خوشگوار لمحے
پاکستان کے حالات بہت نازک ہیں؟ ہم ایک انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں؟ اس وقت حالات اتنے خراب ہیں۔۔۔
پاکستان کے حالات بہت نازک ہیں؟ ہم ایک انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں؟ اس وقت حالات اتنے خراب ہیں کہ ہمارا ملک ان کا متحمل نہیں ہو سکتا؟ پاکستان کا وجود خطرے میں ہے؟ یہ وہ فقرے ہیں جو کئی دہائیوں سے ہم لوگوں کو مختلف ذرائع سے ہر وقت، کسی نہ کسی طریقے سے روز سننے یا پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یاس، تکلیف اور خوف کے سوا کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔ رہی سہی کسر رات کو اینکر پرسنز کا جمِ غفیر پوری کر دیتا ہے۔ جن میں سے اکثر خواتین و حضرات موضوع پر قطعا ًدسترس نہیں رکھتے۔ بلند آواز اور بے ترتیبی سے گفتگو کے ذریعے مایوسی کی ہوا کو اس درجہ بلند کر دیا جاتا ہے کہ کئی بار محسوس ہوتا ہے کہ اس ایک دو گھنٹے میں خدانخواستہ ملک کو کچھ ہو نہ جائے؟ ٹی وی چینلز تبدیل کرتے کرتے شام گزر جاتی ہے۔
ہمارے حالات کی ستم ظریفی اپنی جگہ مگر اس وقت مایوسی اور ناامیدی کو معاشرے میں اتنا زیادہ پھیلا دیا گیا ہے کہ ہر شخص اس سے بری طرح متاثر نظر آتا ہے۔ حقیقت سے نظریں قطعاً نہیں چرائی جا سکتیں۔ اور قوموں کو حقیقت پسندی میں ہی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ اس سے مختلف کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی۔ مگر پورے معاشرے کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دینا بھی کہیں کی دانش مندی نہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سی اچھی روایات اور بہترین خواص بھی ہیں۔ لوگوں کے انتہائی بے غرض رویے بھی ہیں۔ ہمارے ملک میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد اتنے اعلیٰ کردار کی مالک ہے کہ کوئی اور ملک، جی ہاں، کوئی دوسرا ملک ان لوگوں کی پائوں کی دھول بھی نہیں چھو سکتا۔ ہمیں اس مسلسل اور دانستہ طور پر پھیلائی جانے والی مایوسی کی بارش سے نکلنا چاہیے اور اپنے سسٹم کے اچھے پہلوؤں کو قلم کی پوری طاقت اور جرأت کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔
الحمرا آرٹس کونسل میں عالمی ادبی کانفرنس میں وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر ایک لاجواب اور برجستہ تقریر تھی۔ مجھے بہت طویل عرصے کے بعد وہ نواز شریف نظر آیا جو 82-1985 19ء میں ہوا کرتا تھا۔ یقین فرمائیے میں حیران رہ گیا۔ میں نے وہ تقریر بار بار سنی کیونکہ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ نواز شریف کی زندہ دلی جو ان کی شخصیت کی خصوصیت تھی، بہت مدت کے بعد لوگوں کو دیکھنے کو ملی۔
بہت کم لوگوں کو یاد ہو گا کہ میاں صاحب، سفید نیکر اور سفید ٹی شرٹ پہن کر باغ جناح میں جوگنگ کیا کرتے تھے۔ اس وقت وہ سیاست کے بالکل ابتدائی دور میں تھے۔ بلاناغہ میاں صاحب باغِ جناح شام کو 4-5 بجے آ جاتے تھے۔ جوگنگ میں ان کے ہمراہ ان کے کچھ دوست بھی ہوا کرتے تھے۔ قہقہوں اور خوش مزاجی کا ایک ہیجان تھا جو ان کے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ میاں صاحب بغیر چھت کی کنورٹیبل (convertible) اسپورٹس کار چلایا کرتے تھے اور باغ جناح سے واپسی پر اس گاڑی کی چھت کو اکثر کھول دیا کرتے تھے۔
عالمی ادبی کانفرنس میں مجھے وزیر اعظم نواز شریف میں 82-1985 19ء کے نوجوان کی بھرپور جھلک نظر آئی جس کا خاصہ ہی خوش مزاجی تھی۔ عطاالحق قاسمی صاحب بہت قابل، بذلہ سنج اور حاضر دماغ شخص ہیں۔ لیکن میاں صاحب ان پر بازی لے گئے۔ جس شگفتہ انداز میں انھوں نے اپنی اہلیہ کو مدعو نہ کرنے کا ذکر کیا اور جس شگفتگی سے انھوں نے بڑے قیمہ اور چھوٹے قیمہ کی تعریف کی اور پھر جس پیرائے سے اس کی قیمت کا ذکر کیا، یقین فرمائیے کوئی شخص مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے میاں صاحب کو قہقہہ لگاتے بہت عرصے کے بعد دیکھا۔ میں نے تمام حاضرین کے چہروں پر بھرپور مسکراہٹ دیکھی۔ یہ ہمارے گُھٹے ہوئے ماحول میں تازہ ہوا کا خوبصورت جھونکا ہے۔ ادب اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ کی کرن لانا بہت مشکل کام ہے مگر کل میں نے ٹی وی پر اس کا مظاہرہ بار بار دیکھا۔
میں اپنے معاشرے کے بہتر پہلوؤں کا ذکر کر رہا تھا۔ جس کی سیکڑوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں مگر ہم ان پر قطعاً غور نہیں کرتے، بلکہ اس کا ذکر کرنا بھی بھول جاتے ہیں۔ آج میں آپ کے سامنے کچھ ایسے پہلوؤں کو سامنے لانا چاہتا ہوں۔
برطانیہ کے ایک نوجوان سفارت کار افسر کا تبادلہ اسلام آباد کر دیا گیا۔ اس کے گھر میں کہرام مچ گیا۔ دوست، احباب اور رشتہ دار تمام لوگوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنا تبادلہ کینسل کروا لے۔ بیوی نے پاکستان جانے سے صاف انکار کر دیا۔ اس افسر کے پاس کوئی حیلہ بہانہ بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی ڈیوٹی سے انکار کر دے۔ وہ بہت مجبوری کے عالم میں بلکہ بہت خوف کی حالت میں لندن سے اسلام آباد پہنچا۔ وہ کئی دن ہوٹل میں رہا۔ باہر جانے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ دفتر بھی بہت احتیاط سے جاتا تھا۔ کچھ ہفتوں کے بعد اسے مجبوراً اسلام آباد کی مارکیٹوں میں روزمرہ کی اشیاء کی خریداری کے لیے جانا پڑا۔ اس شہر کی مارکیٹوں اور وہاں لوگوں کو دیکھ کر اس کا خوف کم ہونا شروع ہو گیا۔ پھر اس نے اسلام آباد کی سماجی زندگی میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ وہ پاکستان کے لوگوں کو مل کر حیران ہو گیا۔ وہ لوگوں کی مہمان نوازی اور ان کے خلوص سے بے پناہ متاثر ہوا۔ پاکستانی کھانوں کی لذت نے اسے سحر میں مبتلا کر دیا۔
اب اس کا خوف مکمل ختم ہو چکا تھا۔ اسے لندن میں سائیکل چلانے کا جنون تھا۔ اسلام آباد میں اس نے اپنی سائیکل نکالی اور ہر شام کو کئی میل سائیکل چلا کر اس نے پاکستان میں آنے کے بے بنیاد خوف کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ اس نے اسلام آباد سے اپنی بیوی کو لندن فون کیا اور اسے فوراً پاکستان آنے کے لیے کہا۔ بیوی کو اس کی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا مگر وہ مجبوراً پاکستان ٰآ گئی۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے جادو نے اسے بھی اپنے اندر سمو لیا۔ اپنے خاوند کے ساتھ اس نے ہر جگہ جانا شروع کر دیا۔ اب ان کے تمام برطانوی دوست، احباب اور رشتہ داروں نے بھی اسلام آباد کا رخ کر لیا۔ ان لوگوں نے شاہراہ قراقرم پر سائیکل سواری شروع کر دی۔ وہاں کے لوگوں کی مہمان داری بتاتے ہوئے اس سفارتکار کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد مختلف لوگ انھیں زبردستی قہوہ اور چائے پیش کر دیتے تھے۔ اس شخص نے اپنی فیملی اور دوستوں کے ہمراہ متعدد بار پاکستان کے طول و عرض کا سفر کیا اور وہ اس ملک کے لوگوں کے خلوص کا قائل ہوتا گیا۔
جب وہ لاہور پہنچا تو اس ملک کی تہذیب اور ثقافت سے باقاعدہ مرعوب ہو گیا۔ شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد اور مختلف تاریخی مقامات دیکھ کر وہ پاکستان کے تاریخی ورثہ اور اس کے فکری اثاثوں کا گرویدہ ہو گیا۔ تین سال کی مدت میں وہ کم از کم 50 سے 60 بار لاہور آیا۔ وہ بغیر کسی حفاظتی انتظام کے عام شہری کی طرح یہاں گھومتا پھرتا رہا۔ لاہوری دیسی کھانوں اور اہل لاہور کی زندہ دلی نے اس کے دل میں جگہ بنا لی۔ اسلام آباد واپسی پر اس نے اپنے تمام دوستوں کو رضامند کیا کہ وہ ویک اینڈ پر لاہور ضرور جایا کریں۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ اس ملک کے متعلق مبالغہ آرائی اور جھوٹ سے کام لے کر اس کا تاثر اتنا خراب کر دیا گیا ہے کہ لوگ یہاں آنے اور کام کرنے سے گھبراتے ہیں۔ لندن واپسی پر اب اس کا گھر پاکستان سے آنے والے مہمانوں سے بھرا رہتا ہے۔ وہ اب لندن میں اپنے پاکستانی دوستوں کے ہمراہ خوب سائیکل چلاتا ہے اور پاکستان میں گزرے ہوئے ایک ایک لمحہ کو یاد کرتا ہے۔ لندن میں اس کا گھر پاکستانی تصویروں سے مزین ہے۔ اس کے گھر میں چنیوٹ کا بنا ہو فرنیچر پڑا ہوا ہے۔ اور اس کی بیوی اب گھر میں مکمل دیسی کھانے بناتی ہے۔ وہ توے پر چپاتی تک بنا لیتی ہے۔
ہمارے خلوص کے واقعات ہر جگہ بکھرے پڑے ہیں۔ آپ مہمان نوازی کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جائیے۔ جتنی خیرات، صدقہ اور مالی مدد ہمارے ملک میں کی جاتی ہے اس کا عشرِ عشیر بھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ لاکھوں ایسے متمول لوگ ہیں جو کسی کو پتہ ہی نہیں چلنے دیتے اور ان کی مالی مدد سے کروڑوں لوگوں کے مسائل حل ہو رہے ہیں۔ آپ کسی تعلیمی درسگاہ میں چلے جائیں اور اگر آپ کو مالی مدد کی ضرورت ہے تو آپ یقین فرمائیے کہ وہاں کے اساتذہ اور طالب علم اتنی بے غرضی سے آپکے تعلیمی اخراجات پورے کر دیتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔
آپ کسی سرکاری اسپتال۔ جیسے میو، جنرل، یا گنگا رام جائیں، آپکو معلوم ہو گا کہ مریضوں اور لواحقین کو تین وقت کا مفت کھانا کوئی نہ کوئی شخص مہیا کر رہا ہے۔ آپ اسپتال کے بچوں کے وارڈ میں چلے جائیں، تو آپ کو بتایا جائے گا کہ کوئی نامعلوم شخص آ کر ان ننھے فرشتوں میں کھلونے، ٹافیاں اور، بسکٹ تقسیم کرتا ہے اور بغیر اپنی شناخت بتائے خاموشی سے واپس چلا جاتا ہے۔
ہمیں ملک کے بہتر پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اس مایوسی کی دلدل سے نکلنا چاہیے۔ ہم میں سے اکثر لوگ پُر خلوص اور بے غرض ہیں۔ میری رائے میں نواز شریف کو کبھی کبھی اپنی پرانی بذلہ سنجی اور شگفتگی کا مظاہرہ کرتے رہنا چاہیے۔ تا کہ امید کی کرن کہیں نہ کہیں سے تو نظر آ جائے۔ یہ بھی تو عین عبادت ہے۔