عورت مارچ یاانتہا پسندی کا بدترین مظاہرہ
جو معاشرہ یا نظام اپنے تخلیقی فریم سے ہٹ جاتا ہے وہ ختم ہوجایا کرتا ہے۔
KARACHI:
پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی دنیا کی واحد ریاست ہے،1947 سے لے کرآج تک دنیا کے نقشے پر کوئی اور ایسی ریاست سامنے نہیں آئی جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو۔ ہندوستان سے مسلمانوں کو کھینچ کر جو چیز پاکستان لائی، وہ کلمہ طیبہ ہی تھا۔
اسلام ہی اس ملک کی اصل قوت ہے، جو قوت کسی ملک یا معاشرے کے بننے کا سبب ہوتی ہے وہی قوت اس کے قائم رہنے اور مضبوطی کی ضامن بھی ہوا کرتی ہے ۔ جو معاشرہ یا نظام اپنے تخلیقی فریم سے ہٹ جاتا ہے وہ ختم ہوجایا کرتا ہے۔ کوئی الٹا لٹک کر بھی اس ملک کو سیکولر ازم کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرے گا، اسے تب بھی منہ کی کھانی پڑے گی، کیونکہ پاکستان کی بنیاد اسلام تھا ، ہے اور رہے گا۔
وہ اسلام جسے مکمل دین قرار دیا گیا ہے، وہ اسلام جس کا اپنا ایک طاقتور ترین کلچر ہے، وہ اسلام جو اپنا ایک مستقل آئینی و قانونی نظام رکھتا ہے، وہ اسلام جو آج 14سو سال گزرنے کے بعد بھی ہر سیاسی، سماجی،معاشی اور معاشرتی مسئلے کا حل بتاتا ہے۔ وہ اسلام جو بار بار انسانیت کو دعوت دیتا ہے کہ میرے نظریہ حیات کو اپناکر تو دیکھو تمہاری سیاسی و تمدنی اور تہذیبی زندگی میں نمایاں اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔
سات دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ہمارا ہر قدم ہمیں منزل سے دور لے جارہا ہے۔ کون ہے جوہمیں ہماری منزل سے دور کرتا چلا جارہا ہے؟ یہ سوال جتنا آسان ہے اس کا جواب اتنا ہی مشکل ہے کیونکہ وہ جو ہمیں ہماری منزل سے دور کر رہے ہیں وہ کوئی غیر نہیں، ہمارے اپنے ہیں لیکن بھٹکے ہوئے ہیں اور بھٹکے ہوؤں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، وہ خود کو مسلمان تو کہتے ہیں لیکن اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں۔
انھیں جب کبھی موقعے ملتا ہے یہ برسات کے مینڈکوں کی طرح باہر نکلتے ہیں اور اسلام اور اسلامی اقدار کا مذاق اڑانے کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے،بدترین انتہا پسندی کا انتہائی بھونڈے انداز میں مظاہرہ کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، یہی لوگ ابھی چند ہفتے قبل لاہور کے ایک نجی کالج کے احاطے میں ''سرخ ہے سرخ ہے۔۔۔۔ ایشیاء سرخ ہے'' کے نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیے، ان احمقوں کو اب کون سمجھائے کہ تمہارا سرخ انقلاب چار دہائیاں قبل افغانستان کی وادیوں میں دفن ہوچکا ہے، اب اس ملک کا مقدر صرف اور صرف سبز انقلاب سے ہی جڑا ہے،اسی طبقے نے اس سے قبل آٹھ مارچ کے موقعے پر عورت مارچ کا اہتمام کیا جو پوری دنیا میں مملکت خداد داد کے لیے جگ ہنسائی کا سبب بنا۔
8مارچ کو حقوق نسواں کا دن پاکستان میں بھی ایک عرصے سے منایا جا رہا ہے، مگر گزشتہ برس پاکستان میں اس دن کو منانے والوں نے متنازع پلے کارڈز اٹھا کر نئے انداز میں اپنی شناخت بنائی اور اس سال تو حد ہی ہوگئی۔ درجن بھر خواتین کے ہاتھوں میں جو کتبے اور زبان پر جو نعرے تھے وہ انتہائی بیہودہ اور اخلاق باختہ تھے۔ اس ایونٹ کا دفاع خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی ایکٹوسٹ بھی کرنے سے قاصر نظرآئیں ۔
کوئی کتنا ہی روشن خیال کیوں نہ ہو ''میرا جسم میری مرضی'' جیسے نعرے بلند کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ خواتین کے عالمی دن کی آڑ میں جو کھیل کھیلا گیا وہ دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا۔ مگر ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ان نیم مغرب زدہ چند نام نہاد روشن خیالوں کے گرد گھیرا تنگ نہیں کیا جاسکا۔
اس ایونٹ کی اجازت کس نے دی ؟ ذمے داری کا تعین آج تک نہیں ہوسکا اور اب اطلاعات یہ ہیں کہ ایک بار پھر 8مارچ کے موقعے پر حقوق نسواں کے عالمی دن کی آڑ میں ایسے ہی مارچ کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اگر گزشتہ سال ریاست حرکت میں آتی تو آج ہمیں ایک بار پھر اس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ جس رنگ ڈھنگ سے گزشتہ سال عورت مارچ کا اہتمام کیا گیا اس پر معاشرے کا ہر طبقہ غم و غصے کا اظہار کر رہا تھا ، کیونکہ اس مارچ کے ذریعے جو اچھل کود کی گئی اس سے 8مارچ حقوق نسواں کے عالمی دن سے زیادہ مردوں سے نفرت کا عالمی دن محسوس ہوا۔ اسلام اور اسلامی اقدار سے بیزار یہ طبقہ ہمارے مضبوط خاندانی نظام کی جڑوں کو کاٹنے کے درپے ہے۔
انسانی حقوق اور انسانی اقدار کی باتیں کرنے والے اس نام نہاد روشن خیال طبقے سے سوال ہے کہ کیا عورت کی اس سے بڑھ کر کوئی ذلت ہوسکتی ہے کہ سگا باپ اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرکے آتا ہے اور معاشرہ اس قبیح جرم پر اسے ملامت کرنے کے بجائے دادو تحسین سے نوازتا ہے حالانکہ یہ بہت بڑا جرم ہے۔
قرآن مقدس میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ''قیامت کے دن سب سے پہلا فیصلہ قتل کا ہوگا''۔ سب سے پہلا سوال نماز کا ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں قتل کے تمام کیسوں میں سب سے پہلا فیصلہ ان بچیوں کے قتل کا ہوگا جنھیں زندہ درگور کردیا گیا تھا۔ ظالم باپ کٹہرے میں ہوگا اور اللہ ان بچیوں سے پوچھے گا کس جرم میں تمہیں قتل کیا گیا ؟۔ ان بچیوں کو تو معلوم نہیں ہوگا کہ ان کا جرم کیا تھا کیونکہ وہ تو ابھی شعور کو پہنچنے سے پہلے ہی قتل کر دی گئی تھیں، ابھی تو ان کے دماغ پرورش کے مراحل سے گزر رہے تھے کہ انھیں زندہ منوں مٹی تلے دبا دیا گیا۔
ان معصوموں کو کیا خبر کہ ان پرقیامت کیوں ڈھائی گئی ، ظالم باپ نے ان پر قہر کیوں توڑا۔ لیکن اللہ رب العزت سوال ان مقتول بچیوں سے ہی کرے گا حالانکہ کٹہرے میں قاتل باپ بھی ہوگا لیکن اللہ رب العزت ان ظالموں سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کریگا۔ اللہ کے پیارے پیغمبر نبی رحمتﷺ نے آکر کہا کہ ''بیٹیوں کو قتل کرنے والو سن لو، میری بیٹی فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے''۔ جس دور اور جس معاشرے میں باپ بیٹیوں کو زندہ درگور کرکے فخر محسوس کرتے تھے اور سماج اس قاتل باپ کے گلے میں داد و تحسین کے گجرے ڈالتا تھا اس معاشرے میں اپنی بیٹی کے لیے یہ بات کہنا کہ میری بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا ہے، یہ تھا وہ سبز انقلاب،جس نے عورت کی عظمت کو بلند کیا ، اسے حق دیا اور پاکستان کا مقدر اسی سبز انقلاب سے وابستہ ہے۔
کوئی بھی مسلمان روشن خیالی کا مخالف نہیں ہو سکتاکیونکہ اسلام ہی نے روشن خیالی کو متعارف کرایا ہے ۔ قرآن، اللہ کا نازل کردہ علم ہے جس میں ہر جگہ سوچ بچار کا حکم دیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت کے اندھیروں کو قرآن کے ذریعے روشن کیا گیا۔ عورت ہو یا مرد سب کو ان کے حقوق سے روشناس کیا گیا اور ان کی حفاظت کی گئی، مضبوط معاشرتی نظام دیا گیا۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہوگا جس میں اسلام نے حق سے زیادہ حصہ ادا نہ کیا ہو۔
انسان تو انسان، جانوروں کے حقوق بھی وضع کیے گئے، جس سے ایک نئی موثر اسلامی تہذیب نے جنم لیا، یہ روشن خیالی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ میرا جسم میری مرضی روشن خیالی نہیں ، فحاشی و عریانی ہے، مادر پدر آزاد معاشرہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، مغرب نے اسے اپنایا ان کا خاندانی نظام تباہ و برباد ہو گیا۔ ہم اگر حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے۔ امریکا میں ایک سال کے دوران 2.3ملین ہونے والی شادیوں میں سے 1.3طلاق پر ختم ہوگئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حالات کے پیش نظرہر دس میں سے چارشادیوں کا انجام طلاق ہوگا۔ 60فیصد طلاقیں 25 سے39 سال کی عمر کے جوڑوں میں ہوتی ہیں۔
عموماً طلاق کے بعد 75 سے 80 فیصد افراد دوبارہ شادی کرتے ہیں جن کی طلاق کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا میں طلاق کی شرح پچاس فیصد، کیوبا میں 75 فیصد اور اسکاٹ لینڈ میں چالیس فیصد ہے۔ امریکا کی مختلف ریاستوں کی شرح طلاق میں آنے والے سال میں اضافہ ہورہا ہے۔یہ ہے وہ مغربی معاشرہ جہاں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے اور اس میں سب سے زیادہ عورت ہی ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔
ہمارے نام نہاد روشن خیال اس نظام کو پاکستان پر بھی مسلط کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق اسلام کی پیروکاری کی وجہ سے مسلمان نئی سوچ کی نفی کرتا ہے، جس کی وجہ سے آج مسلمان زوال کا شکار ہے۔وہ اسلام کانام لینے والوں کو انتہا پسند کہتے ہیں حالانکہ سب سے بڑے انتہا پسند وہ خود ہیں۔ یہ لوگ اس ملک کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لیے پہلے ہی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ، اس سے بھی زیادہ زور لگانے کی طاقت رکھتے ہیں تو وہ بھی لگا لیں لیکن پاکستان کو اسلام سے دور نہیں کرسکتے، یہ عناصر ایک بار پھر 8 مارچ کی آڑ میں مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اس بار انھیں کھل کھیلنے کا موقعے نہیں ملنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ریاست کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔
پاکستان کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی دنیا کی واحد ریاست ہے،1947 سے لے کرآج تک دنیا کے نقشے پر کوئی اور ایسی ریاست سامنے نہیں آئی جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو۔ ہندوستان سے مسلمانوں کو کھینچ کر جو چیز پاکستان لائی، وہ کلمہ طیبہ ہی تھا۔
اسلام ہی اس ملک کی اصل قوت ہے، جو قوت کسی ملک یا معاشرے کے بننے کا سبب ہوتی ہے وہی قوت اس کے قائم رہنے اور مضبوطی کی ضامن بھی ہوا کرتی ہے ۔ جو معاشرہ یا نظام اپنے تخلیقی فریم سے ہٹ جاتا ہے وہ ختم ہوجایا کرتا ہے۔ کوئی الٹا لٹک کر بھی اس ملک کو سیکولر ازم کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرے گا، اسے تب بھی منہ کی کھانی پڑے گی، کیونکہ پاکستان کی بنیاد اسلام تھا ، ہے اور رہے گا۔
وہ اسلام جسے مکمل دین قرار دیا گیا ہے، وہ اسلام جس کا اپنا ایک طاقتور ترین کلچر ہے، وہ اسلام جو اپنا ایک مستقل آئینی و قانونی نظام رکھتا ہے، وہ اسلام جو آج 14سو سال گزرنے کے بعد بھی ہر سیاسی، سماجی،معاشی اور معاشرتی مسئلے کا حل بتاتا ہے۔ وہ اسلام جو بار بار انسانیت کو دعوت دیتا ہے کہ میرے نظریہ حیات کو اپناکر تو دیکھو تمہاری سیاسی و تمدنی اور تہذیبی زندگی میں نمایاں اثرات ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔
سات دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ہمارا ہر قدم ہمیں منزل سے دور لے جارہا ہے۔ کون ہے جوہمیں ہماری منزل سے دور کرتا چلا جارہا ہے؟ یہ سوال جتنا آسان ہے اس کا جواب اتنا ہی مشکل ہے کیونکہ وہ جو ہمیں ہماری منزل سے دور کر رہے ہیں وہ کوئی غیر نہیں، ہمارے اپنے ہیں لیکن بھٹکے ہوئے ہیں اور بھٹکے ہوؤں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، وہ خود کو مسلمان تو کہتے ہیں لیکن اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں۔
انھیں جب کبھی موقعے ملتا ہے یہ برسات کے مینڈکوں کی طرح باہر نکلتے ہیں اور اسلام اور اسلامی اقدار کا مذاق اڑانے کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے،بدترین انتہا پسندی کا انتہائی بھونڈے انداز میں مظاہرہ کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، یہی لوگ ابھی چند ہفتے قبل لاہور کے ایک نجی کالج کے احاطے میں ''سرخ ہے سرخ ہے۔۔۔۔ ایشیاء سرخ ہے'' کے نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیے، ان احمقوں کو اب کون سمجھائے کہ تمہارا سرخ انقلاب چار دہائیاں قبل افغانستان کی وادیوں میں دفن ہوچکا ہے، اب اس ملک کا مقدر صرف اور صرف سبز انقلاب سے ہی جڑا ہے،اسی طبقے نے اس سے قبل آٹھ مارچ کے موقعے پر عورت مارچ کا اہتمام کیا جو پوری دنیا میں مملکت خداد داد کے لیے جگ ہنسائی کا سبب بنا۔
8مارچ کو حقوق نسواں کا دن پاکستان میں بھی ایک عرصے سے منایا جا رہا ہے، مگر گزشتہ برس پاکستان میں اس دن کو منانے والوں نے متنازع پلے کارڈز اٹھا کر نئے انداز میں اپنی شناخت بنائی اور اس سال تو حد ہی ہوگئی۔ درجن بھر خواتین کے ہاتھوں میں جو کتبے اور زبان پر جو نعرے تھے وہ انتہائی بیہودہ اور اخلاق باختہ تھے۔ اس ایونٹ کا دفاع خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی ایکٹوسٹ بھی کرنے سے قاصر نظرآئیں ۔
کوئی کتنا ہی روشن خیال کیوں نہ ہو ''میرا جسم میری مرضی'' جیسے نعرے بلند کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ خواتین کے عالمی دن کی آڑ میں جو کھیل کھیلا گیا وہ دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا۔ مگر ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ان نیم مغرب زدہ چند نام نہاد روشن خیالوں کے گرد گھیرا تنگ نہیں کیا جاسکا۔
اس ایونٹ کی اجازت کس نے دی ؟ ذمے داری کا تعین آج تک نہیں ہوسکا اور اب اطلاعات یہ ہیں کہ ایک بار پھر 8مارچ کے موقعے پر حقوق نسواں کے عالمی دن کی آڑ میں ایسے ہی مارچ کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اگر گزشتہ سال ریاست حرکت میں آتی تو آج ہمیں ایک بار پھر اس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ جس رنگ ڈھنگ سے گزشتہ سال عورت مارچ کا اہتمام کیا گیا اس پر معاشرے کا ہر طبقہ غم و غصے کا اظہار کر رہا تھا ، کیونکہ اس مارچ کے ذریعے جو اچھل کود کی گئی اس سے 8مارچ حقوق نسواں کے عالمی دن سے زیادہ مردوں سے نفرت کا عالمی دن محسوس ہوا۔ اسلام اور اسلامی اقدار سے بیزار یہ طبقہ ہمارے مضبوط خاندانی نظام کی جڑوں کو کاٹنے کے درپے ہے۔
انسانی حقوق اور انسانی اقدار کی باتیں کرنے والے اس نام نہاد روشن خیال طبقے سے سوال ہے کہ کیا عورت کی اس سے بڑھ کر کوئی ذلت ہوسکتی ہے کہ سگا باپ اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرکے آتا ہے اور معاشرہ اس قبیح جرم پر اسے ملامت کرنے کے بجائے دادو تحسین سے نوازتا ہے حالانکہ یہ بہت بڑا جرم ہے۔
قرآن مقدس میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ''قیامت کے دن سب سے پہلا فیصلہ قتل کا ہوگا''۔ سب سے پہلا سوال نماز کا ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں قتل کے تمام کیسوں میں سب سے پہلا فیصلہ ان بچیوں کے قتل کا ہوگا جنھیں زندہ درگور کردیا گیا تھا۔ ظالم باپ کٹہرے میں ہوگا اور اللہ ان بچیوں سے پوچھے گا کس جرم میں تمہیں قتل کیا گیا ؟۔ ان بچیوں کو تو معلوم نہیں ہوگا کہ ان کا جرم کیا تھا کیونکہ وہ تو ابھی شعور کو پہنچنے سے پہلے ہی قتل کر دی گئی تھیں، ابھی تو ان کے دماغ پرورش کے مراحل سے گزر رہے تھے کہ انھیں زندہ منوں مٹی تلے دبا دیا گیا۔
ان معصوموں کو کیا خبر کہ ان پرقیامت کیوں ڈھائی گئی ، ظالم باپ نے ان پر قہر کیوں توڑا۔ لیکن اللہ رب العزت سوال ان مقتول بچیوں سے ہی کرے گا حالانکہ کٹہرے میں قاتل باپ بھی ہوگا لیکن اللہ رب العزت ان ظالموں سے بات کرنا بھی گوارا نہیں کریگا۔ اللہ کے پیارے پیغمبر نبی رحمتﷺ نے آکر کہا کہ ''بیٹیوں کو قتل کرنے والو سن لو، میری بیٹی فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے''۔ جس دور اور جس معاشرے میں باپ بیٹیوں کو زندہ درگور کرکے فخر محسوس کرتے تھے اور سماج اس قاتل باپ کے گلے میں داد و تحسین کے گجرے ڈالتا تھا اس معاشرے میں اپنی بیٹی کے لیے یہ بات کہنا کہ میری بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا ہے، یہ تھا وہ سبز انقلاب،جس نے عورت کی عظمت کو بلند کیا ، اسے حق دیا اور پاکستان کا مقدر اسی سبز انقلاب سے وابستہ ہے۔
کوئی بھی مسلمان روشن خیالی کا مخالف نہیں ہو سکتاکیونکہ اسلام ہی نے روشن خیالی کو متعارف کرایا ہے ۔ قرآن، اللہ کا نازل کردہ علم ہے جس میں ہر جگہ سوچ بچار کا حکم دیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت کے اندھیروں کو قرآن کے ذریعے روشن کیا گیا۔ عورت ہو یا مرد سب کو ان کے حقوق سے روشناس کیا گیا اور ان کی حفاظت کی گئی، مضبوط معاشرتی نظام دیا گیا۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہوگا جس میں اسلام نے حق سے زیادہ حصہ ادا نہ کیا ہو۔
انسان تو انسان، جانوروں کے حقوق بھی وضع کیے گئے، جس سے ایک نئی موثر اسلامی تہذیب نے جنم لیا، یہ روشن خیالی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ میرا جسم میری مرضی روشن خیالی نہیں ، فحاشی و عریانی ہے، مادر پدر آزاد معاشرہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، مغرب نے اسے اپنایا ان کا خاندانی نظام تباہ و برباد ہو گیا۔ ہم اگر حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے۔ امریکا میں ایک سال کے دوران 2.3ملین ہونے والی شادیوں میں سے 1.3طلاق پر ختم ہوگئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حالات کے پیش نظرہر دس میں سے چارشادیوں کا انجام طلاق ہوگا۔ 60فیصد طلاقیں 25 سے39 سال کی عمر کے جوڑوں میں ہوتی ہیں۔
عموماً طلاق کے بعد 75 سے 80 فیصد افراد دوبارہ شادی کرتے ہیں جن کی طلاق کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا میں طلاق کی شرح پچاس فیصد، کیوبا میں 75 فیصد اور اسکاٹ لینڈ میں چالیس فیصد ہے۔ امریکا کی مختلف ریاستوں کی شرح طلاق میں آنے والے سال میں اضافہ ہورہا ہے۔یہ ہے وہ مغربی معاشرہ جہاں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے اور اس میں سب سے زیادہ عورت ہی ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔
ہمارے نام نہاد روشن خیال اس نظام کو پاکستان پر بھی مسلط کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق اسلام کی پیروکاری کی وجہ سے مسلمان نئی سوچ کی نفی کرتا ہے، جس کی وجہ سے آج مسلمان زوال کا شکار ہے۔وہ اسلام کانام لینے والوں کو انتہا پسند کہتے ہیں حالانکہ سب سے بڑے انتہا پسند وہ خود ہیں۔ یہ لوگ اس ملک کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کے لیے پہلے ہی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ، اس سے بھی زیادہ زور لگانے کی طاقت رکھتے ہیں تو وہ بھی لگا لیں لیکن پاکستان کو اسلام سے دور نہیں کرسکتے، یہ عناصر ایک بار پھر 8 مارچ کی آڑ میں مارچ کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اس بار انھیں کھل کھیلنے کا موقعے نہیں ملنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ریاست کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔