سرکلر ریلوے کی بحالی وفاق اور سندھ میں فریم ورک منصوبے پر اتفاق
کے سی آر 2 ارب ڈالرز کا منصوبہ ہے، سندھ حکومت کے سی آر کو عملی طور پر مکمل کرنا چاہتی ہے، شیخ رشید
ISLAMABAD:
کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے عدالتی احکامات کے بعد وفاقی وزرات ریلوے انتہائی متحرک ہوگئی ہے اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کرکے منصوبے کی بحالی کے حوالے سے مشاورت کی ہے۔
شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ کے سی آر 2 ارب ڈالرز کا منصوبہ ہے، سندھ حکومت کے سی آر کو عملی طور پر مکمل کرنا چاہتی ہے، وفاق اور سندھ حکومت میں فریم ورک منصوبے پر اتفاق ہوگیا ہے، متاثرین کی آبادکاری کا فیصلہ آئندہ ماہ کریں گے۔
انھوں نے کے سی آر پر ایک ماہ میں تجاوازت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم پر ایک ماہ کے دوران تجاوزات کا خاتمہ کردیا جائے گا جبکہ متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی کا طریقہ کار سندھ حکومت سے آئندہ ملاقات میں طے کریں گے۔ ریلوے ٹریک کے اطراف ایک سو پچاس فٹ زمین خالی کروا رہے ہیں، ساڑھے چار کلومیٹر کا ایریا باقی رہ گیا ہے۔ ریلوے ٹریک کے اطراف سے بے دخل کیے گئے لوگوں کو بحال کرنے سے متعلق مختلف تجاویز زیرغور ہیں انہیں آباد کریں گے۔
ادھر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے تمام کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر 6 ماہ میں سرکلر ریلوے نہیں چلائی گئی تو وزیر اعظم، وزیر اعلی سندھ، سیکرٹری ریلوے سمیت سب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔
عدالت نے ریلوے زمین پر ہاوسنگ سوسائٹیز بھی ختم کرنے کا حکم، ریلوے زمین پر رہائش پذیر شہریوں کو 7 روز میں نوٹس بھیج کر تمام قبضے خالی کرانے کی ہدایت، قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو ریلوے کی معاونت کرنے کا حکم اور سندھ حکومت کو متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کراچی کے صدر اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرفردوس شمیم نقوی عدالت میں پیش ہوئے اور سرکلر ریلوے کی بحالی میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کے دوران گھروں کو گرانے کی مخالفت کی۔
چیف جسٹس نے ان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فردوس شمیم نقوی صاحب، آپ حکومت کے نمائندے ہیں اور یہاں کیسی باتیں کر رہے ہیں، پھر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کو طلب کرکے پوچھ لیتے ہیں کام کون کرے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد اس بات کا امکان نظر آرہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے عدالت عظمیٰ کی جانب سے دیئے گئے ٹائم فریم میں بحال ہو جائے گی۔کے سی آر کے ساتھ گرین لائن بس منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ اگر یہ دونوں منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں تو اس سے کراچی کے عوام کو بہتر سفری سہولتیں میسر آئیں گی اور ان کی زندگیوں میں کچھ آسانی پیدا ہوگی۔
پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان اختلافات تاحال ختم نہیں ہو سکے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان وفاقی حکومت کی حمایت تو کر رہی ہے لیکن وفاقی کابینہ میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں صدر مملک ڈاکٹرعارف علوی ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی امین الحق کی رہائش گاہ گئے اور ان کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور عامر خان بھی موجود تھے۔ صدرِ مملکت اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے موجودہ صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
بعدازاں ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت سے وزارتیں ہم نے پہلے بھی نہیں مانگیں، ہمارا الگ نظریہ ہے مگر وفاقی حکومت کو فیصلے لینے میں ڈیڑھ سال لگ گئے۔ خالد مقبول صدیقی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم عوام کے پابند ہیں کہ انکے مسائل کو اجاگر کریں۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں حکومت سے شکوے کرتے ہوئے کنوینر ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت کو مشورہ بھی دیا کہ حکومت کو تھوڑی سی ہمت کرنی ہوگی وعدے ڈر ڈر کے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک انصاف کے سیاسی تعلقات عجیب موڑ پر ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کو وفاقی حکومت سے اختلافات بھی ہیں اور وہ وفاقی کابینہ سے الگ بھی ہوگئی ہے لیکن حکومت کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹی ہے۔اس صورت حال کا فائدہ تحریک انصاف کو تو ہو سکتا ہے لیکن ایم کیو ایم پاکستان کے لیے یہ سب کچھ سود مند نہیں ہے۔ اسے اب واضح فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس نے حکومت کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔
سندھ میں نئے آئی جی کی تعیناتی کے حوالے سے معاملات ابھی تک طے نہیں ہو سکے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس حوالے سے کہنا تھا کہ آئی جی پولیس کے تبادلے کے معاملے پر جو وفاقی حکومت نے غیر یقینی صورتحال پیدا کی ہے اور اس سے صوبے میں لا قانونیت بڑھی ہے۔ دوسری جانب سندھ کابینہ نے 15.410 ارب روپے کی 1.4 ملین ٹن گندم خریدنے کی منظوری بھی دی ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ کراچی میں جو آٹے کی قیمت 55 روپے سے 56 روپے فی کلو گرام ہوگئی تھی اب وہ نیچے آگئی ہے۔ اساتذہ کے مسائل کے حوالے سے سندھ کابینہ نے ذیلی کمیٹی قائم کر دی ہے جو اساتذہ اور دیگر ملازمین کی ریگولرائزیشن کرنے کے لیے تجویز ایک مہینے میں دے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صوبائی کابینہ کے اس اجلاس میں کئی بنیادی نوعیت کے فیصلے کیے گئے ہیں جس سے عوام کو فائدہ ہوگا تاہم آئی جی سندھ کی تبدیلی صوبائی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن گئی ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ افہام و تفہیم کے ساتھ اس مسئلے کا حل نکالے۔
پاکستان سپر لیگ کا میلہ سج گیا ہے، جس کی افتتاحی تقریب کراچی میں منعقد ہوئی۔ حکومت سندھ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ مل کر تقریب کے پرامن انعقاد کے لیے فول پروف سکیورٹی انتظامات کیے۔ پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے دن رات ایک کرکے عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا۔
اس تقریب کے انعقاد سے پاکستان کا مثبت تاثر پوری دنیا میں اجاگر ہوا ہے، جس کے لیے حکومت سندھ ، پاکستان کرکٹ بورڈ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جن کی کاوشوں سے شہر قائد کی روشنیاں ایک مرتبہ پھر بحال ہوئی ہیں۔ پاکستان میں اس بڑے ایونٹ کے انعقاد سے کھیلوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے زیر اہتمام " تحفظ آئین پاکستان جلسہ عام" 27 فروری بروز جمعرات اسلامیہ کالج کراچی میں منعقد ہوگا اس سے مولانا فضل الرحمن اور دیگر اپوزیشن رہنما خطاب کریں گے۔
اس ضمن میں جے یو آئی کے رہنما علامہ راشد محمود سومرو کا کہنا ہے کہ مسائل میں الجھے عوام مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کو بحرانوں اور سازشوں کے خلاف منظم اور توانا آواز سمجھتے ہیں۔27 فروری کا کراچی جلسہ عام سیاسی بازی گروں کیخلاف عوامی قوت کا مظہر ثابت ہوگا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے بغیر جے یو آئی ایک نئی تحریک شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔کراچی کا جلسہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن اپنی تحریک کے اس دوسرے مرحلے میں دو بڑی سیاسی جماعتوںکی مدد کے بغیر کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔
کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے عدالتی احکامات کے بعد وفاقی وزرات ریلوے انتہائی متحرک ہوگئی ہے اور وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات کرکے منصوبے کی بحالی کے حوالے سے مشاورت کی ہے۔
شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ کے سی آر 2 ارب ڈالرز کا منصوبہ ہے، سندھ حکومت کے سی آر کو عملی طور پر مکمل کرنا چاہتی ہے، وفاق اور سندھ حکومت میں فریم ورک منصوبے پر اتفاق ہوگیا ہے، متاثرین کی آبادکاری کا فیصلہ آئندہ ماہ کریں گے۔
انھوں نے کے سی آر پر ایک ماہ میں تجاوازت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم پر ایک ماہ کے دوران تجاوزات کا خاتمہ کردیا جائے گا جبکہ متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی کا طریقہ کار سندھ حکومت سے آئندہ ملاقات میں طے کریں گے۔ ریلوے ٹریک کے اطراف ایک سو پچاس فٹ زمین خالی کروا رہے ہیں، ساڑھے چار کلومیٹر کا ایریا باقی رہ گیا ہے۔ ریلوے ٹریک کے اطراف سے بے دخل کیے گئے لوگوں کو بحال کرنے سے متعلق مختلف تجاویز زیرغور ہیں انہیں آباد کریں گے۔
ادھر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے تمام کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر 6 ماہ میں سرکلر ریلوے نہیں چلائی گئی تو وزیر اعظم، وزیر اعلی سندھ، سیکرٹری ریلوے سمیت سب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔
عدالت نے ریلوے زمین پر ہاوسنگ سوسائٹیز بھی ختم کرنے کا حکم، ریلوے زمین پر رہائش پذیر شہریوں کو 7 روز میں نوٹس بھیج کر تمام قبضے خالی کرانے کی ہدایت، قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو ریلوے کی معاونت کرنے کا حکم اور سندھ حکومت کو متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کراچی کے صدر اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرفردوس شمیم نقوی عدالت میں پیش ہوئے اور سرکلر ریلوے کی بحالی میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کے دوران گھروں کو گرانے کی مخالفت کی۔
چیف جسٹس نے ان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فردوس شمیم نقوی صاحب، آپ حکومت کے نمائندے ہیں اور یہاں کیسی باتیں کر رہے ہیں، پھر وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کو طلب کرکے پوچھ لیتے ہیں کام کون کرے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد اس بات کا امکان نظر آرہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے عدالت عظمیٰ کی جانب سے دیئے گئے ٹائم فریم میں بحال ہو جائے گی۔کے سی آر کے ساتھ گرین لائن بس منصوبے پر بھی کام جاری ہے۔ اگر یہ دونوں منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں تو اس سے کراچی کے عوام کو بہتر سفری سہولتیں میسر آئیں گی اور ان کی زندگیوں میں کچھ آسانی پیدا ہوگی۔
پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان اختلافات تاحال ختم نہیں ہو سکے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان وفاقی حکومت کی حمایت تو کر رہی ہے لیکن وفاقی کابینہ میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں صدر مملک ڈاکٹرعارف علوی ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی امین الحق کی رہائش گاہ گئے اور ان کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور عامر خان بھی موجود تھے۔ صدرِ مملکت اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے موجودہ صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
بعدازاں ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت سے وزارتیں ہم نے پہلے بھی نہیں مانگیں، ہمارا الگ نظریہ ہے مگر وفاقی حکومت کو فیصلے لینے میں ڈیڑھ سال لگ گئے۔ خالد مقبول صدیقی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم عوام کے پابند ہیں کہ انکے مسائل کو اجاگر کریں۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں حکومت سے شکوے کرتے ہوئے کنوینر ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت کو مشورہ بھی دیا کہ حکومت کو تھوڑی سی ہمت کرنی ہوگی وعدے ڈر ڈر کے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک انصاف کے سیاسی تعلقات عجیب موڑ پر ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کو وفاقی حکومت سے اختلافات بھی ہیں اور وہ وفاقی کابینہ سے الگ بھی ہوگئی ہے لیکن حکومت کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹی ہے۔اس صورت حال کا فائدہ تحریک انصاف کو تو ہو سکتا ہے لیکن ایم کیو ایم پاکستان کے لیے یہ سب کچھ سود مند نہیں ہے۔ اسے اب واضح فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس نے حکومت کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔
سندھ میں نئے آئی جی کی تعیناتی کے حوالے سے معاملات ابھی تک طے نہیں ہو سکے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس حوالے سے کہنا تھا کہ آئی جی پولیس کے تبادلے کے معاملے پر جو وفاقی حکومت نے غیر یقینی صورتحال پیدا کی ہے اور اس سے صوبے میں لا قانونیت بڑھی ہے۔ دوسری جانب سندھ کابینہ نے 15.410 ارب روپے کی 1.4 ملین ٹن گندم خریدنے کی منظوری بھی دی ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ کراچی میں جو آٹے کی قیمت 55 روپے سے 56 روپے فی کلو گرام ہوگئی تھی اب وہ نیچے آگئی ہے۔ اساتذہ کے مسائل کے حوالے سے سندھ کابینہ نے ذیلی کمیٹی قائم کر دی ہے جو اساتذہ اور دیگر ملازمین کی ریگولرائزیشن کرنے کے لیے تجویز ایک مہینے میں دے گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صوبائی کابینہ کے اس اجلاس میں کئی بنیادی نوعیت کے فیصلے کیے گئے ہیں جس سے عوام کو فائدہ ہوگا تاہم آئی جی سندھ کی تبدیلی صوبائی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن گئی ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ افہام و تفہیم کے ساتھ اس مسئلے کا حل نکالے۔
پاکستان سپر لیگ کا میلہ سج گیا ہے، جس کی افتتاحی تقریب کراچی میں منعقد ہوئی۔ حکومت سندھ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ مل کر تقریب کے پرامن انعقاد کے لیے فول پروف سکیورٹی انتظامات کیے۔ پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے دن رات ایک کرکے عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا۔
اس تقریب کے انعقاد سے پاکستان کا مثبت تاثر پوری دنیا میں اجاگر ہوا ہے، جس کے لیے حکومت سندھ ، پاکستان کرکٹ بورڈ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جن کی کاوشوں سے شہر قائد کی روشنیاں ایک مرتبہ پھر بحال ہوئی ہیں۔ پاکستان میں اس بڑے ایونٹ کے انعقاد سے کھیلوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے زیر اہتمام " تحفظ آئین پاکستان جلسہ عام" 27 فروری بروز جمعرات اسلامیہ کالج کراچی میں منعقد ہوگا اس سے مولانا فضل الرحمن اور دیگر اپوزیشن رہنما خطاب کریں گے۔
اس ضمن میں جے یو آئی کے رہنما علامہ راشد محمود سومرو کا کہنا ہے کہ مسائل میں الجھے عوام مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت کو بحرانوں اور سازشوں کے خلاف منظم اور توانا آواز سمجھتے ہیں۔27 فروری کا کراچی جلسہ عام سیاسی بازی گروں کیخلاف عوامی قوت کا مظہر ثابت ہوگا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے بغیر جے یو آئی ایک نئی تحریک شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔کراچی کا جلسہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن اپنی تحریک کے اس دوسرے مرحلے میں دو بڑی سیاسی جماعتوںکی مدد کے بغیر کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔