چین اور مسلمان
اپنے عقائد پر عمل کرنے کی اجازت نہیں اور انھیں کیمپوں میں بند کر کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ہم چنگ ڈاؤ(Qingdao)کے مسافر تھے۔ کچھ دن ہمیں یہاں گزار کر براستہ ارومچی پاکستان لوٹنا تھا اور اس شہر میں ہمارا قیام تھوڑا نہیں پانچ چار روز کا تھا۔ ارومچی، چین کے نیم خود مختار علاقے سنکیانگ کا دارالحکومت اور مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔
کئی برس ہوتے ہیں، سعودی عرب سے واپس آتے ہوئے اس خطے کے لوگوں سے جہاز میں ملاقات ہوئی تھی۔ یہ لوگ اس زمانے میں حج کے لیے پاکستان کا راستہ استعمال کیا کرتے تھے۔ بھاری داڑھی،کھلے گھیر کی خیمہ نما شلواریں، بڑی بڑی قمیصیںاور چار کونوں کی مخملیں ٹوپیوں والے بزرگ۔ جہاز نے جیسے ہی اڑان بھری، یہ لوگ اٹھے اور خالی جگہوں میں صفیں بنا کر نماز کی نیت کرلی۔
مجھے اپنے تبلیغی جماعت والے بزرگ یاد آگئے جو اسلام آباد سے لاہور آتے جاتے جاتے موٹر وے کے کنارے نماز ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ میرے پڑوسی بزرگ شاید ارومچی ہی کے رہنے والے تھے، نماز کے بعد لوٹے تو ایئر ہوسٹس نے انھیں بھرنے کے لیے کارڈ لا دیا، وہ مشکل میں پڑگئے اور مدد کے لیے انھوں نے میری طرف دیکھا تو ان سے بات چیت کا بہانہ مل گیا۔ باتوں باتو ںمیں نے سوال کیا کہ نماز تو دیگر مسافر بھی پڑھتے ہیں لیکن ایسا اہتمام خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے جیسا آپ نے کیا۔
سنکیانک کے لوگوں سے بات چیت اتنی ہی مشکل ہوتی ہے جتنی ترکوں سے لیکن رفتہ رفتہ مشترک الفاظ ملتے جاتے ہیں اور اردو کی ایک شکل بن جاتی ہے۔ یہی کچھ اس ملاقات میں بھی ہوا یعنی مکالمہ شروع ہوگیا اور کچھ اردو، کچھ انگریزی اور کچھ قدیم فارسی کے الفاظ نے مشکل آسان کر دی، انھوں نے کہا کہ جو کام وقت پر ہو جائے وہی اچھا۔''تو کیا،آپ اپنے گھر یعنی چین میں بھی یہی کچھ کرتے ہیں؟ ''۔ ''جہاں تک ممکن ہوسکے''۔ انھوں نے مختصر لیکن پر اعتماد جواب دیا۔
اب اتنے برسوں کے بعد ارومچی جانے کا موقع ملا تو پلوں تلے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا، اتنا کہ اب آنکھ بند کر کے چینیوں پر اعتمادد کرنے والوں کے دلوں میں بہت سے سوالات جنم لے چکے ہیں۔خبریں ملتی ہیں کہ اب چوکور ٹوپیوں اور گھیر دار شلواروں والے لوگ اُس دیس میں زیادہ سکون سے نہیں ہیں اور اب یہ سادہ دل مسلمان اس بے نیازی سے شاید صفیں بھی نہیں باندھ سکتے جیسے کبھی انھیں جہاز کی راہداریوں میں دیکھا جاسکتا تھا۔ کچھ ایسا سننے کو بھی ملتا ہے کہ بے چینی کے یہ سائے چہار سو پائے جاتے ہیں۔ اس لیے اُن بزرگوں کی اولادوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھری دکھائی نہیں دیتی ہیں بلکہ وہ یہاں وہاں، جہاں کہیں بھی ملتے ہیں، سکڑے سمٹے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
یہی پس منظر تھا جس کے سبب ارومچی میں قیام کی خبر نے جوش و خروش پیدا کردیا لیکن انسان جو کچھ سوچتا ہے، ضروری نہیں کہ قدرت بھی ویساہی سوچے۔یکایک مصروفیات کی نوعیت بدلی، مسافرت میں بیجنگ کا اضافہ ہو ا اور ارومچی کا پروگرام تبدیل ہو گیا، اس کے ساتھ ہی ارومچی میں گھومنے پھرنے کے منصوبے بھی دم توڑ گئے لیکن بیجنگ کے ایک مسلم ریسٹورنٹ میں حجاب میں کام کرنے والی لڑکیوں کے الہڑ پن اور بے ساختگی سے احساس ہوا کہ معاملہ اتنا برا بھی نہیں یا پھر یہ کہ بیجنگ ایسا شاندار شو کیس ہے جو دیکھنے والوں کے یقین متزلزل کر دیتا ہے۔
یہ شو کیس والی بات بھی بلاوجہ دل میں نہیں آئی۔ بیجنگ میں ہم ہوٹل سے نکلے تو چلتے چلتے کسی اس علاقے میں جا نکلے جہاں الف لیلہ و لیلہ نامی ریسٹورنٹ دل والوں کو دعوت نظارہ دیتا ہے۔ اس عمارت کی ایک دیوار پر نک سک سے درست عربی میں لکھے ہوئے کلمہ طیبہ پر قمقمے جگمگا رہے تھے۔اگر یہ مسلم ریسٹورنٹ ہے بھی تو اتنے اہتمام کی ضرورت؟ میں نے یہ سوچا اور طے کر لیا کہ یہ بھی شو کیس ہی ہوگا۔اس کے ساتھ ہی دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اب یہ گتھی سلجھنی چاہیے۔
چین کے مسلم علاقوں کے بارے میں جس قسم کی اطلاعات ان دنوں سامنے آتی رہتی ہیں، ان کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ یہاں مسلمان مسائل کا شکار ہیں، اپنے عقائد پر عمل کرنے کی اجازت نہیں اور انھیں کیمپوں میں بند کر کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ علاقے بعض عالمی قوتوں کی توجہ کامرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ اسی توجہ کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران مشرق وسطیٰ کے بعض علاقوں میں جو جنگ وجدل جاری ہے، ان میں حصہ لینے والوں کا تعلق بعض دیگر مسلم ملکوں کے علاوہ چین کے ان علاقوں سے بھی ہے۔ ان جنگجووں کا تعلق اُن عسکریت پسندوں کے ساتھ ہے جنھوں نے مغربی یا امریکی منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ میں خونریزی کی۔
چین کے ان مسلم علاقوں میں اس طرح کے رجحانات کس طرح فروغ پائے،یہ اثرات کس قدر گہرے ہیںاور متاثرہ نوجوانوں کو تباہی کے اس راستے سے کس طرح ہٹایا جاسکتا ہے؟ ان معاملات پر کام ہورہا ہے اور اس مقصد کے لیے اسی طرح کے تربیتی مراکز بھی یہاں قائم کیے گئے ہیں جیسے سوات آپریشن کے بعد شدت پسندوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ہمارے یہاں بنائے گئے تھے۔کیا ان کیمپوں میں تشدداور غیر انسانی سلوک بھی ہوتا ہے؟ اس کی تحقیق کے لیے کچھ عرصہ قبل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کے علاوہ مغربی دنیا کے ایک ہزار سے زائد سفارت کاروں اور صحافیوں نے ان کیمپوں کا دورہ کیا اور یہ رپورٹ دی کہ تشدد والے پروپیگنڈے میں کچھ حقیقت نہیں۔ تحقیقات کرنے والوں میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے انسانی حقوق کونسل کے ذمے داران بھی شامل رہے ہیں۔
پھر یہ سب ہنگامہ کیاہے؟ اس کا راز اسی صورت حال میں پوشیدہ ہے جس کے تحت چین کی ناکہ بندی مقصود ہے۔ اس مقصد کے لیے اس علاقے کے لوگوں کے ذریعے انڈونیشیا اور ملایشیا کے علاقے ملاکا میں گڑبڑ کرانے کے منصوبے ہیں تاکہ اس راستے سے چین کو تیل کی فراہمی میں رخنہ ڈالا جا سکے۔ اگر یہ منصوبے کامیاب ہو جائیں تو اس کے نتیجے میں چین کی روز افزوں معیشت یک لخت بیٹھ سکتی ہے کیوں کہ اس راستے سے چین کو تقریباً چالیس فیصد تیل کی سپلائی ہوتی ہے۔
اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر ایک پروپیگنڈا مہم جاری ہے جس میں مسلمانوں کے حقوق کی آڑ میں چین کو ہدف بنایا جارہا ہے۔ اس کام کے لیے امریکا اور کینیڈا وغیرہ میں بعض مسلمان صحافیوں اور اہل قلم کی خدمات بھی حاصل کی جاچکی ہیں۔ پچیس تیس برس ہوتے ہیں جب کسی مغربی خبر رساں ادارے کی طرف سے چین میں کوئلے کی کانوںاور ٹریفک حادثات وغیرہ میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع کی خبریں آتیں تو کوئی سفید بالوں والا ایڈیٹر انھیں نظر انداز کرنے کا مشورہ دیتا اور بتاتا کہ یہ خبریں نہیں بلکہ چین کے خلاف مغربی پروپیگنڈا ہے۔ آج صورت حال بدل چکی ہے۔
امریکا میں بیٹھی ہوئی ایک پاکستانی خاتون ، ان کی ٹیم اور اسی جیسے دیگر گروہ ریگولر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی کامیابی سے سنکیانگ میں بدامنی کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن آج بدقسمتی سے کوئی بزرگ اپنے جونیئرز کو سمجھانے والا نہیں ہے کہ اس طرح کی خبریں کیسے بنتی ہیں اور انھیں کون بناتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ سوال بھی اٹھانے والا کوئی نہیں کہ یہ گروہ جس کام میں مصروف ہیں، اس کے لیے انھیں وسائل کہاں سے مل رہے ہیں؟
کئی برس ہوتے ہیں، سعودی عرب سے واپس آتے ہوئے اس خطے کے لوگوں سے جہاز میں ملاقات ہوئی تھی۔ یہ لوگ اس زمانے میں حج کے لیے پاکستان کا راستہ استعمال کیا کرتے تھے۔ بھاری داڑھی،کھلے گھیر کی خیمہ نما شلواریں، بڑی بڑی قمیصیںاور چار کونوں کی مخملیں ٹوپیوں والے بزرگ۔ جہاز نے جیسے ہی اڑان بھری، یہ لوگ اٹھے اور خالی جگہوں میں صفیں بنا کر نماز کی نیت کرلی۔
مجھے اپنے تبلیغی جماعت والے بزرگ یاد آگئے جو اسلام آباد سے لاہور آتے جاتے جاتے موٹر وے کے کنارے نماز ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ میرے پڑوسی بزرگ شاید ارومچی ہی کے رہنے والے تھے، نماز کے بعد لوٹے تو ایئر ہوسٹس نے انھیں بھرنے کے لیے کارڈ لا دیا، وہ مشکل میں پڑگئے اور مدد کے لیے انھوں نے میری طرف دیکھا تو ان سے بات چیت کا بہانہ مل گیا۔ باتوں باتو ںمیں نے سوال کیا کہ نماز تو دیگر مسافر بھی پڑھتے ہیں لیکن ایسا اہتمام خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے جیسا آپ نے کیا۔
سنکیانک کے لوگوں سے بات چیت اتنی ہی مشکل ہوتی ہے جتنی ترکوں سے لیکن رفتہ رفتہ مشترک الفاظ ملتے جاتے ہیں اور اردو کی ایک شکل بن جاتی ہے۔ یہی کچھ اس ملاقات میں بھی ہوا یعنی مکالمہ شروع ہوگیا اور کچھ اردو، کچھ انگریزی اور کچھ قدیم فارسی کے الفاظ نے مشکل آسان کر دی، انھوں نے کہا کہ جو کام وقت پر ہو جائے وہی اچھا۔''تو کیا،آپ اپنے گھر یعنی چین میں بھی یہی کچھ کرتے ہیں؟ ''۔ ''جہاں تک ممکن ہوسکے''۔ انھوں نے مختصر لیکن پر اعتماد جواب دیا۔
اب اتنے برسوں کے بعد ارومچی جانے کا موقع ملا تو پلوں تلے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا، اتنا کہ اب آنکھ بند کر کے چینیوں پر اعتمادد کرنے والوں کے دلوں میں بہت سے سوالات جنم لے چکے ہیں۔خبریں ملتی ہیں کہ اب چوکور ٹوپیوں اور گھیر دار شلواروں والے لوگ اُس دیس میں زیادہ سکون سے نہیں ہیں اور اب یہ سادہ دل مسلمان اس بے نیازی سے شاید صفیں بھی نہیں باندھ سکتے جیسے کبھی انھیں جہاز کی راہداریوں میں دیکھا جاسکتا تھا۔ کچھ ایسا سننے کو بھی ملتا ہے کہ بے چینی کے یہ سائے چہار سو پائے جاتے ہیں۔ اس لیے اُن بزرگوں کی اولادوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھری دکھائی نہیں دیتی ہیں بلکہ وہ یہاں وہاں، جہاں کہیں بھی ملتے ہیں، سکڑے سمٹے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
یہی پس منظر تھا جس کے سبب ارومچی میں قیام کی خبر نے جوش و خروش پیدا کردیا لیکن انسان جو کچھ سوچتا ہے، ضروری نہیں کہ قدرت بھی ویساہی سوچے۔یکایک مصروفیات کی نوعیت بدلی، مسافرت میں بیجنگ کا اضافہ ہو ا اور ارومچی کا پروگرام تبدیل ہو گیا، اس کے ساتھ ہی ارومچی میں گھومنے پھرنے کے منصوبے بھی دم توڑ گئے لیکن بیجنگ کے ایک مسلم ریسٹورنٹ میں حجاب میں کام کرنے والی لڑکیوں کے الہڑ پن اور بے ساختگی سے احساس ہوا کہ معاملہ اتنا برا بھی نہیں یا پھر یہ کہ بیجنگ ایسا شاندار شو کیس ہے جو دیکھنے والوں کے یقین متزلزل کر دیتا ہے۔
یہ شو کیس والی بات بھی بلاوجہ دل میں نہیں آئی۔ بیجنگ میں ہم ہوٹل سے نکلے تو چلتے چلتے کسی اس علاقے میں جا نکلے جہاں الف لیلہ و لیلہ نامی ریسٹورنٹ دل والوں کو دعوت نظارہ دیتا ہے۔ اس عمارت کی ایک دیوار پر نک سک سے درست عربی میں لکھے ہوئے کلمہ طیبہ پر قمقمے جگمگا رہے تھے۔اگر یہ مسلم ریسٹورنٹ ہے بھی تو اتنے اہتمام کی ضرورت؟ میں نے یہ سوچا اور طے کر لیا کہ یہ بھی شو کیس ہی ہوگا۔اس کے ساتھ ہی دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اب یہ گتھی سلجھنی چاہیے۔
چین کے مسلم علاقوں کے بارے میں جس قسم کی اطلاعات ان دنوں سامنے آتی رہتی ہیں، ان کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ یہاں مسلمان مسائل کا شکار ہیں، اپنے عقائد پر عمل کرنے کی اجازت نہیں اور انھیں کیمپوں میں بند کر کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ ہے کہ یہ علاقے بعض عالمی قوتوں کی توجہ کامرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ اسی توجہ کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران مشرق وسطیٰ کے بعض علاقوں میں جو جنگ وجدل جاری ہے، ان میں حصہ لینے والوں کا تعلق بعض دیگر مسلم ملکوں کے علاوہ چین کے ان علاقوں سے بھی ہے۔ ان جنگجووں کا تعلق اُن عسکریت پسندوں کے ساتھ ہے جنھوں نے مغربی یا امریکی منصوبے کے تحت مشرق وسطیٰ میں خونریزی کی۔
چین کے ان مسلم علاقوں میں اس طرح کے رجحانات کس طرح فروغ پائے،یہ اثرات کس قدر گہرے ہیںاور متاثرہ نوجوانوں کو تباہی کے اس راستے سے کس طرح ہٹایا جاسکتا ہے؟ ان معاملات پر کام ہورہا ہے اور اس مقصد کے لیے اسی طرح کے تربیتی مراکز بھی یہاں قائم کیے گئے ہیں جیسے سوات آپریشن کے بعد شدت پسندوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ہمارے یہاں بنائے گئے تھے۔کیا ان کیمپوں میں تشدداور غیر انسانی سلوک بھی ہوتا ہے؟ اس کی تحقیق کے لیے کچھ عرصہ قبل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کے علاوہ مغربی دنیا کے ایک ہزار سے زائد سفارت کاروں اور صحافیوں نے ان کیمپوں کا دورہ کیا اور یہ رپورٹ دی کہ تشدد والے پروپیگنڈے میں کچھ حقیقت نہیں۔ تحقیقات کرنے والوں میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے انسانی حقوق کونسل کے ذمے داران بھی شامل رہے ہیں۔
پھر یہ سب ہنگامہ کیاہے؟ اس کا راز اسی صورت حال میں پوشیدہ ہے جس کے تحت چین کی ناکہ بندی مقصود ہے۔ اس مقصد کے لیے اس علاقے کے لوگوں کے ذریعے انڈونیشیا اور ملایشیا کے علاقے ملاکا میں گڑبڑ کرانے کے منصوبے ہیں تاکہ اس راستے سے چین کو تیل کی فراہمی میں رخنہ ڈالا جا سکے۔ اگر یہ منصوبے کامیاب ہو جائیں تو اس کے نتیجے میں چین کی روز افزوں معیشت یک لخت بیٹھ سکتی ہے کیوں کہ اس راستے سے چین کو تقریباً چالیس فیصد تیل کی سپلائی ہوتی ہے۔
اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر ایک پروپیگنڈا مہم جاری ہے جس میں مسلمانوں کے حقوق کی آڑ میں چین کو ہدف بنایا جارہا ہے۔ اس کام کے لیے امریکا اور کینیڈا وغیرہ میں بعض مسلمان صحافیوں اور اہل قلم کی خدمات بھی حاصل کی جاچکی ہیں۔ پچیس تیس برس ہوتے ہیں جب کسی مغربی خبر رساں ادارے کی طرف سے چین میں کوئلے کی کانوںاور ٹریفک حادثات وغیرہ میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع کی خبریں آتیں تو کوئی سفید بالوں والا ایڈیٹر انھیں نظر انداز کرنے کا مشورہ دیتا اور بتاتا کہ یہ خبریں نہیں بلکہ چین کے خلاف مغربی پروپیگنڈا ہے۔ آج صورت حال بدل چکی ہے۔
امریکا میں بیٹھی ہوئی ایک پاکستانی خاتون ، ان کی ٹیم اور اسی جیسے دیگر گروہ ریگولر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی کامیابی سے سنکیانگ میں بدامنی کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن آج بدقسمتی سے کوئی بزرگ اپنے جونیئرز کو سمجھانے والا نہیں ہے کہ اس طرح کی خبریں کیسے بنتی ہیں اور انھیں کون بناتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ سوال بھی اٹھانے والا کوئی نہیں کہ یہ گروہ جس کام میں مصروف ہیں، اس کے لیے انھیں وسائل کہاں سے مل رہے ہیں؟