متحدہ اپوزیشن کا شدید احتجاج وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا

متحدہ اپوزیشن کے ارکان نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے گھیراؤ اور دھرنے سے قبل ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی۔

متحدہ اپوزیشن کے ارکان نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے گھیراؤ اور دھرنے سے قبل ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی۔

بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن نے سیاسی ماحول کو گرمانا شروع کردیا ہے۔

صوبے کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ متحدہ اپوزیشن نے اسمبلی سے باہر نکل کر وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ کیا اور دھرنا دیا جبکہ حکومتی وزراء کی ٹیم نے متحدہ اپوزیشن کے ارکان سے مذاکرات کر کے اُن کا احتجاج ختم کروایا، تاہم متحدہ اپوزیشن نے ایک مرتبہ پھر احتجاج کا اعلان کیا ہے اور اُس کا موقف ہے کہ جب تک جام حکومت اُن کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی اور اُن کے حلقوں میں بے جا مداخلت بند نہیں کرتی وہ اپنے اس اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے احتجاج کرتے رہیں گے بلکہ اپنے اس احتجاج میں مزید شدت لائیں گے۔

متحدہ اپوزیشن کے ارکان نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے گھیراؤ اور دھرنے سے قبل ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی، یہ ریلی بلوچستان اسمبلی سے شروع ہوئی اور وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی جہاں ارکان اسمبلی نے موجودہ صوبائی حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی بھی کی۔

اپوزیشن ارکان نے پلے کارڈز بھی اُٹھارکھے تھے جن پر اُن کے مطالبات درج تھے۔ متحدہ اپوزیشن کے ارکان نے موجودہ صوبائی حکومت کو نا اہل قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں بدامنی، مہنگائی نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں جبکہ جام حکومت عام انتخابات میں شکست کھانے والے عناصر کو ہمارے حلقوں میں فنڈز دے کر بے جا مداخلت کر رہی ہے، اگر جام حکومت نے ہمارے مطالبات پر سنجیدگی سے عملدرآمد نہیں کیا تو پھر اپنے احتجاج کو مزید آگے بڑھائیں گے۔

اپوزیشن ارکان کے اس احتجاج پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بھی ایک ٹوئیٹ کیا ہے جس میں اُن کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اپنے دھرنے میں حکومت کی کارکردگی کو ناقص قرار دے رہی ہے دوسری جانب اپوزیشن اپنے حلقوں کے بڑے منصوبوں کی افتتاحی تقاریب میں شریک ہو کر ان کا کریڈٹ بھی لیتی ہے، مزید کا مطالبہ بھی کرتی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے، وزیراعلیٰ نے استفسار کیا ہے کہ آخر ہر سال انہی مہینوں میں اپوزیشن احتجاج کیوں کرتی ہے؟۔

سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا واضح اشارہ اس طرف ہے کہ اپوزیشن ارکان کا احتجاج اپنے فنڈز بڑھانے اور آئندہ صوبائی پی ایس ڈی پی میں زیادہ سے زیادہ اُن کی سکیموںکو شامل کرانا ہے۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ صوبائی حکومت پہلے ہی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ بلا امتیاز صوبے کے تمام اضلاع میں برابری کی بنیاد پر ترقیاتی کام کروا رہی ہے، اپوزیشن اس ترقیاتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔ اسی طرح اس کی خواہش ہے کہ اُن حلقوں میں انتظامی افسران بھی ان کی منشاء اور مرضی کے مطابق تعینات کئے جائیں جبکہ یہ اختیار موجودہ حکومت کا ہے کہ وہ اچھے باکردار اور محنتی افسران کو تعینات کرے۔


ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن حکومتی موقف کو مکمل رد کرتے ہوئے اپنے مطالبات کو تسلیم کرانے کیلئے سیاسی و عوامی دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گورننس کی صورتحال انتہائی ابتر ہے لوگوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں ایسے میں ہمارا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ بلوچستان سے کرپشن کے خاتمے، قیام امن، بلوچستان کے وسائل کے تحفظ و میرٹ پر عملدرآمد پارلیمنٹ کی پالیسیوں پر عملدرآمد اور اپوزیشن ارکان کے حلقوں میں بے جا مداخلت کے خاتمے تک ہمارا یہ احتجاج جاری رہے گا۔

دوسری جانب مرکز میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی جو کہ 18 ماہ کے دوران اپنے6 نکاتی معاہدے پر کوئی خاص پیش رفت نہ ہونے پر تحریک انصاف کی حکومت سے ناراض دکھائی دے رہی ہے جس کا اندازہ اس دوران بی این پی کی جانب سے آنے والے مختلف بیانات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے تاہم گذشتہ دنوں تحریک انصاف بلوچستان کے رہنما و بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر اور وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے بی این پی کے ان 6 نکاتی معاہدے کے حوالے سے یہ بات کرکے نئی سیاسی تاریں چھیڑ دی ہیں۔

جن میں اُن کا کہنا تھا کہ سردار اختر جان مینگل حکومت سے زیادہ اپوزیشن کے اتحادی لگتے ہیں بی این پی مینگل ہماری اتحادی جماعت ضرور ہے لیکن اتحادی جماعت جب بھی وفاقی حکومت پر مشکل وقت آتا ہے نئی ڈیمانڈ لے کر آجاتی ہے اس لئے ان کے چھ نکات پانچ سال میں بھی پورے نہیں ہونگے تاہم تحریک انصاف کی حکومت اُن کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کیلئے کوشش کر رہی ہے اور اُن سے بھی اُمید رکھتی ہے کہ حکومت کا اتحادی ہونے کے ناطے وہ اتحادیوں والا برتاؤ کریں گے۔

اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے تحریک انصاف نے جس طرح کا کردار اد اکیا ہے سردار اختر مینگل کا کوئی اور اتحادی ہوتا تو وہ ایسا نہیں کرتا اسی طرح گوادر کے حوالے سے قانون سازی گوادر اور بلوچستان کے عوام کا مطالبہ ہے جسے ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن جلد بازی میں ایسی کوئی قانون سازی نہیں کرنا چاہتے جس سے بلوچستان کے عوام کو نقصان ہو اس کیلئے کچھ وقت درکار ہے جیسے ہی اس پر اتفاق رائے ہوگا ہم ایک منٹ کی تاخیر نہیں کریں گے لیکن اس کیلئے رائے ہموار کرنے کی ذمہ داری کیا صرف تحریک انصاف کی ہے؟ اور کہاں تک بی این پی کے دوستوں نے سینٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں شامل جماعتوں سے اس سلسلے میں کتنے رابطے کئے ہیں کیونکہ ہم اپنے حصے کا کام کر سکتے ہیں اور بی این پی اپنے حصے کا کام مکمل کرے۔

صوبائی وزیر اور تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے اس بیان پر بی این پی نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب پی ٹی آئی قیادت خاران اسٹریٹ مینگل ہاؤس میں یہ چھ نکاتی معاہدہ کر رہی تھی تو اُسے اس بات کی آگاہی ہونی چاہیے تھی کہ ان چھ نکات کا حل انکے بس کی بات نہیں اور اس وقت انکی قیادت کے ساتھ وزیر موصوف بھی موجود تھے۔ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک نے اس چھ نکاتی معاہدے پر نہ صرف دستخط کئے بلکہ تحریری طور پر یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ یہ نکات بلوچستان کے اجتماعی سیاسی نکات ہیں اور حقیقت پر مبنی ہیں پی ٹی آئی قیادت ان مسائل کو حل کرے گی اب اٹھارہ ماہ گزر جانے کے بعد اخبارات میں ایسے بیانات دینا اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا کہ مسائل حل نہیں ہو سکتے قابل افسوس عمل ہے۔

بی این پی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس وقت قومی اسمبلی میں آزاد بنچوں پر بیٹھی ہے اور اس کی سیاسی و اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان کے اہم مسائل کی جانب حکمرانوں کی توجہ مبذول کرائے۔ اپنے اصولی موقف کے ذریعے پارٹی قائد سردار اختر مینگل نے پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر اس موقف کو دہرایا ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ صوبائی وزیر تعلیم کو بڑی دیر کے بعد یہ خیال آیا ہے کہ بی این پی کے چھ نکات پر عملدرآمد نہیں ہوگا ہم اب یقیناً ان کی قیادت سے باز پرس کریں گے کہ آیا مذاکراتی کمیٹی نے اپنی صوبائی قیادت کو یہ بات کہی ہے کہ وہ بی این پی کے چھ نکات پر عمل نہیں کرسکتی۔ اگر وزیر موصوف کے مطابق ان نکات پر عملدرآمد نہیں کرایا جاتا تو بی این پی اپنے فیصلوں میں آزاد ہے اور کسی کی پابند نہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کے اہم رہنما سردار یار محمد رند کے اس بیان اور بی این پی کے ترجمان کے جواب شکوہ سے یقیناً بلوچستان سے آنے والی ان گرم سیاسی ہواؤں کا رخ اسلام آباد میں سیاسی گرمی کو مزید گرمائے گا۔
Load Next Story