ڈرامہ سیریل کنکر اور اس میں طلاق یافتہ خاتون کی کہانی حقیقت سے دور

ڈرامےمیں کرن کااپنےپیروں پرکھڑاہونےکیلئےایک مردکاسہارا لینےکےبجائےاس کی مشکلات اورجدوجہدکودکھایا جاناچاہیےتھا۔

ڈرامے میں کرن کاا پنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے ایک مرد کا سہارا لینے کے بجائے اس کی مشکلات اور جدوجہد کود کھایا جانا چاہیے تھا۔ فوٹو: پبلسٹی

QUETTA:
جب میں نے "کنکر" دیکھا شروع کیا تو مجھے خوشی تھی کہ بلآخر کسی پاکستانی ڈرامہ میں ایک ایسی مضبوط خودمختار عورت کو دکھایا گیا جو کہ سرداری نظام کے تحت چلنے والے معاشرے کی سوچ اور خواہشات کے آگے جھکنے کو تیار نہیں تھی۔

اس پاکستانی پرائم ٹایم سیریل "کنکر" کا مرکزی کردار کرن نامی ایک بہادر عورت ہے جو اپنے "مجازی خدا" (شوہر) کے خلاف کھڑی ہو کر اپنے حقوق کی جنگ لڑتی ہے۔ ظلم کا شکار بننے والی عام بہو کے بجائے یہ کردار ایسا ہے جس سے بہت سی خواتین خود کو ملائیں گی اور ممکن ہے کہ یہ جان کر کہ گھریلو تشدد کے خلاف کھڑا ہونا درست ہے اس میں ایک امید یا نجات بھی پائیں۔

تاہم گزشتہ دو اقساط میں اس کھیل ڈرامائی انداز میں اپنا رخ تبدیل کرکے ویسا ہوگیا ہے جس کے آخر ميں ہمیشہ سینڈریلا ہنسی، خوشی والے اختتام کا راستہ تلاش کرلیتی ہے۔ ڈرامے کی مرکزی کردار لڑکی جو کہ ضد میں اپنے بدزبان شوہر سے طلاق لیتی ہے اور دوبارہ شادی کا فیصلہ کرتی ہے ۔ وہ اپنے کزن عدنان سے دوبارہ شادی کرتی ہے جس کا ڈرامے کے آغاز سے ہی اپنی کزن کی جانب جھکاؤ دیکھایا گیا ہے۔

تشدد کا نشانہ بننے والی ہر اوسط پاکستانی خاتون جو کہ اب تک اپنے شوہر کو چھوڑنے کے بعد بہتر مستقل کے خواب دیکھتی ہے بلاآخر اپنے آپ کو بنا کسی سہارے کے پاتی ہے۔ بدقسمت بیوی جو کہ روزانہ ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی ہے یہ بات جاتی ہے کہ اگر اس نے دوبارہ اپنے شوہر کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو وہ اپنے کسی بھی کزن کو اپنے لیے منتظر نہیں پائے گی۔ اسے یا تو ہمیشہ ایک طلاق یافتہ خاتون کے خطاب کے ساتھ اپنی زندگی گزانا پڑے گی یا تو اپنی عمر سے دوگنا عمرا کے ایک مرد سے شادی کرکے اس کے بچوں کو پرورش کرنا پڑے گی۔ ڈرامے کی سابقہ اقساط میں سے ایک کے دوران بھی اس وقت اس جانب اشارہ دیا گیا تھا جب ایک رشتے کروانے والی خاتون کرن سے دوگنا بڑی عمر کے مرد کو رشتہ لے کر آئی تھی۔

ڈرامے میں کرن کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے ایک مرد کا سہارا لینے کو دکھانے کے بجائے ان مشکلات اور جدوجہد کو دکھایا جانا چاہیے تھا جن کا کرن نے سامنا کیا اور کیسے وہ ان سے چھٹکارا پایا۔ یہ چیز خواتین کے اندر اس امید کو روشن کرتی کہ طلاق ملنے سے زندگی ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر وہ اپنے شوہر کے رویے سے خوش نہیں ہیں تو ان کے پاس ایسے مردوں کے بغیر بھی اچھی زندگی گزارنے کا راستہ موجود ہے۔ لیکن افسوس کہ ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ عورت کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ ڈرامے کے دوران کئی مقامات پر کرن پر اس قسم کے جملے کسے گئے ہیں۔


"اس کی غلطی ہے، عورت چاہے تو اپنا گھر بنالے یا بگاڑ لے، شادی تو نام ہی سمجھوتے کا ہے، پتا نہیں کیا کیا برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس ماہرانی کو دیکھو گھر واپس آکر بیٹھ گئی۔"

ہمارے ملک میں ایک طلاق یافتہ عورت کے پاس دوبارہ شادی کرنے کے بہت کم مواقع ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اگر وہ مردوں جنتی جوان جوان بھی ہے تب بھی مرد سمجھتے ہیں کہ ایک طلاق یافتہ عورت سے شادی کرنے سے ان کی عزت میں کمی آجائے گی۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ طلاق یافتہ عورتوں سے یا تو وہ معمر مرد شادی کے لیے رضامند ہوتے ہیں جو کہ خود رنڈوے ہوتے ہیں اور ان کے بچوں کی شادی ہوچکی ہوتی ہے یا پھر وہ مرد جن کے ذہنوں میں پیسے، جہیز یا بزنس جیسے مختلف ایجنڈے ہوتے ہیں بالخصوص اس وقت جب لڑکی امیر گھرانے سے تعلق رکھتی ہو۔

میری ایک دوست امیر خاندان سے تعلق رکھتی ہے جو شادی کے بعد بیرون ملک چلی گئی تھی، بعد میں اس کو پتا چلا کہ اس کے شوہر کو نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے جب کہ اس کے سسرال والوں بھی اس کے ساتھ مخلص نہیں تھے اور کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے 24 سال کی عمر میں شادی کے تین ماہ کے اندر ہی طلاق لے لی۔ اس واقعے کو 4 سال گزر چکے ہیں، وہ ایک ڈاکٹر ہے لیکن کوئی بھی اس سے شادی کے لئے تیار نہیں ہے۔

ہمارا معاشرہ طلاق یافتہ عورتوں کے لئے بہت سخت ہے اور یہاں تک کہ وہ لڑکیاں جن کی بغیر رخصتی کے صرف نکاح کے بعد ہی علیحدگی ہوجاتی ہے کو بھی اچھے رشتے نہیں مل پا رہے ہیں۔ میرے والے کے ایک دوست نے بھی اپنی بیٹی کا نکاح اس وقت توڑ دیا جب لڑکے والوں کے غیر ضروری مطالبات شروع کر دیئے، انہوں نے طلاق کے لئے درخواست دائرکی لیکن اس کے 2 سال بعد تک انہیں اپنی بیٹی کے لئے کوئی اچھا رشتہ نہیں مل سکا۔ بلاآخر اس کی شادی ایک ایسے لڑکے سے ہوئی جو کہ نہ صرف اس سے کم تعلیم یافتہ تھا بلکہ اس کے اچھی ملازمت بھی نہیں تھی۔ جب کہ لڑکی خود ایک انجینیئر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کنکر حقیقت سے بہت دور ہے۔ حقیقی زندگی میں عدنان کے کرن سے شادی کے حوالے دوسرے خیالات ہوتے، ماسوا سب کچھ چاندی کی تھالی میں رکھ کر کرن کو پیش کیا گیا۔ اس کھیل میں سرداری نظام والی ذہنیت پر زور دیا گیا ہے، ایک عورت صرف اس وقت ہی خوشی حاصل کرسکتی ہے جب وہ کسی ایسا شخص کو تلاش کرے جو اس سے محبت کرتا ہو۔ یہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا کہ ہمارے ڈرامے خواتین کو پریوں کی کہانیوں پر یقین دلانے کے بجائے حقیقت کو دکھانا شروع کر دیتے۔
Load Next Story