اسکولوں میں جسمانی تعلیم کی اہمیت و ضرورت

صحت مند دماغ صرف صحت مند جسم میں ہی ہو سکتا ہے


مالک خان سیال November 25, 2013
صحت مند دماغ صرف صحت مند جسم میں ہی ہو سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

جسمانی تعلیم اور مختلف قسم کے کھیل طلبہ کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لئے بے حد ضروری ہیں۔

بچپن میں فطری طور پر بچے کھیل کود کے شوقین ہوتے ہیں، جس سے اُن کے اعضائے جسمانی کی ورزش ہوتی رہتی ہے، جو اُن کی بہتر نشوونما کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ کھیل جہاں بچوں کی بہتر نشوونما میں معاون ہوتی ہے وہیں طلبہ کی کردار سازی اور نفسیاتی تربیت میں بھی مدد ملتی ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی مختلف قسم کے کھیل اور صحت مندانہ سرگرمیاں سکولز میں کروائی جاتی رہی ہیں تاکہ بچوں کو صحت مند بنا کر مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ تحقیق سے یہ بات واضح ہے کہ صحت مند بچے ہی تعلیمی میدان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے سکولز میں جسمانی تعلیم اور کھیلوں پر زور دینے کی ضرورت ہے۔

چھوٹی کلاسوں میں کھیل کی سرگرمیاں

کھیل بچوں کا محبوب ترین مشغلہ ہی نہیں بلکہ زندگی کی علامت، صحت وعافیت کا ضامن، نشوونما میں معاون اور تعلیم وتربیت کا موثر ترین ذریعہ بھی ہے۔ اس کے برعکس باقاعدہ تدریس عموماً ان کے لیے بیگار اور ان کی طبع نازک پر گراں بار ہوتی ہے۔ لکھنے پڑھنے جیسے خشک کام سے ان کی فطرت اکتا جاتی ہے۔ اس لیے چھوٹے بچوں کو کھیل کھیل میں تعلیم دینے اور مدرسے کے مختلف کاموں میں کھیل کی اسپرٹ پیدا کرنے پر غیر معمولی زور دینا ضرورتِ وقت ہے۔ چھوٹی کلاسز میں بچوں کو ایک ہی جگہ بٹھا کر سارا دن کتاب پر توجہ مرکوز کروانا یا اس طرح کی کوئی دوسری سرگرمی کروانا، جہاں اُن کے لیے بوریت کا باعث بنتا ہے وہیں اُن کے دلوں میں سکول کے ماحول سے نفرت کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ چھوٹے بچے ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے سے ذہنی طور پرتھک جاتے ہیں جس سے موثر تعلیمی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔ چھوٹے بچوں کے لیے کھیل کھیل میں تدریس کروائی جانی چاہیے تا کہ وہ کھیل کھیل میں سیکھ سکیںاور نہ صرف اس سے وہ لطف اندوز ہوں بلکہ موثر تدریس بھی ہو سکے۔ چھوٹے بچوں کے لیے ہر سبق کے حوالے سے کوئی نہ کوئی کھیل پر مبنی سرگرمی ڈیزائن کی جائے کہ جس سے وہ مکمل طور پر تندہی سے حصہ لیں اور نتیجتاً کچھ نہ کچھ سیکھ سکیں۔

بڑی کلاسوں میں کھیل کی سرگرمیاں

جسمانی تعلیم اور کھیلوں کو بڑی کلاسوں میں خاص اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ بڑی کلاسز میں بچوں کو صحت مند رکھنا اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ اگر انہیں کھیلوں میں مشغول رکھ کر اور مقابلے کی فضا پیدا کر کے ان کی طاقت کو مثبت رُخ نہ دیا جائے تو وہ بے راہ روی کا شکار ہو کر اپنی صلاحیتوں کو برباد کر سکتے ہیں۔ اس لیے عمر کے اس حصے میں جہاں انہیں مثبت رہنمائی کی اشد ضرورت ہے، وہیں اُن کی صلاحیتوں کو مثبت رُخ دینے کے لیے کھیلوں کی ضرورت ہے۔ بڑی کلاسز کے کھیلوں میں فٹ بال، ہاکی، کرکٹ، باسکٹ بال، بیڈمنٹن، ٹیبل ٹینس اور اتھلیٹکس وغیرہ ہو سکتی ہیں، جن کا باقاعدہ انعقاد مثبت نتائج کا ضامن ہے۔ ایک مثل مشہور ہے کہ جس قوم کے میدان آباد ہوتے ہیں اس کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں آج کھیلوں کو رواج دے کر اپنے میدان آباد کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اپنے طلبہ و طالبات کو صحت مند بنا سکیں۔



کھیلوں کے فائدے

کھیلوں سے بچوں کو حقیقی مسرت نصیب ہوتی ہے، ان کاغم غلط ہوتا ہے، ان کی الجھنیں اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں، ان کے چہرے شگفتہ رہتے ہیں، ان کے جذبات کی تسکین ہوتی ہے اور بحیثیت مجموعی ان کی شخصیت کو ہم آہنگی کے ساتھ پروان چڑھانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ کھیلوں سے بچوں کو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

زبان کی افزائش

جب ڈرامائی کھیل کھیلے جاتے ہیں جس میں بچہ کوئی بھی کردار ادا کرتا ہے تو وہ اس کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے اور بولنے کی کوشش کرتا ہے اس سے اس کی زبان دانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کھیل کھیلتے ہوئے بچہ لفظوں ، آوازوں اور جملوں کی مشق کرتا ہے اور کھیل میں ہی گرائمر سیکھتا رہتا ہے۔

جسمانی فائدے

کھیلوں میں جسم کوکافی حرکت دینی پڑنی ہے اور جسمانی محنت ومشقت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس لیے سانس کی آمدورفت ، دوران خون، نظام انہظام اور نظام اخراج وغیرہ میں باقاعدگی رہتی ہے، اعصاب اور عضلات پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے اور اعضا اپنی اپنی جگہ ٹھیک کام کرتے ہیں۔ محنت ومشقت کے لیے جسم میں توانائی اور امراض کامقابلہ کرنے کے لیے قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ بحیثیت مجموعی صحت ٹھیک رہتی ہے اور نشوونما اور بالیدگی میں بڑی مدد ملتی ہے۔

ذہنی فائدے

کھیلوں میں بچوں کو مختلف قسم کے حالات اور طرح طرح کے ہم جولیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان سب سے نمٹنے کے لیے انہیں سوچنے سمجھنے اور ہروقت فیصلہ اور اقدام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ توجہ اور انہماک کی تربیت ہوتی ہے۔ تجربات ومشاہدات میں اضافہ ہوتا ہے۔

جذباتی و معاشرتی فائدے

بچہ جب کھیلتا ہے تو اسے زبانی یا اشاروں کی مدد سے دوسروں کے ساتھ رابطہ رکھنا پڑتا ہے۔ اس طرح کرنے سے اسے دوسروں کی سوچ کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔جب کھیل میں بچوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوتا ہے تو دوسروں کے نقطہ نظر کی اہمیت کااندازہ ہوتا ہے۔ اجتماعی کھیلوں کے ذریعے بچے اپنے ہم جولیوں کے ساتھ تعاون و ہمدردی ، قاعدوں، ضابطوں کی پابندی ، مقابلہ ومسابقت میں اعتدال ، اطاعت وقیادت اور دھاندلیوں کامقابلہ اور اپنی باری کاانتظار کرنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ہم جولیوں کاپاس ولحاظ کرنا، لاقانونیت کی حد تک بڑھتی ہوئی آزادی کو دوسروں کی خاطر محدود کرنا اور اپنی خواہشات اور ذاتی دلچسپیوں کو اجتماعی مفاد پر قربان کرنا بھی وہ منظم کھیلوں کے ذریعے سیکھتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں