سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت متحدہ اور پی پی میں پس پردہ رابطے مذاکراتی کمیٹی قائم
گزشتہ 3 دن سے پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت ایم کیو ایم کی مقامی قیادت سے رابطے میں ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر پارٹی قیادت نے سندھ حکومت میں شمولیت کے لیے ایم کیو ایم سے پس پردہ رابطے مزید تیز کردیے ہیں اور پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کوبیک ڈور چینل کے ذریعے سندھ حکومت میں شمولیت کی دوبارہ دعوت دے دی ہے اور اس دعوت میں ایم کیو ایم کو صنعت وتجارت سمیت دیگر وزارتیں دینے کا عندیہ دیا ہے ۔
ان رابطوں کے نتیجے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے مذاکراتی عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے 6رکنی کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق کرلیا ہے،کمیٹی کے ارکان کے ناموں کا اعلان جلد کیا جائے گااور دونوں جماعتوں میں باضابطہ مذاکراتی عمل آئندہ ہفتے شروع ہوجائے گا۔ ایم کیو ایم کی قیادت کی سطح پر پیپلز پارٹی کی دعوت پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہونے کا حتمی فیصلہ کارکنان کی رائے کے بعد الطاف حسین کی منظوری سے کرے گی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان رابطوں اور مذاکرات کو ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کی خاموش تائید حاصل ہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک سندھ حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل کرانے کے لیے اہم کردار ادا کررہے ہیں اور دبئی میں رواں ماہ ایم کیو ایم کے وفد کی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سے جو ملاقات ہوئی ہے وہ انھی رابطوں کی کڑی ہے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ ( ترمیمی ) 2013 ، نئی حلقہ بندیوں، کراچی آپریشن کے بعض فیصلوں سمیت اہم امور پر اختلافات تھے تاہم دبئی میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ایم کیو ایم کے وفد کی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں جو ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان اہم امورپر پیش رفت ہوئی اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایم کیو ایم کی قیادت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے تحفظات کو مرحلہ وار دور کیا جائے گا اور بلدیاتی نظام اور حلقہ بندیوں سے متعلق فیصلوں پر بھی ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیا جائے گا ۔ اس یقین دہانی کے بعد ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت میں تفصیلی مشاورت ہوئی اور بعد ازاں بیک ڈور چینل کے ذریعے دونوں جماعتوں میں رابطے بحال ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ 3 دن سے پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت ایم کیو ایم کی مقامی قیادت سے رابطے میں ہے اور ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل کرنے کے لیے بات چیت کا عمل جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم سے مفاہمت کا عمل جاری رہے اور ایم کیو ایم دوبارہ سندھ حکومت میں شامل ہو۔ اگر ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہوتی ہے تو ایم کیو ایم کے 3 وزیر اور 2 مشیر سندھ کابینہ میں شامل کیے جائیں گے، ایم کیو ایم کو صنعت وتجارت، صحت اوردیگر محکموںکے قلمدان تفویض کیے جا سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت نے مذاکرات کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے 6 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے جس میں 3 ارکان ایم کیو ایم اور 3 ارکان پیپلز پارٹی کے شامل ہوں گے۔ آئندہ ہفتے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کریں گے جس کے بعد دونوں جماعتوں میں ہونے والے رابطوں پر بات چیت کی جائے گی اور اس کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنمائوں پرمشتمل کمیٹی مذاکرات کرے گی۔
ایم کیو ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک حلقہ بندیوں، بلدیاتی نظام، ٹارگٹڈ آپریشن پر تحفظات دور نہیں کیے جاتے ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل نہیں ہو گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے مابین مذاکرات سے ن لیگ کی اعلیٰ قیادت آگاہ ہے اور ان کی خاموش تائید سے مذاکراتی عمل آگے بڑھ رہاہے۔ ایم کیو ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی سے سندھ حکومت میں شمولیت کے حوالے سے رابطے تو جاری ہیں تاہم ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ ن لیگ کے اہم ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے تعلقات میں بہتری سندھ کے مفاد میں ہے اگر ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہو بھی جاتی ہے تو فی الحال وفاقی حکومت گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو تبدیل نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے استفسار پر ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن امین الحق نے ایکسپریس کو بتا یا کہ پیپلزپارٹی سے ایم کیوایم کی قیادت کی مختلف امور پر بات چیت جاری ہے تاہم سندھ حکومت میں ایم کیوایم کی شمولیت کا فیصلہ عوام وکارکنان کی مشاورت اور قائد تحریک الطاف حسین کی منظوری سے ہوگا تاہم پیپلز پارٹی سے حکومت سازی کے حوالے سے ابھی تک کوئی بات چیت فائنل نہیں ہوئی ہے۔
ان رابطوں کے نتیجے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے مذاکراتی عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے 6رکنی کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق کرلیا ہے،کمیٹی کے ارکان کے ناموں کا اعلان جلد کیا جائے گااور دونوں جماعتوں میں باضابطہ مذاکراتی عمل آئندہ ہفتے شروع ہوجائے گا۔ ایم کیو ایم کی قیادت کی سطح پر پیپلز پارٹی کی دعوت پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہونے کا حتمی فیصلہ کارکنان کی رائے کے بعد الطاف حسین کی منظوری سے کرے گی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان رابطوں اور مذاکرات کو ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کی خاموش تائید حاصل ہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک سندھ حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل کرانے کے لیے اہم کردار ادا کررہے ہیں اور دبئی میں رواں ماہ ایم کیو ایم کے وفد کی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سے جو ملاقات ہوئی ہے وہ انھی رابطوں کی کڑی ہے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ ( ترمیمی ) 2013 ، نئی حلقہ بندیوں، کراچی آپریشن کے بعض فیصلوں سمیت اہم امور پر اختلافات تھے تاہم دبئی میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ایم کیو ایم کے وفد کی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں جو ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان اہم امورپر پیش رفت ہوئی اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے ایم کیو ایم کی قیادت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان کے تحفظات کو مرحلہ وار دور کیا جائے گا اور بلدیاتی نظام اور حلقہ بندیوں سے متعلق فیصلوں پر بھی ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیا جائے گا ۔ اس یقین دہانی کے بعد ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت میں تفصیلی مشاورت ہوئی اور بعد ازاں بیک ڈور چینل کے ذریعے دونوں جماعتوں میں رابطے بحال ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ 3 دن سے پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت ایم کیو ایم کی مقامی قیادت سے رابطے میں ہے اور ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل کرنے کے لیے بات چیت کا عمل جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم سے مفاہمت کا عمل جاری رہے اور ایم کیو ایم دوبارہ سندھ حکومت میں شامل ہو۔ اگر ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہوتی ہے تو ایم کیو ایم کے 3 وزیر اور 2 مشیر سندھ کابینہ میں شامل کیے جائیں گے، ایم کیو ایم کو صنعت وتجارت، صحت اوردیگر محکموںکے قلمدان تفویض کیے جا سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت نے مذاکرات کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے 6 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے جس میں 3 ارکان ایم کیو ایم اور 3 ارکان پیپلز پارٹی کے شامل ہوں گے۔ آئندہ ہفتے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کریں گے جس کے بعد دونوں جماعتوں میں ہونے والے رابطوں پر بات چیت کی جائے گی اور اس کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنمائوں پرمشتمل کمیٹی مذاکرات کرے گی۔
ایم کیو ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک حلقہ بندیوں، بلدیاتی نظام، ٹارگٹڈ آپریشن پر تحفظات دور نہیں کیے جاتے ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل نہیں ہو گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے مابین مذاکرات سے ن لیگ کی اعلیٰ قیادت آگاہ ہے اور ان کی خاموش تائید سے مذاکراتی عمل آگے بڑھ رہاہے۔ ایم کیو ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی سے سندھ حکومت میں شمولیت کے حوالے سے رابطے تو جاری ہیں تاہم ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ ن لیگ کے اہم ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے تعلقات میں بہتری سندھ کے مفاد میں ہے اگر ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہو بھی جاتی ہے تو فی الحال وفاقی حکومت گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو تبدیل نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے استفسار پر ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن امین الحق نے ایکسپریس کو بتا یا کہ پیپلزپارٹی سے ایم کیوایم کی قیادت کی مختلف امور پر بات چیت جاری ہے تاہم سندھ حکومت میں ایم کیوایم کی شمولیت کا فیصلہ عوام وکارکنان کی مشاورت اور قائد تحریک الطاف حسین کی منظوری سے ہوگا تاہم پیپلز پارٹی سے حکومت سازی کے حوالے سے ابھی تک کوئی بات چیت فائنل نہیں ہوئی ہے۔