تفریح کے نام پر غیرصحت مندانہ سرگرمیاں۔۔۔

جدید ٹیکنالوجی کا غیرضروری استعمال، ہلڑ بازی اور بری دوستیاں نوجوانوں کو تباہ کر رہی ہیں

جدید ٹیکنالوجی کا غیرضروری استعمال، ہلڑ بازی اور بری دوستیاں نوجوانوں کو تباہ کر رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

تفریح سے مُراد کوئی بھی ایسی سرگرمی، جو لوگوں کو فرصت کے اوقات میں خود کو محظوظ یا مسرور کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

ساکن یا بے حرکت اور متحرک یا فعال، تفریح کی وہ دو اقسام ہیں، جن میں کتب بینی، فلم بینی، ڈرامے، موسیقی، سینما، کھیل، کمپیوٹر اور موبائل گیمز وغیرہ شامل ہیں۔ انسانی زندگی کے لئے تفریح اتنی ہی ضروری ہے جتنا کام کرنا، کیوں کہ اگر تفریح نہیں ہو گی تو کوئی بھی اہم کام مکمل طور بااحسن طریق انجام نہیں پا سکتا۔ لیکن اس میں ضروری ہے کہ تفریح صحت مند اور معیاری ہو بصورت دیگر غیر صحت مند اور غیر ضروری تفریح فائدہ کے بجائے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ تفریح پر سب سے بڑی تنقید کی جاتی ہے کہ یہ معنی خیز سمجھی جانے والی سرگرمیوں مثلاً مطالعے اور رضاکاری (volunteering) وغیرہ سے لوگوں کا پیسہ اور وقت دوسری طرف مبذول کرتی ہیں۔ یہ توجہی آج سے 10یا 15سال قبل دی جاتی تو شائد اس کے ماننے والوںکی تعداد اتنی زیادہ نہ ہوتی لیکن عصر حاضر میں معاشرے میں پنپنے والے منفی رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے تفریح پر ہونے والی تنقید کو بے جا نہیں کہا جا سکتا۔



آج تفریح کے نام پر ہونے والی غیر ضروری اور غیر صحت مندانہ سرگرمیوں کا سب سے بڑا شکار نوجوان بن رہے ہیں۔ جس کے ذمہ دار نوجوان خود اور معاشرے کے وہ تمام افراد ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی سطح پر ان کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، کمپیوٹر کا بے دریغ اور بے پناہ استعمال، چھوٹی چھوٹی باتوں پر کھانے پینے کی پارٹیاں، ہر وقت ہلہ گلہ کی سوچ یعنی ہلڑ بازی، بری دوستیاں، جن میں اس قدر آگے نکل جانا جہاں اخلاقیات اور اقدار کا جنازہ نکل جائے، والدین کی کم علمی اور جدید ٹیکنالوجی سے ان کی نا آشنائی جیسے عوامل نے ہماری نوجوان نسل کو عقلی، سماجی اور اخلاقی سطح پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کو تعلیم و ترقی کا اہم کل پرزہ ہونے کے ساتھ تفریح کا بھی بہت بڑا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے، اسی وجہ سے والدین خود بچوں کو باہر بھیجنے کے بجائے گھر پر ہی کمپیوٹر گیمز کھیلنے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ باہر جا کر بچہ کسی غلط سوسائٹی میں نہ بیٹھے اور ہر طرح کے نقصان سے بچ سکے۔ لیکن موبائل، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے بے دریغ اور غیر ضروری استعمال نے نوجوانوں کو نہ صرف بے راہ روی اور نفسیاتی مسائل میں الجھا دیا ہے بلکہ مجرم بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔



انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور موبائل کا بنیادی مقصد انسانی سہولت و ترقی جبکہ اس کا 15فیصد حصہ تفریح سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں جہاں ہر شعبے اور کام میں الٹی گنگا بہانے کا عام رواج ہے وہاں جدید ٹیکنالوجی کا بھی یہی حال کیا گیا ہے۔ یعنی وطن عزیز میں ایک اندازے کے مطابق صرف 10سے 15 فیصد لوگ ہی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسی جدید ٹیکنالوجی کا درست استعمال کرتے ہیں، باقی سب کے لئے یہ صرف تفریح کا ذریعہ ہے۔ اور بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی کیوں کہ اس تفریح کو بھی غیر صحت مند بنا دیا گیا ہے۔ وطن عزیز میں ساڑھے 12کروڑ موبائل صارفین ہیں اور موبائل یا کمپیوٹر پر انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے، لیکن جدید ٹیکنالوجی کا درست اور ضرورتاً استعمال کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔



فحش ویب سائٹس دیکھنے والوں کی فہرست میں پاکستانیوں کی نمایاں پوزیشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور موبائل کا ضرورت کے بغیر گھنٹوں استعمال نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایک نوجوان کا محدود جیب خرچ جب اسے موبائل کے کثیر بیلنس، انٹرنیٹ سمیت دیگر جدید سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹ کا باعث بننے لگتا ہے تو ان آلات کی لت میں پڑا نوجوان کوئی بھی غلط قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آج کراچی اور لاہور جیسے بڑے بڑے شہروں میں ہونے والے سٹریٹ کرائم میں اکثر نوجوان ہی ملوث پائے جاتے ہیں۔ گھر سے کم خرچہ ملنے کے باعث نوجوان اپنی غیر ضروری تفریح سے مسرت حاصل کرنے کے لئے غلط راستوں کا انتخاب کر بیٹھتے ہیں، جو بالآخر انہیں جرم کی دلدل میں کھینچ لاتا ہے جس سے پھر باہر نکلنا ممکن نہیں رہتا۔




غیر ضروری اور غیرصحت مند تفریح نوجوان نسل کے لئے صرف محاورتاً نہیں حقیقت میں زہر قاتل ہے، جس کا بروقت سدباب نہ کیا گیا تو نوجوان نسل اور نتیجتاً ملک و قوم کو تباہی سے بچانا ناممکن ہو جائے گا۔ بلاشبہ قوموںکی قسمت تعلیم کے ساتھ مشروط ہے اور تعلیم کی فروغ کے لئے نوجوان نسل کی جسمانی اور ذہنی فٹنس لازم امر ہے۔ ذہنی وجسمانی افزائش کے لئے صحت مند اور مثبت تفریحی سرگرمیوں کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دنیا کے جدید ترقی یافتہ ممالک میں نئی نسل کے روشن مستقبل اور ان میں ستاروں پر کمند ڈالنے کا جذبہ پیداکرنے کیلئے پالیسی سازوں نے صحت مند تفریح، غیر نصابی سرگرمیوں اور سماجی تقاریب و لائبریوں میں نوجوان نسل کی شرکت کو بنیادی جز قرار دیا ہے۔



اقوام متحدہ سے متصل کئی آزاد ریاستوں نے اپنے نوجوانوں کو جرائم اور دیگر منفی رجحانات سے بچانے کے لئے صحت مند تفریح کے ذریعے ہی شب ظلمت کو صبح پرنور میں ڈھالا ہے، جس کی واضح مثالیں ہمارے پڑوسی ممالک ایران، چین اور تاجکستان ہیں۔۔۔لیکن افسوس! وطن عزیز میں سوائے ووٹ کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ہمارے حکمرانوں کی کبھی ترجیح ہی نہیں رہی۔ موجودہ دور حکومت میں نوجوانوں کے لئے یوتھ پروگرامز شروع کرنے کے اعلانات زور و شور سے جاری ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کب ہو گا اور اس کا مقصد کیا ہے اس کا تعین تو وقت ہی کرے گا۔



انٹرنیٹ کے ذریعے فحش مواد تک رسائی سے پوری دنیا پریشان ہے اور اس کے سدباب کے لئے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں، جیسے حال ہی میں گوگل اور مائیکرو سافٹ نے انٹرنیٹ پر بچوں کے جنسی استحصال کی تصاویر کی تلاش انتہائی مشکل بنانے کے اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔ ان اقدامات کے تحت اب اس بارے میں ایک لاکھ سے زیادہ الفاظ اگر ''گوگل'' اور ''بنگ'' سرچ انجنوں پر تلاش کیے جائیں گے، تو ڈھونڈنے والے فرد کو نہ صرف کوئی معلومات نہ مل سکیں گی بلکہ اسے یہ تنبیہ بھی کی جائے گی کہ بچوں کے جنسی استحصال کی تصاویر غیرقانونی ہیں۔ برطانوی وزیراعظم نے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے، تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس پر عمل ہونا چاہیے، ورنہ وہ اس سلسلے میں نیا قانون لا سکتے ہیں۔



اس بارے میں گوگل کے چیف ایگزیکٹو ایرک شمٹ نے کہا ہے کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق ایک لاکھ سے زیادہ سوالات کے نتائج حذف کر دیے گئے ہیں۔ جلد ہی 150 سے زیادہ زبانوں میں ان تبدیلیوں کو لاگو کر دیا جائے گا۔ مائیکرو سافٹ کا کہنا ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق مواد کے بارے میں کمپنی پہلے ہی ''زیرو ٹالرنس'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اب وہ رسائی روکنے کے لیے مزید سخت انتظامات کر رہی ہے۔ گوگل اور مائیکروسافٹ نے ایسے مواد فراہم کرنے والے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن کی مدد کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔



نوجوانوں کو اخلاقی اور عقلی سطحوں پر برباد کرنے میں ایک طرف حکومتی غفلت ہے، تو دوسری طرف والدین کی کم علمی اور جدید ٹیکنالوجی سے ناآشنائی کی وجہ سے یہ زہر پوری قوم کے جسم میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی سوچ کو مثبت بنانے میں والدین اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور ایسا کرنا ان کے لئے فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل اور ہلہ گلہ نوجوانوں کے لئے ضروری ہے، لیکن حد سے زیادہ کسی بھی چیز کا استعمال نقصان کا باعث بنتا ہے۔ نوجوان کسی بھی ملک کا قیمتی سرمایہ ہے، جس کی سوچ کے ساتھ قومی تشخص بنتا یا بگڑتا ہے۔ اور اس حقیقت سے دنیا تو کبھی کی آگاہ ہو چکی لیکن ہم آج بھی سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ مثبت اور تعمیری سوچ کے لئے حکومت اور والدین کو ایک قدم آگے بڑھ کر نوجوانوں کا ہاتھ تھامنا ہوگا کیوں کہ اس چیز کی جتنی آج ضرورت ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔
Load Next Story