مادری بولی کا عالمی دن
زبان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ زبان کسی ملک کی تقسیم کا سبب بن جاتی ہے۔
مادری بولی کی اس سے بڑی دلیل اورکیا ہو سکتی ہے، اللہ نے انبیاء کرام پر اپنے صحیفے اور آسمانی کتابیں نبیوں کی مادری زبانوں میں نازل فرمائیں۔ قرآن پاک کی آیتیں جبرائیل امین حضرت محمد ﷺ پر لے کر اترے تو انھوں نے اسے عربی زبان میں پڑھایا۔
اللہ چاہتے تو اسے اور کتابوں کی طرح عبرانی زبان و دیگر میں بھی اتار سکتے تھے، بالکل ایسے جس طرح ہم خواب میں کسی بھی نئی جگہ نئے ماحول میں ہوتے ہیں تو وہاں موجود انسانوں سے بنا کہے سنے ان کی زبان سمجھ رہے ہوتے ہیں تو خالق کائنات کے لیے کون سی مشکل تھی لیکن رب چاہتا تھا کہ اپنے نبیؐ کے ذریعے دین کو انسانی فطرت کے تحت سمجھا جائے اپنایا جائے، عمل کیا جائے۔
کلام پاک میں فرمایا ''ہم نے یہ قرآن آپؐ کی زبان میں آسان کردیا تاکہ آپ اہل تقویٰ کو بشارت اور نافرمانوں کو تنبیہ کرسکیں، اس وقت پورے عرب کی یہی واحد زبان عربی تھی، اس لیے نبی کریمؐ کی قادر الکلامی عام عربوں کو باآسانی سمجھ آتی تھی، فلسفہ دین پر عمل کرنا آسان تھا۔ زبان رابطے کا ذریعہ ہے کسی ثقافت واقدار سے آپ کا تعلق زبان کرواتی ہے یہ شناخت کا اظہار ہے۔
زبان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ زبان کسی ملک کی تقسیم کا سبب بن جاتی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کا دنیا کے جغرافیہ میں تبدیل ہونا بالکل مختلف نوعیت کا واقعہ ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم چاہتے تھے کہ اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہو لیکن بنگلہ دیش کے عوام اپنی مادری بولی سے بہت لگاؤ رکھتے تھے، انھوں نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ مادری زبان کے تحفظ کے نام پر ایک باقاعدہ تحریک کا آغازکیا آخرکار بنگالی زبان کو بھی اردو کے ساتھ سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا، بعدازاں ایک بنگالی نژاد کینڈین کی کوششوں سے اقوام متحدہ نے 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دے دیا۔
پاکستان میں 76 زبانیں بولی جاتی ہیں ، جن میں 66 مقامی زبانیں ہیں۔ مادری زبان کو درپیش خطرات میں پاکستان 28 ویں نمبر پر ہے چین آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے، اس لیے چینی زبان بولنے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ دوسرا نمبر انگریزی کا ہے جو ساڑھے تین سو ملین افراد کی مادری زبان ہے، باقی لوگ ضرورت کے تحت بولتے ہیں۔ دنیا میں 44 فی صد عوام کو اپنی زبان میں تعلیم کی سہولت میسر نہیں ، ہر رنگ نسل کی مختلف ثقافتیں اور بے شمار زبانیں ہیں جن میں کئی تو ایسی ہیں جنھیں بولنے والوں کی تعداد اب ایک ہزار رہ گئی ہے۔
اپنی زبان کو زندہ رکھنے کی کوششوں کی ہمت افزائی کے لیے مادری بولی کے ادبی تخلیق کاروں میں 135 لکھاریوں کو ادب کا نوبل انعام دیا جا چکا ہے جن میں رابندر ناتھ ٹیگور شامل ہیں یہ حوصلہ افزائی ظاہر کرتی ہے کہ مادری بولی کی اہمیت کسی زمانے میں کم نہیں ہوئی کیونکہ یہ فطرت انسانی ہے کہ انسان اپنی مادری بولی میں بہت جلدی سیکھتا ہے۔ بچہ ماں سے زیادہ قریب ہوتا ہے اسے سب سے پہلے ماں کی آواز سنائی و سمجھائی دیتی ہے ماں جب بچے کو سلانے کے لیے لوری گاتی ہے تو اس لوری کو بچہ اپنے دل سے قریب سمجھتا ہے۔
ماں سے سنی لوریاں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں ، زبان کی اس شیرینی کو وہ کبھی بھلا نہیں پاتا، یہ بھی سچ ہے کوئی انسان عمرکی کتنی ہی دھائیاں طے کر جائے شدید کرب و تکلیف میں ماں کو پکارتا ہے پھر کیسے ماں بولی کو زندگی سے نکالا جا سکتا ہے۔
بات ساری زبان سے محبت کی ہے آپ جہاں پیدا ہوتے ہیں آس پاس کی بولی بھی آپ کے شفاف ذہن میں جذب ہوتی ہے، دنیا سے آشنا کرتی ہیں پھر وہی تو آپ کی مادری بولی بن جاتی ہے خواہ آپ کی جدی پشتی زبان ہو یا جو آپ کے قریبی اقربا بولتے آئے ہوں یا پھر آس پڑوس کے افراد سے سنتے آئے ہوں۔ ہو سکتا ہے کئی اختلاف بھی رکھتے ہوں مگر یہ نا ممکن ہے کہ زندگی کے کسی موڑ پر جب آپ زندگی کی نصف صدی سے زیادہ عبور کر چکے ہوں الگ دیس مختلف ثقافت میں رہتے ہوں اور آپ کو وہ زبان سنائی دے تو آپ کا دل بے اختیار وہاں نہ کھنچتا ہو زبان قربت کا احساس ضرور دلاتی ہے۔
زبان کے ساتھ اس کی بولنے میں لب و لہجے کی ادائیگی اہمیت رکھتی ہے، تلفظ کے ساتھ بولی کی اپنی ایک ردھم ہے تال ہے جو آواز کے زیر و بم کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے، ماں بولی اس کی مکمل دسترس میں ہے، بڑے بڑے اپنی فیلڈ میں قابل افراد صحیح ڈھنگ سے اپنی زبان نہیں بیان کر پاتے جب کہ دوسرے علاقوں کے لوگ اسی زبان میں کئی کتابیں لکھ ڈالتے ہیں۔
ایک لمبی فہرست اردو زبان کے مصنفوں اور انگریزی لکھاریوں سے بھری پڑی ہے جہاں غیر زبان کے ادیبوں نے بڑا ادب تخلیق کیا بعض اوقات مادری زبان کو فروغ دینے میں ہم تعصبات کو فروغ دیتے ہیں اور زبان کا تعلق آپ کی تربیت سے بھی تو ہے بظاہر کسی با اخلاق فرد جسے اعلیٰ علمی گہواروں سے تعلیم کا موقع ملا ہو غصہ میں جاہل گنواروں سے الفاظ ادا نہ کرتے ہوں ساری تمیز و تہذیب ،ادب و اخلاق طاق میں رکھ کر جس بولی میں ڈھلتے ہیں ہم انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں، یقین نہ آئے تو پریس کانفرنس، پارلیمنٹ یا پھر سیاسی شوز دیکھیے یقین آجائے گا۔
ہمارے ترقی پذیر معاشرے میں اکثر ماں باپ اپنے بچوں سے انگریزی زبان میں بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ گھر کے بزرگ و دیگر افراد انگریزی سے نابلد ہوتے ہیں۔ لوئر مڈل اور مڈل کلاس کی زیادہ تعداد اس طبقے سے ہے ایسے میں جب بچہ اسکول محلہ اور دیگر عزیزوں سے ملتا ہے تو اسے سخت مشکل پیش آتی ہے نہ وہ اپنی بولی میں ان کو سمجھا پاتا ہے، نہ دوسرے اس کی زبان پر دسترس رکھتے ہیں بالکل آدھا تیتر آدھا بٹیر والی کہانی بن جاتی ہے۔
ہماری ایک عزیز اپنے آٹھ سالہ بچے کے ساتھ مستقل وطن شفٹ ہو گئی اب انھوں نے بچے کو صرف انگریزی زبان سے روشناس کروانے کی کوشش کی تھی وہ خود بھی انگریزی زبان پر اتنی دسترس نہیں رکھتی تھی، اس لیے بچے کے پاس زیادہ الفاظ کا ذخیرہ نہ تھا وہ بہت کنفیوژ رہتا تھا۔ اب ایسے بچے کی تخلیقی سوچ صلاحیت کیسے پنپ سکتی ہے جو الفاظ زبانوں کی بھول بھلیوں میں پھنس کر رہ گیا ہو اپنے آس پاس بولی جانے والی زبان کے الفاظوں کا ذخیرہ اس کے پاس نہیں کیونکہ وہ زبان اس نے سیکھی نہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جو زبان زندگی سے نہ نکلی ہو وہ ختم ہو جاتی ہے جو بولی زندگی سے آپسی تعلقات سے نکلی ہو وہ زبان کبھی نہیں مرتی۔
اللہ چاہتے تو اسے اور کتابوں کی طرح عبرانی زبان و دیگر میں بھی اتار سکتے تھے، بالکل ایسے جس طرح ہم خواب میں کسی بھی نئی جگہ نئے ماحول میں ہوتے ہیں تو وہاں موجود انسانوں سے بنا کہے سنے ان کی زبان سمجھ رہے ہوتے ہیں تو خالق کائنات کے لیے کون سی مشکل تھی لیکن رب چاہتا تھا کہ اپنے نبیؐ کے ذریعے دین کو انسانی فطرت کے تحت سمجھا جائے اپنایا جائے، عمل کیا جائے۔
کلام پاک میں فرمایا ''ہم نے یہ قرآن آپؐ کی زبان میں آسان کردیا تاکہ آپ اہل تقویٰ کو بشارت اور نافرمانوں کو تنبیہ کرسکیں، اس وقت پورے عرب کی یہی واحد زبان عربی تھی، اس لیے نبی کریمؐ کی قادر الکلامی عام عربوں کو باآسانی سمجھ آتی تھی، فلسفہ دین پر عمل کرنا آسان تھا۔ زبان رابطے کا ذریعہ ہے کسی ثقافت واقدار سے آپ کا تعلق زبان کرواتی ہے یہ شناخت کا اظہار ہے۔
زبان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایے کہ زبان کسی ملک کی تقسیم کا سبب بن جاتی ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کا دنیا کے جغرافیہ میں تبدیل ہونا بالکل مختلف نوعیت کا واقعہ ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم چاہتے تھے کہ اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہو لیکن بنگلہ دیش کے عوام اپنی مادری بولی سے بہت لگاؤ رکھتے تھے، انھوں نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ مادری زبان کے تحفظ کے نام پر ایک باقاعدہ تحریک کا آغازکیا آخرکار بنگالی زبان کو بھی اردو کے ساتھ سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا، بعدازاں ایک بنگالی نژاد کینڈین کی کوششوں سے اقوام متحدہ نے 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دے دیا۔
پاکستان میں 76 زبانیں بولی جاتی ہیں ، جن میں 66 مقامی زبانیں ہیں۔ مادری زبان کو درپیش خطرات میں پاکستان 28 ویں نمبر پر ہے چین آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے، اس لیے چینی زبان بولنے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ دوسرا نمبر انگریزی کا ہے جو ساڑھے تین سو ملین افراد کی مادری زبان ہے، باقی لوگ ضرورت کے تحت بولتے ہیں۔ دنیا میں 44 فی صد عوام کو اپنی زبان میں تعلیم کی سہولت میسر نہیں ، ہر رنگ نسل کی مختلف ثقافتیں اور بے شمار زبانیں ہیں جن میں کئی تو ایسی ہیں جنھیں بولنے والوں کی تعداد اب ایک ہزار رہ گئی ہے۔
اپنی زبان کو زندہ رکھنے کی کوششوں کی ہمت افزائی کے لیے مادری بولی کے ادبی تخلیق کاروں میں 135 لکھاریوں کو ادب کا نوبل انعام دیا جا چکا ہے جن میں رابندر ناتھ ٹیگور شامل ہیں یہ حوصلہ افزائی ظاہر کرتی ہے کہ مادری بولی کی اہمیت کسی زمانے میں کم نہیں ہوئی کیونکہ یہ فطرت انسانی ہے کہ انسان اپنی مادری بولی میں بہت جلدی سیکھتا ہے۔ بچہ ماں سے زیادہ قریب ہوتا ہے اسے سب سے پہلے ماں کی آواز سنائی و سمجھائی دیتی ہے ماں جب بچے کو سلانے کے لیے لوری گاتی ہے تو اس لوری کو بچہ اپنے دل سے قریب سمجھتا ہے۔
ماں سے سنی لوریاں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں ، زبان کی اس شیرینی کو وہ کبھی بھلا نہیں پاتا، یہ بھی سچ ہے کوئی انسان عمرکی کتنی ہی دھائیاں طے کر جائے شدید کرب و تکلیف میں ماں کو پکارتا ہے پھر کیسے ماں بولی کو زندگی سے نکالا جا سکتا ہے۔
بات ساری زبان سے محبت کی ہے آپ جہاں پیدا ہوتے ہیں آس پاس کی بولی بھی آپ کے شفاف ذہن میں جذب ہوتی ہے، دنیا سے آشنا کرتی ہیں پھر وہی تو آپ کی مادری بولی بن جاتی ہے خواہ آپ کی جدی پشتی زبان ہو یا جو آپ کے قریبی اقربا بولتے آئے ہوں یا پھر آس پڑوس کے افراد سے سنتے آئے ہوں۔ ہو سکتا ہے کئی اختلاف بھی رکھتے ہوں مگر یہ نا ممکن ہے کہ زندگی کے کسی موڑ پر جب آپ زندگی کی نصف صدی سے زیادہ عبور کر چکے ہوں الگ دیس مختلف ثقافت میں رہتے ہوں اور آپ کو وہ زبان سنائی دے تو آپ کا دل بے اختیار وہاں نہ کھنچتا ہو زبان قربت کا احساس ضرور دلاتی ہے۔
زبان کے ساتھ اس کی بولنے میں لب و لہجے کی ادائیگی اہمیت رکھتی ہے، تلفظ کے ساتھ بولی کی اپنی ایک ردھم ہے تال ہے جو آواز کے زیر و بم کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے، ماں بولی اس کی مکمل دسترس میں ہے، بڑے بڑے اپنی فیلڈ میں قابل افراد صحیح ڈھنگ سے اپنی زبان نہیں بیان کر پاتے جب کہ دوسرے علاقوں کے لوگ اسی زبان میں کئی کتابیں لکھ ڈالتے ہیں۔
ایک لمبی فہرست اردو زبان کے مصنفوں اور انگریزی لکھاریوں سے بھری پڑی ہے جہاں غیر زبان کے ادیبوں نے بڑا ادب تخلیق کیا بعض اوقات مادری زبان کو فروغ دینے میں ہم تعصبات کو فروغ دیتے ہیں اور زبان کا تعلق آپ کی تربیت سے بھی تو ہے بظاہر کسی با اخلاق فرد جسے اعلیٰ علمی گہواروں سے تعلیم کا موقع ملا ہو غصہ میں جاہل گنواروں سے الفاظ ادا نہ کرتے ہوں ساری تمیز و تہذیب ،ادب و اخلاق طاق میں رکھ کر جس بولی میں ڈھلتے ہیں ہم انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں، یقین نہ آئے تو پریس کانفرنس، پارلیمنٹ یا پھر سیاسی شوز دیکھیے یقین آجائے گا۔
ہمارے ترقی پذیر معاشرے میں اکثر ماں باپ اپنے بچوں سے انگریزی زبان میں بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ گھر کے بزرگ و دیگر افراد انگریزی سے نابلد ہوتے ہیں۔ لوئر مڈل اور مڈل کلاس کی زیادہ تعداد اس طبقے سے ہے ایسے میں جب بچہ اسکول محلہ اور دیگر عزیزوں سے ملتا ہے تو اسے سخت مشکل پیش آتی ہے نہ وہ اپنی بولی میں ان کو سمجھا پاتا ہے، نہ دوسرے اس کی زبان پر دسترس رکھتے ہیں بالکل آدھا تیتر آدھا بٹیر والی کہانی بن جاتی ہے۔
ہماری ایک عزیز اپنے آٹھ سالہ بچے کے ساتھ مستقل وطن شفٹ ہو گئی اب انھوں نے بچے کو صرف انگریزی زبان سے روشناس کروانے کی کوشش کی تھی وہ خود بھی انگریزی زبان پر اتنی دسترس نہیں رکھتی تھی، اس لیے بچے کے پاس زیادہ الفاظ کا ذخیرہ نہ تھا وہ بہت کنفیوژ رہتا تھا۔ اب ایسے بچے کی تخلیقی سوچ صلاحیت کیسے پنپ سکتی ہے جو الفاظ زبانوں کی بھول بھلیوں میں پھنس کر رہ گیا ہو اپنے آس پاس بولی جانے والی زبان کے الفاظوں کا ذخیرہ اس کے پاس نہیں کیونکہ وہ زبان اس نے سیکھی نہیں۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ جو زبان زندگی سے نہ نکلی ہو وہ ختم ہو جاتی ہے جو بولی زندگی سے آپسی تعلقات سے نکلی ہو وہ زبان کبھی نہیں مرتی۔