بچہ بڑا ہوتا ہے
جب لڑکے اور لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو وہ دلہا اور دلہن کہلاتے ہیں۔ دو خاندانوں میں رشتہ قائم ہوتا ہے۔
جب لڑکے اور لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو وہ دلہا اور دلہن کہلاتے ہیں۔ دو خاندانوں میں رشتہ قائم ہوتا ہے۔ منگنی کی انگوٹھی سے نکاح تک عجیب وغریب سماں ہوتا ہے۔ پھر ولیمہ اور اس کے بعد رشتے داروں کے گھروں پر دعوتیں۔ پھر آہستہ آہستہ دلہن کے مہندی کے رنگ پھیکے پڑنے لگتے ہیں۔ اب گھر والے بہوکے رنگ ڈھنگ دیکھتے ہیں۔ یوں گویا ایک نیا خاندان وجود میں آجاتا ہے۔ یہ ہم سب کی کہانی ہے۔
زندگی دوبارہ اسی ڈگر پر آجاتی ہے۔ دلہا اب لڑکے سے مرد بن چکا ہوتا ہے۔ وہ دفتر یا دکان جانا شروع کردیتا ہے۔ کچھ وقت گزرتا ہے تو اسے ایک خوش خبری ملتی ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ قدرت اسے باپ بننے کا اعزاز بخشنے والی ہے۔ پھر لڑکی کا نام اسپتال میں لکھوایا جاتا ہے۔ اسے احتیاط کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ وزنی چیز اٹھائے تو پیار سے اسے ڈانٹا جاتا ہے۔ ہر ماہ اسپتال میں معائنے کے لیے اسے لے جایا جاتا ہے۔ اس دنیا میں ننھے مہمان کی آمد ہی ہمارا موضوع ہے۔ ہم منظر دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم کتنی مشکل سے بچے کو بڑا کرتے ہیں اور کتنی آسانی سے اسے مار دیتے ہیں۔
وقت گزرتا رہتا ہے۔کہتے ہیں کہ کسی بچے کی ولادت ہم دنیا والوں کے لیے قدرت کا پیغام ہوتی ہے۔ پیغام کہ قدرت ابھی انسانوں سے مایوس نہیں۔ آہستہ آہستہ وہ وقت آتا ہے جب گھر والے تیار ہوتے ہیں۔ کسی بھی وقت اسپتال کی جانب دوڑنے کے لیے۔ بالکل وہ وقت آجاتا ہے۔ دلہا دلہن کہلانے والے ماں باپ کے اعزاز سے نوازے جاتے ہیں۔ دنیا میں ان کا مقام بلند ہو جاتا ہے اور ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ قدرت انھیں بیٹے کی نعمت سے مالا مال کرتی ہے۔ یہی بیٹا ہمارے آج کے کالم کا ہیرو ہے۔ ہم کسی بیٹی کو ہیروئن بنا سکتے ہیں لیکن ہماری آج کی ضرورت بیٹا ہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی حالات ایسے ہیں۔ جیسے ہی کالم اختتامی لمحوں میں آئے گا ویسے ہی قارئین سمجھ جائیں گے کہ ہم نے آج کے کالم کے عنوان کے لیے لڑکے یا ہیرو کا انتخاب کیوں کیا ہے۔
بیٹے کی ولادت پر پورا گھر خوش ہوتا ہے۔ اس کے بال کٹوائے جاتے ہیں، عقیقہ کیا جاتا ہے۔ اب اہم مسئلہ اس نومولود کا نام رکھنا ہے۔ مختلف لوگ اپنی اپنی پسند بتاتے ہیں۔ بالآخر گھر کے لوگ ایک نام پر متفق ہوجاتے ہیں۔ ہمارے آج کے ہیرو کی کہانی طویل ہے لہٰذا ہم اسے احمد کا نام دیتے ہیں۔ اب احمد اپنی نانی کے گھر سے دادی کے گھر آجاتا ہے۔ اب ماموں اور خالہ کے ہاتھوں سے نکل کر پھوپھی اور چچا کے ہاتھوں میں آجاتا ہے۔ احمد مہینے میں دو مرتبہ اپنی نانی کے گھر جاتا ہے۔ اسے رشتوں کا پتہ چلتا ہے کہ ننھیال کیا ہوتا ہے اور ددھیال کیا ہوتا ہے۔ پاکستان میں امن و امان کی بحالی کی تجویز کے لیے آج کے کالم کے لیے ہم نے اپنے ہیرو احمد کا انتخاب کیا ہے۔
احمد پہلے پہل لوگوں کو نہیں پہچانتا۔ سب کے پاس چلا جاتا ہے۔ اب اسے ٹیکے بھی لگنے ہیں۔ کالی کھانسی، خسرہ، پولیو، خناق وغیرہ کے۔ اسپتال کے برتھ سرٹیفکیٹ کی مدد سے بلدیاتی حکومت کی جانب سے دی جانے والی جنم چٹھی بھی بن چکی ہے۔ اب احمد چار ماہ کا ہوگیا ہے۔ اس نے آہستہ آہستہ چیزوں کو پکڑنا شروع کردیا ہے۔ دانت نکلنے پر سب خوش ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد وہ زمین پر رینگ کر ادھر ادھر ہوجاتا ہے۔ وہ تمام گھر والوں کی آنکھوں کا تارا ہے۔ امی کا لاڈلا اور ابو کا پیارا۔ اب احمد ایک سال کا ہونے والا ہے۔ سب اس کی سالگرہ منائیں گے۔ ممکن ہوا تو تصاویر بھی کھینچی جائیں گی۔ یہ کہانی ہم سب کی کہانی ہے۔ اگر آپ لڑکے یا مرد ہیں تو آپ کی کہانی اور اگر آپ لڑکی یا خاتون ہیں تو آپ کے بھائی یا بیٹے کی کہانی۔ اس میں آپ کو آخر تک اجنبیت محسوس نہیں ہوگی کہ ہم ایک بڑے مقصد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ایک سال اور گزر گیا۔ اب دو سالہ احمد سب کو پہچاننے لگا ہے۔ اس کے تاثرات سے لوگ لطف اٹھاتے ہیں۔ اس کی توتلی باتیں گھر والوں کے لیے مزہ ہیں۔ ایک سال اور گزرا تو احمد نے اسکول جانا شروع کردیا۔ داخلے سے یونیفارم اور انٹرویو سے خریداری تک اس کے ماں باپ نے بہت جدوجہد کی۔ امی اسے صبح تیار کرتی تھیں تو ابو اسکول چھوڑنے جاتے ہیں۔ پھراسکول سے واپسی پر وہ چاچو کے ساتھ اسکوٹر پر بیٹھ کر گھر آجاتا ہے۔ کھانا کھلا کر امی اس کو سلا دیتی ہیں۔ پھر شام کو ہوم ورک اور ابو کے آنے پر ان کے ساتھ کھیل پر احمد سو جاتا ہے۔ وقت اور گزرتا ہے۔
اب احمد نے پانچویں کلاس پاس کرلی ہے۔ وہ وین لے کر واپس گھر آتا ہے۔ شام کو مدرسے میں قرآن شریف پڑھنے جاتا ہے۔ احمد اوسط درجے کا طالب علم ہے۔ آٹھویں میں پہنچ کر احمد کی ہلکی پھلکی داڑھی مونچھیں بھی آنے لگی ہیں، اب اس کا قد بھی بڑا ہورہا ہے۔ دو سال گزرے تو احمد نے میٹرک کرلیا۔ کل کا بچہ اب کالج جانے لگا ہے۔ ہم احمد کے بھائی بہنوں کا ذکر نہیں کر رہے کہ وہی ہمارے آج کے اس کالم کا ہیرو ہے۔ دوسال گزرے تو احمد نے بارہویں کلاس پاس کرلی۔ وہ کامرس کا طالب علم تھا اور ایم بی اے کرنا چاہتا تھا۔
کالج دور تھا اور احمد کو وین میں ایک گھنٹہ لگتا تھا کالج پہنچنے میں۔ کبھی کبھار شہر میں ہڑتال ہوتی تو سب کو بڑی دقت ہوتی۔ جب تک احمد گھر نہ آجاتا اس کے ماں باپ اور دادا دادی پریشان رہتے۔ شہر میں آئے دن قتل کی وارداتیں ہوتی رہتیں۔ کبھی کبھار سواری نہ ملنے کے سبب اسے ماموں کے گھر ٹھہرنا پڑتا۔ پھر ٹی وی پر حالات کی بہتری پر وہ کزن کی بائیک میں گھر پہنچ جاتا ہے۔ احمد بیس سال کا نوجوان ہی نہ تھا بلکہ اس کی ایک تاریخ تھی۔ اس کی ایک زندگی تھی جس کی ابتدا اس کے ماں باپ کی شادی سے ہم نے کی ہے۔
بس اسٹاپ پر اندھا دھند فائرنگ سے احمد زخمی ہوگیا۔ کسی نے کالج کے کارڈ سے گھر اطلاع دی تو سب اہل خانہ روتے ہوئے اسپتال پہنچے۔ احمد کو ایک گولی ران پر اور دوسری کاندھے پر لگی تھی۔ ڈاکٹروں نے تسلی دی کہ جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس بات نے گھر والوں کو اطمینان دلایا تھا۔ احمد بارہ دن اسپتال میں رہا۔ ابھی اس کی ٹانگ میں ذرا نقص ہے۔ وہ چلنے میں ذرا سا لنگڑاتا ہے۔ اس دن واردات میں دو آدمی اور ایک عورت جاں بحق ہوئے تھے۔ سات لوگ زخمی تھے جن میں احمد بھی شامل تھا۔ اخبار میں چھوٹی سی خبر تھی کہ تیس لوگ شہید اور سات زخمی۔ سننے والوں کے لیے یہ چھوٹی سی خبر تھی لیکن احمد کے گھر والوں کے لیے پریشان کن۔ جن کے پیارے انھیں چھوڑ کر چلے گئے ان کے لیے تباہ کن۔ احمد کو پانے، بڑا کرنے، پڑھانے میں کتنے لوگوں کا پیار اور کوشش شامل ہے۔ خدارا! ملک میں امن قائم کیجیے۔ ایک بھی انسان خواہ مخواہ جان سے نہ گزر جائے کہ بڑی مشکل سے بچہ بڑا ہوتا ہے۔
زندگی دوبارہ اسی ڈگر پر آجاتی ہے۔ دلہا اب لڑکے سے مرد بن چکا ہوتا ہے۔ وہ دفتر یا دکان جانا شروع کردیتا ہے۔ کچھ وقت گزرتا ہے تو اسے ایک خوش خبری ملتی ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ قدرت اسے باپ بننے کا اعزاز بخشنے والی ہے۔ پھر لڑکی کا نام اسپتال میں لکھوایا جاتا ہے۔ اسے احتیاط کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ وزنی چیز اٹھائے تو پیار سے اسے ڈانٹا جاتا ہے۔ ہر ماہ اسپتال میں معائنے کے لیے اسے لے جایا جاتا ہے۔ اس دنیا میں ننھے مہمان کی آمد ہی ہمارا موضوع ہے۔ ہم منظر دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم کتنی مشکل سے بچے کو بڑا کرتے ہیں اور کتنی آسانی سے اسے مار دیتے ہیں۔
وقت گزرتا رہتا ہے۔کہتے ہیں کہ کسی بچے کی ولادت ہم دنیا والوں کے لیے قدرت کا پیغام ہوتی ہے۔ پیغام کہ قدرت ابھی انسانوں سے مایوس نہیں۔ آہستہ آہستہ وہ وقت آتا ہے جب گھر والے تیار ہوتے ہیں۔ کسی بھی وقت اسپتال کی جانب دوڑنے کے لیے۔ بالکل وہ وقت آجاتا ہے۔ دلہا دلہن کہلانے والے ماں باپ کے اعزاز سے نوازے جاتے ہیں۔ دنیا میں ان کا مقام بلند ہو جاتا ہے اور ذمے داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ قدرت انھیں بیٹے کی نعمت سے مالا مال کرتی ہے۔ یہی بیٹا ہمارے آج کے کالم کا ہیرو ہے۔ ہم کسی بیٹی کو ہیروئن بنا سکتے ہیں لیکن ہماری آج کی ضرورت بیٹا ہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی حالات ایسے ہیں۔ جیسے ہی کالم اختتامی لمحوں میں آئے گا ویسے ہی قارئین سمجھ جائیں گے کہ ہم نے آج کے کالم کے عنوان کے لیے لڑکے یا ہیرو کا انتخاب کیوں کیا ہے۔
بیٹے کی ولادت پر پورا گھر خوش ہوتا ہے۔ اس کے بال کٹوائے جاتے ہیں، عقیقہ کیا جاتا ہے۔ اب اہم مسئلہ اس نومولود کا نام رکھنا ہے۔ مختلف لوگ اپنی اپنی پسند بتاتے ہیں۔ بالآخر گھر کے لوگ ایک نام پر متفق ہوجاتے ہیں۔ ہمارے آج کے ہیرو کی کہانی طویل ہے لہٰذا ہم اسے احمد کا نام دیتے ہیں۔ اب احمد اپنی نانی کے گھر سے دادی کے گھر آجاتا ہے۔ اب ماموں اور خالہ کے ہاتھوں سے نکل کر پھوپھی اور چچا کے ہاتھوں میں آجاتا ہے۔ احمد مہینے میں دو مرتبہ اپنی نانی کے گھر جاتا ہے۔ اسے رشتوں کا پتہ چلتا ہے کہ ننھیال کیا ہوتا ہے اور ددھیال کیا ہوتا ہے۔ پاکستان میں امن و امان کی بحالی کی تجویز کے لیے آج کے کالم کے لیے ہم نے اپنے ہیرو احمد کا انتخاب کیا ہے۔
احمد پہلے پہل لوگوں کو نہیں پہچانتا۔ سب کے پاس چلا جاتا ہے۔ اب اسے ٹیکے بھی لگنے ہیں۔ کالی کھانسی، خسرہ، پولیو، خناق وغیرہ کے۔ اسپتال کے برتھ سرٹیفکیٹ کی مدد سے بلدیاتی حکومت کی جانب سے دی جانے والی جنم چٹھی بھی بن چکی ہے۔ اب احمد چار ماہ کا ہوگیا ہے۔ اس نے آہستہ آہستہ چیزوں کو پکڑنا شروع کردیا ہے۔ دانت نکلنے پر سب خوش ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد وہ زمین پر رینگ کر ادھر ادھر ہوجاتا ہے۔ وہ تمام گھر والوں کی آنکھوں کا تارا ہے۔ امی کا لاڈلا اور ابو کا پیارا۔ اب احمد ایک سال کا ہونے والا ہے۔ سب اس کی سالگرہ منائیں گے۔ ممکن ہوا تو تصاویر بھی کھینچی جائیں گی۔ یہ کہانی ہم سب کی کہانی ہے۔ اگر آپ لڑکے یا مرد ہیں تو آپ کی کہانی اور اگر آپ لڑکی یا خاتون ہیں تو آپ کے بھائی یا بیٹے کی کہانی۔ اس میں آپ کو آخر تک اجنبیت محسوس نہیں ہوگی کہ ہم ایک بڑے مقصد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ایک سال اور گزر گیا۔ اب دو سالہ احمد سب کو پہچاننے لگا ہے۔ اس کے تاثرات سے لوگ لطف اٹھاتے ہیں۔ اس کی توتلی باتیں گھر والوں کے لیے مزہ ہیں۔ ایک سال اور گزرا تو احمد نے اسکول جانا شروع کردیا۔ داخلے سے یونیفارم اور انٹرویو سے خریداری تک اس کے ماں باپ نے بہت جدوجہد کی۔ امی اسے صبح تیار کرتی تھیں تو ابو اسکول چھوڑنے جاتے ہیں۔ پھراسکول سے واپسی پر وہ چاچو کے ساتھ اسکوٹر پر بیٹھ کر گھر آجاتا ہے۔ کھانا کھلا کر امی اس کو سلا دیتی ہیں۔ پھر شام کو ہوم ورک اور ابو کے آنے پر ان کے ساتھ کھیل پر احمد سو جاتا ہے۔ وقت اور گزرتا ہے۔
اب احمد نے پانچویں کلاس پاس کرلی ہے۔ وہ وین لے کر واپس گھر آتا ہے۔ شام کو مدرسے میں قرآن شریف پڑھنے جاتا ہے۔ احمد اوسط درجے کا طالب علم ہے۔ آٹھویں میں پہنچ کر احمد کی ہلکی پھلکی داڑھی مونچھیں بھی آنے لگی ہیں، اب اس کا قد بھی بڑا ہورہا ہے۔ دو سال گزرے تو احمد نے میٹرک کرلیا۔ کل کا بچہ اب کالج جانے لگا ہے۔ ہم احمد کے بھائی بہنوں کا ذکر نہیں کر رہے کہ وہی ہمارے آج کے اس کالم کا ہیرو ہے۔ دوسال گزرے تو احمد نے بارہویں کلاس پاس کرلی۔ وہ کامرس کا طالب علم تھا اور ایم بی اے کرنا چاہتا تھا۔
کالج دور تھا اور احمد کو وین میں ایک گھنٹہ لگتا تھا کالج پہنچنے میں۔ کبھی کبھار شہر میں ہڑتال ہوتی تو سب کو بڑی دقت ہوتی۔ جب تک احمد گھر نہ آجاتا اس کے ماں باپ اور دادا دادی پریشان رہتے۔ شہر میں آئے دن قتل کی وارداتیں ہوتی رہتیں۔ کبھی کبھار سواری نہ ملنے کے سبب اسے ماموں کے گھر ٹھہرنا پڑتا۔ پھر ٹی وی پر حالات کی بہتری پر وہ کزن کی بائیک میں گھر پہنچ جاتا ہے۔ احمد بیس سال کا نوجوان ہی نہ تھا بلکہ اس کی ایک تاریخ تھی۔ اس کی ایک زندگی تھی جس کی ابتدا اس کے ماں باپ کی شادی سے ہم نے کی ہے۔
بس اسٹاپ پر اندھا دھند فائرنگ سے احمد زخمی ہوگیا۔ کسی نے کالج کے کارڈ سے گھر اطلاع دی تو سب اہل خانہ روتے ہوئے اسپتال پہنچے۔ احمد کو ایک گولی ران پر اور دوسری کاندھے پر لگی تھی۔ ڈاکٹروں نے تسلی دی کہ جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس بات نے گھر والوں کو اطمینان دلایا تھا۔ احمد بارہ دن اسپتال میں رہا۔ ابھی اس کی ٹانگ میں ذرا نقص ہے۔ وہ چلنے میں ذرا سا لنگڑاتا ہے۔ اس دن واردات میں دو آدمی اور ایک عورت جاں بحق ہوئے تھے۔ سات لوگ زخمی تھے جن میں احمد بھی شامل تھا۔ اخبار میں چھوٹی سی خبر تھی کہ تیس لوگ شہید اور سات زخمی۔ سننے والوں کے لیے یہ چھوٹی سی خبر تھی لیکن احمد کے گھر والوں کے لیے پریشان کن۔ جن کے پیارے انھیں چھوڑ کر چلے گئے ان کے لیے تباہ کن۔ احمد کو پانے، بڑا کرنے، پڑھانے میں کتنے لوگوں کا پیار اور کوشش شامل ہے۔ خدارا! ملک میں امن قائم کیجیے۔ ایک بھی انسان خواہ مخواہ جان سے نہ گزر جائے کہ بڑی مشکل سے بچہ بڑا ہوتا ہے۔