نان بائیوں کے تنور جدید شیرمال ہاؤس اور ہوٹلوں میں تبدیل ہوگئے

کراچی میں اس وقت ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد پکے تنور اور5ہزار سے زائد کچے تنور والے ہوٹل قائم ہیں، ایکسپریس سروے

ہوٹل میں نان بائی تنور پر روٹیاں پکانے میں مصروف ہے فوٹو: محمد ثاقب/ایکسپریس

دنیا کا قدیم ترین اور انسانی زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل پیشہ '' نان بائی '' وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب خود کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کررہا ہے اور اب نئی نسل نان بائی کو روٹی پکانے والا کہتی ہے۔

کسی زمانے میں نان بائیوں کی جانب سے کچے تنور پر لکڑی سے جلنے والی آگ پر روٹی پکائی جاتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت تبدیل ہوتا گیا جدید تکنیک متعارف ہوتی گئی تو کچے تنور کی جگہ پکے تنور نے لے لی اور لکڑی کے بجائے گیس سے جلنے والی آگ پر روٹی پکائی جانے لگی،سادہ نان (روٹی)کے ساتھ شیرمال، تافتان، دودھ والی روٹی، بیسنی روٹی ، سوجی اور مختلف اقسام کے پراٹھے بھی متعارف ہوئے اور نان بائیوں کے تنور جدید شیرمال ہاؤسز اور ہوٹلوں میں تبدیل ہوگئے، ایکسپریس نے نان بائی کے پیشے سے متعلق ایک سروے کیا، اس سروے کے دوران لیاقت آباد میں نان بائی کے پیشے سے 40 سال سے منسلک اور مقامی ہوٹل کے مالک منور حسین نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نان بائی کا پیشہ دنیا کا قدیم ترین پیشہ ہے۔

کراچی میں 1980سے پہلے تک 70 فیصد علاقوں میں کچے تنور ہوا کرتے تھے جہاں لکڑی کی آگ پر روٹی پکائی جاتی تھی لیکن جیسے جیسے وقت بدلتا گیا اور گیس مختلف علاقوں میں لگائی جانے لگی اسی طرح نان بائی کے پیشے پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے اور کچے تنور کی جگہ پکے تنوروں نے لے لی، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں نان بائیوں نے اب تنوروں کے ساتھ ہوٹل بھی قائم کرلیے ہیں،کراچی شہر میں اس وقت ایک 30 ہزار سے زائد تنور بمعہ ہوٹل قائم ہیں اور ان میں ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد پکے تنور والے ہوٹل اور 5 ہزار سے زائد کچے تنور والے ہوٹل قائم ہیں،انھوں نے بتایا کہ کچے تنور پر کیکر کی لکڑی کی مدد سے آگ جلا کر سادہ نان ( روٹی ) پکائی جاتی ہے،یہ آگ ٹھنڈی ہوتی ہے اور اس پر پکائی جانے والی روٹی کا ذائقہ منفرد ہوتا ہے۔




انھوں نے بتایا کہ کچے تنور کی روٹی کو پتیری روٹی بھی کہتے ہیں، یہ لال آٹے کی روٹی ہوتی ہے، انھوں نے بتایا کہ پکے تنور پر پکائی جانے والی روٹی کو نان کہتے ہیں، یہ فائن آٹے سے تیار کی جاتی ہے اور یہ روٹی گیس جلائی جانے والی آگ پر پکائی جاتی ہے اور ان تنور کی آگ گرم ہوتی ہے، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں اس وقت ایک لاکھ 40 ہزار نان بائی ہیں اور جبکہ تنور پر کام کرنے والے کاریگروں کی تعداد 2 لاکھ سے زائد ہے، انھوں نے کہا کہ اس پیشے سے 70 فیصد سرائیکی اور پنجابی وابستہ ہیں جبکہ 20 فیصد پٹھان ، افغان ، بلوچ اور دیگر قوموں کے لوگ وابستہ ہیں،انھوں نے بتایا کہ نان بائیوں کی اکثریت کا تعلق فیصل آباد ، لاہور ، راولپنڈی ، ملتان ، ساہیوال اور دیگر علاقوں سے ہے،منور حسین نے بتایا کہ ایک نان بائی کچے تنور پر 14 گھنٹے اور پکے تنور پر 12 گھنٹے کام کرتا ہے،کچے تنور پر کام کرنے والے کاریگر کی اجرت 550 روپے اور پکے تنور پر کام کرنے والے کاریگر کی اجرت 650 روپے ہوتی ہے، ان کے ساتھ منسلک کاریگروں کی اجرت 350 روپے سے لیکر 450 روپے ہوتی ہے، علاوہ ازیں نان بائی کا پیشہ نسل در نسل چلتا ہے،کراچی میں بیشتر نان بائی کی اولادیں اب بھی اپنے آبائی پیشے سے منسلک ہیں جبکہ اس پیشے شاگرد بھی بنائے جاتے ہیں اور ایک شاگرد 15 ماہ میں نان بائی بن جاتا ہے۔

پکا تنور لگانے میں70 ہزار سے ایک لاکھ تک خرچ آتا ہے

کراچی میں پکے تنور لگانے کے اخراجات 70 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک آتے ہیں،پکے تنور کی چوڑائی ڈھائی فٹ ہوتی ہے، یہ لوہے کا مکمل جال ہوتا ہے جو کراچی کے علاقے عیدگاہ میں تیار کیا جاتا ہے،یہ جال 40 ہزار روپے کا تیار ہوتا ہے اور اس پر برنل کے بڑے توے رکھے جاتے ہیں، اس تنور کے لیے خصوصی اینٹیں پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے آتی ہیں، ایک اینٹ کی قیمت 60 روپے ہوتی ہیں جو کراچی کے علاقے گارڈن میں ملتی ہیں جبکہ تنور بنانے کے لیے چکنی مٹی استعمال ہوتی ہے جس کا ایک 50 کلو کا تھیلا 350 روپے کا ملتا ہے،اس تنور کو ماہر کاریگر تیار کرتے ہیں ، جن کی تعداد کراچی میں 400 کے قریب ہے، ایک تنور بنانے میں 5 روز لگتے ہیں اور اس کی اجرت 10ہزار روپے لی جاتی ہے، اس تنور کے جال کی مدت 15 سال ہوتی ہے، اس تنورپر آگ گیس سے جلائی جاتی ہے، گرمائش کی وجہ سے اس تنور کے ساتھ منسلک مٹی کا پلاستر پھٹ جاتا ہے جو ہر سال تبدیل کیا جاتا ہے۔

کچا تنور 3 دن میں تیار ہو جاتا ہے

کراچی میں کچے تنور بلدیہ ٹاؤن سے تعلق رکھنے والے تنوری کمہار تیار کرتے ہیں، ان کاریگروں کی تعداد کراچی میں 100 کے قریب ہے، کچے تنور گوجرانوالہ کی خصوصی مٹی سے تیار کیے جاتے ہیں یہ چکنی مٹی ہوتی ہے،یہ تنور 3 دن میں تیار ہو جاتا ہے،اس کی گہرائی 6 فٹ ہوتی ہے، اس کو بنانے میں 20 ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں اور یہ تنور ہر سال بنایا جاتا ہے، اس تنور میں آگ خصوصی کاریگر جلاتا ہے کیونکہ لکڑی جلنے کے بعد دھواں پیدا ہوتا ہے ہوا کے رخ پر آگ کی گرمائش کو کم کیا جاتا ہے، اس پر لال آٹے کی روٹی تیار کی جاتی ہے،اس تنور پر ایک کاریگر کام کرتا ہے۔
Load Next Story