حکومت پر پالیسی ریٹ میں کمی کے لیے دبائو میں اضافہ
اسٹیٹ بینک شرح سود میں بتدریج کمی چاہے گا تاکہ سرمائے کا انخلا نہ ہو
KARACHI:
حکومت پر شرح سود کم کرنے کے لیے دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً کاروباری برادری کے اراکین وزیراعظم سے ملاقات کرکے شرح سود میں کمی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جب کہ ایک سابق وزیر نے سپریم کورٹ میں بلند شرح سود کو چیلنج بھی کردیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بلند شرح سود برقرار رکھی ہے۔ اس کا ہدف کور انفلیشن (core inflation) ہے جس کا غذا اور توانائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پچھلے ایک سال سے یہ افراط زر 7 سے 8 فیصد کی حد میں ہے۔کوئی بھی شخص کور انفلیشن کے استحکام کو شرح سود میں کمی کی دلیل کے طور پر پیش کرسکتا ہے۔ موجودہ شرح سود 13.25فیصد ہے جو مستحکم کور انفلیشن کے پیش نظر بہت زیادہ ہے۔ تجارتی و کاروباری حلقوں کو گذشتہ دو مانیٹری پالیسیوں میں شرح سود میں کمی کی توقع تھی جو پوری نہیں ہوئی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرح سود میں کتنی کمی ہونی چاہیے۔ مرکزی بینک شرح سود میں بتدریج کمی کرنا چاہے گا تاکہ سرمائے کا انخلا نہ ہو۔ تاہم یہ بتدریج کمی حقیقی معیشت کے لیے سودمند نہیں ہوگی۔ جنوری 2020 میں ہیڈلائن افراط زر 14.6 فیصد کی سطح پر پہنچ گیا تھا جس کی بنیادی وجہ غذائی افراط زر یا گرانی میں اضافہ تھا۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی کئی بار بڑھائی گئی ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔
حکومت پر شرح سود کم کرنے کے لیے دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ وقتاً فوقتاً کاروباری برادری کے اراکین وزیراعظم سے ملاقات کرکے شرح سود میں کمی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جب کہ ایک سابق وزیر نے سپریم کورٹ میں بلند شرح سود کو چیلنج بھی کردیا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بلند شرح سود برقرار رکھی ہے۔ اس کا ہدف کور انفلیشن (core inflation) ہے جس کا غذا اور توانائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پچھلے ایک سال سے یہ افراط زر 7 سے 8 فیصد کی حد میں ہے۔کوئی بھی شخص کور انفلیشن کے استحکام کو شرح سود میں کمی کی دلیل کے طور پر پیش کرسکتا ہے۔ موجودہ شرح سود 13.25فیصد ہے جو مستحکم کور انفلیشن کے پیش نظر بہت زیادہ ہے۔ تجارتی و کاروباری حلقوں کو گذشتہ دو مانیٹری پالیسیوں میں شرح سود میں کمی کی توقع تھی جو پوری نہیں ہوئی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرح سود میں کتنی کمی ہونی چاہیے۔ مرکزی بینک شرح سود میں بتدریج کمی کرنا چاہے گا تاکہ سرمائے کا انخلا نہ ہو۔ تاہم یہ بتدریج کمی حقیقی معیشت کے لیے سودمند نہیں ہوگی۔ جنوری 2020 میں ہیڈلائن افراط زر 14.6 فیصد کی سطح پر پہنچ گیا تھا جس کی بنیادی وجہ غذائی افراط زر یا گرانی میں اضافہ تھا۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں بھی کئی بار بڑھائی گئی ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔