پاکستانی نوجوان تیز رفتار مچھلی روبوٹ بنانے والی ٹیم میں شامل

سعدنے بطورکنٹری بیوٹرٹیم میںکمپیوٹرانجینئرنگ میں حصہ لیکرپروجیکٹ کوعالمی ریکارڈبنانے کے قابل بنانے میں اہم کرداراداکیا

مریخ پرچلنے والی روبوٹ گاڑی بھی سعداورانکی ٹیم نے بنائی تھی،سعد نے STEMایجوکیشن کاکورس پاکستان میں متعارف کرایا۔ فوٹو: ایکسپریس

PESHAWAR:
دنیا کی تیز رفتار ترین زیرآب روبوٹ مچھلی بنانے والی باصلاحیت نوجوانوں کی ٹیم میں شامل پاکستان کے محمد سعد شاہد اپنی صلاحیتیں پاکستان میں ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے بروئے کار لانے کے لیے پرعزم ہیںذ سعد شاہدکی عمر صرف 20 سال ہے اور انھوں نے بطور کنٹری بیوٹر اس ٹیم میں کمپیوٹر انجینئرنگ میں حصہ لیا اور پروجیکٹ کو عالمی ریکارڈ بنانے کے قابل بنانے میں اہم کردار اداکیا۔

سعد کے والد شاہد سرفراز بزنس مین ہیں، شاہد سرفراز کے مطابق انھیں بچپن سے ٹیکنالوجی میں دلچسپی تھی اور یہ ہی شوق ان کے بڑے بیٹے سعد میں منتقل ہوا، سعد بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں سعد کا تعلیمی ریکارڈ ہمیشہ اچھا رہا اور انھوں نے بچپن سے ٹیکنالوجیز میں دلچسپی لی، سعد معروف تعلیمی ادارے بیکن ہاؤس میں زیر تعلیم تھے جب ان کے اسکول کے بچوں پر مشتمل ٹیم کو کینڈی اسپیس سینٹر میں منعقدہ ایک ٹیکنالوجی مقابلے میں حصہ لینے کا موقع ملا۔

سعد اور ان کی ٹیم نے مارس سیارے کی سطح پر چلنے والی روبوٹ گاڑی بنانے کا چیلنج پورا کیا اور مختلف قسم کی رکاوٹیں عبور کرنے والی روبوٹ گاڑی تیار کی جس پر ان کی ٹیم نے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا، سعد نے امریکا کے اس دورے میں STEMایجوکیشن کے طریقہ تعلیم کی افادیت کو قریب سے دیکھا اور پاکستان واپسی کے بعد اپنے اسکول میں STEM ایجوکیشن کے لیے خود اپنا کورس تشکیل دیا۔

سعد نے اے لیو ل کے طلبا جو STEM ایجوکیشن میں دلچسپی رکھتے تھے اپنے کورس کے ذریعے فائدہ پہنچایا اور ان کے اسکول کی انتظامیہ نے بھی ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی، سعد کے تشکیل کردہ اس تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھانے والے بچوں نے روبوٹ تیار کیے نمائش میں تکنیکی ماہرین نے بچوں کی صلاحیتوں کی تعریف کی اس طرح سعد کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ جس اسکول میں وہ زیر تعلیم رہے اسی میں تدریس کی ذمے داری بھی انجام دی۔

ٹیکنالوجی کے ذریعے ملک کومضبوط بناؤں گا،سعد

ریزرفتار روبوٹ مچھلی بنانے والی ٹیم کے رکن سعد اپنی صلاحتیں پاکستان میں ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اعلٰی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی عالمی ٹیکنالوجی ادارے سے وابستگی اختیار کریں گے تاکہ تجربہ حاصل کریں اور پھر پاکستان واپس آئیں گے تاکہ ٹیکنالوجی پر مبنی سلوشنز کے ذریعے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنائیں سعد اپنی ٹیکنالوجی کمپنی قائم کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں اور ایک ٹیکنالوجی انٹرپرینور کی حیثیت سے اپنی شناخت منوانا چاہتے ہیں۔

سعد کے مطابق ہانگ کانگ یونیورسٹی میں کی گئی ریسرچ پاکستان لائی جاسکتی ہے اور پاکستان کی ضرورتوں کے مطابق سلوشنز تیار کیے جاسکتے ہیں تاکہ پاکستانی سمندروں کو آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچایا جاسکے اور پاکستان کی سمندری سرحدوں کو محفوظ بنایا جاسکے سعد کے مطابق پاکستان میں روبوٹ ٹیکنالوجی بہت سے مسائل کا موثر حل فراہم کرسکتی ہے بالخصوص زرعی سیکٹر، مینوفیکچرنگ، لاجسٹکس اور ہیلتھ کیئر میں روبوٹس اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

بائیومیمکری میں فطرت سے متاثرہوکرحل تیارکیے جاتے ہیں

اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سعد نے یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں داخلے کے لیے اپلائی کیا جو دنیا کی 25 ویں سرفہرست اور ہانگ کانگ کی نمبر ایک یونیورسٹی ہے، سعد کی صلاحیتوں اور تعلیمی کارکردگی کے پیش نظر یونیورسٹی میں انھیں اسکالر شپ ملی اور انھوں نے وہاں بیچلر آف کمپیوٹر انجینئرنگ میں داخلہ لیا اور پہلے سال میں انسٹیٹیوٹ میں جاری بائیو میمکری پراجیکٹس میں دلچسپی لی بائیو میمکری ایک ایسا تصور ہے جس میں فطرت سے متاثر ہوکر سلوشنز تیار کیے جاتے ہیں۔

سعد کی یونیورسٹی میں حیاتیاتی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے روبوٹس تیار کیے جارہے تھے جو سعد کی دلچسپی کا مرکز تھے، یونیورسٹی میں 2015سے جاری تھا اس پراجیکٹ کے تحت مچھلی نما روبوٹ تیارکیا جارہا تھا جسے مختلف بیچز نے بہتر بنایا۔


اس پراجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور ورلڈ ریکارڈ بنانے کا اعزاز حاصل کرنے والی ٹیم میں سعد بھی شامل رہے اور ایک سال کی محنت سے آخر کار 23جنوری 2020 کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ہانگ کانگ یونیورسٹی کے VAYUپراجیکٹ کو دنیا کی سب سے تیز رفتار روبوٹ مچھلی کا اعزاز دیا گیا سعد نے اس ٹیم میں سافٹ ویئر پروگرامنگ اور ہارڈویئر میں حصہ لیا، مچھلی روبوٹ کے مکینکل ڈیزائن کو بہتر بنانے اور کمپیوٹر انجینئرنگ میں سعد نے ٹیم کی شکل میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

کمپیوٹرسائنس میں پی ایچ ڈی بڑے ٹیکنالوجی ادارے سے کروںگا،گفتگو

سعد کمپیوٹر سائنس میں اعلیٰ تعلیم اور پی ایچ ڈی کرنے کے خواہش مند ہیں جس کے بعد دنیا کے بڑے ٹیکنالوجی اداروں کے ساتھ وابستگی اختیار کریں گے اور تجربہ حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سعد کے مطابق وہ Swarm Robotics میں دلچسپی رکھتے ہیں جو متعدد روبوٹس کے ایک مربوط نظام کے تحت ڈی سینٹرلائز طریقے سے مل کر ایک کام انجام دینے کا طریقہ ہے جس میں انسانی دخل کم سے کم ہوتا ہے اور روبوٹ زیادہ تر فیصلے مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر خود کرتے ہیں۔

روبوٹ مچھلی سمندرمیںماحولیاتی آلودگی پر تحقیق میں مدد دے گی

سعد کے مطابق ٹیم کا مقصد تیز رفتار مچھلی روبوٹ تیار کرنا تھا جس میں وہ کامیاب رہے اس روبوٹ میں مختلف اقسام کے سینسر نصب کرکے اس کی افادیت کو بڑھایا جاسکتا ہے، روبوٹ مچھلی سمندروں میں ماحولیاتی آلودگی سے پڑنے والے اثرات کے مطالعے، آبی حیات کے بارے میں تحقیق کے لیے مدد حاصل کی جاسکتی ہے اس کے ساتھ یہ روبوٹ سمندر مین زیر آب نگرانی کا بھی موثر ذریعہ بن سکتی ہے۔ روبوٹ مچھلی شپنگ انڈسٹری کے لیے بھی بے حد کارآمد ہے۔

بحری جہازوں کے نچلے حصوں میں ٹوٹ پھوٹ اور زنگ لگنے سے بچانے کے لیے معائنہ کیا جاتا ہے جو عموماً ماہر غوطہ خور اور مہنگی ٹیکنالوجی کی مدد سے کیا جاتا ہے اس کے برعکس روبوٹ مچھلی کے ذریعے یہ معائنہ بہت کم وقت میں موثر انداز اورکم سے کم لاگت میں کرنا ممکن ہے۔

روبوٹ مچھلی نے26.79سیکنڈمیں 50 میٹرکافاصلہ طے کرکے عالمی ریکارڈبنایا

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے طلبہ کی تیار کردہ دنیا کی تیز رفتار روبوٹ مچھلی 26.79سیکنڈز میں 50 میٹر کا فاصلہ طے کرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا اس سے قبل دنیا کی تیز رفتار ترین روبوٹ مچھلی بنانے کا ریکارڈ دنیا کی معروف درسگاہ ایم آئی ٹی کے پاس تھا۔

اس ٹیم کا حصہ بن کر سعد نے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا پراجیکٹ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے سعد نے بتایا کہ روبوٹ مچھلی زیر آب ماحولیاتی مطالعہ اور زیر آب نگرانی کا بہترین حل فراہم کرتی ہے۔ اس مچھلی نما روبوٹ کو شناخت کرنا مشکل ہے۔ یہ روبوٹ پراپیلر(پنکھے) کے بغیر مچھلی کی دم جیسے فنز کے ذریعے حرکت کرتی ہے اس لیے زیر آب سمندری گھاس اور جھاڑیوں میں بھی نہیں الجھتی، روبوٹ مچھلی لیتھیم بیٹری سے چلتی ہے اور 8سے 12گھنٹے زیر آب رہ سکتی ہے۔
Load Next Story