’’مضبوط اعصاب‘‘ والے مردوں میں خودکشی کا زیادہ رجحان ہوتا ہے تحقیق
مضبوط ہونے کے دعویدار لوگ جذباتی طور پر کھوکھلے ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر خودکشی کرلیتے ہیں
مضبوط اعصاب کا مالک ہونا مردانگی کی دلیل ہے جس کےلیے ہمارے یہاں ''مرد کو درد نہیں ہوتا'' جیسے جملے بھی مشہور ہیں لیکن ایک حالیہ مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ ''مضبوط'' ہونے کے دعوے کرنے والے مردوں میں خودکشی کا رجحان بھی اپنے کمزور ہونے کا اعتراف کرنے والے آدمیوں کے مقابلے میں تقریباً ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔
یہ تحقیق گریجویٹ اسکول آف سوشل سروسز، فورڈہام یونیورسٹی، نیویارک سٹی میں کی گئی جس میں بیس سال تک جاری رہنے والے ایک مطالعے میں 20,700 افراد سے حاصل شدہ معلومات سے استفادہ کیا گیا۔ 1995 میں یہ مطالعہ ایسے امریکی لڑکے اور لڑکیوں پر شروع کیا گیا جو اُس وقت 13 سے 17 سال تک کے، یعنی ''نوبالغ'' تھے۔
2014 تک جاری رہنے والے اس مطالعے میں ان تمام افراد سے ان کی عادت، مزاج، رہن سہن، خاندانی پس منظر، ارد گرد کے ماحول، چلنے پھرنے اور پڑھنے لکھنے سمیت، زندگی کے تقریباً ہر پہلو سے متعلق سوالنامے بھروائے جاتے رہے تاکہ ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت پر نظر رکھی جاسکے۔
ان تمام معلومات کا تجزیہ کرنے پر انکشاف ہوا کہ مطالعے میں حصہ لینے والے 22 لوگ اس دوران خودکشی کرچکے تھے جن میں سے 21 مرد تھے۔
جب مزید کھنگالا گیا تو یہ بھی معلوم ہوا کہ خودکشی کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ تھے جنہوں نے مطالعے کے دوران اپنے بارے میں کہا تھا کہ وہ نہیں روتے، جذباتی نہیں ہوتے، اپنے موڈ کی غلامی نہیں کرتے، جسمانی طور پر خود کو مضبوط اور صحت مند رکھتے ہیں، اور ''خطروں کے کھلاڑی'' ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ ''مضبوط اعصاب'' والے ''بہادر مرد'' ہونے کے دعویدار تھے۔
ان کے برعکس وہ لوگ تھے جنہوں نے خود کو کمزور قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ جلد ہی جذباتی ہوجاتے ہیں، رو پڑتے ہیں اور مشکل کا احساس کرتے ہی فوراً کسی نہ کسی سے مدد مانگنے پہنچ جاتے ہیں۔
جب ان ''مضبوط'' اور ''کمزور'' افراد کا آپس میں موازنہ کیا گیا تو پتا چلا کہ کمزور لوگوں کی نسبت مضبوط ''مردوں'' میں خودکشی کا رجحان 240 فیصد (تقریباً ڈھائی گنا) زیادہ تھا۔
ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مطالعے کے سربراہ ڈینیئل کولمین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ''مردانگی'' پر فخر کے نتیجے میں ایسے لوگ اپنی حقیقی جذباتی کیفیت چھپانے کے عادی ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے نفسیاتی الجھنیں ان کے اندر ہی اندر پروان چڑھتی رہتی ہیں۔ نتیجتاً یہ لوگ جذباتی طور پر کھوکھلے ہوجاتے ہیں اور دوسروں کے سامنے اپنا حالِ دل بیان کرنے کے بجائے مایوسی کی دلدل میں اترتے چلے جاتے ہیں؛ اور بالآخر خودکشی کرلیتے ہیں۔
اس مطالعے کی تفصیلات تحقیقی مجلے ''جاما سائیکیاٹری'' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔
یہ تحقیق گریجویٹ اسکول آف سوشل سروسز، فورڈہام یونیورسٹی، نیویارک سٹی میں کی گئی جس میں بیس سال تک جاری رہنے والے ایک مطالعے میں 20,700 افراد سے حاصل شدہ معلومات سے استفادہ کیا گیا۔ 1995 میں یہ مطالعہ ایسے امریکی لڑکے اور لڑکیوں پر شروع کیا گیا جو اُس وقت 13 سے 17 سال تک کے، یعنی ''نوبالغ'' تھے۔
2014 تک جاری رہنے والے اس مطالعے میں ان تمام افراد سے ان کی عادت، مزاج، رہن سہن، خاندانی پس منظر، ارد گرد کے ماحول، چلنے پھرنے اور پڑھنے لکھنے سمیت، زندگی کے تقریباً ہر پہلو سے متعلق سوالنامے بھروائے جاتے رہے تاکہ ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت پر نظر رکھی جاسکے۔
ان تمام معلومات کا تجزیہ کرنے پر انکشاف ہوا کہ مطالعے میں حصہ لینے والے 22 لوگ اس دوران خودکشی کرچکے تھے جن میں سے 21 مرد تھے۔
جب مزید کھنگالا گیا تو یہ بھی معلوم ہوا کہ خودکشی کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ تھے جنہوں نے مطالعے کے دوران اپنے بارے میں کہا تھا کہ وہ نہیں روتے، جذباتی نہیں ہوتے، اپنے موڈ کی غلامی نہیں کرتے، جسمانی طور پر خود کو مضبوط اور صحت مند رکھتے ہیں، اور ''خطروں کے کھلاڑی'' ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ ''مضبوط اعصاب'' والے ''بہادر مرد'' ہونے کے دعویدار تھے۔
ان کے برعکس وہ لوگ تھے جنہوں نے خود کو کمزور قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ جلد ہی جذباتی ہوجاتے ہیں، رو پڑتے ہیں اور مشکل کا احساس کرتے ہی فوراً کسی نہ کسی سے مدد مانگنے پہنچ جاتے ہیں۔
جب ان ''مضبوط'' اور ''کمزور'' افراد کا آپس میں موازنہ کیا گیا تو پتا چلا کہ کمزور لوگوں کی نسبت مضبوط ''مردوں'' میں خودکشی کا رجحان 240 فیصد (تقریباً ڈھائی گنا) زیادہ تھا۔
ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مطالعے کے سربراہ ڈینیئل کولمین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ''مردانگی'' پر فخر کے نتیجے میں ایسے لوگ اپنی حقیقی جذباتی کیفیت چھپانے کے عادی ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے نفسیاتی الجھنیں ان کے اندر ہی اندر پروان چڑھتی رہتی ہیں۔ نتیجتاً یہ لوگ جذباتی طور پر کھوکھلے ہوجاتے ہیں اور دوسروں کے سامنے اپنا حالِ دل بیان کرنے کے بجائے مایوسی کی دلدل میں اترتے چلے جاتے ہیں؛ اور بالآخر خودکشی کرلیتے ہیں۔
اس مطالعے کی تفصیلات تحقیقی مجلے ''جاما سائیکیاٹری'' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔