حکومت اور اپوزیشن میں محاذ آرائی ایوان کی کارروائی چلانا مشکل

اسی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے تینوں سابق وزراء خاموشی اختیار کیے ہوئے اچھے دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔

اسی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے تینوں سابق وزراء خاموشی اختیار کیے ہوئے اچھے دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔

RIO DE JANEIRO:
خیبرپختونخوا اسمبلی اپنی تمام تر سابقہ روایات کو بھول کر ایک نئی ڈگر پر چل پڑی ہے، وہ ایوان جو پختونوں کا جرگہ کہلایا کرتا تھا وہ حکومت و اپوزیشن کی مخاصمت کی وجہ سے مچھلی منڈی کا روپ دھار چکا ہے اور مسلسل احتجاج اور سپیکر کو ایوان کی کاروائی چلانے سے روکنے کی کوششوں سے نئی روایات جنم لے رہی ہیں جس کی بنیاد پر مستقبل میں بھی اسمبلی میں اسی طرز پر ہنگامہ آرائی اور احتجاج ہوا کرے گا۔

مذکورہ احتجاج بظاہر تو اس بنیاد پر کیاجا رہا ہے کہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر مشتاق غنی جانبدار ہو چکے ہیں اور وہ حکومتی پالیسی کے مطابق اسمبلی کی کاروائی چلاتے ہوئے اپوزیشن کو دیوار سے لگا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب سپیکر یہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ اسمبلی کو کسی کی ڈکٹیشن کی بجائے قواعد وضوابط کے مطابق چلارہے ہیں، اپوزیشن اور سپیکر کے درمیان جاری یہ تنازعہ درحقیقت اپوزیشن و حکومت کے درمیان تنازعہ ہے جس کے لیے صوبائی اسمبلی کا ایوان میدان جنگ بنا ہوا ہے اور حکومت کی جانب سے اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کا جواب بھی اسی ایوان میں دیاجا رہا ہے۔

صوبائی اسمبلی کا گیارہواں سیشن شروع ہوتے ہی جب اپوزیشن نے احتجاج کی راہ اختیار کی توحکومت شاید اس صورت حال کو سمجھ نہ سکی اس لیے اس میدان میں پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما ہونے کے باوجود سپیکر مشتاق غنی تنہا کھڑے دکھائی دیئے۔

تاہم دوسرے دن سے حکومت، سپیکر کے دفاع کے لیے میدان میں نکلی جس کی وجہ سے اسمبلی کا ماحول انتہائی کشیدہ صورت اختیار کرگیا اور ان سطور کو سپرد قلم کرتے وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ یہ تنازعہ اور کشیدگی بدستور برقرار ہے کیونکہ اپوزیشن پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں اور حکومت نہ تو سپیکر کو تنہا چھوڑ سکتی ہے اور نہ ہی اپوزیشن کے لیے میدان کھلا اس لیے کشیدگی بھی برقرار ہے اور ایوان کا ماحول بھی تناؤکا شکار،اپوزیشن کی جانب سے یہ احتجاج اچانک شروع نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ الزامات اس احتجاج کی وجہ ہیں کہ جو اپوزیشن کی جانب سے ایوان کے اندر سپیکر پر عائد کیے گئے بلکہ درحقیقت معاملہ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا ہے کہ جس پر اس سے قبل بھی اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج ہوچکا ہے۔

قارئین کو یاد ہی ہوگا کہ اس سے قبل بھی اپوزیشن جماعتوں نے ترقیاتی فنڈز کی عدم فراہمی پر اسمبلی کے اندر بھی بھرپور احتجاج کیا تھا اور جب ان کے احتجاج کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور صوبائی وزراء کی کمیٹی اور وزیراعلیٰ محمودخان کے ساتھ نشست بھی ترقیاتی فنڈز کے لیے راہ ہموار نہ کر سکی تو اپوزیشن ارکان وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور کے باہر دھرنا دینے اور احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور یہ ایک روزہ احتجاج بھرپور طریقے سے کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں وزیراعلیٰ کی ہدایت پر ایک مرتبہ پھر صوبائی وزراء پر مشتمل کمیٹی نے مذاکرات کا ڈول ڈالا اور اپوزیشن کو اس بات پر راضی کر لیا گیا تھا کہ ترقیاتی فنڈز کا 65 فیصد حصہ حکومتی ارکان کو ملے گا جبکہ 35 فیصد حصہ اپوزیشن کو دیا جائے گا، اس فارمولے پر دونوں جانب سے اتفاق بھی کر لیا گیا اوراپوزیشن کے منتخب ارکان سے ان کے حلقوں سے متعلق ترقیاتی سکیمیں بھی مانگ لی گئیں۔ البتہ اپوزیشن کی خواتین اور اقلیتی ارکان کو نظراندازکیا گیا تاہم ان سے بھی وزیراعلیٰ نے وعدہ کیا کہ انھیں بھی مایوس نہیں کیاجائے گا۔


لیکن اپوزیشن کے ساتھ جو وعدے کیے گئے اورترقیاتی فنڈز کی فراہمی کا جو لارا لگایا گیا وہ صرف دعووں تک ہی محدود رہا جبکہ دوسری جانب بقول اپوزیشن کے ان ہی کے حلقوں میں نہ صرف یہ کہ غیر منتخب ارکان کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے بلکہ صوبائی حکومت اپنے کھاتے میں پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی اور سینٹرز کو بھی ترقیاتی فنڈز سے نواز رہی ہے جبکہ اپوزیشن ارکان کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے جس کے بعد ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ اور آپشن باقی نہیں بچتا کہ وہ اپنا ردعمل ظاہر کریں اور ردعمل دینے کے لیے اپوزیشن ارکان نے صوبائی اسمبلی کے فورم کا انتخاب کیا جس کی وجہ سے بڑے جاندار طریقے سے اپوزیشن کا پیغام سب تک پہنچ رہا ہے۔

اس حوالے سے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمٰن کی تحریک کی ناکامی کی وجہ سے جمعیت علماء اسلام سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں میں جو مایوسی پائی جاتی ہے،اسمبلی فورم پر اسی مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے جس سے اپوزیشن کے ہاتھ کچھ آنے والانہیں۔

احتجاج کی وجہ کوئی سی بھی کیوں نہ ہو تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ ہفتے کے دوران صوبائی اسمبلی کے اجلاس جس طریقے سے چلتے رہے ہیں وہ کوئی مناسب طریقہ نہیں اور نہ ہی یہ طریقہ کار زیادہ دیر تک برقراررکھا جا سکتا ہے، بظاہر تو یہی نظرآرہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے ایک سو اسی ڈگری کے فاصلے پر ہیں تاہم وہ ایک دوسرے سے جتنے بھی فاصلے پر کیوں نہ ہوں انھیں بالآخر مذاکرات کی میز پر آنا ہی ہوگا کیونکہ معاملہ اگر ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا ہے یا اپوزیشن کی مایوسی کا، اس کا حل مذاکرات کی میز پر آکر ہی نکالاجا سکتا ہے جس کے لیے حکومت کو اپنا سینہ چوڑا اور دل بڑا کرنا ہوگا کیونکہ حکومتوں کا یہی وطیرہ رہا ہے، رہی بات اپوزیشن کی تو اگر حکومت، اپوزیشن کو رام نہیں کر سکتی تو وہ اسمبلیوں کے اندر بھی شور شرابہ کرتی ہے اور اسمبلیوں سے باہر بھی، تاہم ہوشیار حکمران اپنوں کے ساتھ غیروں کو بھی کنٹرول کرتے ہوئے معاملات چلاتے ہیں جس کے حوالے سے خود اکرم خان درانی اور امیر حیدر ہوتی کی مثالیں سامنے موجود ہیں۔

اس کے علاوہ پرویز خٹک کی مثال بھی موجود ہے جن کے شروع میں اپوزیشن کے ساتھ تعلقات درست نہ تھے اور اپوزیشن کو ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے پرویزخٹک سے بہت سے گلے شکوے تھے تاہم بعدازاں پرویز خٹک نے اپوزیشن کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کرتے ہوئے رام کر لیا اور اپنے پانچ سال پورے کیے،گو کہ محمودخان کے لیے پرویزخٹک کی نسبت مشکلات اور مسائل اس اعتبار سے زیادہ ہیں کہ انھیں اندرونی طور پر بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انھیں چیلنج کرنے والے کھل کر سامنے موجود بھی ہیں جنھیں سردست تو وزیراعلیٰ نے منظر سے ہٹا دیا ہے تاہم خطرہ بہرکیف ٹلا نہیں لیکن ان خطرات کے ساتھ وزیراعلیٰ کو اپوزیشن کو رام بھی کرنا ہے جس کے لیے ان کی چند مسکراہٹیں اور فنڈز کی فراہمی کا آغاز ہی کافی ہوگا ۔

رہی بات پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی معاملات اور اختلافات کی توکابینہ سے فارغ کیے جانے والے تینوں سابق وزراء عاطف خان ،شہرام ترکئی اور شکیل احمد نہ صرف یہ کہ کابینہ سے فارغ ہونے کے باوجود باقاعدہ طور پر میڈیا کے سامنے آنے سے کنی کترا رہے ہیں بلکہ وہ اسمبلی کا بھی رخ نہیں کر رہے اور کابینہ سے فارغ ہونے کے بعد اسمبلی کا سیشن شروع ہونے کے بعد سے اب تک انہوں نے اسمبلی کا رخ نہیں کیا کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اگر وہ اسمبلی آتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ انھیں وزراء سے ہٹ کر عام ارکان کے ساتھ پچھلی نشستوں پر بیٹھنا پڑے گا جس کا انتظام اسمبلی میں کر لیا گیا ہے بلکہ انھیں اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے اسمبلی میں بات بھی کرنی ہوگی اور وہ فی الحال اسمبلی کے فلور پر ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتے کہ جس سے وہ اپنا کیس مزید خراب کر لیں کیونکہ ان کے خلاف جو مضبوط گروپ موجود ہے۔

وہ پوری طرح فعال ہے جو انھیں کابینہ سے فارغ کرانے کے بعد آرام سے نہیں بیٹھا بلکہ پوری طرح فعال اور متحرک ہے اور ان کی واپسی کی راہ ہر صورت روکنا چاہتا ہے، مذکورہ گروپ صوبہ میں بھی متحرک ہے اور مرکز میں بھی اور پارٹی چیئرمین کے نزدیک بھی ہے یہی وجہ ہے کہ مذکورہ وزراء کی فوری طور پر واپسی کے راستے بند ہی نظر آرہے ہیں جنھیں مزید زور دینے کے لیے ان کے آبائی اضلاع میں جلسوں کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے تاکہ برسراقتدار گروپ اپنی مضبوط پوزیشن کی دھاک بٹھانے کے ساتھ راندہ درگاہ گروپ کو مزید کمزور بھی کر سکے، شاید اسی صورت حال کا ادراک کرتے ہوئے تینوں سابق وزراء خاموشی اختیار کیے ہوئے اچھے دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
Load Next Story