بلاول کی ن لیگ کے خلاف نئی محاذ آرائی کیوں
اگر تناؤ کو موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو بلاول نے یک طرفہ لڑائی شروع کر دی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان تناؤ بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہ پی پی پی کی طرف سے بڑھایا جا رہا ہے۔ بلاول نے یک دم توپوں کا رخ شریف خاندان اور ن لیگ کی طرف کر دیا ہے۔ وہ نواز شریف کو سلیکٹڈ کہہ رہے ہیں۔ انھیں ن لیگ کی جانب سے آرمی ایکٹ پر ووٹ دینے پر گلہ ہے۔ لیکن پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان تناؤ اور محبت کا کھیل یہ کوئی نیا نہیں ہے۔
پاکستان میں بارہ موسم ہیں یا نہیں لیکن دونوں جماعتوں کے تعلقات میں بارہ موسم ضرور ہیں۔ کبھی دونوں جماعتوں کے درمیان ایسی محبت نظر آتی ہے ،کبھی لگنے لگتا ہے کہ دونوں کے درمیان ایسی دشمنی ہے جس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ دونوں کے پاس ایک د وسرے کے خلاف گلے شکوؤں کی ایک لمبی داستان ہے۔ وہ چاہیں تو نوے کی دہائی سے بات شروع کر لیں۔ چاہیں تو چارٹر آف ڈیموکریسی سے شرورع کر لیں۔ چاہیں تو 2017سے شروع کر لیں۔ یہ متاثرہ فریق کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کب اور کہاں سے گلے شکوئے شروع کرنا چاہتا ہے۔
اگر تناؤ کو موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو بلاول نے یک طرفہ لڑائی شروع کر دی ہے۔ انھیں گلہ ہے کہ ن لیگ نے آرمی ایکٹ پر ووٹ دینے کے لیے فیصلہ کرتے وقت ان سے مشاورت نہیں کی ہے۔ میں بلاول کے اس گلہ پر شدید حیران ہوں۔ بلاول یہ گلہ کرنے پر تب حق بجانب تھے جب انھوں نے اور ان کی جماعت نے اس کے لیے ووٹ نہ دیا ہوتا۔ جب پی پی پی نے بھی ووٹ دیا ہے اور ن لیگ نے بھی ووٹ دیا ہے تو گلہ کس بات کا۔ ایک گلہ یہ ہے کہ ن لیگ نے پہلے مفاہمت کیوں کی اور ان کی باری بعد میں کیوں آئی ہے۔ یا گلہ یہ ہے کہ ن لیگ نے پہلے مفاہمت کر کے پی پی پی کی قیمت کم کر دی ہے۔
میں حیران ہوں کہ گزشتہ دو سال سے پی پی پی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسلسل مفاہمت کر رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مفاہمت کا انھیں کتنا فائدہ ہوا ،کتنا نقصان ۔ آج بلاول جس شدت سے گلہ کر رہے ہیں۔ ن لیگ نے اتنی شدت سے تو تب بھی گلہ نہیں کیا جب پی پی پی نے ن لیگ کی بلوچستان کی حکومت گرانے میں میںاہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ کردار خفیہ نہیں تھا بلکہ اس کا اعلیٰ سطح پر بر ملا اعتراف بھی کیا گیا۔ لیکن ن لیگ نے تو تب نہیں کہا تھا کہ بلاول کی جماعت سلیکٹڈ ہو گئی ہے۔
سینیٹ کے انتخابات میں جب صادق سنجرانی کو بلاول کی جانب سے اپنا امیدوار قرار دیا گیا تھا تب بھی ن لیگ کی جانب سے بلاول کو یہ نہیں کہا گیا کہ وہ سلیکٹڈ ہو گئے ہیں۔ جب ن لیگ پی پی پی کو سینیٹ کا چیئرمین دینے کے لیے تیار تھی ۔ سیاسی تجزیہ نگار یہ دلیل ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان سب کا خیال تھا کہ پی پی پی کا کردار جمہوری نظام کی کمزوری کا باعث بن رہا ہے۔
آپ انتخابات کے بعد دیکھ لیں۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان چند ووٹوں کا فرق تھا۔ گیم بہت ٹائٹ تھی۔ بلاول شہباز شریف کو وزیر اعظم کا ووٹ دینے کا طے کر کے مکر گئے اور پی پی پی نے عمران خان کو وزیر اعظم بننے میں بھر پور مدد کی۔ اس کے بعد صدارتی انتخاب میں دیکھ لیں۔ پی پی پی نے صدارتی انتخاب میں بھی حکمران جماعت کے امیدوار کو جتوانے کے لیے مدد کی۔ اپوزیشن کو تقسیم کرنے کے لیے اعتزاز احسن کو آگے لایا گیا۔
کس کو یاد نہیں مری میں نواز شریف کی رہائش گاہ پر جب متحدہ اپوزیشن کا اجلاس ہو رہا تھا اور سب یوسف رضا گیلانی کو صدارتی امیدوار بنانے پر تیار تھے تو پی پی پی کا وفد تین گھنٹے تک زرداری اور بلاول سے رابطہ ہی نہیں کر سکا۔ شائد اس وقت بات کرنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ آپ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ہی دیکھ لیں۔ جب اپوزیشن کی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پی پی پی نے اپنا ڈپٹی چیئرمین بچانے کے لیے حکمران اتحاد سے مفاہمت کر لی۔ اس کے باوجود بلاول سلیکٹڈ نہیں ہیں اور نوے کی دہائی کی سیاست کی وجہ سے نواز شریف سلیکٹڈ ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ اب جب مفاہمت کا موسم ہے تو بلاول کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ن لیگ کے خلاف اب بلاول نے جو یک طرفہ محاذ گرم کیا ہے، اس کا براہ راست فائدہ عمران خان کو ہو رہا ہے۔ ایک طرف بلاول نواز شریف کو سلیکٹڈ کہہ رہے ہیں دوسری طرف عمران خان کی پنجاب حکومت نے نواز شریف کی سزا معطلی میں توسیع سے انکار کر دیا گیا۔ دونوں میں کس قدر تال میل نظر آ رہا ہے۔ یہی تال سینیٹ کے انتخاب میں بھی تھا۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ آگے چل کر بلاول اور عمران خان کے درمیان شراکت اقتدارکا کوئی فارمولہ بھی طے ہو جائے۔ جہاں تک ن لیگ کی بات ہے وہ خاموش ہے ۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ خاموش سیاست میں جواب دینا شامل نہیں ہے۔ اس لیے بلاول کو بھی جواب دینا شامل نہیں ہے۔
پاکستان میں بارہ موسم ہیں یا نہیں لیکن دونوں جماعتوں کے تعلقات میں بارہ موسم ضرور ہیں۔ کبھی دونوں جماعتوں کے درمیان ایسی محبت نظر آتی ہے ،کبھی لگنے لگتا ہے کہ دونوں کے درمیان ایسی دشمنی ہے جس کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ دونوں کے پاس ایک د وسرے کے خلاف گلے شکوؤں کی ایک لمبی داستان ہے۔ وہ چاہیں تو نوے کی دہائی سے بات شروع کر لیں۔ چاہیں تو چارٹر آف ڈیموکریسی سے شرورع کر لیں۔ چاہیں تو 2017سے شروع کر لیں۔ یہ متاثرہ فریق کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کب اور کہاں سے گلے شکوئے شروع کرنا چاہتا ہے۔
اگر تناؤ کو موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو بلاول نے یک طرفہ لڑائی شروع کر دی ہے۔ انھیں گلہ ہے کہ ن لیگ نے آرمی ایکٹ پر ووٹ دینے کے لیے فیصلہ کرتے وقت ان سے مشاورت نہیں کی ہے۔ میں بلاول کے اس گلہ پر شدید حیران ہوں۔ بلاول یہ گلہ کرنے پر تب حق بجانب تھے جب انھوں نے اور ان کی جماعت نے اس کے لیے ووٹ نہ دیا ہوتا۔ جب پی پی پی نے بھی ووٹ دیا ہے اور ن لیگ نے بھی ووٹ دیا ہے تو گلہ کس بات کا۔ ایک گلہ یہ ہے کہ ن لیگ نے پہلے مفاہمت کیوں کی اور ان کی باری بعد میں کیوں آئی ہے۔ یا گلہ یہ ہے کہ ن لیگ نے پہلے مفاہمت کر کے پی پی پی کی قیمت کم کر دی ہے۔
میں حیران ہوں کہ گزشتہ دو سال سے پی پی پی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسلسل مفاہمت کر رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مفاہمت کا انھیں کتنا فائدہ ہوا ،کتنا نقصان ۔ آج بلاول جس شدت سے گلہ کر رہے ہیں۔ ن لیگ نے اتنی شدت سے تو تب بھی گلہ نہیں کیا جب پی پی پی نے ن لیگ کی بلوچستان کی حکومت گرانے میں میںاہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ کردار خفیہ نہیں تھا بلکہ اس کا اعلیٰ سطح پر بر ملا اعتراف بھی کیا گیا۔ لیکن ن لیگ نے تو تب نہیں کہا تھا کہ بلاول کی جماعت سلیکٹڈ ہو گئی ہے۔
سینیٹ کے انتخابات میں جب صادق سنجرانی کو بلاول کی جانب سے اپنا امیدوار قرار دیا گیا تھا تب بھی ن لیگ کی جانب سے بلاول کو یہ نہیں کہا گیا کہ وہ سلیکٹڈ ہو گئے ہیں۔ جب ن لیگ پی پی پی کو سینیٹ کا چیئرمین دینے کے لیے تیار تھی ۔ سیاسی تجزیہ نگار یہ دلیل ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان سب کا خیال تھا کہ پی پی پی کا کردار جمہوری نظام کی کمزوری کا باعث بن رہا ہے۔
آپ انتخابات کے بعد دیکھ لیں۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان چند ووٹوں کا فرق تھا۔ گیم بہت ٹائٹ تھی۔ بلاول شہباز شریف کو وزیر اعظم کا ووٹ دینے کا طے کر کے مکر گئے اور پی پی پی نے عمران خان کو وزیر اعظم بننے میں بھر پور مدد کی۔ اس کے بعد صدارتی انتخاب میں دیکھ لیں۔ پی پی پی نے صدارتی انتخاب میں بھی حکمران جماعت کے امیدوار کو جتوانے کے لیے مدد کی۔ اپوزیشن کو تقسیم کرنے کے لیے اعتزاز احسن کو آگے لایا گیا۔
کس کو یاد نہیں مری میں نواز شریف کی رہائش گاہ پر جب متحدہ اپوزیشن کا اجلاس ہو رہا تھا اور سب یوسف رضا گیلانی کو صدارتی امیدوار بنانے پر تیار تھے تو پی پی پی کا وفد تین گھنٹے تک زرداری اور بلاول سے رابطہ ہی نہیں کر سکا۔ شائد اس وقت بات کرنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ آپ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ہی دیکھ لیں۔ جب اپوزیشن کی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پی پی پی نے اپنا ڈپٹی چیئرمین بچانے کے لیے حکمران اتحاد سے مفاہمت کر لی۔ اس کے باوجود بلاول سلیکٹڈ نہیں ہیں اور نوے کی دہائی کی سیاست کی وجہ سے نواز شریف سلیکٹڈ ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ اب جب مفاہمت کا موسم ہے تو بلاول کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ن لیگ کے خلاف اب بلاول نے جو یک طرفہ محاذ گرم کیا ہے، اس کا براہ راست فائدہ عمران خان کو ہو رہا ہے۔ ایک طرف بلاول نواز شریف کو سلیکٹڈ کہہ رہے ہیں دوسری طرف عمران خان کی پنجاب حکومت نے نواز شریف کی سزا معطلی میں توسیع سے انکار کر دیا گیا۔ دونوں میں کس قدر تال میل نظر آ رہا ہے۔ یہی تال سینیٹ کے انتخاب میں بھی تھا۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ آگے چل کر بلاول اور عمران خان کے درمیان شراکت اقتدارکا کوئی فارمولہ بھی طے ہو جائے۔ جہاں تک ن لیگ کی بات ہے وہ خاموش ہے ۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ خاموش سیاست میں جواب دینا شامل نہیں ہے۔ اس لیے بلاول کو بھی جواب دینا شامل نہیں ہے۔