ہمارا بنتا بگڑتا امیج
ایک خبر ’’عالمی شہرت یافتہ مذہبی اسکالر جنید جمشید نے امریکا سے ایکسپریس کو خصوصی گفتگو میں بتایا کہ محرم الحرام کے۔۔۔
MULTAN:
ایک خبر ''عالمی شہرت یافتہ مذہبی اسکالر جنید جمشید نے امریکا سے ایکسپریس کو خصوصی گفتگو میں بتایا کہ محرم الحرام کے موقع پر راولپنڈی' ملتان اور کوہاٹ میں ہونے والے واقعات پر دلی دکھ ہوا۔ اس طرح کے واقعات سے مسلمانوں کا امیج دنیا بھر میں خراب ہوتا ہے''۔
یہ بیان پڑھ کر پہلے ہم روئے پھر ہم ہنسے۔ روئے یہ سوچ کر کہ پُلوں کے نیچے سے پانی بہت گزر چکا ہے۔ مسلمان کا جو امیج بننا تھا بن چکا۔ اب پنڈی میں جو واقعہ گزرا اس سے اس امیج پر اچھا برا کتنا اثر پڑے گا اور ہنسے یہ سوچ کر کہ دنیا کے مسلمان اپنے امیج کے بارے میں کس طرح سوچتے ہیں اس کا تو ہمیں زیادہ پتہ نہیں۔ ہاں پاکستان والوں کو اس باب میں بہت تشویش رہتی ہے کہ دنیا میں ان کا امیج کیسا ہے اور یہ امیج کچھ اس رنگ کا ہے کہ گھڑی گھڑی بدلتا ہے مگر یہ صرف اہل نظر طے کر تے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ کب ہمارا امیج اتنا پختہ ہوتا ہے کہ کیا ہی بڑے سے بڑا سنگین واقعہ گزر جائے اس پر آنچ نہیں آتی۔ اور کب وہ اچانک خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مختاراں مائی کے ساتھ جو واقعہ گزر گیا اس کی خبر میڈیا کے واسطے سے دور دور تک گئی مگر پاکستان کے امیج کے بارے میں تردد کرنے والوں کو زیادہ تردد نہیں ہوا۔ اس لیے کہ پاکستان کا امیج اس واقعہ کے باوصف صحیح و سالم رہا لیکن جب مختاراں مائی نے خاموش رہنے سے انکار کر دیا اور پاکستان سے باہر جا کر اس نے بولنا شروع کر دیا تب یاروں کو بہت پریشانی ہوئی کہ یہ عورت الٹی سیدھی باتیں کر کے پاکستان کا امیج خراب کر رہی ہے۔
لیکن ایسے بھی انصاف پسند تھے جنھوں نے کہا کہ گھر میں سو طرح کی اچھی بری باتیں ہوتی ہیں۔ مگر شرافت اس میں ہے کہ گھر کی بات گھر میں رہے۔ گھر کے گندے برتن گلی میں جا کر نہیں پھوڑنے چاہئیں۔ مگر صاحب بڑی مشکل ہے۔ دنیا بہت چوکنی ہوگئی ہے۔ کوئی بات چھپی نہیں رہتی۔ ملالہ پر حملہ ہوا۔ بات کا بتنگڑ بن گیا۔ ساری دنیا میں اس کا ڈھنڈورا پٹ گیا۔ اور ملالہ کی ہمت اور استقامت پر داد کے ڈونگرے برسنے لگے۔ حد ہو گئی۔ اقوام متحدہ نے اس کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کر ڈالا۔ تب یاروں کو احساس ہوا کہ یہ لڑکی اغیار کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور ایسی باتیں کر رہی ہے کہ اس سے پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔
اصل میں تو پاکستان کا امیج ایک ہی موقعہ پر بہت شاندار ہو گیا تھا جب ہماری کرکٹ ٹیم نے عمران خاں کی کپتانی میں ورلڈ کپ جیتا تھا۔ ورلڈ کپ تو وہ اعزاز ہے کہ اس کے سامنے نوبل پرائز کیا بیچتا ہے۔ تو اگر پاکستان کے کسی بھلے سائنسدان کو نوبل پرائز مل بھی گیا تو کیا۔ اس پر ہمیں عسکری صاحب یاد آ گئے۔ پاکستان کے آغاز میں انھوں نے مسلمانوں کے علوم و فنون پر کچھ اس رنگ سے خامہ فرسائی کی جیسے وہ پاکستان کے واسطے سے کسی نشاتہ الثانیہ کا خواب دیکھ رہے ہیں مگر حالات کے رخ کو دیکھ کر جلد ہی مایوس بھی ہو گئے اور لکھا کہ پاکستان میں بس کرکٹ ہی چلے گی' ادب نہیں چلے گا۔ ان کے منہ میں گھی شکر۔ کرکٹ پاکستان میں واقعی خوب چلی۔ مگر عجب ہے کہ اب وہ بھی نہیں چل پا رہی۔ ادب تو ہمارے یہاں جتنا کچھ بھی بُرا بھلا چل رہا ہے اپنے زور پر چل رہا ہے مگر کرکٹ کو تو زور شور سے سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔ پھر کیا ہوا کہ اب اس کا بھی حال پتلا ہے۔ گاڑی دلدل میں ایسی پھنسی ہے کہ نکل ہی نہیں پا رہی۔
خیر کرکٹ کا ذکر تو بیچ میں یوں ہی نکل آیا۔ بات پاکستان کے امیج کی ہو رہی تھی۔ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے کہ ایک خوشگوار واقعہ ہوا تو ہمارا امیج بہتر ہو گیا۔ اگر کسی معاملہ میں ہماری ہیٹی ہو گئی تو امیج خراب ہو گیا۔ کرکٹ میچ جیت گئے تو امیج بام ثریا کو چھوتا نظر آیا۔ ہار گئے تو دنیا میں تھڑی تھڑی ہو گئی اور امیج بد رنگ ہو گیا۔ جس امیج کی بلندی اور پستی کرکٹ میچوں کے ہارنے جیتنے پر اور مختاراں مائی کے چپ رہنے اور بولنے پر موقوف ہو اس امیج کا خدا حافظ ہے۔
مگر کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے کہ وہ کونسا فعل و عمل ہے جن سے قوموں کی ساکھ قائم ہوتی ہے اور وہ کونسی اقدار ہیں' کونسے معیار اور ترجیحات ہیں جنھیں فراموش کرنے سے خرابی کی صورتیں نمودار ہوتی ہیں اور دنیا کی نظروں میں وہ گر جاتی ہیں مگر دنیا کو ہم اب گانٹھتے ہی کب ہیں۔ یہ بھی عجب تضاد ہے کہ ایک طرف ہمیں اپنے امیج کی بہت فکر رہتی ہے' دوسری طرف ہم بین الاقوامی رائے عامہ کو جوتی کی نوک پر لکھتے ہیں۔ ساری خدائی ایک طرف اور ہم ایک طرف۔ دنیا کے بڑے بڑے واقعات پر دنیا کے اہل الرائے کیا کہہ رہے ہیں' مبصرین کیا تبصرے کہہ رہے ہیں اور ہمارا کوئی نابغہ حکم لگاتا ہے کہ سب جھوٹ۔ یہ تو امریکا کا اپنا رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔ اور یہ محاکمہ ہمارے لیے سند بن جاتا ہے۔ لیجیے اقبال کا ایک شعر یاد آ گیا؎
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
مگر ہم تو اپنے عمل کے حساب کے قائل ہی نہیں ہیں۔ جو بھی واردات ہمارے ساتھ گزرتی ہے وہ ہمارے حساب سے اغیار کی سازش ہوتی ہے۔ ارے کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک کے دیکھ لیا کرو۔ کیا خبر ہے وہ کمبخت اغیار ہمارے اندر ہی کسی کونے کُھدڑے میں چُھپے بیٹھے ہوں۔ کبھی کبھی دشمن ہمارے بیچ اپنی کارستانی دکھا رہا ہوتا ہے اور ہم اسے باہر تلاش کرنے میں سرگرم ہوتے ہیں۔
ایک خبر ''عالمی شہرت یافتہ مذہبی اسکالر جنید جمشید نے امریکا سے ایکسپریس کو خصوصی گفتگو میں بتایا کہ محرم الحرام کے موقع پر راولپنڈی' ملتان اور کوہاٹ میں ہونے والے واقعات پر دلی دکھ ہوا۔ اس طرح کے واقعات سے مسلمانوں کا امیج دنیا بھر میں خراب ہوتا ہے''۔
یہ بیان پڑھ کر پہلے ہم روئے پھر ہم ہنسے۔ روئے یہ سوچ کر کہ پُلوں کے نیچے سے پانی بہت گزر چکا ہے۔ مسلمان کا جو امیج بننا تھا بن چکا۔ اب پنڈی میں جو واقعہ گزرا اس سے اس امیج پر اچھا برا کتنا اثر پڑے گا اور ہنسے یہ سوچ کر کہ دنیا کے مسلمان اپنے امیج کے بارے میں کس طرح سوچتے ہیں اس کا تو ہمیں زیادہ پتہ نہیں۔ ہاں پاکستان والوں کو اس باب میں بہت تشویش رہتی ہے کہ دنیا میں ان کا امیج کیسا ہے اور یہ امیج کچھ اس رنگ کا ہے کہ گھڑی گھڑی بدلتا ہے مگر یہ صرف اہل نظر طے کر تے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ کب ہمارا امیج اتنا پختہ ہوتا ہے کہ کیا ہی بڑے سے بڑا سنگین واقعہ گزر جائے اس پر آنچ نہیں آتی۔ اور کب وہ اچانک خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مختاراں مائی کے ساتھ جو واقعہ گزر گیا اس کی خبر میڈیا کے واسطے سے دور دور تک گئی مگر پاکستان کے امیج کے بارے میں تردد کرنے والوں کو زیادہ تردد نہیں ہوا۔ اس لیے کہ پاکستان کا امیج اس واقعہ کے باوصف صحیح و سالم رہا لیکن جب مختاراں مائی نے خاموش رہنے سے انکار کر دیا اور پاکستان سے باہر جا کر اس نے بولنا شروع کر دیا تب یاروں کو بہت پریشانی ہوئی کہ یہ عورت الٹی سیدھی باتیں کر کے پاکستان کا امیج خراب کر رہی ہے۔
لیکن ایسے بھی انصاف پسند تھے جنھوں نے کہا کہ گھر میں سو طرح کی اچھی بری باتیں ہوتی ہیں۔ مگر شرافت اس میں ہے کہ گھر کی بات گھر میں رہے۔ گھر کے گندے برتن گلی میں جا کر نہیں پھوڑنے چاہئیں۔ مگر صاحب بڑی مشکل ہے۔ دنیا بہت چوکنی ہوگئی ہے۔ کوئی بات چھپی نہیں رہتی۔ ملالہ پر حملہ ہوا۔ بات کا بتنگڑ بن گیا۔ ساری دنیا میں اس کا ڈھنڈورا پٹ گیا۔ اور ملالہ کی ہمت اور استقامت پر داد کے ڈونگرے برسنے لگے۔ حد ہو گئی۔ اقوام متحدہ نے اس کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کر ڈالا۔ تب یاروں کو احساس ہوا کہ یہ لڑکی اغیار کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور ایسی باتیں کر رہی ہے کہ اس سے پاکستان کا امیج خراب ہو رہا ہے۔
اصل میں تو پاکستان کا امیج ایک ہی موقعہ پر بہت شاندار ہو گیا تھا جب ہماری کرکٹ ٹیم نے عمران خاں کی کپتانی میں ورلڈ کپ جیتا تھا۔ ورلڈ کپ تو وہ اعزاز ہے کہ اس کے سامنے نوبل پرائز کیا بیچتا ہے۔ تو اگر پاکستان کے کسی بھلے سائنسدان کو نوبل پرائز مل بھی گیا تو کیا۔ اس پر ہمیں عسکری صاحب یاد آ گئے۔ پاکستان کے آغاز میں انھوں نے مسلمانوں کے علوم و فنون پر کچھ اس رنگ سے خامہ فرسائی کی جیسے وہ پاکستان کے واسطے سے کسی نشاتہ الثانیہ کا خواب دیکھ رہے ہیں مگر حالات کے رخ کو دیکھ کر جلد ہی مایوس بھی ہو گئے اور لکھا کہ پاکستان میں بس کرکٹ ہی چلے گی' ادب نہیں چلے گا۔ ان کے منہ میں گھی شکر۔ کرکٹ پاکستان میں واقعی خوب چلی۔ مگر عجب ہے کہ اب وہ بھی نہیں چل پا رہی۔ ادب تو ہمارے یہاں جتنا کچھ بھی بُرا بھلا چل رہا ہے اپنے زور پر چل رہا ہے مگر کرکٹ کو تو زور شور سے سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔ پھر کیا ہوا کہ اب اس کا بھی حال پتلا ہے۔ گاڑی دلدل میں ایسی پھنسی ہے کہ نکل ہی نہیں پا رہی۔
خیر کرکٹ کا ذکر تو بیچ میں یوں ہی نکل آیا۔ بات پاکستان کے امیج کی ہو رہی تھی۔ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے کہ ایک خوشگوار واقعہ ہوا تو ہمارا امیج بہتر ہو گیا۔ اگر کسی معاملہ میں ہماری ہیٹی ہو گئی تو امیج خراب ہو گیا۔ کرکٹ میچ جیت گئے تو امیج بام ثریا کو چھوتا نظر آیا۔ ہار گئے تو دنیا میں تھڑی تھڑی ہو گئی اور امیج بد رنگ ہو گیا۔ جس امیج کی بلندی اور پستی کرکٹ میچوں کے ہارنے جیتنے پر اور مختاراں مائی کے چپ رہنے اور بولنے پر موقوف ہو اس امیج کا خدا حافظ ہے۔
مگر کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے کہ وہ کونسا فعل و عمل ہے جن سے قوموں کی ساکھ قائم ہوتی ہے اور وہ کونسی اقدار ہیں' کونسے معیار اور ترجیحات ہیں جنھیں فراموش کرنے سے خرابی کی صورتیں نمودار ہوتی ہیں اور دنیا کی نظروں میں وہ گر جاتی ہیں مگر دنیا کو ہم اب گانٹھتے ہی کب ہیں۔ یہ بھی عجب تضاد ہے کہ ایک طرف ہمیں اپنے امیج کی بہت فکر رہتی ہے' دوسری طرف ہم بین الاقوامی رائے عامہ کو جوتی کی نوک پر لکھتے ہیں۔ ساری خدائی ایک طرف اور ہم ایک طرف۔ دنیا کے بڑے بڑے واقعات پر دنیا کے اہل الرائے کیا کہہ رہے ہیں' مبصرین کیا تبصرے کہہ رہے ہیں اور ہمارا کوئی نابغہ حکم لگاتا ہے کہ سب جھوٹ۔ یہ تو امریکا کا اپنا رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔ اور یہ محاکمہ ہمارے لیے سند بن جاتا ہے۔ لیجیے اقبال کا ایک شعر یاد آ گیا؎
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
مگر ہم تو اپنے عمل کے حساب کے قائل ہی نہیں ہیں۔ جو بھی واردات ہمارے ساتھ گزرتی ہے وہ ہمارے حساب سے اغیار کی سازش ہوتی ہے۔ ارے کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک کے دیکھ لیا کرو۔ کیا خبر ہے وہ کمبخت اغیار ہمارے اندر ہی کسی کونے کُھدڑے میں چُھپے بیٹھے ہوں۔ کبھی کبھی دشمن ہمارے بیچ اپنی کارستانی دکھا رہا ہوتا ہے اور ہم اسے باہر تلاش کرنے میں سرگرم ہوتے ہیں۔