یہ جنگ ہماری ہے
پاکستان میںپارلیمانی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کی اکثریت قومی امور پر واضح پالیسی لائن اختیارکرنے۔۔۔
لاہور:
پاکستان میںپارلیمانی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کی اکثریت قومی امور پر واضح پالیسی لائن اختیارکرنے میں شروع ہی سے ناکام رہی ہے۔اس میں دائیں اور بائیں بازو کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمرانی اور سیاست اخلاص کے علاوہ دانشمندی، دوراندیشی اور تدبر کی بھی متقاضی ہوتی ہے۔مگر ہماری قومی سیاست میںیہ تمام خصوصیات تقریباً ناپید ہیں۔نتیجتاً اہم اور پیچیدہ قومی امور پر بھی غیر سنجیدہ اور سطحی فیصلے کیے جارہے ہیں،جس کی وجہ سے قوم تقسیم درتقسیم کا شکار ہے۔
دوسری طرف قلم کار اور سیاسی دانشوربھی عوام کی فکری رہنمائی کرنے اور انھیںمسائل کے اسباب اور ان کے صائب حل کے بارے میں آگہی دینے کی بجائے فروعیات میں الجھے رہتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کاIssue to Issue جائزہ نہیں لیتے،بلکہ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیادپر رائے زنی کرتے ہیں، جس سے دانشورانہ آلودگی یعنی Intellectual Pollutionمیں اضافہ ہورہاہے۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ کوئی غیر جانبدار تجزیہ نگار اگر کسی ایک یا ایک سے زائد ایشیوز پر کسی جماعت کی کارکردگی کواگر سرہا دے ، تو عام شہری ہی نہیں بلکہ اہل دانش بھی اس پر اس جماعت سے وابستگی کا ٹھپہ لگادیتے ہیں۔جس کی وجہ سے بیشتر تجزیہ نگار آزادانہ نقطہ نظر پیش کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور اپنی بات بین السطور میںپیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ویسے تو کوئی ایسا ایشونہیں جس پر پوری قومی قیادت متفق ہو۔ لیکن بعض حساس نوعیت کے امور پر بھی ان کے درمیان اختلافات اور نااتفاقی نے پوری قوم منقسم کر کے رکھ دیا ہے۔خاص طورپر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے مسئلے پر قومی سیاسی جماعتوںمیں پائے جانے والے کنفیوژن کے علاوہ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے اپنے ذہنوں میں موجود فکری ابہام کا بھی اس تقسیم میں اہم کردار ہے۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جو ایک نئی تقسیم سامنے آئی ہے،وہ دائیں اور بائیں بازو کی روائتی تقسیم سے قطعی مختلف ہے۔ایک طرف وہ سیاسی قوتیں ہیں، جوسنجیدگی کے ساتھ حقیقی شراکتی جمہوریت کے فروغ کواس ملک کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے یہ قوتیںپاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو بابائے قوم کے تصورِ ریاست کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کررہی ہیں، جس میں آئین کوبالادستی اور پارلیمان کو فیصلہ سازی میںخود مختاری حاصل ہو۔ یہی سبب ہے کہ یہ سیاسی قوتیں ایسے عناصر کے ساتھ کسی قسم کی گفت وشنید کو وقت کا زیاں سمجھتی ہیں، جو آئین پاکستان کی اہمیت اور پارلیمان کی فیصلہ ساز حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے اور بزور طاقت ریاست کاانتظامی ڈھانچہ تبدیل کرنے پر آمادہ ہیں۔
اس کے برعکس دوسری طرف وہ سیاسی ومذہبی قوتیں ہیں، جو بظاہر جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کی داعی تو نظر آتی ہیں، مگر جمہوریت اور جمہوری نظمِ حکمرانی کے ساتھ سنجیدہ وابستگی نہیں رکھتیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ قوتیں جنگجو جتھوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اور ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں پر پردہ ڈالنے میں مصروف رہتی ہیں۔ انھیں ریاست کا شراکت دار (Stakeholder)قرار دے کران کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کی حامی ہیں۔یہی نہیں بلکہ یہ حلقے اس قدرقومی شدید نقصان ہوجانے کے باوجوددہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے عوامی سطح پر فکری تقسیم مزید گہری اور پیچیدہ ہوگئی ہے۔منصوبہ سازوں کی غلط حکمت عملیوں ، سیاست دانوں میں عزم وبصیرت کے فقدان اور اہل دانش کی غیر ذمے دارانہ روش کے باعث پورا ملک بارود کا ڈھیر بن چکاہے۔ جب کہ لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم نے اسے ایک ایسے آتش فشاںمیں تبدیل کردیا ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ کر چہار سو تباہی پھیلاسکتا ہے۔مگرچونکہ حکمران، سیاسی ومذہبی قیادتیں اور اہل قلم صورتحال کی حساسیت کو محسوس نہیں کررہے، اس لیے کوئی ٹھوس اوردیر پا اقدام نہیں ہوپارہے۔گزشتہ دنوں راولپنڈی میں یوم عاشورکے موقعے پر ہونے والی دہشت گردی اور اس کے بعد پنجاب اور پختونخواہ کے مختلف شہروں میں ہونے والے پرتشدد واقعات اس فکری انتشار کی عکاسی کرتے ہیں، جو غلط سوچ اور فیصلوں کے نتیجے میں پروان چڑھ کر ایک عفریت کی شکل اختیار کرچکاہے۔
اسی دہکتی صورتحال کو متحدہ قومی موومنٹ نے محسوس کیا اورگزشتہ جمعرات کو کراچی میں امن ویکجہتی کانفرنس کا اہتمام کیا۔یہ کانفرنس اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل تھی،کیونکہ اگلے روز بعض ،ذہبی جماعتوں نے احتجاج کا اعلان کیا تھا، جس کے پرتشدد ہوجانے کے خطرات موجود تھے۔اس کانفرنس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے متوشش شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان میں مختلف مسالک کے علماء کے ساتھ غیر مسلم اکابرین بھی موجود تھے۔وکلاء اور دیگر پروفیشنل باڈیز کے نمائندوں کے ساتھ صحافی، قلمکار اور تجزیہ نگار بھی شریک تھے۔تاجروں اور صنعتکاروں کے ساتھ مزدور تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ شہر میں موجود ملک کی تمام لسانی اکائیوںکی بھی نمائندگی بھی تھی۔ یوںاس کانفرنس نے کراچی کے شہریوں کی نمائندہ آواز کی شکل اختیار کرلی۔دوسری اہم بات یہ تھی کہ یہاں مقررین کو اپنی رائے کے اظہار میں کھلی آزادی تھی اور ہرمقرر نے اپنی سوچ اور بساط کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کیا۔
اس کانفرنس میں یہ بات کھل کر کی گئی کہ وہ عناصر جو آئین کی اہمیت کے انکاری ہیں اور جمہوری نظم حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے اور جوملک کے بے گناہ عوام کو آگ و خون کے سمندر میں دھکیلنے کے ذمے دار ہیں ،ا نہیںنہ تو اس معاشرے کا شراکت دار یعنیStakeholderقرار نہیں دیا جاسکتاہے اور نہ اس بنیاد پر ان سے مذاکرات کا کوئی جواز ہے۔یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ قائدِ اعظم نے 11اگست1947 کو دستور ساز اسمبلی میں جو پالیسی تقریرکی تھی، اسے آئین کے دیباچے میں شامل کیا جائے۔ملک میں موجود غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور بحیثیت پاکستانی شہری انھیں ترقی کرنے کا بلاامتیاز موقع فراہم کیا جائے۔ان کے ریاست کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ بیشتر مقررین نے مذہبی اور مسالک کی بنیاد پر جماعتوں کی تشکیل کو ملکی سلامتی کے لیے مضر قرار دیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اس طرح سیاست ہمہ گیریت کی بجائے مختلف فرقوں میں بٹ جاتی ہے۔خاص طورپر سیاسی اختلاف کے فرقہ وارانہ اختلاف کی شکل اختیار کرلینے سے تشدد کی راہ ہموار ہوتی ہے۔اس لیے کہا گیا کہ مذہبی زعماء عوام کی فکری تربیت کریں اور سیاست کو سیاستدانوں کے لیے چھوڑ دیں۔ سیاسی جماعت کا مطلب قومی بنیادوں پر تشکیل وہ جماعت ہوتی ہے، جس میں ملک میں موجود ہر عقائد ومذہب کے علاوہ تمام نسلی ولسانی کمیونٹیز کے افراد کے لیے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور پورے ملک کے عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ جماعتوں میں اصل فرق ان کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
ریاستی منصوبہ سازوں اور سیاسی قیادتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اصطلاحات کے استعمال میں بھی احتیاط برتیں۔ کیونکہ دنیا بھر میںدہشت گردوں،قاتلوں اور مسلح جتھوں کو کبھی Stakeholder نہیں کہا جاتا۔یہی سبب ہے کہ ان کے ساتھ ڈائیلاگ نہیں کیا جاتا بلکہ انھیںEngageکیاجاتا ہے۔ کیونکہ ڈائیلاگ برابری کی بنیاد پر ہم پلہ قوتوں یا گروہوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ ماضی قریب میںعالمی سطح پر کئی ایسی مثالیں ہمارے سامنے ہیں،جہاں حکومت نے بغاوت پر آمادہ گروہوں کو نہ تو Stakeholder قرار دیاگیا اور نہ ان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے۔اس سلسلے میں برطانیہ اور سری لنکاکی مثالیں خاص طورپر اہم ہیں۔ برطانیہ کی حکومت نے مسلح جدوجہد کرنے والیIRA(آئرش ری پبلکن آرمی) کے ساتھ کبھی کوئی گفتگو نہیں کی،بلکہ ان کے خلاف فوجی کاروائی جاری رکھی۔ بات چیتIRAکے سیاسی ونگ کے ساتھ کی گئی، جو مسلح جدوجہد کا حصہ نہیں تھا۔اسی طرح سری لنکا کی حکومت نے تامل ٹائیگرز نامی مسلح تنظیم سے کسی بھی سطح پر کبھی مذاکرات نہیں کیے۔البتہ تاملوں کی سیاسی تنظیم سے مذاکرات ضرور کیے۔لیکن کسی بھی وقت اور کسی بھی سطح پر شدت پسندوں کے خلاف فوجی کاروائی روکی نہیں گئی۔
ملک کی موجودہ تشویشناک صورتحال میں متحدہ قومی مومنٹ کی جانب سے اس کانفرنس کا اہتمام ایک صائب اقدام تھا، جس کی سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرتمام جمہوریت دوست حلقوں کی جانب سے تعریف کی جانی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو یہ مثبت سوچ بھی اپنانا چاہیے کہ جس کام میں پہل ایم کیو ایم نے کی انھوں نے کیوں نہیں کی اور اب ایسا کوئی موقع آئے توایم کیو ایم سے پہلے وہ خود آگے بڑھیں۔ یہ مثبت مقابلہ بازی قومی زندگی کی فعالیت اور تحرک کے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ رویہ اپنایا جاتا ہے اور سیاسی عمل کو ابہام کا شکار کرنے کی بجائے مختلف قومی امور پر واضح اور دوٹوک پالیسی اختیار کی جاتی ہے تو اس ملک کو بحرانوں سے نکالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ساتھ ہی اب یہ بھی سمجھنا اور یقین کرنا ہوگا کہ بیشک ماضی میں (جنرل ضیاء کے دور سے)یہ جنگ پرائی آگ تھی، لیکن اب یہ ہمارے صحن تک جاپہنچی ہے، اس لیے اب ہر لحاظ سے ہماری جنگ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں ہی کوئی نہ کوئی ٹھوس اور دیرپا حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ اگر ہمارے منصوبہ ساز اور سیاسی جماعت اس مسئلہ پر واضع ہوگئیں ، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس عفریت پر جلد قابو نہ پاسکیں۔ مگر اس مقصد کے لیے عزم اورحوصلے کے ساتھ ذہن کا واضح(Clarity of mind)ہو نابھی نہایت ضروری ہے۔
پاکستان میںپارلیمانی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں کی اکثریت قومی امور پر واضح پالیسی لائن اختیارکرنے میں شروع ہی سے ناکام رہی ہے۔اس میں دائیں اور بائیں بازو کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکمرانی اور سیاست اخلاص کے علاوہ دانشمندی، دوراندیشی اور تدبر کی بھی متقاضی ہوتی ہے۔مگر ہماری قومی سیاست میںیہ تمام خصوصیات تقریباً ناپید ہیں۔نتیجتاً اہم اور پیچیدہ قومی امور پر بھی غیر سنجیدہ اور سطحی فیصلے کیے جارہے ہیں،جس کی وجہ سے قوم تقسیم درتقسیم کا شکار ہے۔
دوسری طرف قلم کار اور سیاسی دانشوربھی عوام کی فکری رہنمائی کرنے اور انھیںمسائل کے اسباب اور ان کے صائب حل کے بارے میں آگہی دینے کی بجائے فروعیات میں الجھے رہتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کاIssue to Issue جائزہ نہیں لیتے،بلکہ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیادپر رائے زنی کرتے ہیں، جس سے دانشورانہ آلودگی یعنی Intellectual Pollutionمیں اضافہ ہورہاہے۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ کوئی غیر جانبدار تجزیہ نگار اگر کسی ایک یا ایک سے زائد ایشیوز پر کسی جماعت کی کارکردگی کواگر سرہا دے ، تو عام شہری ہی نہیں بلکہ اہل دانش بھی اس پر اس جماعت سے وابستگی کا ٹھپہ لگادیتے ہیں۔جس کی وجہ سے بیشتر تجزیہ نگار آزادانہ نقطہ نظر پیش کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور اپنی بات بین السطور میںپیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ویسے تو کوئی ایسا ایشونہیں جس پر پوری قومی قیادت متفق ہو۔ لیکن بعض حساس نوعیت کے امور پر بھی ان کے درمیان اختلافات اور نااتفاقی نے پوری قوم منقسم کر کے رکھ دیا ہے۔خاص طورپر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے مسئلے پر قومی سیاسی جماعتوںمیں پائے جانے والے کنفیوژن کے علاوہ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے اپنے ذہنوں میں موجود فکری ابہام کا بھی اس تقسیم میں اہم کردار ہے۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جو ایک نئی تقسیم سامنے آئی ہے،وہ دائیں اور بائیں بازو کی روائتی تقسیم سے قطعی مختلف ہے۔ایک طرف وہ سیاسی قوتیں ہیں، جوسنجیدگی کے ساتھ حقیقی شراکتی جمہوریت کے فروغ کواس ملک کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے یہ قوتیںپاکستان کے سیاسی ڈھانچے کو بابائے قوم کے تصورِ ریاست کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کررہی ہیں، جس میں آئین کوبالادستی اور پارلیمان کو فیصلہ سازی میںخود مختاری حاصل ہو۔ یہی سبب ہے کہ یہ سیاسی قوتیں ایسے عناصر کے ساتھ کسی قسم کی گفت وشنید کو وقت کا زیاں سمجھتی ہیں، جو آئین پاکستان کی اہمیت اور پارلیمان کی فیصلہ ساز حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے اور بزور طاقت ریاست کاانتظامی ڈھانچہ تبدیل کرنے پر آمادہ ہیں۔
اس کے برعکس دوسری طرف وہ سیاسی ومذہبی قوتیں ہیں، جو بظاہر جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کی داعی تو نظر آتی ہیں، مگر جمہوریت اور جمہوری نظمِ حکمرانی کے ساتھ سنجیدہ وابستگی نہیں رکھتیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ قوتیں جنگجو جتھوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اور ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں پر پردہ ڈالنے میں مصروف رہتی ہیں۔ انھیں ریاست کا شراکت دار (Stakeholder)قرار دے کران کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کی حامی ہیں۔یہی نہیں بلکہ یہ حلقے اس قدرقومی شدید نقصان ہوجانے کے باوجوددہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے عوامی سطح پر فکری تقسیم مزید گہری اور پیچیدہ ہوگئی ہے۔منصوبہ سازوں کی غلط حکمت عملیوں ، سیاست دانوں میں عزم وبصیرت کے فقدان اور اہل دانش کی غیر ذمے دارانہ روش کے باعث پورا ملک بارود کا ڈھیر بن چکاہے۔ جب کہ لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم نے اسے ایک ایسے آتش فشاںمیں تبدیل کردیا ہے، جو کسی بھی وقت پھٹ کر چہار سو تباہی پھیلاسکتا ہے۔مگرچونکہ حکمران، سیاسی ومذہبی قیادتیں اور اہل قلم صورتحال کی حساسیت کو محسوس نہیں کررہے، اس لیے کوئی ٹھوس اوردیر پا اقدام نہیں ہوپارہے۔گزشتہ دنوں راولپنڈی میں یوم عاشورکے موقعے پر ہونے والی دہشت گردی اور اس کے بعد پنجاب اور پختونخواہ کے مختلف شہروں میں ہونے والے پرتشدد واقعات اس فکری انتشار کی عکاسی کرتے ہیں، جو غلط سوچ اور فیصلوں کے نتیجے میں پروان چڑھ کر ایک عفریت کی شکل اختیار کرچکاہے۔
اسی دہکتی صورتحال کو متحدہ قومی موومنٹ نے محسوس کیا اورگزشتہ جمعرات کو کراچی میں امن ویکجہتی کانفرنس کا اہتمام کیا۔یہ کانفرنس اس لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل تھی،کیونکہ اگلے روز بعض ،ذہبی جماعتوں نے احتجاج کا اعلان کیا تھا، جس کے پرتشدد ہوجانے کے خطرات موجود تھے۔اس کانفرنس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے متوشش شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان میں مختلف مسالک کے علماء کے ساتھ غیر مسلم اکابرین بھی موجود تھے۔وکلاء اور دیگر پروفیشنل باڈیز کے نمائندوں کے ساتھ صحافی، قلمکار اور تجزیہ نگار بھی شریک تھے۔تاجروں اور صنعتکاروں کے ساتھ مزدور تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ شہر میں موجود ملک کی تمام لسانی اکائیوںکی بھی نمائندگی بھی تھی۔ یوںاس کانفرنس نے کراچی کے شہریوں کی نمائندہ آواز کی شکل اختیار کرلی۔دوسری اہم بات یہ تھی کہ یہاں مقررین کو اپنی رائے کے اظہار میں کھلی آزادی تھی اور ہرمقرر نے اپنی سوچ اور بساط کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کیا۔
اس کانفرنس میں یہ بات کھل کر کی گئی کہ وہ عناصر جو آئین کی اہمیت کے انکاری ہیں اور جمہوری نظم حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے اور جوملک کے بے گناہ عوام کو آگ و خون کے سمندر میں دھکیلنے کے ذمے دار ہیں ،ا نہیںنہ تو اس معاشرے کا شراکت دار یعنیStakeholderقرار نہیں دیا جاسکتاہے اور نہ اس بنیاد پر ان سے مذاکرات کا کوئی جواز ہے۔یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ قائدِ اعظم نے 11اگست1947 کو دستور ساز اسمبلی میں جو پالیسی تقریرکی تھی، اسے آئین کے دیباچے میں شامل کیا جائے۔ملک میں موجود غیر مسلموں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور بحیثیت پاکستانی شہری انھیں ترقی کرنے کا بلاامتیاز موقع فراہم کیا جائے۔ان کے ریاست کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ بیشتر مقررین نے مذہبی اور مسالک کی بنیاد پر جماعتوں کی تشکیل کو ملکی سلامتی کے لیے مضر قرار دیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ اس طرح سیاست ہمہ گیریت کی بجائے مختلف فرقوں میں بٹ جاتی ہے۔خاص طورپر سیاسی اختلاف کے فرقہ وارانہ اختلاف کی شکل اختیار کرلینے سے تشدد کی راہ ہموار ہوتی ہے۔اس لیے کہا گیا کہ مذہبی زعماء عوام کی فکری تربیت کریں اور سیاست کو سیاستدانوں کے لیے چھوڑ دیں۔ سیاسی جماعت کا مطلب قومی بنیادوں پر تشکیل وہ جماعت ہوتی ہے، جس میں ملک میں موجود ہر عقائد ومذہب کے علاوہ تمام نسلی ولسانی کمیونٹیز کے افراد کے لیے دروازے کھلے ہوتے ہیں اور پورے ملک کے عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ جماعتوں میں اصل فرق ان کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
ریاستی منصوبہ سازوں اور سیاسی قیادتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اصطلاحات کے استعمال میں بھی احتیاط برتیں۔ کیونکہ دنیا بھر میںدہشت گردوں،قاتلوں اور مسلح جتھوں کو کبھی Stakeholder نہیں کہا جاتا۔یہی سبب ہے کہ ان کے ساتھ ڈائیلاگ نہیں کیا جاتا بلکہ انھیںEngageکیاجاتا ہے۔ کیونکہ ڈائیلاگ برابری کی بنیاد پر ہم پلہ قوتوں یا گروہوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ ماضی قریب میںعالمی سطح پر کئی ایسی مثالیں ہمارے سامنے ہیں،جہاں حکومت نے بغاوت پر آمادہ گروہوں کو نہ تو Stakeholder قرار دیاگیا اور نہ ان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے۔اس سلسلے میں برطانیہ اور سری لنکاکی مثالیں خاص طورپر اہم ہیں۔ برطانیہ کی حکومت نے مسلح جدوجہد کرنے والیIRA(آئرش ری پبلکن آرمی) کے ساتھ کبھی کوئی گفتگو نہیں کی،بلکہ ان کے خلاف فوجی کاروائی جاری رکھی۔ بات چیتIRAکے سیاسی ونگ کے ساتھ کی گئی، جو مسلح جدوجہد کا حصہ نہیں تھا۔اسی طرح سری لنکا کی حکومت نے تامل ٹائیگرز نامی مسلح تنظیم سے کسی بھی سطح پر کبھی مذاکرات نہیں کیے۔البتہ تاملوں کی سیاسی تنظیم سے مذاکرات ضرور کیے۔لیکن کسی بھی وقت اور کسی بھی سطح پر شدت پسندوں کے خلاف فوجی کاروائی روکی نہیں گئی۔
ملک کی موجودہ تشویشناک صورتحال میں متحدہ قومی مومنٹ کی جانب سے اس کانفرنس کا اہتمام ایک صائب اقدام تھا، جس کی سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرتمام جمہوریت دوست حلقوں کی جانب سے تعریف کی جانی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو یہ مثبت سوچ بھی اپنانا چاہیے کہ جس کام میں پہل ایم کیو ایم نے کی انھوں نے کیوں نہیں کی اور اب ایسا کوئی موقع آئے توایم کیو ایم سے پہلے وہ خود آگے بڑھیں۔ یہ مثبت مقابلہ بازی قومی زندگی کی فعالیت اور تحرک کے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ رویہ اپنایا جاتا ہے اور سیاسی عمل کو ابہام کا شکار کرنے کی بجائے مختلف قومی امور پر واضح اور دوٹوک پالیسی اختیار کی جاتی ہے تو اس ملک کو بحرانوں سے نکالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ساتھ ہی اب یہ بھی سمجھنا اور یقین کرنا ہوگا کہ بیشک ماضی میں (جنرل ضیاء کے دور سے)یہ جنگ پرائی آگ تھی، لیکن اب یہ ہمارے صحن تک جاپہنچی ہے، اس لیے اب ہر لحاظ سے ہماری جنگ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں ہی کوئی نہ کوئی ٹھوس اور دیرپا حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ اگر ہمارے منصوبہ ساز اور سیاسی جماعت اس مسئلہ پر واضع ہوگئیں ، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس عفریت پر جلد قابو نہ پاسکیں۔ مگر اس مقصد کے لیے عزم اورحوصلے کے ساتھ ذہن کا واضح(Clarity of mind)ہو نابھی نہایت ضروری ہے۔