گوگل پر سرچ کرلو
نیویارک میں کچھ دن پہلے سردی کے موسم میں جب ایک ٹھٹھرا ہوا دن اپنے اختتام پر تھا تو ہم ٹی وی لاؤنج میں آکر...
لاہور:
نیویارک میں کچھ دن پہلے سردی کے موسم میں جب ایک ٹھٹھرا ہوا دن اپنے اختتام پر تھا تو ہم ٹی وی لاؤنج میں آکر بیٹھے۔ ریموٹ پر نظر پڑی تو دل چاہا اپنے ملک پاکستان چلتے ہیں۔ ٹی وی اسکرین کے ذریعے ہی سہی لیکن اپنے پاکستان کے موسم، موسیقی، لوگ،کلچر، حالات حاضرہ سب سے ملاقات کرتے ہیں۔
امریکا دنیا بھر کی ہر چیز جس کی وہاں ڈیمانڈ ہو امپورٹ کرکے وہاں لے آتا ہے کیا لمکا کیا پاکولا اگر امریکا میں کسی چیزکی مارکیٹ ہے تو وہ وہاں باآسانی دستیاب ہے اور اسی طرح یہاں انڈین اور پاکستانی چینلز کی بھی ڈیمانڈ ہے۔
آج امریکا میں درجنوں پاکستانی چینلز ڈش کے ریموٹ کا ایک بٹن دبانے سے دستیاب ہیں۔ وہ بٹن جو ہم نے اس سرد رات میں پاکستان کی یاد میں دبایا، لیکن ٹی وی کھلنے پر ہم کہیں اور ہی پہنچ گئے شاید پاکستان جانے کی جلدی میں ہم نے بٹن زیادہ ہی زور سے دبا دیا اور پاکستان کے بجائے تھوڑا آگے انڈیا پہنچ گئے۔ انڈین گانے، فلم کے اشتہارات، انڈین فلموں پر تبصرے، ڈراموں کے بیک گراؤنڈ میں بجنے والا انڈین میوزک اور اشتہاروں میں انڈین اداکار۔ یقینا یہ کوئی انڈین چینل ہے سوچ کر چینل بدلا ایک کے بعد دوسرا تیسرا اور ایسا کرتے کرتے کئی چینل بدل دیے۔ ہرچینل کے کونے میں نظر آنے والا چینل کا نام پاکستانی لیکن اس پر نظر آنے والی چیزیں انڈین یہ دیکھ کر ہم سمجھ گئے کہ صرف چینل ہی نہیں ہم ہی بدل گئے۔
بچپن میں والدین کے ساتھ انڈیا گئے تھے اس وقت پی ٹی وی پر ''آنگن ٹیڑھا'' چل رہا تھا۔ انڈیا میں لوگوں نے بتایا کہ وہاں ویڈیو اسٹورز پر باقاعدہ لائنیں لگتی ہیں ''آنگن ٹیڑھا'' کی نئی قسط کا ویڈیو کرایے پر لینے کے لیے کیوں کہ وہاں پاکستان ٹیلی ویژن دکھائی نہیں دیتا، لوگوں نے کہا کہ تم لوگ خوش قسمت ہو کہ پاکستان میں رہتے ہو جہاں یہ ڈرامے براہ راست ٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں، سر فخر سے اونچا ہوگیا۔ ہمارے پی ٹی وی کے ڈراموں میں آنے والے اداکار نہ فائٹ کرتے تھے نہ ڈانس پھر بھی وہ انڈیا کے لوگوں کے لیے ایسے ہی تھے جیسے ہمارے لیے امیتابھ۔ ہمارے سامنے ٹی وی پر قطرینہ کیف رقص کر رہی تھیں نیچے پاکستانی ٹی وی چینل کے کونے میں چینل کے نام کے ساتھ ہر تھوڑی دیر میں پاکستانی جھنڈا بھی لہراتا تھا۔ کئی لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹر اتھارٹی کے قانون کے مطابق کوئی بھی پاکستانی چینل اپنے پروگراموں میں صرف دس فیصد بیرونی Content دکھا سکتا ہے جس دس فیصد میں سے صرف سات فیصد انڈین ہوسکتا ہے اس سے زیادہ نہیں لیکن ہمارے بیشتر چینلز کی صبح کسی کپور اور رات کسی چوپڑہ سے ہو رہی ہے، کہاں ہے ہماری ثقافت کلچر جسے بڑھانے اور ترقی دینے کی اس وقت شدید ضرورت ہے؟ کچھ قبولیت کی گھڑیاں ہوتی ہیں اس رات دل سے نکلی انجان دعا قبول ہوگئی۔
پچھلے دنوں پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹر اتھارٹی نے کوئی درجن بھر چینلز کو ایک کروڑ روپے جرمانے کے ساتھ ایک وارننگ لیٹر بھی بھیجا ہے جس میں لکھا ہے کہ اجازت سے زیادہ انڈین چیزیں چینلز پر دکھانا سخت منع ہے، جہاں ہمارے میڈیا کو یہ خبر کرفیو جیسی لگی وہیں انڈین میڈیا کے لیے یہ چاند رات تھی۔ مڈ ڈے سے لے کر ٹائمز آف انڈیا تک پاکستان کے خلاف خبریں لگاتے نظر آئے۔ ہم اوریجنل نہیں ہیں ہم Content چراتے ہیں، پاکستان انڈیا سے امپریس ہے وغیرہ وغیرہ۔
پاکستانی چینلز کے حساب سے انھیں یہ لگتا ہے کہ پاکستانیوں کو انڈین چیزیں زیادہ پسند ہیں اسی لیے وہ دکھانا ان کی مجبوری ہے جب کہ سچ یہ ہے کہ ہمارے لوگ اپنی چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں حال ہی میں فلم ''وار'' کی زبردست پذیرائی اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
انڈیا پاکستان کی بات چل رہی ہے تو آج کل گوگل کا ایک ایڈ انڈیا اور پاکستان والے بہت زیادہ شیئر کر رہے ہیں ''گوگل'' دنیا کی سب سے بڑی انٹرنیٹ سرچنگ کمپنی ہے، گوگل ہر ملک میں وہاں کے کلچر کے حساب سے کیمپین کرتا ہے، نومبر 15 کو گوگل نے ایک ٹی وی ایڈ ریلیز کیا ہے جس میں انڈیا پاکستان کے پارٹیشن کو چھیڑا ہے۔ اس ایڈ کو یوٹیوب پر کئی ملین بار دیکھا جاچکا ہے۔
اس اشتہار میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک لڑکی دہلی میں اپنے دادا سے پارٹیشن کے وقت ان کے بچھڑے دوست کی کہانی سن رہی ہے، دادا دوست کو مس کر رہے ہیں یہ دیکھ کر لڑکی ''گوگل'' کے ذریعے دوست کو لاہور میں ڈھونڈ نکالتی ہے اور پھر گوگل کے ذریعے ہی ٹکٹ بک کروا کر فلائٹ اسٹیٹس اور موسم کا حال جیسی چیزوں کی مدد لے کر ان دونوں کی ملاقات انڈیا میں کرواتی ہے۔
ایڈ یقینا جذبات سے پر ہے لیکن اس میں بھی انٹرنیشنل میڈیا کو ہم غلط لگے جو پاکستان اتنے سال میں نہیں کر پایا وہ گوگل نے چار منٹ میں کر دکھایا، ایسا کئی باہر کے میڈیا والوں کا خیال ہے وہ دوست جو پاکستان انڈیا کو کئی سالوں میں نہ بنا پایا وہ گوگل نے چند منٹوں میں بنادیا۔ ہم پر الزام۔
ہم انٹرنیشنل میڈیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہی گوگل جس پر انڈیا والی لڑکی نے دادا کے دوست کو ڈھونڈا تھا وہی گوگل آپ کو یہ بھی بتائے گا کہ کیسے دونوں ہی طرف کے لاکھوں لوگوں کو بارڈر کراس کرتے وقت بے دردی سے مارا گیا تھا۔ دنیا کی تاریخ گوگل پر سرچ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت انسانی تہذیب کی تاریخ کے کچھ سب سے برے وقتوں میں ہے، گوگل ہی بتاتا ہے کہ دونوں ملکوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھا ہے اور یہ گوگل ہی ہے جو ہم سے کہتا ہے کہ کشمیر دنیا کے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہم حالات اچھے نہیں کرنا چاہتے لیکن جب بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اور بغیر کسی صحیح قانونی کارروائی کے اجمل قصاب جیسے لوگ پیدا ہوجاتے ہیں تو امن کیامید صرف امید ہی رہ جاتی ہے۔
چار منٹ تو دور کی بات جو گوگل اگلے ساٹھ سال میں نہیں کر پائے گا وہ ہے ان حقائق کو مٹانا جو پچھلے ساٹھ سال میں انڈیا پاکستان کے بیچ بنے۔ ذرا گوگل سرچ کریں تو پتہ لگ جائے گا کہ انڈین Content پاکستانی چینلز پر زیادہ دکھانے پر انڈیا ہمیں دوست نہیں چور سمجھ رہا ہے۔