حکومت نے حسین شہید سہروردی کی ’مزارِ قائد‘ میں تدفین روکی
خاندانی نسبت کے سبب سپریم کورٹ کا وکیل نہیں بننے دیا گیا ، شاہدہ جمیل
ISLAMABAD:
یہ وقت کوچۂ صحافت میں پیشہ ورانہ ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اُن چند منفرد لمحات میں سے تھا، جب ہمیں بہت دیر تک کسی تاریخی ہستی کے گھرانے کی صحبت میسر ہوئی، اور اس پر ہم بجا طور پر ناز کر سکتے ہیں۔۔۔ اُن سے وقت لینے کے بعد مقررہ دن جب ہم نے اپنے پروگرام کی تصدیق کی۔۔۔ اور موبائل پیغام میں انہیں 'آداب' عرض کیا، تو جواباً 'جیتے رہو!' کے الفاظ دست شفقت بن کر ہم پر ٹھیر گئے۔۔۔ انہیں ہمارے مخاطب کرنے کا یہ ڈھب اتنا بھایا کہ انٹرویو کے بعد ہمارا تعارف لیا اور سراہتے ہوئے بولیں کہ پہلی دفعہ مجھے کسی نے 'آداب' کہا ہے۔۔۔! اب کہاں ہیں ایسی زبان بولنے والے۔۔۔ وہ تہذیب تو مٹ گئی۔۔۔! اب تو لوگوں کا انداز بازاری ہوگیا ہے۔ پہلے برے الفاظ استعمال کرنا اپنے گھر کی توہین تھی، کیوں کہ آپ کے بڑوں کا نام بدنام ہوتا تھا!
یہ تحریک آزادی کے ممتاز راہ نما، پاکستان کے پانچویں وزیراعظم اور ''بانی عوامی لیگ''حسین شہید سہروردی کی نواسی بیرسٹر شاہدہ جمیل ہیں۔۔۔ وہ 'عوامی لیگ' جس کے راہ نما شیخ مجیب الرحمن بانی بنگلا دیش ہوئے، اگر عوامی لیگ میں تب موروثی سیاست چلتی اور ملک متحد رہتا تو ممکن ہے وہ ملک کی ایک مرکزی سیاسی جماعت کی قائد ہوتیں، لیکن صورت حال بدلی۔ اس کے باوجود وہ ہمارے ملک کی وفاقی اورصوبائی وزیر رہیں، انہوں نے 1944ء میں کلکتہ میں آنکھ کھولی، وہ بتاتی ہیں کہ وہاں مسلمان اچھوت سمجھے جاتے، جو گائے اور بندر کو نہیں چھو سکتے تھے، اگر کسی مسلمان کا ہاتھ سبزی کے ٹھیلے کو لگ جاتا، تو جھگڑا ہو جاتا۔ فسادات میں انتہا پسند تنظیم 'آر ایس ایس' نے منظم غنڈہ گردی کی، مسلمانوں کے گھر نذر آتش کیے، لوگوںکے جلنے کی بو آج تک میری یادداشت میں ہے۔۔۔! والدہ مجھے زخمیوں کے امدادی کیمپوں میں لے جاتی تھیں، جہاں کی آہ وبکا ذہن میں نقش ہے۔ والدہ کہتیں کہ میں اِسے دکھانا چاہتی ہوں کہ پاکستان کتنی مشکلات سے ملا!'
شاہدہ جمیل بتاتی ہیں کہ 'فسادات پر قابو پانے کے لیے موہن داس گاندھی نے حسین شہید سہروردی کو بلوایا، وہ قائد کی اجازت سے 13 اگست کو ہندوستان پہنچے اور پھر کافی دن وہاں رکے۔ ہم لوگ 1949ء میں پہلی بار اُن کے ساتھ ہی پاکستان آئے، پھر دوبارہ سامان اور کتابیں وغیرہ لینے گئے، 1951ء میں سرحدی پابندیاں ہوگئیں۔ پاکستان آنے پر نانا کو صوبہ بدر کیا گیا، لہٰذا مجبوراً وہ کلفٹن (کراچی) میں اپنے بھائی شاہد سہروردی کے ہاں ٹھیرے، پھر ہم نانی کے والد کے ہاں آگئے۔ جب نانا وزیراعظم بنے، تو ہم 'وزیراعظم ہاؤس' میں بھی رہے، 13 ماہ بعد انہوں نے انتخابات نہ کرانے پر استعفا دے دیا۔ ہم نے پوچھا کہ سہروردی 'ناپسندیدہ' تھے، تو انہیں بطور وزیراعظم کیسے قبول کیا گیا؟ وہ بولیں کہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔'
حسین شہید سہروردی کی صوبہ بدری کی وجہ ٹٹولی گئی، تو وہ بولیں کہ لیاقت علی خان نے ان کی واپسی کو اچھا نہیں سمجھا۔ سہروردی قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو درست سمجھتے اور 'قرارداد مقاصد' پر تحفظات رکھتے تھے، وہ کہتے کہ یہاں سب مسلمان ہیں تو پھر 'اسلامائزیشن' کی ضرورت نہیں۔
بیرسٹر شاہدہ کا کہنا ہے کہ حسین سہروردی نے دو جگہ سے انتخاب جیتا اور پھر اپنی ایک مضبوط نشست لیاقت علی کو دی، کیوں کہ اُن کا حلقۂ انتخاب ہندوستان میں رہ گیا تھا۔ ہم نے کہا کہ 'صرف لیاقت علی نہیں، بلکہ قائداعظم سمیت 17 مزید ارکان کے حلقے ہندوستان میں رہ گئے تھے، اگر اس بنا پر دوبارہ انتخاب لڑنا پڑا تو پھر قائداعظم کہاں سے لڑے؟'
ہماری اس الجھن کو سلجھانے کو وہ دستور ساز اسمبلی کی تفصیلات لے کر آئیں، جس میں 'قائد ملت' کے نام کے ساتھ قوسین میں 'مشرقی بنگال' درج تھا، لیکن قائد کے حلقہ انتخاب کی تفصیل نہ تھی! وہ معذرت کرتے ہوئے بولیں کہ ہماری تاریخ چھُپا دی گئی ہے، 1946ء کے مرکزی انتخابات کے بعد صوبائی انتخابات کی بھی درست تاریخ اور مہینا موجود نہیں، بس یہ لکھا ہے کہ ایک ماہ بعد ہوئے۔'
'حسین سہروردی اور لیاقت علی کے تنازع کا سبب پوچھا تو وہ سہروردی کا 11 اگست کی تقریر کاحامی ہونا اور لیاقت علی کا حلقۂ انتخاب یہاں نہ ہونا بتاتی ہیں۔ اُن پر 'بنگال کا اکثریت میں ہونا بھی دباؤ رکھتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی کے رحم وکرم پر نہ رہیں۔ اس لیے انہوں نے کراچی میں 'مہاجر' کا نعرہ شروع کیا اور 'مہاجر حلقے' کی کوشش کی۔' ہم نے کہا کہ مہاجر تو یہاں آہی رہے تھے، حلقہ بنانا کیا معنی۔۔۔؟ تو وہ بولیں کہ بار بار یہ کہہ کر کہ ہم 'یوپی' سے آئے ہوئے لوگ ہیں، یہ تصور شروع کیا، جب کہ ہم 'مہاجر' نہیں، ہم نے 'پاکستان' پر بیعت کی، ہم چاروں صوبوں میں رہنے والے صرف پاکستانی ہیں، میں کسی اور شناخت کو نہیں مانتی۔۔۔!'
بیرسٹر شاہدہ کا ماننا ہے کہ ''سہروردی اور لیاقت کے تنازعے افسوس ناک تھے۔۔۔! کچھ لوگ بھڑکانے والے بھی تھے۔۔۔ لیاقت علی نے ریڈیو پاکستان پر سہروردی کو 'غدار' اور 'کتا' کہا۔۔۔! ہم نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا یہ الفاظ نشر بھی ہوئے، تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ ہم نے سہروردی کی وفاداری مشکوک ہونے کے الزام کا ذکر کیا تو وہ بولیں کہ جب کسی کو نشانہ بنانا ہو تو اسے عوام سے دور کرنے کے لیے بدنام تو کرنا پڑتا ہے۔ لیاقت علی خان نے یہ غلطی کی اور اگر یہ دونوں آپس میں نہ لڑتے، تو انہیں راستے سے ہٹانا مشکل ہوتا!'
لیاقت علی اور قائداعظم کے اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ اُن کے اردگرد جمع ہونے والے لوگوں پر تنازع تھا۔ ہم نے پوچھا کہ قائد نے 'کھوٹے سکے' کسے کہا تھا، تو وہ بولیں کہ میرے اب تک کے مطالعے میںکہیں یہ بات نہ مل سکی، اور یہ اُن کا لب ولہجہ بھی نہیں تھا۔' ہم نے بانی پاکستان کی ابوالکلام آزاد کے لیے 'شو بوائے' کی بھپتی یاد دلائی تو بولیں کہ یہ تو قابل قبول لفظ ہے!'
حسین شہید سہروردی کی موت کے حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ 'وہ علاج کی غرض سے باہر گئے، انہیں جنوری میں لوٹنا تھا، لیکن پانچ دسمبر 1963ء کو وہ بیروت (لبنان) کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ حکام نے ہمیں کہہ دیا تھا کہ انہیں کسی صورت میں بھی واپس نہیں آنے دیں گے، لیکن وہ بولے کہ میں دھمکیوں سے نہیں رکوں گا۔۔۔!'
ہم نے پوچھا کہ کیا انہیں قتل کیا گیا؟ تو وہ بولیں کہ ان کے کمرے میں داخل ہونے والا شخص شدید قسم کی گیس کا ذکر کیا ہے۔، ہم نے کہا اگر یہ قتل تھا، تو لبنانی حکومت نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ وہ بولیں کہ 'اس کے لیے ہمیں کوئی ثبوت دینا پڑتا۔ پاکستانی سفارت خانے نے ان کی میت کو محفوظ کرنے کی غرض سے کیمیکل لگا دیا، جس کے بعد وجۂ موت تک پہنچنا ناممکن ہو گیا۔'
بیرسٹر شاہدہ نے انکشاف کیا کہ اہل خانہ حسین شہید سہروردی کو 'مزار قائد' میں سپرد خاک کرنا چاہتے تھے، لیکن انہیں مغربی پاکستان میں کہیں بھی تدفین سے روک دیا گیا! ملک علیحدگی کی طرف جا رہا تھا اور وہ یہاں کسی بنگالی کی قبر نہیں چاہتے تھے، پھر ہم نے 'مشرقی پاکستان' بڑے ہجوم نے ان کی تدفین میں شرکت کی۔'
ہم نے اُس مجمعے میں قوم پرستی کے رنگ کے بارے میں استفسار کیا، تو وہ بولیںکہ شیخ مجیب نے قتل کہہ کر اشتعال انگیزی کی کوشش کی، جس کے بعد 'اتفاق' اخبار (ڈھاکا) کے مدیر میاں تفضل حسین کی ہدایت پر میری والدہ نے 'تردید' کی، حالاں کہ وہ ایسا نہیں سمجھتی تھیں، لیکن انہیں لگا کہ قوم پرستی سے سہروردی کی جدوجہد ضایع ہو جائے گی۔' ہم نے پوچھا کہ کیا وہاں اب اُن کی قبر پر 'وزیراعظم پاکستان' لکھا ہوا ہے؟ تو وہ وبولیں کہ یہ دھیان نہیں کیا، لیکن وہاں انہیں بنگال کے بڑے راہ نما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ''اسکندر مرزا نے مارشل لا لگانے کی بے وقوفی کا خمیازہ بھگتا، انہیں استعمال کر کے پھینک دیا گیا۔ 1958ء میں انتخابی مہم کے دوران ڈاکٹر خان کے قتل سے سیاست دانوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور پھر اتنخابات منسوخ اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔''
وہ لیاقت علی کے قتل کو بڑا المیہ قرار دیتے ہوئے خیال ظاہر کرتی ہیں کہ مبینہ طور پر خارجہ پالیسی کے سبب انہیں راستے سے ہٹایا گیا۔ وہ امریکا کی طرف قدم بڑھانا چاہتے تھے۔' ہم نے پوچھا کہ بعد بھی تو ہمارا جھکاؤ امریکا کی طرف ہی رہا؟ وہ بولیںکہ بعد میں تاثر یہ دیا کہ ساتھ ہیں اور حقیقت کچھ اور۔۔۔ سیاست میں بھروسا ختم ہونا خطرناک ہے۔ لیاقت علی کا دورۂ امریکا بالکل درست تھا، کیوں کہ 1947ء میں روس اور برطانیہ 'تقسیم ہند' کے مخالف، جب کہ امریکا حامی تھا۔ روس نے ہمیں ٹھوکر ماری، ہم اس کی طرف کیوں جاتے؟ خارجہ پالیسی پر سہروردی، وزیراعظم لیاقت علی کے ساتھ تھے۔
اپنے تعلیمی تجربات کا ذکر کرتے ہوئے شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ سینٹ جوزف کالج سے گریجویشن کیا، پھر 'ایس ایم لا کالج' گئی، تو لگاتار دو بار فیل ہوئی، پرنسپل بیرسٹر عزیز اللہ شیخ نے بتایا کہ سہروردی کی نواسی ہونے کی وجہ سے تمہیں یہاں وکیل نہیں بننے دیا جائے گا، اس لیے باہر جا کر پڑھو۔ پھر وہ بیگم شائستہ اکرام اللہ کی بیٹی کے ساتھ لندن گئیں اور بیرسٹر بن کر وطن لوٹیں۔ کہتی ہیں کہ اس کے بعد بھی مجھے سپریم کورٹ کا وکیل بننے سے روکا، مجبوراً میں ہائی کورٹ تک محدود ہوگئی۔ اسی طرح نانا حسین سہرودی کو بھی 'سندھ بار' اور 'لاہور بار' میں رکوایا گیا تھا۔ آخر کو صدر ساہیوال بار کونسل صاحب زادہ نوازش علی نے انہیں ڈسٹرکٹ بار میں جگہ دی، تو ان کی وکالت شروع ہو سکی۔۔۔ جب آپ ملک سے محبت کریں گے، تو آپ کے ساتھ یہ سب ہوگا۔'
بیرسٹر شاہدہ جمیل 'تحریک استقلال' میں رہیں، وہ کہتی ہیں کہ 'لائسنس' لازمی کرنے پر وکلا بھی بھٹو مخالف ہوئے۔ ہم نے کہا اُس تحریک میں تو ڈالر بٹے تھے؟ وہ بولیں کہ نہیں، لوگ مجبور ہو کر نکلے! ضیا دور میں 'ایم آر ڈی' تحریک میں دیکھا کہ سب سیاسی جماعتیں ہی ایک جیسی ہیں اور پھر سوویت یونین کی افغانستان میں حمایت پر اختلاف ہوا، اور میں سیاست سے ہی دور ہوگئی۔ 'پھر ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بم دھماکے بہت ہونے لگے۔ ایک سفید گاڑیا آتی اور مار کے چلی جاتی۔۔۔ 'نامعلوم افراد' کہہ کر بات ختم ہو جاتی۔ نواز شریف فوجی عدالتیں لائے، جب کہ عدالت کا نظام درست کرنا چاہیے تھا۔ نصیر اللہ بابر نے طالبان بنا دیے!' ہم نے نصیر اللہ بابر کے کراچی میں کردار کا ذکر چھیڑا، تو بولیں کہ 'وہ کراچی، سندھ سب کو توڑنا چاہتے تھے!'
1999ء میں فوجی حکومت کے قیام کے بعد انہیں سندھ میں وزیر قانون بنایا گیا، وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی صوبے کی پہلی خاتون قرار پائیں۔ ایک سال بعد جنرل پرویز مشرف کی کابینہ کا حصہ بن گئیں، جہاں 14 نومبر 2002ء تک رہیں۔ اس کے بعد 2007ء میں نگراں وزیراعظم محمد میاں سومرو کی کابینہ میں انہیں سماجی بہبود اور خصوصی تعلیم کا قلم دان سونپا گیا۔ وزارتوں کے تجربات ٹٹولے گئے، تو وہ گویا ہوئیں کہ چیزوں کو اجتماعی سوچ کے راستے سے لانا مفید ہوتا ہے۔ ہم نے ملزمان کے تحفظ کے لیے 'جیل' میں ہی ایک کمپلیکس بنوایا، لیکن اب شاید بہت برا حال ہے۔'
'غدار' قرار دیے جانے والے راہ نما کی نواسی سے جب ہم نے ''غدار'' قرار دینے کے موجودہ سلسلے کا ذکر کیا تو وہ بولیں ملک کے بارے میں رائے الگ ہونا غداری نہیں! ہمیں اپنے اداروں کو بھی نیچا نہیں دکھانا چاہیے، ہمارے جوانوں کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہے۔'
''حسین شہید سہرودی نے بنگلا زبان بعد میں سیکھی!''
بیرسٹر شاہدہ جمیل کے بقول 1949ء میں پاکستان آمد کے بعد حسین شہید سہروردی نے قائد کی 11 اگست کی تقریر کی بنیاد پر 'جناح مسلم لیگ' بنائی، جو بعد میں 'جناح عوامی مسلم لیگ' کہلائی اور پھر 1951ء کے بعد پہلے لفظ 'جناح' اور پھر 'مسلم' ہٹا دیا گیا۔ اس کی توجیہ میں وہ بولیں کہ جب لیاقت علی نہیں رہے، تو اِسے 'عوامی مسلم لیگ' کیا، پھر انہیں لگا کہ یہاں ہم سب مسلمان ہی تو ہیں، یوں اِسے 'عوامی لیگ' کر دیا۔' اُن کے نانا کے نام کے ساتھ لفظ 'شہید' کا استفسار کیا تو وہ بولیں کہ پہلے لوگ صرف جناب حسینؓ کہنے کے بہ جائے 'حسین شہیدؓ' کہتے تھے۔
اس لیے پھر نام بھی یہی رکھا گیا۔ 'بانی عوامی لیگ' کی نواسی بیرسٹر شاہدہ، شیخ مجیب الرحمن کے ذکر پر ایک آہ بھرتی ہیں اور انہیں 'غیر وفادار' قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ حسین شہید کے ہوتے ہوئے وہ آگے نہ تھا۔ 'عوامی لیگ' کے سچے لوگ مجیب کے ساتھ نہ تھے، لیکن اس نے جوڑ توڑ کر کے اپنی جگہ بنائی، ظہیر الدین، عطاالرحمن اور تفضل حسین وغیرہ کو غیر جانب دار کیا اور 'عوامی لیگ' میں مضبوط ہوگئے۔' بیرسٹر شاہدہ نے انکشاف کیا کہ حسین شہید سہروردی اردو بولتے تھے، جب دیہات میں جانا پڑا تو تب انہوں نے بنگلا زبان سیکھی۔ ہندوستان میں ہماری کوئی لسانی شناخت نہیں تھی، سب مسلمان تھے اور مسلمان گھرانوں میں اردو، عربی اور فارسی کا چلن تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ 'بنگلا اردو' کا چکر بھی ہندوؤں نے اٹھایا اور 1952ء میں مارے جانے والے طلبہ میں بھی زیادہ تر ہندو تھے۔
''پاکستان نہ رہا تو بنگلا دش بھی مٹ جائے گا!''
شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ہجرت کی تو پہلے ہندوستان اور پھر بنگلا دیش کے رشتے داروں سے بھی کٹ گئے۔۔۔ جب کلکتہ گئی تو وہاں ہندوؤں کے بھیس میں مسلمان ملنے آئے اور بولے کہ اب ہمارا کوئی سہارا نہیں رہا، پہلے ہمیں لگتا تھا کہ ہمارے لیے پاکستان ہے، لیکن اب ہمیں اپنے مسائل سے خود نبردآزما ہونا ہے۔' بیرسٹر شاہدہ کو خدشہ ہے کہ ہندوستان، ہم سے جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صور ت حال میں وہاں سے یہاں نقل مکانی ہو سکتی ہے، ہمیں چاہیے کہ سرحد پر 'نومینز لینڈ' بنائیں، تاکہ کشمیریوں کے ساتھ داخل ہونے والے جاسوس روکے جا سکیں۔ شبہ ہے کہ ستمبر اور اکتوبر میں امریکی چناؤ کے قریب یہ شرارت کی جا سکتی ہے۔ حالیہ بھارتی جبر اسی کی تیاری ہے۔غیر کشمیریوں کو زمین کی خریداری کی اجازت سے وہاں دیگر لوگ آجائیں گے اور پھر بھارت رائے شماری کی بات کرے گا، اس لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے ہی اقوام متحدہ کو اس کا گواہ بنائیں۔ وہ کہتی ہیں کہ توازن طاقت کے لیے پاکستان بہت ضروری ہے، اگر پاکستان نہیں رہا، تو بنگلا دیش بھی مٹ جائے گا!
چار صوبوں کا منفرد سمبندھ۔۔۔
بیرسٹر شاہدہ جمیل برصغیر کے چار صوبوں سے ایک منفرد تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا ننھیال بنگال، ددھیال یوپی، رہائش سندھ میں اور سسرال پنجاب میں ہے۔۔۔ اُن کے دادا سر شاہ سلیمان، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ رہے، علامہ اقبال کے قریبی دوست اور الہ آباد ہائی کورٹ کے کم عمر ترین چیف جسٹس بھی رہے۔ اُن کی والدہ کی شادی کا ذکر چھڑا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ یہ رشتہ دادی اماں اور میری پرنانی (سر عبدالرحیم کی اہلیہ) کی دوستی کی وجہ سے ہوا۔ دادا وفاقی عدالت کے جج ہو کر دلّی آئے، جہاں پرنانی بھی رہتی تھیں، دادا سر شاہ سلیمان کا انتقال والد کی شادی سے پہلے ہی ہوگیا۔
اپنی شادی کے حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ شوہر محمد جمیل سے لندن میں شناسائی ہوئی اور وطن واپسی پر 1973ء میں وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے اور 1978ء تک لاہور میں رہے۔ والد کی علالت کے باعث کراچی آنا پڑا کہ وہ اکلوتی اولاد ہیں۔ 1980ء میں والد نہیں رہے۔ والد نے بھی قانون پڑھا، لیکن دادا کی وفات کے بعد کاروبار شروع کیا، کیوں کہ اس زمانے میں ججوں کی زندگی بہت سخت ہوتی تھی۔ والدہ سماجی کارکن تھیں۔ بڑے بیٹے بیرسٹر زاہد یہاں ہیں اور چھوٹے بیٹے بیرسٹر شاہد شکاگو میں ہیں۔ شوہر محمد جمیل کا انتقال 2014 ء میں ہوا۔
ججوں کا سڑک پر نکلنا غلط تھا۔۔۔!
2007ء کی 'عدلیہ تحریک' کے حوالے سے بیرسٹر شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ اس میں ججوں کا سڑکوں پر نکلنا غلط تھا۔ جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس بالکل ٹھیک تھا، لیکن انہیں معطل کرنا غلط تھا۔ اس ریفرنس پر پر بات ہونا چاہیے تھی، لیکن ساری توجہ معطل کرنا ٹھیک اور غلط پر ہی مرکوز ہو گئی۔۔۔ جب ججوں کی گاڑی وکیل چلا رہے ہوں گے تو کیا صورت حال ہوگی۔۔۔؟ آپ بے شک یہ کہہ دیں کہ میں آیندہ افتخار چوہدری کی عدالت میں پیش نہیں ہوں گا، لیکن آپ کی جگہ کوئی تو پیش ہوگا، تو بات پھر وہی ہوگی۔ شاہدہ جمیل کا ماننا ہے کہ بینچ اور بار کے درمیان ایک فاصلہ ہونا بے حد ضروری ہے، اس تحریک میں بدقسمتی سے وہ فاصلہ ختم ہوگیا۔ عدلیہ تحریک کے بعد وکلا کے رویوں میں تبدیلی آئی، وہ ججوں پر حاوی ہوتے کہ ہم نے تو تمہاری بحالی کے لیے تحریک چلائی!'
یہ وقت کوچۂ صحافت میں پیشہ ورانہ ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اُن چند منفرد لمحات میں سے تھا، جب ہمیں بہت دیر تک کسی تاریخی ہستی کے گھرانے کی صحبت میسر ہوئی، اور اس پر ہم بجا طور پر ناز کر سکتے ہیں۔۔۔ اُن سے وقت لینے کے بعد مقررہ دن جب ہم نے اپنے پروگرام کی تصدیق کی۔۔۔ اور موبائل پیغام میں انہیں 'آداب' عرض کیا، تو جواباً 'جیتے رہو!' کے الفاظ دست شفقت بن کر ہم پر ٹھیر گئے۔۔۔ انہیں ہمارے مخاطب کرنے کا یہ ڈھب اتنا بھایا کہ انٹرویو کے بعد ہمارا تعارف لیا اور سراہتے ہوئے بولیں کہ پہلی دفعہ مجھے کسی نے 'آداب' کہا ہے۔۔۔! اب کہاں ہیں ایسی زبان بولنے والے۔۔۔ وہ تہذیب تو مٹ گئی۔۔۔! اب تو لوگوں کا انداز بازاری ہوگیا ہے۔ پہلے برے الفاظ استعمال کرنا اپنے گھر کی توہین تھی، کیوں کہ آپ کے بڑوں کا نام بدنام ہوتا تھا!
یہ تحریک آزادی کے ممتاز راہ نما، پاکستان کے پانچویں وزیراعظم اور ''بانی عوامی لیگ''حسین شہید سہروردی کی نواسی بیرسٹر شاہدہ جمیل ہیں۔۔۔ وہ 'عوامی لیگ' جس کے راہ نما شیخ مجیب الرحمن بانی بنگلا دیش ہوئے، اگر عوامی لیگ میں تب موروثی سیاست چلتی اور ملک متحد رہتا تو ممکن ہے وہ ملک کی ایک مرکزی سیاسی جماعت کی قائد ہوتیں، لیکن صورت حال بدلی۔ اس کے باوجود وہ ہمارے ملک کی وفاقی اورصوبائی وزیر رہیں، انہوں نے 1944ء میں کلکتہ میں آنکھ کھولی، وہ بتاتی ہیں کہ وہاں مسلمان اچھوت سمجھے جاتے، جو گائے اور بندر کو نہیں چھو سکتے تھے، اگر کسی مسلمان کا ہاتھ سبزی کے ٹھیلے کو لگ جاتا، تو جھگڑا ہو جاتا۔ فسادات میں انتہا پسند تنظیم 'آر ایس ایس' نے منظم غنڈہ گردی کی، مسلمانوں کے گھر نذر آتش کیے، لوگوںکے جلنے کی بو آج تک میری یادداشت میں ہے۔۔۔! والدہ مجھے زخمیوں کے امدادی کیمپوں میں لے جاتی تھیں، جہاں کی آہ وبکا ذہن میں نقش ہے۔ والدہ کہتیں کہ میں اِسے دکھانا چاہتی ہوں کہ پاکستان کتنی مشکلات سے ملا!'
شاہدہ جمیل بتاتی ہیں کہ 'فسادات پر قابو پانے کے لیے موہن داس گاندھی نے حسین شہید سہروردی کو بلوایا، وہ قائد کی اجازت سے 13 اگست کو ہندوستان پہنچے اور پھر کافی دن وہاں رکے۔ ہم لوگ 1949ء میں پہلی بار اُن کے ساتھ ہی پاکستان آئے، پھر دوبارہ سامان اور کتابیں وغیرہ لینے گئے، 1951ء میں سرحدی پابندیاں ہوگئیں۔ پاکستان آنے پر نانا کو صوبہ بدر کیا گیا، لہٰذا مجبوراً وہ کلفٹن (کراچی) میں اپنے بھائی شاہد سہروردی کے ہاں ٹھیرے، پھر ہم نانی کے والد کے ہاں آگئے۔ جب نانا وزیراعظم بنے، تو ہم 'وزیراعظم ہاؤس' میں بھی رہے، 13 ماہ بعد انہوں نے انتخابات نہ کرانے پر استعفا دے دیا۔ ہم نے پوچھا کہ سہروردی 'ناپسندیدہ' تھے، تو انہیں بطور وزیراعظم کیسے قبول کیا گیا؟ وہ بولیں کہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔'
حسین شہید سہروردی کی صوبہ بدری کی وجہ ٹٹولی گئی، تو وہ بولیں کہ لیاقت علی خان نے ان کی واپسی کو اچھا نہیں سمجھا۔ سہروردی قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو درست سمجھتے اور 'قرارداد مقاصد' پر تحفظات رکھتے تھے، وہ کہتے کہ یہاں سب مسلمان ہیں تو پھر 'اسلامائزیشن' کی ضرورت نہیں۔
بیرسٹر شاہدہ کا کہنا ہے کہ حسین سہروردی نے دو جگہ سے انتخاب جیتا اور پھر اپنی ایک مضبوط نشست لیاقت علی کو دی، کیوں کہ اُن کا حلقۂ انتخاب ہندوستان میں رہ گیا تھا۔ ہم نے کہا کہ 'صرف لیاقت علی نہیں، بلکہ قائداعظم سمیت 17 مزید ارکان کے حلقے ہندوستان میں رہ گئے تھے، اگر اس بنا پر دوبارہ انتخاب لڑنا پڑا تو پھر قائداعظم کہاں سے لڑے؟'
ہماری اس الجھن کو سلجھانے کو وہ دستور ساز اسمبلی کی تفصیلات لے کر آئیں، جس میں 'قائد ملت' کے نام کے ساتھ قوسین میں 'مشرقی بنگال' درج تھا، لیکن قائد کے حلقہ انتخاب کی تفصیل نہ تھی! وہ معذرت کرتے ہوئے بولیں کہ ہماری تاریخ چھُپا دی گئی ہے، 1946ء کے مرکزی انتخابات کے بعد صوبائی انتخابات کی بھی درست تاریخ اور مہینا موجود نہیں، بس یہ لکھا ہے کہ ایک ماہ بعد ہوئے۔'
'حسین سہروردی اور لیاقت علی کے تنازع کا سبب پوچھا تو وہ سہروردی کا 11 اگست کی تقریر کاحامی ہونا اور لیاقت علی کا حلقۂ انتخاب یہاں نہ ہونا بتاتی ہیں۔ اُن پر 'بنگال کا اکثریت میں ہونا بھی دباؤ رکھتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی کے رحم وکرم پر نہ رہیں۔ اس لیے انہوں نے کراچی میں 'مہاجر' کا نعرہ شروع کیا اور 'مہاجر حلقے' کی کوشش کی۔' ہم نے کہا کہ مہاجر تو یہاں آہی رہے تھے، حلقہ بنانا کیا معنی۔۔۔؟ تو وہ بولیں کہ بار بار یہ کہہ کر کہ ہم 'یوپی' سے آئے ہوئے لوگ ہیں، یہ تصور شروع کیا، جب کہ ہم 'مہاجر' نہیں، ہم نے 'پاکستان' پر بیعت کی، ہم چاروں صوبوں میں رہنے والے صرف پاکستانی ہیں، میں کسی اور شناخت کو نہیں مانتی۔۔۔!'
بیرسٹر شاہدہ کا ماننا ہے کہ ''سہروردی اور لیاقت کے تنازعے افسوس ناک تھے۔۔۔! کچھ لوگ بھڑکانے والے بھی تھے۔۔۔ لیاقت علی نے ریڈیو پاکستان پر سہروردی کو 'غدار' اور 'کتا' کہا۔۔۔! ہم نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا یہ الفاظ نشر بھی ہوئے، تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ ہم نے سہروردی کی وفاداری مشکوک ہونے کے الزام کا ذکر کیا تو وہ بولیں کہ جب کسی کو نشانہ بنانا ہو تو اسے عوام سے دور کرنے کے لیے بدنام تو کرنا پڑتا ہے۔ لیاقت علی خان نے یہ غلطی کی اور اگر یہ دونوں آپس میں نہ لڑتے، تو انہیں راستے سے ہٹانا مشکل ہوتا!'
لیاقت علی اور قائداعظم کے اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ اُن کے اردگرد جمع ہونے والے لوگوں پر تنازع تھا۔ ہم نے پوچھا کہ قائد نے 'کھوٹے سکے' کسے کہا تھا، تو وہ بولیں کہ میرے اب تک کے مطالعے میںکہیں یہ بات نہ مل سکی، اور یہ اُن کا لب ولہجہ بھی نہیں تھا۔' ہم نے بانی پاکستان کی ابوالکلام آزاد کے لیے 'شو بوائے' کی بھپتی یاد دلائی تو بولیں کہ یہ تو قابل قبول لفظ ہے!'
حسین شہید سہروردی کی موت کے حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ 'وہ علاج کی غرض سے باہر گئے، انہیں جنوری میں لوٹنا تھا، لیکن پانچ دسمبر 1963ء کو وہ بیروت (لبنان) کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ حکام نے ہمیں کہہ دیا تھا کہ انہیں کسی صورت میں بھی واپس نہیں آنے دیں گے، لیکن وہ بولے کہ میں دھمکیوں سے نہیں رکوں گا۔۔۔!'
ہم نے پوچھا کہ کیا انہیں قتل کیا گیا؟ تو وہ بولیں کہ ان کے کمرے میں داخل ہونے والا شخص شدید قسم کی گیس کا ذکر کیا ہے۔، ہم نے کہا اگر یہ قتل تھا، تو لبنانی حکومت نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ وہ بولیں کہ 'اس کے لیے ہمیں کوئی ثبوت دینا پڑتا۔ پاکستانی سفارت خانے نے ان کی میت کو محفوظ کرنے کی غرض سے کیمیکل لگا دیا، جس کے بعد وجۂ موت تک پہنچنا ناممکن ہو گیا۔'
بیرسٹر شاہدہ نے انکشاف کیا کہ اہل خانہ حسین شہید سہروردی کو 'مزار قائد' میں سپرد خاک کرنا چاہتے تھے، لیکن انہیں مغربی پاکستان میں کہیں بھی تدفین سے روک دیا گیا! ملک علیحدگی کی طرف جا رہا تھا اور وہ یہاں کسی بنگالی کی قبر نہیں چاہتے تھے، پھر ہم نے 'مشرقی پاکستان' بڑے ہجوم نے ان کی تدفین میں شرکت کی۔'
ہم نے اُس مجمعے میں قوم پرستی کے رنگ کے بارے میں استفسار کیا، تو وہ بولیںکہ شیخ مجیب نے قتل کہہ کر اشتعال انگیزی کی کوشش کی، جس کے بعد 'اتفاق' اخبار (ڈھاکا) کے مدیر میاں تفضل حسین کی ہدایت پر میری والدہ نے 'تردید' کی، حالاں کہ وہ ایسا نہیں سمجھتی تھیں، لیکن انہیں لگا کہ قوم پرستی سے سہروردی کی جدوجہد ضایع ہو جائے گی۔' ہم نے پوچھا کہ کیا وہاں اب اُن کی قبر پر 'وزیراعظم پاکستان' لکھا ہوا ہے؟ تو وہ وبولیں کہ یہ دھیان نہیں کیا، لیکن وہاں انہیں بنگال کے بڑے راہ نما کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ''اسکندر مرزا نے مارشل لا لگانے کی بے وقوفی کا خمیازہ بھگتا، انہیں استعمال کر کے پھینک دیا گیا۔ 1958ء میں انتخابی مہم کے دوران ڈاکٹر خان کے قتل سے سیاست دانوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور پھر اتنخابات منسوخ اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔''
وہ لیاقت علی کے قتل کو بڑا المیہ قرار دیتے ہوئے خیال ظاہر کرتی ہیں کہ مبینہ طور پر خارجہ پالیسی کے سبب انہیں راستے سے ہٹایا گیا۔ وہ امریکا کی طرف قدم بڑھانا چاہتے تھے۔' ہم نے پوچھا کہ بعد بھی تو ہمارا جھکاؤ امریکا کی طرف ہی رہا؟ وہ بولیںکہ بعد میں تاثر یہ دیا کہ ساتھ ہیں اور حقیقت کچھ اور۔۔۔ سیاست میں بھروسا ختم ہونا خطرناک ہے۔ لیاقت علی کا دورۂ امریکا بالکل درست تھا، کیوں کہ 1947ء میں روس اور برطانیہ 'تقسیم ہند' کے مخالف، جب کہ امریکا حامی تھا۔ روس نے ہمیں ٹھوکر ماری، ہم اس کی طرف کیوں جاتے؟ خارجہ پالیسی پر سہروردی، وزیراعظم لیاقت علی کے ساتھ تھے۔
اپنے تعلیمی تجربات کا ذکر کرتے ہوئے شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ سینٹ جوزف کالج سے گریجویشن کیا، پھر 'ایس ایم لا کالج' گئی، تو لگاتار دو بار فیل ہوئی، پرنسپل بیرسٹر عزیز اللہ شیخ نے بتایا کہ سہروردی کی نواسی ہونے کی وجہ سے تمہیں یہاں وکیل نہیں بننے دیا جائے گا، اس لیے باہر جا کر پڑھو۔ پھر وہ بیگم شائستہ اکرام اللہ کی بیٹی کے ساتھ لندن گئیں اور بیرسٹر بن کر وطن لوٹیں۔ کہتی ہیں کہ اس کے بعد بھی مجھے سپریم کورٹ کا وکیل بننے سے روکا، مجبوراً میں ہائی کورٹ تک محدود ہوگئی۔ اسی طرح نانا حسین سہرودی کو بھی 'سندھ بار' اور 'لاہور بار' میں رکوایا گیا تھا۔ آخر کو صدر ساہیوال بار کونسل صاحب زادہ نوازش علی نے انہیں ڈسٹرکٹ بار میں جگہ دی، تو ان کی وکالت شروع ہو سکی۔۔۔ جب آپ ملک سے محبت کریں گے، تو آپ کے ساتھ یہ سب ہوگا۔'
بیرسٹر شاہدہ جمیل 'تحریک استقلال' میں رہیں، وہ کہتی ہیں کہ 'لائسنس' لازمی کرنے پر وکلا بھی بھٹو مخالف ہوئے۔ ہم نے کہا اُس تحریک میں تو ڈالر بٹے تھے؟ وہ بولیں کہ نہیں، لوگ مجبور ہو کر نکلے! ضیا دور میں 'ایم آر ڈی' تحریک میں دیکھا کہ سب سیاسی جماعتیں ہی ایک جیسی ہیں اور پھر سوویت یونین کی افغانستان میں حمایت پر اختلاف ہوا، اور میں سیاست سے ہی دور ہوگئی۔ 'پھر ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بم دھماکے بہت ہونے لگے۔ ایک سفید گاڑیا آتی اور مار کے چلی جاتی۔۔۔ 'نامعلوم افراد' کہہ کر بات ختم ہو جاتی۔ نواز شریف فوجی عدالتیں لائے، جب کہ عدالت کا نظام درست کرنا چاہیے تھا۔ نصیر اللہ بابر نے طالبان بنا دیے!' ہم نے نصیر اللہ بابر کے کراچی میں کردار کا ذکر چھیڑا، تو بولیں کہ 'وہ کراچی، سندھ سب کو توڑنا چاہتے تھے!'
1999ء میں فوجی حکومت کے قیام کے بعد انہیں سندھ میں وزیر قانون بنایا گیا، وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی صوبے کی پہلی خاتون قرار پائیں۔ ایک سال بعد جنرل پرویز مشرف کی کابینہ کا حصہ بن گئیں، جہاں 14 نومبر 2002ء تک رہیں۔ اس کے بعد 2007ء میں نگراں وزیراعظم محمد میاں سومرو کی کابینہ میں انہیں سماجی بہبود اور خصوصی تعلیم کا قلم دان سونپا گیا۔ وزارتوں کے تجربات ٹٹولے گئے، تو وہ گویا ہوئیں کہ چیزوں کو اجتماعی سوچ کے راستے سے لانا مفید ہوتا ہے۔ ہم نے ملزمان کے تحفظ کے لیے 'جیل' میں ہی ایک کمپلیکس بنوایا، لیکن اب شاید بہت برا حال ہے۔'
'غدار' قرار دیے جانے والے راہ نما کی نواسی سے جب ہم نے ''غدار'' قرار دینے کے موجودہ سلسلے کا ذکر کیا تو وہ بولیں ملک کے بارے میں رائے الگ ہونا غداری نہیں! ہمیں اپنے اداروں کو بھی نیچا نہیں دکھانا چاہیے، ہمارے جوانوں کی وجہ سے سرحدوں کی حفاظت ہے۔'
''حسین شہید سہرودی نے بنگلا زبان بعد میں سیکھی!''
بیرسٹر شاہدہ جمیل کے بقول 1949ء میں پاکستان آمد کے بعد حسین شہید سہروردی نے قائد کی 11 اگست کی تقریر کی بنیاد پر 'جناح مسلم لیگ' بنائی، جو بعد میں 'جناح عوامی مسلم لیگ' کہلائی اور پھر 1951ء کے بعد پہلے لفظ 'جناح' اور پھر 'مسلم' ہٹا دیا گیا۔ اس کی توجیہ میں وہ بولیں کہ جب لیاقت علی نہیں رہے، تو اِسے 'عوامی مسلم لیگ' کیا، پھر انہیں لگا کہ یہاں ہم سب مسلمان ہی تو ہیں، یوں اِسے 'عوامی لیگ' کر دیا۔' اُن کے نانا کے نام کے ساتھ لفظ 'شہید' کا استفسار کیا تو وہ بولیں کہ پہلے لوگ صرف جناب حسینؓ کہنے کے بہ جائے 'حسین شہیدؓ' کہتے تھے۔
اس لیے پھر نام بھی یہی رکھا گیا۔ 'بانی عوامی لیگ' کی نواسی بیرسٹر شاہدہ، شیخ مجیب الرحمن کے ذکر پر ایک آہ بھرتی ہیں اور انہیں 'غیر وفادار' قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ حسین شہید کے ہوتے ہوئے وہ آگے نہ تھا۔ 'عوامی لیگ' کے سچے لوگ مجیب کے ساتھ نہ تھے، لیکن اس نے جوڑ توڑ کر کے اپنی جگہ بنائی، ظہیر الدین، عطاالرحمن اور تفضل حسین وغیرہ کو غیر جانب دار کیا اور 'عوامی لیگ' میں مضبوط ہوگئے۔' بیرسٹر شاہدہ نے انکشاف کیا کہ حسین شہید سہروردی اردو بولتے تھے، جب دیہات میں جانا پڑا تو تب انہوں نے بنگلا زبان سیکھی۔ ہندوستان میں ہماری کوئی لسانی شناخت نہیں تھی، سب مسلمان تھے اور مسلمان گھرانوں میں اردو، عربی اور فارسی کا چلن تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ 'بنگلا اردو' کا چکر بھی ہندوؤں نے اٹھایا اور 1952ء میں مارے جانے والے طلبہ میں بھی زیادہ تر ہندو تھے۔
''پاکستان نہ رہا تو بنگلا دش بھی مٹ جائے گا!''
شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ ہجرت کی تو پہلے ہندوستان اور پھر بنگلا دیش کے رشتے داروں سے بھی کٹ گئے۔۔۔ جب کلکتہ گئی تو وہاں ہندوؤں کے بھیس میں مسلمان ملنے آئے اور بولے کہ اب ہمارا کوئی سہارا نہیں رہا، پہلے ہمیں لگتا تھا کہ ہمارے لیے پاکستان ہے، لیکن اب ہمیں اپنے مسائل سے خود نبردآزما ہونا ہے۔' بیرسٹر شاہدہ کو خدشہ ہے کہ ہندوستان، ہم سے جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صور ت حال میں وہاں سے یہاں نقل مکانی ہو سکتی ہے، ہمیں چاہیے کہ سرحد پر 'نومینز لینڈ' بنائیں، تاکہ کشمیریوں کے ساتھ داخل ہونے والے جاسوس روکے جا سکیں۔ شبہ ہے کہ ستمبر اور اکتوبر میں امریکی چناؤ کے قریب یہ شرارت کی جا سکتی ہے۔ حالیہ بھارتی جبر اسی کی تیاری ہے۔غیر کشمیریوں کو زمین کی خریداری کی اجازت سے وہاں دیگر لوگ آجائیں گے اور پھر بھارت رائے شماری کی بات کرے گا، اس لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے ہی اقوام متحدہ کو اس کا گواہ بنائیں۔ وہ کہتی ہیں کہ توازن طاقت کے لیے پاکستان بہت ضروری ہے، اگر پاکستان نہیں رہا، تو بنگلا دیش بھی مٹ جائے گا!
چار صوبوں کا منفرد سمبندھ۔۔۔
بیرسٹر شاہدہ جمیل برصغیر کے چار صوبوں سے ایک منفرد تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا ننھیال بنگال، ددھیال یوپی، رہائش سندھ میں اور سسرال پنجاب میں ہے۔۔۔ اُن کے دادا سر شاہ سلیمان، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ رہے، علامہ اقبال کے قریبی دوست اور الہ آباد ہائی کورٹ کے کم عمر ترین چیف جسٹس بھی رہے۔ اُن کی والدہ کی شادی کا ذکر چھڑا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ یہ رشتہ دادی اماں اور میری پرنانی (سر عبدالرحیم کی اہلیہ) کی دوستی کی وجہ سے ہوا۔ دادا وفاقی عدالت کے جج ہو کر دلّی آئے، جہاں پرنانی بھی رہتی تھیں، دادا سر شاہ سلیمان کا انتقال والد کی شادی سے پہلے ہی ہوگیا۔
اپنی شادی کے حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ شوہر محمد جمیل سے لندن میں شناسائی ہوئی اور وطن واپسی پر 1973ء میں وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے اور 1978ء تک لاہور میں رہے۔ والد کی علالت کے باعث کراچی آنا پڑا کہ وہ اکلوتی اولاد ہیں۔ 1980ء میں والد نہیں رہے۔ والد نے بھی قانون پڑھا، لیکن دادا کی وفات کے بعد کاروبار شروع کیا، کیوں کہ اس زمانے میں ججوں کی زندگی بہت سخت ہوتی تھی۔ والدہ سماجی کارکن تھیں۔ بڑے بیٹے بیرسٹر زاہد یہاں ہیں اور چھوٹے بیٹے بیرسٹر شاہد شکاگو میں ہیں۔ شوہر محمد جمیل کا انتقال 2014 ء میں ہوا۔
ججوں کا سڑک پر نکلنا غلط تھا۔۔۔!
2007ء کی 'عدلیہ تحریک' کے حوالے سے بیرسٹر شاہدہ جمیل کہتی ہیں کہ اس میں ججوں کا سڑکوں پر نکلنا غلط تھا۔ جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس بالکل ٹھیک تھا، لیکن انہیں معطل کرنا غلط تھا۔ اس ریفرنس پر پر بات ہونا چاہیے تھی، لیکن ساری توجہ معطل کرنا ٹھیک اور غلط پر ہی مرکوز ہو گئی۔۔۔ جب ججوں کی گاڑی وکیل چلا رہے ہوں گے تو کیا صورت حال ہوگی۔۔۔؟ آپ بے شک یہ کہہ دیں کہ میں آیندہ افتخار چوہدری کی عدالت میں پیش نہیں ہوں گا، لیکن آپ کی جگہ کوئی تو پیش ہوگا، تو بات پھر وہی ہوگی۔ شاہدہ جمیل کا ماننا ہے کہ بینچ اور بار کے درمیان ایک فاصلہ ہونا بے حد ضروری ہے، اس تحریک میں بدقسمتی سے وہ فاصلہ ختم ہوگیا۔ عدلیہ تحریک کے بعد وکلا کے رویوں میں تبدیلی آئی، وہ ججوں پر حاوی ہوتے کہ ہم نے تو تمہاری بحالی کے لیے تحریک چلائی!'