توبہ کا وقت آن پہنچا

خدانخواستہ وطن عزیزمیں بھی کورونا وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوجاتا ہے تو اس کی روک تھام ممکن نہ ہوسکے گی

کورونا وائرس کے متعلق احتیاطی تدابیر کو وائرل کرنے کے ساتھ انفرادی طور پر توبہ بھی کرلیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

چینی شہر ووہان سے دسمبر 2019 میں کورونا وائرس کی اطلاعات آئیں تو وطن عزیز میں موجود خود ساختہ مفکر اور دانش وروں نے اسے عذاب الٰہی قرار دیا۔ چائنا والے 'حرام کھاتے ہیں، مردار کھاتے ہیں' جیسے دلائل دیے اور بعض اہل وطن جو مغربی گمراہ کن رپورٹس سے متاثر ہیں، نے تو کورونا وائرس کو چین میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو بھی اس کی وجہ قرار دیا۔

لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ کورونا وائرس 46 ممالک تک پھیل چکا ہے۔ چین میں اب تک کورونا وائرس سے 80 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوچکے ہیں جبکہ 2800 ہلاک ہوئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ہر روز کورونا وائرس کے نئے کیسز اب چین سے باہر بھی سامنے آرہے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ کہیں بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے۔ ہوسکتا ہے حقائق اس سے 10 گنا زیادہ ہوں جتنا سرکاری اعداد و شمار میں بتایا جارہا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین میں کورونا وائرس سے متاثر 18000 سے زائد افراد صحت یاب ہوکر گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔

منگل تک چین میں کورونا وائرس کے 411 نئے کیسز سامنے آئے، جبکہ چین سے باہر نئے کیسز کی تعداد 427 تھی۔ ایران میں تادم تحریر کورونا سے 20 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 139 افراد ابھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔ جنوبی کوریا میں 115 نئے کیسز سامنے آئے۔ وہاں متاثرہ لوگوں کی مجموعی تعداد ایک ہزار دو سو اکسٹھ ہوگئی ہے۔ سعودی عرب میں عمرہ اور مدینہ میں واقع مسجد نبوی کی زیارت کےلیے داخلے پر عارضی طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔


مندرجہ بالا صورتحال ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو کورونا وائرس کو چین پر عذاب الٰہی قرار دے رہے تھے۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق حاجیوں، نمازیوں اور ولیوں کے ملک پاکستان میں بھی کورونا وائرس کی آمد ہوچکی ہے۔ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم دوسروں کا مذاق اڑانے کے بجائے، دوسروں کو مشوروں سے نوازنے کی بجائے، دوسروں کی اصلاح و احوال کی فکر کرنے کے بجائے اپنے ماضی اور حال پر نظرثانی کرتے ہوئے خدائے بزرگ و برتر کے حضور سربسجود ہوجائیں۔ کیونکہ اگر خدانخواستہ وطن عزیزمیں بھی کورونا وائرس کا پھیلاؤ شروع ہوجاتا ہے تو اس کی روک تھام ممکن نہ ہوسکے گی۔ کیونکہ ہمارے ہاں تو لوگوں کو کتے کے کاٹنے کی ویکسین باآسانی دستیاب نہیں ہوتی اور کورونا وائرس، جس کی ویکسین ابھی تک تیار ہی نہیں ہوسکی۔ رپورٹس کے مطابق ویکسین کی تیاری کا کام جاری ہے اور امید ہے کہ اس سال کے آخر تک اس کی آزمائش شروع کردی جائے گی۔

ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں یہ بیماری بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ گلف نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق مڈل ایسٹ میں رپورٹ ہونے والے 223 کیسز کا تعلق ایران سے ہے۔ اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارت میں اس کے علاج کےلیے ایک مخصوص شہر کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، جہاں پر متاثرہ افراد کا علاج کیا جائے گا۔ ہمارے ہاں شعبہ صحت کا کیا عالم ہے، یہ ہر شخص بخوبی جانتا ہے۔ اس لیے اہل وطن سے عاجزانہ التماس ہے کہ کورونا وائرس کے متعلق احتیاطی تدابیر کو وائرل کرنے کے ساتھ انفرادی طور پر توبہ بھی کرلیں۔ اپنے حال کو درست کیجئے اور ماضی کی اغلاط کا ازالہ کرنے کی کوشش کیجئے، اس سے پہلے کہ ہمیں موقع نہ ملے اور ہم 'ہیں' سے 'تھے' ہوجائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story