غلام داری نظام اور جمہوریت
انسانوں کی معلوم تاریخ میں جتنے سیاسی اور اقتصادی نظام متعارف کرائے گئے ان میں غلامی کے نظام کو بدترین اور۔۔۔
انسانوں کی معلوم تاریخ میں جتنے سیاسی اور اقتصادی نظام متعارف کرائے گئے ان میں غلامی کے نظام کو بدترین اور انتہائی توہین آمیز نظام مانا جاتا ہے، کیونکہ غلامی کے نظام میں انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا اور انسانوں کی اس خرید و فروخت کے لیے مویشیوں جیسی منڈیاں لگتی ہیں۔ مویشیوں کی منڈیاں انسانی سماج میں اس لیے قابل اعتراض نہیں کہ مویشی انسانوں کی خوراک کا حصہ ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بے زبان بھی ہوتے ہیں لیکن انسان زبان رکھنے کے باوجود اپنی خرید و فروخت کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا احتجاج نہیں کرتا بکنے سے انکار نہیں کرتا اور اس خرید و فروخت کے نظام کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کرتا تو پھر اس میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ غلاموں کی فروخت اگرچہ ہزاروں سال سے جاری ہے لیکن انسانوں کی خرید و فروخت کا یہ سلسلہ ماضی قریب تک جاری رہا اور امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں انسان کی خرید و فروخت کا سلسلہ بھی ماضی قریب کی بات ہے۔ افریقہ سے بے بس اور سیاسی شعور سے بے بہرہ کالے عوام کو پانی کے جہازوں میں بھر کر امریکا لایا جاتا تھا اور مالدار امریکیوں کے ہاتھوں بیچا جاتا تھا۔
انسانوں کی انفرادی خرید و فروخت اور غلامی کے ساتھ ساتھ قوموں کی غلامی کا رواج بھی ہماری دنیا میں صدیوں سے رائج ہے اور آج تک غلامی کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ نو آبادیاتی نظام میں جو صدیوں تک جاری رہا آزاد اور خود مختار ملکوں پر قبضہ کر کے انھیں غلام بنایا جاتا رہا نو آبادیاتی غلامی کے خلاف غلام ملکوں نے جو جنگ لڑی اسے جنگ آزادی کہا گیا اور اس جنگ پر شاعروں نے شاعری کی ادیبوں نے ناول اور افسانے لکھے سیاستدانوں نے آزادی کی جنگ لڑی ۔ اس جنگ کی ہر طرح سے ہر طبقے نے حمایت کی اور عوام کو اس غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی ترغیب فراہم کی۔ جن لوگوں نے اس غلامی کے خلاف عوام کو جنگ کے لیے اکسایا انھیں جنگ آزادی کے ہیرو تسلیم کیا گیا اور آج تک یہ لوگ تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں۔
غلامی کے نظام کے خلاف سیاسی ارتقا کا جو سفر شروع ہوا وہ جمہوریت پر آ کر رکا ہے اور اس نظام کو زیادہ بہتر اور ترقی یافتہ نظام مانا جاتا ہے۔ اس نظام کے متعارف کنندگان بھی انسانی معاشروں میں محترم مانے جاتے ہیں، لیکن اس نظام میں انسانوں کو کس کس طرح غلام بنا کر رکھا جاتا ہے اور کس کس طرح بیچا اور خریدا جاتا ہے اس کو سمجھنے والوں، اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو جمہوریت اور ریاست کے باغیوں کا نام دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ماضی کے غلام داری سماج اور آج کے جمہوری سماج میں سوائے لفظی فرق کے کوئی معنوی فرق نہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل علم اور اہل خرد بھی اس نظام کو سیاسی ارتقا کی تاریخ کا حرف آخر سمجھتے ہوئے اس کی تعریف اس کے دفاع کی بھرپور اور ایماندارانہ کوشش کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اس نظام کو متعارف کرانے والے آج بھی اعلیٰ درجے کے مفکر اور فلسفی مانے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس نظام میں عوام آزاد خود مختار اور حقیقی معنوں میں حکمران ہیں یا ہوتے ہیں؟ اصل میں اس حوالے سے سب سے بڑا دھوکا یہ دیا اور کھایا جاتا ہے کہ اس سیاسی نظام کو اقتصادی نظام سے الگ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ جمہوریت کے فروغ کے ڈانڈے براہ راست سرمایہ دارانہ نظام سے ملتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے استحصالی کردار کو جمہوریت کے پردے میں چھپانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام معاشرے میں دولت کو چند ہاتھوں میں جمع کر دیتا ہے تو جمہوری نظام نجی ملکیت کے تحفظ کو آئینی ضمانتیں فراہم کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام آبادی کے چالیس فیصد حصے کو غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل دیتا ہے تو جمہوری نظام اس ناانصافی سے عوام کو بچانے یا نکالنے کے پُرفریب وعدے کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام مزدوروں، کسانوں پر ظلم کرتا ہے تو جمہوری نظام انسانی حقوق کی حفاظت کے نام پر محنت کشوں کو دھوکا دیتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام بے ایمانی، رشوت کو فروغ دیتا ہے تو جمہوری نظام بے ایمانی اور کرپشن کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام بے ایمانی سے دولت کے ارتکاز کے مواقعے فراہم کرتا ہے تو جمہوری نظام اس بے ایمانی کو سیلف میڈ کا نام دے کر اس کی تعریف کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام محتاج و غنی پیدا کرتا ہے تو جمہوری نظام محتاج خانے کھول کر غریبوں کی مدد کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام قانون اور انصاف کی عظمت کے گن گاتا ہے تو جمہوری نظام قانون اور انصاف کو غریبوں کے لیے شکنجہ بنا دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام عورت کو پیٹ بھرنے کے لیے کوٹھوں پر بٹھا دیتا ہے تو جمہوری نظام کوٹھوں پر اپنی عصمت بیچنے والیوں کو لائسنس فراہم کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اسلحے کے کارخانے کھلواتا ہے اور اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر کے منافع کماتا ہے تو جمہوری نظام قومی مفاد اور ملکی سالمیت کے نام پر جنگیں کرواتا ہے۔
ہم نے ابتدا میں غلامی کے نظام کو دنیا میں متعارف ہونے والے نظاموں میں بدترین نظام قرار دینے کی نشان دہی کی تھی اور دنیا میں انسانوں کی فروخت کے لیے لگائی جانے والی منڈیوں کا ذکر بھی کیا تھا اس حوالے سے تاریخ میں بازار مصر بڑا مشہور ہے۔ ویسے تو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی عام انسانوں کا حال غلاموں سے مختلف نہیں لیکن پسماندہ ملکوں میں تو عوام کا حال ماضی کے غلاموں سے بھی بدتر ہے۔ ماضی میں غلاموں کی خرید و فروخت انفرادی حیثیت سے ہوتی تھی آج کی ترقی یافتہ جمہوریت میں عوام کو اجتماعی طور پر بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھوربن، مری، چھانگا مانگا، عوام کو بیچنے اورخریدنے کی بڑی منڈیوں کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ عوام کے منتخب نمایندے سر عام قومی اسمبلیوں صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں کھلے عام بیچے اور خریدے جاتے ہیں، کیا یہ جمہوریت ماضی کے غلام داری نظام سے مختلف ہے؟ اس ستم ظریفی کو ہم کیا نام دیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرنے والے اس کی حفاظت کرنے والے جمہوری نظام کی تعریف میں زمین اور آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ امریکا نے عراق پر قبضہ کیا افغانستان پر قبضہ کیا نو آبادیاتی نظام میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، پرتگال نے کمزور پسماندہ ملکوں پر قبضہ کیا اور ان ملکوں کو غلام بنا لیا۔ ان ملکوں کو نو آبادیاتی حکمرانوں کی غلامی سے آزاد کرانے کی جنگ کو جنگ آزادی کہا گیا اور عوام کو غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف جنگ کی ترغیب دینے والوں کو قومی ہیرو تسلیم کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ڈھال جمہوریت کے خلاف آواز اٹھانے اور اس نام نہاد جمہوریت کو غلامی کی ایک محترم شکل ثابت کرنے والوں اور اس غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے والوں پر جمہوریت دشمنی کا الزام کیا درست ہے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت سے پہلے کے ہر نظام کو جبر کا نظام قرار دے کر اور ان نظاموں میں عوام کی حیثیت کو غلام قرار دے کر ان کی مخالفت کی گئی اور جمہوریت کو عوام کی حکومت کا نام دے کر اس کی زور و شور سے حمایت کی گئی اور کی جا رہی ہے۔ کیا چھانگا مانگا، مری اور بھور بن میں عوام کو بالواسطہ فروخت نہیں کیا گیا۔ کیا آج بھی عوام کو نیلام کرنے کی منڈیاں پسماندہ ملکوں میں موجود نہیں۔ کیا آئی ایم ایف، ورلڈ بینک پسماندہ ملکوں کے عوام کو خرید نہیں رہے ہیں؟ اور پسماندہ ملکوں کے حکمران عوام کو ان ساہوکاروں کے ہاتھوں بیچ نہیں رہے ہیں؟ اگر یہ خرید و فروخت ہو رہی ہے تو اس نظام میں اور غلامی کے نظام میں کیا فرق ہے اور اس غلامی کے نظام کے خلاف عوام کو جنگ آزادی کی ترغیب کو بغاوت اور ترغیب دینے والوں کو باغی کیوں کہا جاتا ہے؟
انسانوں کی انفرادی خرید و فروخت اور غلامی کے ساتھ ساتھ قوموں کی غلامی کا رواج بھی ہماری دنیا میں صدیوں سے رائج ہے اور آج تک غلامی کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ نو آبادیاتی نظام میں جو صدیوں تک جاری رہا آزاد اور خود مختار ملکوں پر قبضہ کر کے انھیں غلام بنایا جاتا رہا نو آبادیاتی غلامی کے خلاف غلام ملکوں نے جو جنگ لڑی اسے جنگ آزادی کہا گیا اور اس جنگ پر شاعروں نے شاعری کی ادیبوں نے ناول اور افسانے لکھے سیاستدانوں نے آزادی کی جنگ لڑی ۔ اس جنگ کی ہر طرح سے ہر طبقے نے حمایت کی اور عوام کو اس غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی ترغیب فراہم کی۔ جن لوگوں نے اس غلامی کے خلاف عوام کو جنگ کے لیے اکسایا انھیں جنگ آزادی کے ہیرو تسلیم کیا گیا اور آج تک یہ لوگ تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہے ہیں۔
غلامی کے نظام کے خلاف سیاسی ارتقا کا جو سفر شروع ہوا وہ جمہوریت پر آ کر رکا ہے اور اس نظام کو زیادہ بہتر اور ترقی یافتہ نظام مانا جاتا ہے۔ اس نظام کے متعارف کنندگان بھی انسانی معاشروں میں محترم مانے جاتے ہیں، لیکن اس نظام میں انسانوں کو کس کس طرح غلام بنا کر رکھا جاتا ہے اور کس کس طرح بیچا اور خریدا جاتا ہے اس کو سمجھنے والوں، اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو جمہوریت اور ریاست کے باغیوں کا نام دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ماضی کے غلام داری سماج اور آج کے جمہوری سماج میں سوائے لفظی فرق کے کوئی معنوی فرق نہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل علم اور اہل خرد بھی اس نظام کو سیاسی ارتقا کی تاریخ کا حرف آخر سمجھتے ہوئے اس کی تعریف اس کے دفاع کی بھرپور اور ایماندارانہ کوشش کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اس نظام کو متعارف کرانے والے آج بھی اعلیٰ درجے کے مفکر اور فلسفی مانے جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس نظام میں عوام آزاد خود مختار اور حقیقی معنوں میں حکمران ہیں یا ہوتے ہیں؟ اصل میں اس حوالے سے سب سے بڑا دھوکا یہ دیا اور کھایا جاتا ہے کہ اس سیاسی نظام کو اقتصادی نظام سے الگ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ جمہوریت کے فروغ کے ڈانڈے براہ راست سرمایہ دارانہ نظام سے ملتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنے استحصالی کردار کو جمہوریت کے پردے میں چھپانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام معاشرے میں دولت کو چند ہاتھوں میں جمع کر دیتا ہے تو جمہوری نظام نجی ملکیت کے تحفظ کو آئینی ضمانتیں فراہم کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام آبادی کے چالیس فیصد حصے کو غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل دیتا ہے تو جمہوری نظام اس ناانصافی سے عوام کو بچانے یا نکالنے کے پُرفریب وعدے کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام مزدوروں، کسانوں پر ظلم کرتا ہے تو جمہوری نظام انسانی حقوق کی حفاظت کے نام پر محنت کشوں کو دھوکا دیتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام بے ایمانی، رشوت کو فروغ دیتا ہے تو جمہوری نظام بے ایمانی اور کرپشن کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام بے ایمانی سے دولت کے ارتکاز کے مواقعے فراہم کرتا ہے تو جمہوری نظام اس بے ایمانی کو سیلف میڈ کا نام دے کر اس کی تعریف کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام محتاج و غنی پیدا کرتا ہے تو جمہوری نظام محتاج خانے کھول کر غریبوں کی مدد کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام قانون اور انصاف کی عظمت کے گن گاتا ہے تو جمہوری نظام قانون اور انصاف کو غریبوں کے لیے شکنجہ بنا دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام عورت کو پیٹ بھرنے کے لیے کوٹھوں پر بٹھا دیتا ہے تو جمہوری نظام کوٹھوں پر اپنی عصمت بیچنے والیوں کو لائسنس فراہم کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اسلحے کے کارخانے کھلواتا ہے اور اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کر کے منافع کماتا ہے تو جمہوری نظام قومی مفاد اور ملکی سالمیت کے نام پر جنگیں کرواتا ہے۔
ہم نے ابتدا میں غلامی کے نظام کو دنیا میں متعارف ہونے والے نظاموں میں بدترین نظام قرار دینے کی نشان دہی کی تھی اور دنیا میں انسانوں کی فروخت کے لیے لگائی جانے والی منڈیوں کا ذکر بھی کیا تھا اس حوالے سے تاریخ میں بازار مصر بڑا مشہور ہے۔ ویسے تو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی عام انسانوں کا حال غلاموں سے مختلف نہیں لیکن پسماندہ ملکوں میں تو عوام کا حال ماضی کے غلاموں سے بھی بدتر ہے۔ ماضی میں غلاموں کی خرید و فروخت انفرادی حیثیت سے ہوتی تھی آج کی ترقی یافتہ جمہوریت میں عوام کو اجتماعی طور پر بیچا اور خریدا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھوربن، مری، چھانگا مانگا، عوام کو بیچنے اورخریدنے کی بڑی منڈیوں کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ عوام کے منتخب نمایندے سر عام قومی اسمبلیوں صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں کھلے عام بیچے اور خریدے جاتے ہیں، کیا یہ جمہوریت ماضی کے غلام داری نظام سے مختلف ہے؟ اس ستم ظریفی کو ہم کیا نام دیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرنے والے اس کی حفاظت کرنے والے جمہوری نظام کی تعریف میں زمین اور آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ امریکا نے عراق پر قبضہ کیا افغانستان پر قبضہ کیا نو آبادیاتی نظام میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، پرتگال نے کمزور پسماندہ ملکوں پر قبضہ کیا اور ان ملکوں کو غلام بنا لیا۔ ان ملکوں کو نو آبادیاتی حکمرانوں کی غلامی سے آزاد کرانے کی جنگ کو جنگ آزادی کہا گیا اور عوام کو غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف جنگ کی ترغیب دینے والوں کو قومی ہیرو تسلیم کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ڈھال جمہوریت کے خلاف آواز اٹھانے اور اس نام نہاد جمہوریت کو غلامی کی ایک محترم شکل ثابت کرنے والوں اور اس غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے والوں پر جمہوریت دشمنی کا الزام کیا درست ہے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت سے پہلے کے ہر نظام کو جبر کا نظام قرار دے کر اور ان نظاموں میں عوام کی حیثیت کو غلام قرار دے کر ان کی مخالفت کی گئی اور جمہوریت کو عوام کی حکومت کا نام دے کر اس کی زور و شور سے حمایت کی گئی اور کی جا رہی ہے۔ کیا چھانگا مانگا، مری اور بھور بن میں عوام کو بالواسطہ فروخت نہیں کیا گیا۔ کیا آج بھی عوام کو نیلام کرنے کی منڈیاں پسماندہ ملکوں میں موجود نہیں۔ کیا آئی ایم ایف، ورلڈ بینک پسماندہ ملکوں کے عوام کو خرید نہیں رہے ہیں؟ اور پسماندہ ملکوں کے حکمران عوام کو ان ساہوکاروں کے ہاتھوں بیچ نہیں رہے ہیں؟ اگر یہ خرید و فروخت ہو رہی ہے تو اس نظام میں اور غلامی کے نظام میں کیا فرق ہے اور اس غلامی کے نظام کے خلاف عوام کو جنگ آزادی کی ترغیب کو بغاوت اور ترغیب دینے والوں کو باغی کیوں کہا جاتا ہے؟