریں گے اور آخر میں مجبوری کے تحت وہ اپنا کاروبار بند کردیں گے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں زیادہ تر ڈبو کلب کھارادر، رنچھوڑ لائن، نیو کراچی، اورنگی ٹاؤن، لیاقت آباد، حسین آباد فیڈرل بی ایریا، نیلم کالونی، شیریں جناح کالونی، کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی اور دیگر علاقوں میں واقع ہیں، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں سب سے پہلا ڈبو کلب لیاقت آباد نمبر2 میں رئیس نامی شخص نے 1983 میں قائم کیا جو کیرم بورڈ یا ڈبو کلب قائم کیا گیا تھا وہاں رات گئے تک نوجوان اور مرد کیرم بورڈ کھیلا کرتے تھے، بعد ازاں1987 میں کیرم بورڈ کلب ڈبو کلب میں تبدیل ہوگئے، 1990 میں بڑی تعداد میں شہر میں ڈبو کلب قائم ہوگئے تھے، کراچی میں اس کاروبار سے وابستہ زیادہ تر افراد کی تعداد اردو بولنے والوں کی ہے تاہم دیگر قومیتوں کے لوگ بھی اس کاروبار سے وابستہ ہیں، انھوں نے بتایا کہ فٹبال گیموں کی بڑی تعداد لیاری میں واقع ہے کیونکہ لیاری فٹبال کا مرکز ہے جہاں نوجوان اور بچے فٹبال کھیلنے کے ساتھ ساتھ فٹبال گیم بھی بہت شوق سے کھیلتے ہیں۔