حکومت کی کاوشیں اور اصلی شیرِ کشمیر کا اہم پیغام
خطرہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم سادگی اور لاعلمی میں کہیں ٹرمپ کی ثالثی قبول نہ کرلیں۔
کل ایک ٹی وی چینل پر پی ٹی آئی کے ایک جید سپورٹر سے کسی اینکر نے پوچھا کہ کشمیر کے سلسلے میں کیا آپ حکومت کی کوششوں سے مطمئن ہیں؟ انھوں نے واضح طورپر کہا '' بالکل نہیں، چاہیے تو یہ تھا کہ انگریزی میں گفتگو کی مہارت رکھنے والے پارلیمنٹریرین، سفارتکار،دانشور، رائٹر، این جی اوز کے نمایندے اور سول سوسائٹی میں پڑھے لکھے خواتین و حضرات کو وزارتِ خارجہ میں بریفنگ کے بعد بھارتی مظالم کے آڈیو/ وڈیو ثبوت اور ڈاکومینٹریز دیکر اہم ملکوں میں بھیجا جاتا تاکہ و ہ بھارتی مظالم سے وہاں کے حکمرانوں ، میڈیا اور سول سوسائیٹی کو آگاہ کرتے اسطرح اہم ممالک میں اہم لوگ اس انسانی ایشو کے بارے میں Sensitize ہو تے، پھر دنیا سے بھارت پر دباؤ پڑتا ۔ مگر ایسا نہ ہوا'' ہر شخص حیران ہے کہ کہیں کوئی ایک وفد بھی نہیں بھیجا گیا۔
کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور ارکان بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے کہ کب وزیراعظم انھیں باہر جاکر کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کا گرین سگنل دیتے ہیں مگر حکومت نے پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ لگتا ہے وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی، یہ بے حسی اور نالائقی ناقابلِ فہم ہے۔
چند روز پہلے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا ایک پاکستانی خاتون اینکر کو دیا ہوا انٹر ویو سنا تو بہت مایوسی ہوئی۔ خاتون اینکر کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا ذکر کر کے اُن سے بار بار پوچھتی رہیں کہ'' آپکو تواس سلسلے میں بہت زیادہ تشویش ہوگی۔
آپ اس سلسلے میں کیا کر رہے ہیں؟''انھوں نے جواب میں تشویش (concern) کا لفظ استعمال کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا ، اس کے علاوہ کچھ کرنے کے سلسلے میں ان کے چہرے پر جواب واضح طورپر لکھا تھا کہ '' ہم بے بس ہیں،ساڈے تے ناں رہناں'' اس سوال کے جواب میں کہ آپ مقبوضہ کشمیر میں حقائق کا جائزہ لینے کے لیے اقوامِ متحدہ کا کوئی اعلیٰ سطح انکوائری کمیشن کیوں نہیں بھیجتے؟ انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والی عالمی تنظیم کے سربراہ نے فرمایا کہ '' جس ملک میں آپکے بقول انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیںاگر وہ ہمارے کمیشن کو اپنی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہ دے تو ہم کیا کر سکتے ہیں ؟''
مطلب یہ کہ یہ تنظیم صرف امریکا اور اس کے اتحادیوں کی باندی ہے اس سے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی موثّر اقدام کی توقع عبث ہے۔ دانائے راز حضرت علامّہ اقبالؒ نے سو سال پہلے مسلمانوں کو بتادیاتھا کہ
تری دوانہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہء یہود میں ہے
خطرہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم سادگی اور لاعلمی میں کہیں ٹرمپ کی ثالثی قبول نہ کرلیں، فلسطین کے لیے امریکی صدرنے جو'' منصفا نہ''حل تجویز کیا ہے اس سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔پاکستانی حکام اور باہر جانے والے وفود کوسب سے زیادہ زور بھارتی آئین کے آرٹیکل35-Aکی بحالی (جسکے تحت کوئی شخص باہر سے وادیء کشمیر میں جاکر نہ ووٹ بنوا سکتا ہے اور نہ جائیداد خرید سکتا ہے) پر دینا چاہیے اور اس کے علاوہ یو این او کی قرار دادوں پر عملدرآمد کرانا ہماری ترجیحِ اوّل ہونی چاہیے۔
اس پس منظر میں یہی غنیمت ہے کہ کم از کم وزیرِ خارجہ نے کشمیریوں کے سب سے بزرگ، بہادر ، مخلص اور پاکستان سے محبت کرنیوالے رہنما سیّد علی گیلانی کے پیغام کے جواب میں انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ سیّد علی گیلانی کشمیریوں کی عظیم جدوّجہد کی سب سے بڑی علامت ہیں۔پیرانہ سالی اور خراب صحت کی حالت میں کشمیر کے اس عظیم مجاہد نے چند روز قبل جو پیغام دیا ہے اس کی چند لائنیں قارئین کے ساتھ شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔''مجھے اس بات میںکوئی شک نہیں ہے کہ ایک روز ہم بھی غلامی سے نجات پائیں گے اور بھارت بلآخر ہماری مزاحمت کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا اس کے آخری فوجی کے انخلا تک ہماری جدو جہد جاری رہے گی ان شاء اللہ!
''ہماری تحریکِ آزادی نے 1987 میں یہ ثابت کیا کہ بھارت کا جمہوری نقاب ایک ڈھکوسلا ہے اور اس نقاب کے پسِ پردہ ایک خونخوار درندہ ہے۔تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہمارے غیور جوانوں نے میدانِ کارزا رکا راستہ اختیار کیااور تاریخ اسلام میں مزاحمت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ بھارتی استعمار آج تک ششدر ہے۔ عوامی تحاریک 2007، 2010، 2012،2019 کے ذریعے ریاست کے طول وعرض میں عوام نے اپنے مطالبہء آزادی کو دُہراکر لازوال قربانیوںکی داستان رقم کی۔ عوامی جذبے کی شدت سے حواس باختہ ہو کر بھارت نے اپنے آخری حربے کے طورپر ریاست جموںوکشمیر کو اپنے وفاق میں ضم کرنے کا خودساختہ غیر قانونی اعلان کیا۔
'میں نے آپ کو بارہا اس حقیقت سے باخبر کیا ہے کہ بھارت صرف جموں و کشمیر پر قابض ہونے پر ہی نہیں رُکے گا، بلکہ وہ ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے علاوہ ہمارا عقیدہ، ہماری شناخت اور ہماری تہذیب چھیننے کے درپے ہے۔5اگست کا فیصلہ اسی فسطائی حقیقت کا ایک عملی اقدام ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت سے غیر مسلم آبادی کو لاکر یہاں جموں وکشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔لاکھوں کنال عوامی اراضی،جس پربھارتی فوج پہلے ہی قبضہ جمائے ہوئے ہے،اس کے علاوہ مزید اراضی کو ہڑپ کر لیاجائے گا۔
''بابری مسجد کو شہید کر کے اسے مندر میں تبدیل کرنے کے بھارتی حکومت اور عدلیہ کے فیصلے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قائداعظم محمدعلیؒ جناح ، حکیم الامّت علامہ محمد اقبالؒ اور وہ ہزاروں لاکھوں مسلمان جنھوں نے تحریکِ پاکستان کو شرمندئہ تعبیر کرنے میںاپنا کردار ادا کیا ، نہ صرف بصیرت افروز تھے بلکہ اپنے خدشات میں قائم بالحق تھے''۔
''میں یہاںان ہندونواز سیاست دانوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو بھارتی فوجی قبضے کو ریاست میں دوام بخشنے کے لیے پچھلے 70برسوں سے بھارت کے آلہء کار بنے ہوئے ہیں اور نام نہاد انتخابات کے ذریعے یہ باور کراتے رہے ہیں کہ وہ عوام کے نمایندے ہیں ۔ حالانکہ میں بار بار یہ بات واضح کر چکا ہوں کہ بھارتی میکاولی سیاست میں ایسے لوگوں کی وقعت فقط قابلِ استعمال آلہ کاروں کی سی ہے۔وہ آج تک اس زعمِ باطل میں مبتلا تھے کہ وہ قوم کی خدمت کر رہے ہیں، حالانکہ وہ بھارت کے دستِ راست ہیں اور اس مکر وفریب میں وہ بین لاقوامی سطح پر تحریک آزادی اور عوامی جذبات کے خلاف اپنی آوازیں بلند کر کے بھارتی قبضے کو سندِ جواز بخشتے رہے ہیں ۔
لیکن وقت اور تاریخ نے اس نہتی قوم کو یہ دن دکھایا کہ جس میکاولی اور فریب کارانہ سیاست کی چاپلوسی کرتے ہوئے ، جس دلی دربار کی خوشنودی کے لیے یہ ہندنواز ٹولہ اپنے ہی محکوم و مجبور عوام کو تختہء مشق بناتا رہا ، اسی دلی دربار نے خود انھیں ایسا نشانہء عبرت بنا کے چھوڑا ہے کہ وہ منہ چھپانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اب ان کے لیے ایک باغیرت اور ذی حس انسان کی طرح اپنی فاش غلطیوں اور قومی دغابازیوں سے توبہ کرکے حق وصداقت کا علَم تھامنا ہی راہِ نجات ہے۔ ذلّت اور رُسوائی سے حاصل شدہ مال و متاع کے بجائے حق وانصاف کے حصول کا خارزارراستہ ہی انھیں سرخروئی ، عزّت اور وقار کی زندگی عطا کر سکتا ہے''۔
''اس صبر آزماء اور کٹھن مرحلے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے جس جرأت ، بالغ نظری اور حقیقت پسند ی سے کام لے کر پوری دنیا میں ہماری جدوجہدِ آزادی اور ہم پر روارکھے گئے بھارتی مظالم کو پیش کیا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔بارہا ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کی داخلی سیاست کے منفی اثرات، مسئلہ کشمیر کو جھیلنا پڑے ہیں ۔ اس لیے میں پاکستانی سیاست دانوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ اپنے سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر مسئلہ کشمیر پر ہمیشہ یک زبان کھڑے رہیں۔
قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، ان کے بعد ہر پاکستانی حکومت نے اس کی تائید کی۔ اب وقت آچکا ہے یہ ثابت کرنے کا کہ یہ محض ایک نعرہ نہیں، اس کاواحد راستہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے تمام تر وسائل جرأت اور حوصلے کو بروے کار لاکر بھارت کی حالیہ جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے کشمیر کا دفاع کرے۔
''پیرانہ سالی اور صحت کی ناسازی شاید ہی مجھے آپ سے آیندہ گفتگو کی مہلت دے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتِ واسعہ سے یہ اُمید ہے کہ وہ میری لغزشوں، کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور مغفرت سے نواز ے۔بہرحال زندگی اور موت کے فیصلے قاضیِ حیات کے دستِ قدرت میں ہیں۔
میری دیرینہ خواہش رہی ہے کہ میرا مدفن مزارِ بقیع میں ہوتا کہ روزِ قیامت مَیںان عظیم ہستیوں کی معّیت میں اپنے ربّ سے ملوں، جن کے نقش ہاے قدم ملت اسلامیہ کے لیے روشنی کے مینار ہیں اور جن کی پیروی کرتے ہوئے مَیں نے ملت اسلامیہ کا دفاع اور اقامت دین کی جدوجہدحسبِ استطاعت کی ہے۔ لیکن پچھلے 70برسوں سے عموماً اور گزشتہ30،35برس کے دوران خصوصاً جس طرح اور جس بڑی تعداد میں کشمیر کے نوجوانوں، بچوں،بوڑھوں اور خواتین نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نقش قد م پر چلتے ہوئے ظلم و جبر کے خاتمے اور آزادی اور اسلام کے غلبے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں، اس میں کشمیر کی اس سرزمین اور خاص طورپر اس کے ان حصوں کو جہاں پہ پاک نفوس دفن ہیں، ایک خاص تقّدس اور احترام بخشا ہے اور اس لیے اب ان کے پہلو میں جگہ پانا بھی کسی اعزاز سے کم نہیں''۔''یاد رکھیںکہ ربّ کائنات کی رحمت سے نااُمید ہونا مسلمان پر حرام ہے۔ پُر اُمید رہیں کہ ظلم کی تاریک رات چاہے کتنی طویل ہو، بالآخر اختتام کو پہنچے گی۔ تاریخ فرعون و قارون اور ہامان و چنگیز کا انجام دیکھ چکی ہے،دوام فقط حق کو ہے''۔
ولسّلام
سید علی گیلانی
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ کشمیر کے اس عظیم مجاہد اور اصلی شیر کشمیر کو صحتِ کاملہ اوران کی جدوجہد کو کامیابی عطاء فرمائیں ۔آمین